مظفر گڑھ کا دانشور چہرہ ۔ رانا محبوب اختر
مظفر گڑھ چھ دریاؤں کا سنگم ہے یہ بہت مردم خیز دھرتی ہے اس دھرتی نے ہر شعبہ زندگی میں کئی نابغہ روزگار ہستیوں کو جنم دیا ہے سیاست سے لیکر علم و فن تک ہر میدان میں یہاں کے لوگوں نے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے سرزمین مظفر گڑھ اگر چہ تخت لاہور و اسلام آباد کے حکمرانوں اور یہاں کے مقتدر لوگوں نے اس ضلع کو پسماندہ رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر پھر بھی ہر دور میں اس دھرتی کے خاکستر میں موجود چنگاریوں نے شعلہ بن کر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی آنکھوں کو چکا چوند کیا ہے ۔ کتنی حیران کن بات ہے کہ یہاں کے کم پڑھے سیاستدانوں نے ملک بھر کے اہل سیاست کی قیادت کی ہے تو غور کرنے کی بات ہے کہ یہاں کا علی تعلیم یافتہ اور اخلکو کل کیا ہوگا؟ رانا محبوب اختر اس کی روشن مثال ہیں وہ آج کے دور میں نہ صرف پاکستان میں ضلع مظفر گڑھ کا دانشور چہرہ ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح کے مایہ ناز لکھاری ہیں۔ وسیع مطالعے ، مشاہدے اور خدا داد صلاحیتوں کی بنا پر لکھی گئی ان کی تحریریں عالمی ادب کے مقابلے میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ فرزند مظفر گڑھ ہی ایس پی آفیسر، سکالر، کالم نگار اور مصنف رانا محبوب اختر مظفر گڑھ کے نواحی تاریخی قصبے محمود کوٹ کے پسماندہ ترین گاؤں اتر اوالا میں 1955ء کو ایک کاشتکار رانا غلام محمد اترا کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق اتر ابرادری سے ہے۔ بچپن میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تو ان کی بہادر، جفاکش اور شفیق ماں نے باپ کی کمی کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ ان کی ماں نے محنت و مشقت کر کے اور زیور بیچ کر اپنے بچوں کی پرورش کی۔ انکی شدید خواہش تھی کہ انکے بیٹے پڑھ لکھ کر اچھے انسان بنیں اور بیٹوں نے بھی ماں کی جد و جہد کو رائیگاں نہیں جانے دیا۔ تینوں بیٹے اعلی عہدوں پر پہنچے ۔ رانا محبوب اختر نے ملک کے سب سے بڑے اور اعلیٰ امتحان سی ایس ایس کو پاس کیا اور سی ایس پی آفیسر بنے۔ ایک اور بھائی رانا مسعود اختر انگریزی زبان کے پروفیسر اور اس وقت گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ کے پرنسپل اور اعلی انتظامی صلاحیتوں کے حامل منتظم میں تعلیمی بورڈ ڈیرہ غازیخان اور بہاولپور کے چیئر مین بھی رہے ہیں ۔ سب سے چھوٹے بھائی را نانسیم اختر وکیل ہیں اور کوٹ ادو بار کے صدر رہے ہیں ۔ رانا محبوب اختر کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ ہمہ جہت شخصیت کے حامل را نا محبوب اختر نے زندگی کا ہر دور خوب گزارا ہے۔ گورنمنٹ ہائی سکول قصبہ گجرات سے میٹرک کر کے گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ میں داخل ہوئے۔ کالج کے دنوں طلبہ سیاست میں سرگرم رہے اور گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ کی طلبہ یونین کے صدر منتخب ہوئے اور اس زمانے میں آج کے کئی مقامی سیاست دانوں کے طالب علم لیڈر تھے ۔ وسیع حلقہ احباب تب بھی تھا اور آج بھی ہے۔ مالی حالات اتنے اچھے نہ تھے لہذا اس ہونہار طالب علم نے سردار کوڑے خان ٹرسٹ سے ملنے والے وظیفے کی مدد سے گریجوایشن اور ماسٹر کی ڈگری مکمل کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اپنی ماں، کوڑے خان جتوئی اور ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی زندگی کی اہم ترین ہستیاں قراردیتے ہیں ۔ ماں نے مشکل حالات میں پالا پوسا اور پڑھایا ، کوڑے خان جتوئی کے بنائے ٹرسٹ کے تعلیمی وظیفے سے تعلیمی مدارج طے کئے اور ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی ملتان یونیورسٹی سے ماسٹر کیا۔ یہ سب عنایات ان پر دھرتی کا قرض تھیں جو آج یہ ادا کر رہے ہیں ۔ اب تک مظفر گڑھ کے چھ ہزار بچوں کی مالی معاونت کر چکے ہیں مگر اس عظیم خدمت کا ڈھنڈ ور انہیں پیٹتے اور نہی کسی ایوارڈ اور ستائش کے طلب گار ہیں بلکہ یہ کام ایک قومی فریضہ سمجھ کر آج بھی ادا کر رہے ہیں۔ 1979ء میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے انگریزی زبان و ادب میں ایم اے کیا یو نیورسٹی میں ایڈ ہاک لیکچر رمقرر ہوئے اور کچھ عرصہ بطور لیکچر ایمرسن کالج ملتان میں پڑھاتے رہے۔ 1983ء میں سی ایس ایس کیا۔ آپ کا تعلق 11 ویں کامن سے ہے۔ 17 سال تک آڈٹ اور اکاؤنٹس میں خدمات سرانجام دیں دوران ملازمت سرکاری فرائض کی ادائیگی کے طور پر میں جرمنی، فرانس، اٹلی ، انڈونیشیا اور برازیل جیسے ملکوں کا دورہ کیا۔ 2000 ء میں سرکاری ملازمت سے مستعفی ہو کر ملٹی نیشنل کمپنی کے کی ملازمت اختیار کی۔ آج کل ہر قسم کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو کر علم و ادب سے وابستہ ہیں۔ سرائیکی وسیب اور پسماندہ لوگوں کی ترقی اور فلاح پر لکھتے رہتے ہیں۔ بلاشبہ آج کی صحافت میں اردو زبان میں ان سے بڑا کوئی کالم نگار نہیں ہے ۔ قومی اخبار روزنامہ خبریں میں دست نمو کے عنوان سے مستقل کالم لکھتے ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ لوک بیانیہ اور سیاست“ اور ” مونجھ سے مزاحمت تک ان کی معروف کتابیں ہیں۔ صوبہ سندھ کے سفر کی رودادوں پر مشتمل ایک سفر نامہ زیر اشاعت ہے اور اس کی کچھ اقساط روزنامہ خبریں میں شائع بھی ہو چکی ہیں [67]۔