مظفر گڑھ کی شخصیات

سردار منظور احمد خان : بے نظیر بھٹو کے سپاہی اور ایک عہد ساز شخصیت

آپ نے اپنی 40 سالہ سیاسی جدو جہد میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی نظریاتی آبیاری کی۔ آپ نے ضلع کی نو جوانوں کو سیاسی شعور دیا۔ آپ کی سیاسی زندگی ضلع کی نو جوان نسل کے لئے ایک
مشعل راہ ہے۔ سردار منظور احمد خان 23 جون 1933 ء کو شہر سلطان کے ایک علی زئی پٹھان زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سردار اللہ دتہ خان تھا۔ ان کے ایک بزرگ خانصاحب خدایار خان ملتان کے آخری صوبیدار نواب مظفر خان سدوزئی کے مشیر تھے اور جون 1918ء میں ملتان میں رنجیت سنگھ سے ہونے والی جنگ میں شہید ہوئے۔ انہی کے خاندان کے ایک اور بزرگ اور خانصاحب خدا یار خان کے پوتے سر بلند خان علی زئی 1880ء میں ڈیرہ غازی خان شہر کے نائب ناظم تھے۔
سردار منظور احمد خان نے میٹرک تک تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول علی پور سے حاصل کی ۔ 1952ء میں گورنمنٹ ڈگری کالج ڈیرہ غازی خان میں داخلہ لیا۔ ان دنوں مظفر گڑھ میں ڈگری کالج نہیں تھا۔ 1955ء ڈیرہ غازی خان ڈگری کالج میں طلباء کے دو گروہوں کے درمیان یونین سازی کے سلسلہ میں تصادم ہوا۔ ایک گروپ جس کے سر براہ سردار منظور احمد خان تھے اس گروپ میں مظفر گڑھ کے طلبا کی اکثریت تھی اس گروپ میں ملک غلام محمد لنگڑیال مرحوم ان کے دست راست تھے۔ ان کے مخالف گروپ کی نمائندگی ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان کا بیٹا کر رہا تھا۔ چنانچہ کمشنر ملتان کی طرف سے سیاسی دباؤ پر یک طرفہ کا روائی کرتے ہوئے سردار منظور احمد خان سمیت 6 طلبہ کو ڈسپلن کی خلاف ورزی پر کالج سے نکال دیا گیا اور اس وقت کے پرنسپل نے سیکریٹری ایجو کیشن کو لکھا کہ ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والے طلبہ کو پنجاب کے کسی کالج میں داخلہ نہ دیا جائے ۔ نواب مشتاق احمد گورمانی مغربی پاکستان کے گورنر تھے ان کا به عهده موجود و صدر پاکستان کے عہدہ کے برابر تھا۔ سردار منظور احمد خان نے نواب مشتاق احمد گورمانی سے گورنر ہاؤس لاہور میں ملاقات کی اور انہیں تحریری طور پر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی سے آگاہ کرتے ہوئے کمشنر ملتان اور پر سیل کے جانبدارانہ رویہ کی شکایت کی ۔ نواب مشتاق احمد گورمانی نے اپنے اے ڈی سی کو ہدایت کی کہ وہ انکے فوری طور پر لاہور کے کالجوں میں داخلے کروائیں۔ اس واقعہ کے ایک ہفتہ بعد کمشنر ملتان اور ڈگری کالج ڈیرہ غازی خان کے پرنسی کا تبادلہ کر دیا گیا۔ یوں سردار منظور احمد خان نے 1955ء میں ایم اے او کالج لاہور سے گریجویشن عمل کی ۔ جبکہ 1957ء پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ۔ 2 جنوری 1958ء کو لاہور سے با قاعدہ وکالت کا آغاز کیا۔ 1959ء میں ایک سال بہاولپور میں پریکٹس کی۔ لیکن مظفر گڑھ کے قریبی دوستوں کے اصرار پر مظفر گڑھ میں وکالت کرنے کا فیصلہ کیا اور 1960ء میں واپس آگئے۔
1962 ء میں بی ڈی مسلم کے تحت میونسپل کمیٹی کے کونسلر منتخب ہوئے ۔ 1962ء میں ایوب خان کے دور حکومت میں کونسل مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے با قاعدہ سیاسی زندگی کا آغاز کیا ایک عرصہ تک کونسل مسلم لیگ ضلع مظفر گڑھ کے جنرل سیکریٹری کے طور پر محترمہ فاطمہ جناح کے شانہ بشانہ کام کیا۔ بعد میں پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل ہو گئے ۔ پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے ضلع جنرل سیکریٹری اور صدر کے عہدے پر کام کرتے رہے۔ ایوبی آمریت کے خلاف ملک گیر احتجاج کے دوران سردار منظور احمد خان کو نوابزادہ نصر اللہ خان کے ہمراہ لاہور، راولپنڈی، کراچی اور پشاور کے جلسوں میں شریک ہونے کا شرف حاصل رہا۔1970ء میں ہونے والے عام انتخابات میں مظفر گڑھ سے قومی اسمبلی کے امیدوار نوابزادہ نصر اللہ خان کی انتخابی مہم کے انچارج رہے۔ مظفر گڑھ ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن کے 6 مرتبہ صدر منتخب ہونے کا ریکارڈ اعزاز صرف سردار منظور احمد خان کو حاصل ہے جو ابھی تک برقرار ہے۔ آپ پنجاب بار کونسل کے ممبر رہے۔ 22 دسمبر 1975 ء کو راولپنڈی میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی اور پاکستان پیپلز پارٹی میں با قاعدہ طور شمولیت اختیار کر لی۔ مارچ 1977ء میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر صوبائی حلقہ پی پی 191 مظفر گڑھ اسے ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے ۔ 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت کو برطرف کرتے ہوئے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ ملک بھر سے پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان کو گرفتار کر لیا گیا۔ سردار منظور احمد خان کو ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر کے 3 ماہ کے لئے ڈسٹرکٹ جیل مظفر گڑھ میں نظر بند کر دیا گیا اور یوں ان کے لئے پابند سلاسل کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو 11 سال جاری رہا۔ انہیں فوجی حکومت کی جانب سے قائم کئے جانے والے مختلف نوعیت کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جن کی فہرست طویل ہے۔ مارشل لاء حکومت کی کے جانے والی سختیوں کی وجہ سے مظفر گڑھ ضلع کے اراکین اسمبلی ملک غلام مصطفی کھر ، سردار نذرمحمد جتوئی سید عبداللہ شاہ، میاں عطاء محمد قریشی ، میاں مصطفی ظفر قریشی ، سردار نوازش قدرانی، میاں غلام عباس قریشی اور دیگر با اثر شخصیات نے پاکستان پیپلز پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ ان حالات میں سردار منظور احمد خان جمہوریت کی بحالی کے لئے ڈٹے رہے اور اپنی سیاسی جدو جہد جاری رکھی ۔ جب 1983ء میں نو ہزاد و نصراللہ خان کی سرکردگی میں پاکستان کی اہم جماعتوں پر مشتمل اتحاد تحریک بحالی جمہوریت (ایم آرڈی) قیام عمل میں لایا گیا۔ سردار منظور احمد خان کو تحریک بحالی جمہوریت ضلع مظفر گڑھ کا صدر نامزد کیا گیا۔ 22 مئی 1983 ء کو رات دو بجے پولیس کی بھاری نفری نے ان کو رہائش گاہ سے گرفتار کیا اور رات کو 3 بجے ملتان چھاؤنی لے جایا گیا

جہاں ایک فوجی عدالت نے انہیں 3 سال کی قید سنائی اور ساتھ ہی ان کی زرعی زمین کی ضبطی کے احکامات صادر کرتے ہوئے انہیں نیو سنٹرل جیل ملتان بھیج دیا گیا۔ جیل میں ہر 15 دن بعد مارشل لاء حکام کی جانب سے پیغام موصول ہوتے کہ اگر وہ پاکستان پیپلز پارٹی سے لاتعلق ہونے کا اعلان کر دیں تو انہیں صوبائی وزیربنایا جاسکتا ہے۔ لیکن انہوں نے انکار کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے 28 فروری 1985ء کو ملک میں طویل عرصہ کے بعد غیر جماعتی نام انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔ حکومت کے پاس قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 128 مظفر گڑھ 2 کے لئے کوئی مناسب امیدوار نہیں تھا ۔ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر فیاض بشیر نے متعدد ملاقاتوں میں سردار منظور احمد خان کو اس حلقہ سے الیکشن لڑنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن انہوں نے غیر جماعتی انتخابات کو جمہوریت دشمن انتخابات کہتے ہوئے حکومتی امیدوار بننے سے صاف انکار کر دیا۔
10 اپریل 1986ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو طویل عرصہ سے لندن میں جلا وطن رہنے کے بعد لاہور ایئر پورٹ پر پہنچیں۔ سردار منظور احمد خان مظفر گڑھ سے سینکڑوں کارکنوں کے قافلے کے ہمراہ استقبال کے لئے پہنچے ۔ مارچ 1987ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے ڈیرہ غازی خان کا دورہ کیا ۔ 18 مارچ 1987ء کی صبح محترمہ بے نظیر بھٹو ڈیرہ غازی خان سے ایک بڑے جلوس کے ہمراہ مظفر گڑھ سردار منظور احمد خان کی رہائش گاہ پر پہنچیں جہاں انہوں نے پیپلز پارٹی کے کارکنان سے خطاب کیا۔ 1988 ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 137 مظفر گڑھ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ملک غلام مصطفی کھر کے مقابلہ میں الیکش لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی کی اسی نشست سے 1990ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی ہی کے
ٹکٹ پر الیکش لڑا۔ 16اکتوبر 1993ء کو ہونے والے عام انتخابات میں صوبائی حلقہ پی پی 211 سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا۔ اپریل 1994 ء کو سردار منظور احمد خان کو زکواۃ عشر کمیٹی ضلع مظفر گڑھ کا چیئر مین بنایا گیا۔ بے نظیر دور میں انھیں بینکنگ ٹربیونل پنجاب کا رج بنا دیا گیا جو ہائیکورٹ کے جج کے برابر کا عہدہ تھا۔
21 دسمبر 2017ء کو سردار منظور احمد خان سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ میں پیش ہونے کے لئے اسلام آباد گئے ۔ جہاں انہیں دل کے دورہ پڑا اور انہیں آرمڈ فورس انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی راولپنڈی لے جایا گیا۔ چنانچہ 24 دسمبر بروز اتوار سہ پہر تین بجے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ انہیں مظفر گڑھ میں قبرستان غوث حمزہ میں دفنایا گیا۔ ان کے بعد انکی بیٹی شہلہ احمد سیاست میں سرگرم عمل ہیں۔ اس وقت تحریک انصاف ضلع مظفر گڑھ کی صدر ہیں

نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com