شیر پنجاب : ملک غلام مصطفے کھر
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب ، سابق گورنر، بزرگ سیاستدان بھٹو کے ساتھی اور سابق وفاقی وزیر ملک غلام مصطفیٰ کھر 2 اگست 1937ء کو مظفر گڑھ کے ایک گاؤں کھر غربی میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج سے حاصل کی ۔ 1962ء میں انھیں صرف 24 سال کی عمر میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو آپ کے قریبی دوست تھے۔ ان کی وجہ شہرت ان کی شادیاں بھی تھیں ۔ آپ نے آٹھ شادیاں کیں ۔ مصطفیٰ کھر بھٹو کے معتمد ساتھیوں میں سے ایک تھے اور ان کے سیاسی شاگر د بھی تھے۔ وہ کبھی اپنے آپ کو بھٹو کا جانشین کہلوانا پسند کرتے تھے۔ اپنے جاگیر دارانہ مزاج کے باوجود ان کا سیاسی حلقہ تھا۔ وہ اعلیٰ منتظم
بھی مشہور رہے۔ لیکن انہیں سیاست کے میدان میں عروج ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ دینے سے حاصل ہوا۔ آپ نے 1967ء میں بطور بانی رکن پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی 1970ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کر لی۔ اس پارٹی کی عوامی لہر نے بڑے بڑے برج الٹا دیئے۔ دسمبر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار دے دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی پارٹی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں پنجاب میں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا۔ وہ دوبارہ پنجاب کے گورنر نامزد ہوئے پہلی بار 23 دسمبر 1971ء سے 12 نومبر 1973ء اور دوسری دفعہ 14 مارچ 1975ء سے 31 جولائی 1975ء تک گورنر پنجاب کے منصب پر فائز رہے ۔ مارشل لا کے ہٹائے جانے اور دستور 1973ء کے نافذ العمل ہونے پر انہیں 12 نومبر 1973ء کو پنجاب وزیر اعلی منتخب کیا گیا اور وہ اس عہدے پر 15 مارچ 1974 ء تک رہ کر خدمات سرانجام دیتے رہے ، انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے اختلافات کے باعث اپنے منصب سے استعفیٰ دیدیا۔کچھ عرصہ خاموش رہنے کے بعد دوبارہ انہیں پنجاب کا گورنر بنا دیا گیا لیکن اس بار وہ محض چند ماہ کے لیے اس منصب پر فائز رہے اور پھر پیپلز پارٹی سے تعلق توڑ لیا اور مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی مصطفی کھر کی پیپلز پارٹی سے علیحدگی نے دم توڑتی اپوزیشن کے مردہ تن میں جان ڈال دی اور لاہور کے معروف انتخابی حلقے سے پیپلز پارٹی کے امیدوار شیر محمد بھٹی کے مقابلہ میں ضمنی انتخاب لڑا، دھواں دار جلسے کیے، تاجپورہ کے انتخابی جلسے میں اپنے استاد ذوالفقار علی بھٹو کوللکارا، جلسے میں بھگڈر مچی گئی کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ملک مصطفیٰ کھر نے 1977 ء کے الیکشن میں حصہ نہ لیا۔ قومی اتحاد نے انتخابات (1977ء) میں دھاندلی کا شور مچایا اور انتخابی نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، قومی اتحاد کی گھیراؤ جلاؤ کی تحریک کے ، اس موقع پر مصطفیٰ کھر ایک بار پھر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ۔16 جون 1977 ء کو وزیر اعظم کے مشیر مقرر ہوئے مگر 5 جولائی 1977ء کو ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔ 198ء سے 1986 ء تک لندن میں جلا وطن رہے ۔ 1986ء میں واپس آئے اور گرفتار کر لیے گئے [91]۔ ملک مصطفے کھر نے ضیاء کی آمریت کے دور میں قید و بند کی تکالیف برداشت کیں ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ملک غلام مصطفیٰ کھر جنرل فیض علی چشتی کو غچہ دے کر برطانیہ کوچ کر گئے ۔ وطن واپسی سے قبل اپنی سیاسی جماعت نیشنل پیپلز پارٹی قائم کی اس کے سر براہ غلام مصطفیٰ جتوئی بنے جو ان کے یار غار مشہور تھے اور سیکریٹری جنرل خود مقرر ہوئے لیکن کچھ عرصہ بعد یار غار سے اختلافات ہوئے اور نیشنل پیپلز پارٹی دو دھڑوں نیشنل پیپلز پارٹی کھر گروپ اور نیشنل پیپلز پارٹی جتوئی گروپ میں تقسیم ہو گئی ، جنرل ضیاء کی غیر فطری موت کے بعد ہونے والے انتخابات سے قبل کھرنے اپنے دھڑے کو ختم کر دیا ۔ 1988ء کے انتخابات میں انہوں نے پیپلز پارٹی میں دوبارہ شمولیت کی بہت کوشش کی لیکن بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے انہیں قبول نہیں کیا۔ اس وقت جہانگیر بدر پی پی پی پنجاب کے صدر تھے ، اور ان کا گروپ بہت مستحکم تھا۔ انہیں خطرہ اس بات سے تھا کہ کہیں گھر دوبارہ پارٹی قیادت کا اعتماد حاصل کر کے پنجاب پی پی پی کی صدارت نہ سنبھال لیں ۔
1988ء میں پنجاب میں میاں نواز شریف اپنی حکومت بنا چکے تھے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پی پی پی کو بہر حال مصطفی کھر جیسے رہنما کی ضرورت تھی۔ کھر نے اپنی پارٹی (این پی پی ) کو پی پی پی میں ضم کر دیا اور وہ بھٹو خاندان کا اعتماد جیتنے میں پوری طرح کامیاب ہو گئے ۔ 1989ء میں کھر صاحب ایک دفعہ ہیرو بنے جب انہوں نے لاہور کے حلقہ 99 کے ضمنی انتخاب میں پی پی پی کے امیدوار ارشد گھر کی کی انتخابی مہم چلائی اور ایک زبر دست معر کے کے بعد مسلم لیگ کے امیدوار وز ر علی بھٹی کو شکست سے ہمکنار کیا۔ اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ پنجاب میں میاں نواز شریف کی وزارت اعلیٰ چند دنوں کے بعد قصہ پارینہ بن جائے گی۔ لیکن مصطفیٰ کھر نے یہ موقع بھی گنوادیا اور وہ ایک بار پھر اپنی پارٹی سے بے وفائی کے مرتکب ہوئے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مصطفی کھر ایک زمانے میں پنجاب کی سیاست میں بڑا مقام رکھتے تھے لیکن ان کی غیر مستقل مزاجی نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ جب 1990 ء میں بے نظیر حکومت ختم کر کے غلام مصطفی خان جتوئی کی عمر ان حکومت قائم کی گئی تو مصطفی کھر نگران وزیر داخلہ بن گئے ۔ 1993ء میں پی پی پی کی حکومت دوبارہ قائم ہوئی تو ملک غلام مصطفیٰ کھر ایک بار پھر اپنی پارٹی کے ممتاز مرکزی رہنما کی حیثیت کے سامنے آئے اور بے نظیر حکومت میں وزیر پانی و بجلی تھے۔ نومبر 1996ء میں صدر فاروق لغاری نے جب اپنی ہی پارٹی کی حکومت ختم کر دی تو مصطفی کھر پیپلز پارٹی چھوڑ گئے ۔ 1997ء کے الیکشن میں انھیں شکست کا سامنا کرنا ہوا۔ بی اے کی شرط کی وجہ سے 2002ء اور 2008ء کے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے۔ 2013 ء کے الیکشن میں فنکشنل مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا مگر ہار گئے ۔ 2018 ء کے الیکشن سے پہلے پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور کوٹ ادو کے قومی اسمبلی کے حلقے سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا مگر تیرے نمبر پر رہے۔ پہلی مرتبہ 1972ء میں جب پنجاب پولیس نے ہڑتال کی تو اس وقت ملک غلام مصطفے کھر نے متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ 24 گھنٹے کے اندر اندر اپنی ڈیوٹی پر واپس نہ آئے تو ساری پولیس فورس کو برخاست کر دیا جائے گا اور عوام تھانوں کا چارج سنبھال لیں گے یہ دھمکی کارگر ثابت ہوئی اور پولیس والے اپنی ڈیوٹی پر واپس آگئے۔ غالباً اس کے بعد ہی انہیں شیر پنجاب کا خطاب دیا گیا تھا۔ آپ کئی بار مظفر گڑھ اور کوٹ ادو سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ آپ کو مظفر گڑھ کے عوام سے خاص نسبت رہی آپ نے اپنے دور گورنری میں گورنر ہاؤس کے دروازے مظفر گڑھ کے عوام کے لئے کھول دیئے تھے ۔ آپ میدان سیاست میں مظفر گڑھ کی پہچان بنے رہے ۔ آپ کی ان خدمات کے اعتراف میں اہل مظفر گڑھ نے آپ کو 2019ء میں ہلال مظفر گڑھ کے ایوارڈ سے نوازا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔