مظفر گڑھ کی شخصیات

سابق چیف جسٹس آف پاکستان سید تصدیق حسین جیلانی

تصدیق حسین جیلانی 6 جولائی 1949ء کو ضلع مظفر گڑھ کے قصبے خانگڑھ میں ایک پولیس آفیسر سید رمضان شاہ کے گھر پیدا ہوئے ۔ ہائی اسکول کی تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہوں نے گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان سے گریجوایشن کی ڈگری حاصل کی۔ ایف سی کالج سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کیا۔ اس کے بعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے بیچلر آف لاء کیا۔ انہوں نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے وظیفے پر لندن یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس لیگل اسٹڈیز سے قانون کا کورس مکمل کیا۔ انھیں 12 اکتوبر 2007 ء کو ایک خصوصی کانووکیشن میں سدرن ورجینیا یونیورسٹی کی طرف سے ” ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے 1974ء میں ملتان میں اپنی وکالت کا آغاز کیا۔ لاہور ہائی کورٹ میں وکیل کی حیثیت سے اندراج کے بعد وہ 1976ء میں لاہور ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے اور 1978ء میں پنجاب بار کونسل کے ممبر بن گئے ۔ آپ جولائی 1979 ء میں پنجاب کے اسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل مقرر ہوئے اور 1983ء میں سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ کے طور پر رجسٹرڈ ہوئے ۔ انھیں 1983ء میں پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔
7 اگست 1994 ء کو وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی طرف سے ان کی نامزدگی کی منظوری کے بعد ان کو لاہور ہائیکورٹ کا جج مقرر کیا گیا جب کہ آپ 31 جولائی 2004ء میں سپریم کورٹ کے جج مقرر ہوئے ۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی، چیف جسٹس آف پاکستان رہ چکے ہیں۔ انہوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ریٹائر ڈ ہونے پر یہ عہدہ سنبھالا ۔ تصدق حسین جیلانی ان ججوں میں شامل تھے جنھیں سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے تین نومبر 2007ء میں ملک میں ایمر جنسی کے نفاذ کے بعد گھروں کو بھیج دیا تھا۔
جسٹس تصدق حسین جیلانی ان سینئر جوں میں شامل تھے جنہیں زبردستی ریٹائر ڈ کیا گیا تھا اور انھیں براہ راست سپریم کورٹ سے حراست میں لیا گیا تھا۔ وکل تحریک مارچ 2009ء کو معطل عدلیہ کی بحالی کا باعث بنی۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اعلان کیا کہ صدر آصف زرداری نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے چیف جسٹس سمیت ایمر جنسی سے قبل کی عدلیہ کو بحال کر دیا ہے۔ 31 جولائی 2009ء کو، جسٹس جیلانی سمیت ایک مکمل 14 رکنی بنچ نے ہنگامی اعلان اور پی سی او نافذ کرنا غیر قانونی اور غلط قرار دیا [57]۔ 17 اگست 2013ء کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے نئے کمشنر کی تقرری تک جسٹس جیلانی کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا۔ انہوں نے سابق جسٹس فخر الدین ابراہیم کی جگہ لی، جنہوں نے 30 جولائی 2013ء کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا 2013ء میں آپ چیف جسٹس آف پاکستان تعینات ہوئے [58]۔ اپنے حلف کے فورا بعد خصوصی سیکیورٹی پروٹوکول سے انکار کر دیا۔ پاکستان میں مذہبی اظہار رائے کی آزادی کے بارے مشہور زمانہ سو موٹو کیس میں آپ کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے ایک شاندار فیصلہ دیا۔ 2013ء میں پشاور چرچ حملے کے بعد جسٹس جیلانی عدالت نے از خود اقدام اٹھایا، نیز ہندو برادری کی جانب سے ان کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کے خلاف دائر دیگر درخواستوں اور کیلاش قبیلے کو دھمکیوں کا حوالہ دیتے ہوئے 19 جون 2014 ء کو سپریم کورٹ نے اقلیتوں کے تحفظ اور مذہب کی آزادی سے متعلق ایک اہم فیصلہ جاری کیا جسے جسٹس جیلانی نے جسٹس عظمت سعید اور مشیر عالم پر مشتمل بینچ میں لکھا۔ پاکستان میں مذہبی اظہار رائے کی آزادی کے اس فیصلے کا موازنہ امریکہ میں براؤن بمقابلہ بورڈ آف ایجو کیشن کیس سے کیا جاتا ہے [59]۔ جولائی 2008 ء میں ان کو امریکی بار ایسوسی ایشن نے پاکستان کے ان بچوں کی طرف سے رول آف لاء ایوارڈ لینے کے لئے مدعو کیا تھا جنھوں نے ملک میں قانون کی بالا دستی کو برقرار رکھنے میں ہمت اور استقامت کا مظاہرہ کیا تھا۔ آپ ایک آزاد خیال اور ترقی پسند جج سمجھے جاتے رہے ہیں، اور بعض اوقات انھیں عدالت عظمی کا انتہائی اعتدال پسند مبر قرار دیا جاتا تھا۔ وہ ” زندہ دستور” کے حامی رہے ہیں۔ آپ شہری آزادیوں اور بنیادی حقوق کے حامی رہے ہیں۔ آپ نے خواتین کے حقوق ، غیرت کے نام پر قتل و غارت گری اور تعلیم کے حق سے متعلق اہم فیصلے گئے۔ انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار جسٹس اپیلینس نے سابق چیف جسٹس تصدیق حسین جیلانی کو انصاف کے اعلی ایوارڈ سے نوازا ہے۔ جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کو یہ ایوارڈ مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر دیا گیا ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ جیلانی یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ عالمی عدالت انصاف کے صدر نے جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کو ایوارڈ ملنے پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے الفاظ دہرائے اور کہا کہ آپ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، ریاست کے سامنے برابر کے شہری ہیں۔ تصدق حسین جیلانی عالمی انصاف منصوبے کے لئے اعزازی شریک چیئر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ حکومت نے تصدق حسین جیلانی کو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس میں عالمی عدالت انصاف میں ایڈ ہاک جج مقرر کیا تھا۔ ان کا نام نگراں وزیر اعظم کے لئے 2018ء میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے تجویز کیا تھا۔ ضلعی حکومت مظفرگڑھ نے آپ کی شاندار خدمت کے اعتراف میں آپ کو 2019 ء نشان مظفر گڑھ ایوارڈ دیا ہے ۔ آپ ان دنوں ملتان میں مقیم ہیں۔

نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com