سردار عبد الحمید خان دستی ۔۔۔ وزیر اعلیٰ پنجاب
سردار عبدالحمید خان دستی 1892ء میں اللہ یار خان دستی کے گھر گورداس پور (انڈین پنجاب ) پنجاب میں پیدا ہوئے [93] ۔ ان کے والد سردار اللہ یار خان دستی سرکاری ملازمت کے سلسلہ میں گورداس پور تعینات تھے ۔ وہ 35 سال تک گورداس پور تعینات رہے۔ اللہ یار خان دستی نے گورداس پور کی پنجابی فیملی میں شادی کی ۔ ابتدائی تعلیم گورداس پور سے حاصل کی ۔ 1916ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کی ۔ پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی ۔ گورداس پور میں وکالت شروع کی مگر 1920ء میں اپنے آبائی ضلع مظفر گڑھ تشریف لائے اور یہاں وکالت شروع کی۔ اس وقت پورے ضلع میں صرف تین مسلمان وکیل ( حکیم شریف ، دوست محمد اور غلام نبی ) تھے۔ ضلع میں تعلیم کے فروغ کیلئے 1920ء میں مظفر گڑھ میں انجمن اسلامیہ کی بنیاد رکھی ۔ ڈسٹرکٹ بورڈ کے ممبر منتخب ہوئے جلد ہی ڈسٹرکٹ بورڈ کے وائس چیئر مین بن گئے ۔ 1920ء میں مظفر گڑھ سے سیاست کا آغاز کیا۔ کانگریس کے نائب صدر بن گئے ۔ جبکہ بابوکشن لعل کا نگریس ضلع مظفر گڑھ کے صدر تھے۔ انجمن اسلامیہ کے تحت مسلمان بچوں کی تعلیم کیلئے اسلامیہ سکول اور مسلم بوائز ہوٹل کی بنیاد رکھی ۔ اس کے تمام اخراجات سردار عبدالحمید خان دستی نے برداشت کیے ۔ 1940 ء تک مظفر گڑھ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا وجود نہیں تھا۔ سردار عبدالحمید خان دستی کی کوششوں سے مظفر گڑھ میں مسلم لیگ کا وجود عمل میں آیا۔ اس وقت عبدالحمید خان دستی سرکاری وکیل تھے، اس لیے انہوں نے ملک قادر بخش جکھر، کو مسلم لیگ میں شامل ہونے کیلئے راضی کیا مگر وہ دو مربع زمین لیکر اس وقت کی حکومتی پارٹی یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے ۔ خضر حیات ٹوانہ، سر چھوٹو رام ، نواب جمال خان لغاری اور نواب عاشق حسین پہلے سردار عبد الحمید خان دستی کے پاس گئے مگر انہوں نے یونینسٹ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا [94]۔ 1945 ء کے تاریخی انتخابات میں حصہ لینے کیلئے پبلک پراسیکیوٹر کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا۔ خان بہادر کا خطاب انگریز کو واپس کر دیا۔ وار فرنٹ ضلع مظفر گڑھ کی صدارت بھی چھوڑ دی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا علم اٹھایا اور میدان سیاست میں کود پڑے۔ اس تاریخی انتخاب میں انہوں نے کانگریس اور یونینسٹ پارٹی کے مشترکہ امیدوار میاں فضل کریم بخش قریشی کو شکست دی۔ 1945 ء کی تاریخی کامیابی کے بعد سردار عبد الحمید خان دستی کو ضلع مظفر گڑھ آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر مقرر کیا گیا۔ اس دوران تحریک پاکستان اپنے عروج پر تھی ۔ سول نافرمانی کی تحریک کے دوران انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔ پاکستان بننے کے بعد 1951 ء میں وزیر صحت مقرر ہوئے ۔ وزارت صحت کے دنوں پنجاب کے تمام اضلاع میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بنانے کا منصوبہ پیش کیا۔ ان کی وزارت میں نشتر ہسپتال اور تمام اضلاع میں ہسپتالوں کے منصوبے شروع ہوئے ۔ 13 دسمبر 1952 ء میں انہوں نے نشتر میڈیکل ملتان کا سنگ بنیاد رکھا۔ 58-1955 ، قانون ساز اسمبلی میں وہ وزیر تعلیم تھے ۔ ان کی کوششوں سے مظفر گڑھ کے پہلے گورنمنٹ کالج کی 1953 ء میں بنیاد رکھی گئی ۔ مئی 1955 ء سے اکتوبر 1955ء تک چند ماہ کیلئے صوبہ پنجاب کے وزیر اعلی رہے [94] ۔ دس برس میں درجن بھر وزارتیں بنیں اور بگڑیں، عبدالحمید دستی ہر وزارت میں شریک رہے۔ اس پرسید
ضمیر جعفری نے چند اشعار کہے تھے ۔
آج تک جتنے بھی مسلم لیگ کے گزرے وزیر ،
جمله رفت و بود ہیں دستی بلند اقبال ہیں
مجلس ممدوٹ میں کا بینہ ممتاز میں
اور اب ملک فیروز خان کے بھی شریک حال ہیں
کوئی بھی بہتی ہو اس بستی میں دستی ہے ضرور
آپ مسلم لیگ کے لالہ منوہر لال ہیں
لالہ منوہر لال 1947 ء سے پہلے متحدہ ہندوستان میں وزیر تعلیم تھے اور ہر بار وزیر تعلیم ہی بنتے تھے۔ 1958ء میں ایوب خان دور میں ایڈو کا شکار ہونے والے سیاست دانوں میں عبد الحمید خان دستی بھی شامل تھے۔ بہت برس بعد ان دنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے دستی صاحب نے فرمایا کہ جسٹس رستم کیانی نے مجھ سے طنزیہ دریافت کیا۔ تمہارے گردے کہاں ہیں؟ دستی صاحب کے مطابق ان کا جواب یہ تھا کہ گردے اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن برآمدے میں توپ رکھی ہے ۔ 1964ء کے صدارتی الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح کی مکمل سپورٹ کی محترمہ فاطمہ جناح نے مغربی پاکستان میں کراچی کے بعد سب سے زیادہ ریکارڈ ووٹ مظفر گڑھ سے حاصل کیے ۔ ضلع مظفر گڑھ سے سردار عبدالحمید خان دستی، نواب مشتاق خان گورمانی، نوابزادہ نصر اللہ خان اور سید نذرحسین شاہ سمیت سب محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کر رہے تھے۔ سردار نصر اللہ خان جتوئی اور میاں غلام جیلانی گورمانی بھی فاطمہ جناح کے حمایتی تھے ۔ 1958ء کے بعد سیاست سے کنارہ کش ہو گئے [95] ۔ ان کا انتقال 1985ء میں ہوا۔ ان کے بیٹے سردار محمد حمید خان دستی 7 جون 1918ء میں گورداس پور (بھارتی پنجاب ) میں سابق وزیر اعلی پنجاب سردار عبد الحمید خان دستی کے گھر پیدا ہوئے ۔ 1941 ء میں پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی ۔ تحریک پاکستان میں حصہ لیا اپنے والد کے ساتھ ملتان جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ پاکستان بننے سے پہلے کیڈٹ کالج سنٹرل انڈیا سے ٹرینگ بھی حاصل کی ۔ 1946ء میں مظفر گڑھ مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکرٹری مقرر ہوئے ۔ 1962ء میں میونسپل کمیٹی مظفر گڑھ کے وائس چیئر مین منتخب ہوئے۔ 1964 ء میں صدارتی الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح کے پولنگ ایجنٹ تھے۔ 1970ء میں پہلی مرتبہ ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ وہ پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈرر ہے۔ 1976ء میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تاہم 1977 ء میں نوابزادہ نصر اللہ خان کے مقابلہ میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے۔ ضیاء الحق کی مجلس شوری کے رکن بھی رہے۔ پھر 1985 ء سے 2002 تک ہر الیکشن میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے [96] 2002 ء میں مسلم لیگ ق کی ٹکٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ سردار امجد حمید خان دستی 40 سال تک مظفر گڑھ کی سیاست اہم کردار ادا کرتے رہے۔ وہ صوبائی وزیر خزانہ اور وزیر خوراک بھی رہے۔ تہمینہ دستی سابق ایم این اے اُن کی صاحبزادی ہیں۔ ہاکی او مین سٹار سمیع اللہ ، سردار امجد حمید خان دستی کے داماد ہیں۔ کئی ماہ علیل رہنے کے بعد اُن کا انتقال 2012ء میں لاہور میں ہوا۔ سردار عبدائی خان دستی ۔ مشیر زراعت پنجاب سردار عبد الحمید خان دستی کے پوتے سردار عبدائی خان دستی انکی سیاست کے وارث ہیں۔ آپ سردار امجد حمید خان دستی کے بھتیجے اور سابق چیئر مین میونسپل کمیٹی مظفر گڑھ سردارا قبال حمید خان دستی کے فرزند ہیں ۔ آپ 1973 ء کو مظفر گڑھ میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم مظفر گڑھ سے حاصل کی ۔ گریجوایشن اور ایل ایل بی کی ڈگری بہاؤالدین زکریا یو نیورسٹی ملتان سے حاصل کی ۔ ان کا خاندان سیاست میں تھا اس لئے یہ بھی سیاست کے میدان میں اترے۔ 2000 ء کے بلدیاتی الیکشن میں شہر کے ایک حلقے سے یونین ناظم منتخب ہوئے۔ 2008ء میں بطور آزاد امیدوار صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ انگر خاندانی اختلافات کی وجہ سے کامیابی نہ ملی ۔ 2013ء کے عام انتخابات میں شہر کے حلقہ سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار صوبائی اسمبلی تھے مگر ایک امیدوار کے انتقال پر الیکشن ملتوی ہو گئے ۔ ان کی جیت یقینی تھی مگر قسمت نے یاوری نہ کی ضمنی الیکشن میں وفاق اور پنجاب میں ن لیگ کی حکومت تھی اس لئے مسلم لیگ (ن) کے حماد نواز ٹیپو کے
ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 2013ء میں تحریک انصاف نے انھیں ٹکٹ نہ دیا مگر آپ آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اترے اس بار قسمت نے ساتھ دیا اور آپ ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ ان دنوں آپ تحریک انصاف کی پنجاب حکومت میں وزیر اعلی پنجاب کے مشیر برائے زراعت ہیں ۔
یہ مضمون محمد شہزاد کی کتاب "سرزمین مظفرگڑھ "سے لیا گیا ہے