نوبزادہ نصر اللہ خان۔۔ بابائے جمہوریت
نوابزادہ نصر اللہ نے ساری عمر اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور جمہوریت کے فروغ اور ترقی کے لئے ہر مارشل لا کے سامنے دیوار بن کر کھڑے رہے۔ سیاسی جماعتوں کو متحد رکھنے کی اُن کی کاوشیں عوام کو آج بھی یاد ہیں ۔ نوابزادہ نصر اللہ خان سیاست میں بردباری، برداشت، شائستگی اور اختلاف کو حقائق اور دلیل سے پیش کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ کشمیر کمیٹی کے چیئر مین کی حیثیت سے انہوں نے عالمی محاذ پر کشمیریوں کی آزادی اور حق خود ارادیت کے لیے زبر دست سفارتی جنگ لڑی اور افغانستان میں روسی اور امریکی جارحیت اور مداخلت کے خلاف قائدانہ اور جرات مندانہ آواز اٹھائی۔ نظام مصطفے اور تحفظ ختم نبوت تحریک میں نوابزادہ نصر اللہ خان نے بے مثال کردار ادا کیا۔ نوابزادہ نصر اللہ خان نے ساری سیاسی زندگی میں پاکستان کے استحکام، آئین اور جمہوریت کے تحفظ اور آمریتوں کے خلاف جنگ لڑی۔ جہاں آپ سیاسی طور پر ایک مضبوط فکر رکھتے تھے ، وہاں مذہبی طور پر بھی وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے، تحریک ختم نبوت کے مجاہد اور بڑے رہنما تھے ۔ برصغیر کے نامور خطیب، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی قربت اور تربیت نے سونے پر سہاگے کا کام کیا اور وہ ملک کے سیاسی افق پر 50 سال سے زیادہ عرصے تک روشن ستارہ بن کر چکے۔ ملک میں جب بھی جمہوریت کے حوالے سے تاریخ لکھی جائے گی پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے بانی نوابزادہ نصر اللہ خان کا نام ہمیشہ سنہری لفظوں سے لکھا جانے کا[80]۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کا تعلق ملتانی پٹھانوں کی بابر شاخ سے تھا [81] ۔ ان کے اجداد نواب مظفر خان حاکم ملتان کے دور حکومت میں خانگڑھ میں سکونت پذیر ہوئے ۔ نواب نصر اللہ خان کے دادا اللہ داد خان نے 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کی حمایت کی تھی۔ انگریزوں نے انہیں آنریری مجسٹریٹ مقرر کیا تھا۔ وہ 1895ء میں انتقال کر گئے۔ ان کے بیٹے نوابزادہ سیف اللہ خان کو 1894ء میں خان بہادر کا لقب دیا گیا [82]۔ آنریری مجسٹریٹ مقرر ہوئے ۔ 1910 ء میں انگریز نے انہیں نواب کا لقب دیا اور گیارہ گاؤں الاٹ کیے تھے ۔ انہوں نے دو شادیاں کیں ۔ نوابزادہ نصر اللہ خان ان کی دوسری بیوی سے تھے ۔ 1911ء میں نوابزادہ سیف اللہ خان مسلم لیگ میں شامل ہوئے ۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان 13 نومبر 1916 ء میں خان گڑھ میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول مظفر گڑھ سے حاصل کی۔ ایچی سن کالج میں زیر تعلیم رہے وہاں سے انٹر کیا [83]۔ انھوں نے 1935ء میں طالب علم رہنما کی حیثیت سے ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ آپ کا خاندان یونینسٹ پارٹی سے وابستہ تھا، نوابزادہ نصر اللہ خان نے اپنی خاندانی روایت سے انحراف کرتے ہوئے حکومت سے تعاون کی بجائے اقتدار کی مخالفت کی سیاست کا آغاز کیا اور اپنے خاندان کے بزرگوں کے برعکس حکمران جماعت یونینسٹ پارٹی میں شامل ہونے کی بجائے مسلمانوں کی شدت پسند جماعت مجلس احرار میں شمولیت کی۔ یہ جماعت انگریز کی غلامی کے خلاف تھی اور انگریز کو بر صغیر سے نکالنے کے لئے عملی جدو جہد کر رہی تھی۔ اختلافات کے باوجود تحریک پاکستان کی حمایت کی اور 23 مارچ 1940ء کو قرار داد پاکستان کی منظوری کے موقع پر نوابزادہ نصر اللہ خان نے آل انڈیا مسلم یگ کے منٹو پارک لاہور میں منعقد ہونے والے جلسہ عام میں شرکت کی [84]۔ وہ اس موقع پر ترکی ٹوپی ، اچکن اور پاجامہ میں ملبوس تھے ، حالانکہ اس وقت وہ ایک سرگرم احراری طالب علم رہنما کی حیثیت سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتے تھے ، اُن کی اس تاریخ ساز جلسے میں شرکت اُن کی اعلی سیاسی بصیرت کی مظہر ہے۔ مملکت خدارا، پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد نوابزادہ نصر اللہ خان نے مجلس احرار کی فکر کو خیر باد کہہ دیا اور پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے : 195 ء میں خان گڑھ کے دو حلقوں سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، لیکن مسلم لیگ کے ساتھ آپ کا زیادہ عرصہ نباہ نہ ہو سکا۔ جب مسلم لیگی حکومت نے شہری آزادیوں پر پابندیاں لگانی شروع کیں تو نصر اللہ خان نے ان پالیسیوں پر شدید تنقید کی اور پارٹی سے مستعفی ہو گئے ۔ نصر اللہ خان کی سیاست میں جمہوریت اور اسلام اہم عناصر رہے۔ انھوں نے ممتاز دولتانہ کی زرعی اصلاحات کی مخالفت میں پیر نو بہار شاہ کے ساتھ مل کر انجمن تحفظ حقوق زمینداران تحت الشریعہ بھی قائم کی اور بعد میں 1953ء میں ختم نبوت تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا ۔ 1956ء میں پاکستان کا پہلا دستور بنا تو نصر اللہ خان اس کو بنانے والی دستور ساز اسمبلی کا حصہ تو نہیں تھے لیکن اس کے تحفظ کرنے والوں میں پیش پیش رہے۔ جنرل ایوب خان نے 1958ء میں فوجی راج قائم کیا تو نصر اللہ خان کی سیاست کا سب سے سرگرم دور شروع ہوا۔ وہ اس وقت جناح عوامی لیگ میں شامل ہو چکے تھے جس کے سربراہ حسین شہید سہروردی تھے [85]۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان 1962ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ، وہ جناح عوامی لیگ نہیں تھے جو بعد میں عوامی لیگ کہلائی ، سید حسین شہید سہروری اس جماعت کے صدر اور نوابزادہ نصر اللہ خان نائب صدر تھے۔ ان کی کوششوں سے جنرل ایوب خان کے خلاف حزب مخالف کی جماعتوں کا اتحاد ڈیموکریٹک فرنٹ وجود میں آیا ۔ وہ اس اتحاد کے کنویز تھے اور ایوب خان کے بالواسطہ انتخاباتی نظام کے خلاف 1956 ء کے آئین کی بحالی کے لیے جدو جہد کرتے رہے۔ 1965ء کے صدارتی انتخاب میں نوابزادہ نصر اللہ خان نے بانی پاکستان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت میں حزب مخالف کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں ایک بار پھر اہم کردار ادا کیا۔ محترمہ فاطمہ جناح ایک متنازع انتخابات میں ہار گئیں اور نصر اللہ خان کو بھی قومی اسمبلی انتخابات میں شکست ہوئی لیکن پارلیمانی نظام کی بحالی کے لیے جمہوری تحریک زور پکڑتی چلی گئی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان نے شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات پیش کرنے کے بعد عوامی لیگ کا الگ دھڑا قائم کر لیا تھا لیکن ایوب خان کے فوجی راج کو ختم کرنے کے لیے انھوں نے شیخ مجیب کی جماعت سمیت تمام جماعتوں کو جمہوری مجلس عمل (ڈیک) کے اتحاد میں جمع کر لیا جس کی عوامی مہم کے دباؤ میں ایوب خان نے سیاسی رہنماؤں سے بات چیت کے لیے گول میز کانفرنس منعقد کی۔ آخر کار 1969ء میں انہوں نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان جمہوری پارٹی بنالی [86] – نصر اللہ خان نے ایوب خان کے خلاف سیاسی اتحاد بنانے کا جو کام شروع کیا وہ مرتے دم تک ان کی پہچان بن گیا اور وہ متضاد سیاسی جماعتوں کو ایک مرکز پر اکٹھا کرنے کے ماہر بن گئے ۔ ان کے حامی انھیں بابائے جمہوریت کہتے تھے اور ان کے مخالفین کہتے تھے کہ وہ جمہوریت کے دور میں مارشل لگوانے کے لیے اور مارشل لا کے دور میں جمہوریت کی بحالی کے لیے کام کرتے ہیں۔ 1970ء کے انتخابات میں نوابزادہ نصر اللہ خان نے غلام مصطفے کھر کے ہاتھوں دو حلقوں میں شکست کھائی لیکن جیسے ہی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت بنی انھوں نے پیر پگاڑا کی سر براہی میں حزب مخالف کو متحد کر لیا اور 1977ء کے انتخابات سے پہلے پیپلز پارٹی اور بھٹو کی زبردست مقبولیت کے سامنے نو جماعتوں کا قومی اتحاد تشکیل دے دیا۔ قومی اتحاد کی انتخابات میں دھاندلیوں کے الزام کے خلاف تحریک کا نتیجہ جنرل ضیا کے مارشل لا کی صورت میں نکلا تو چند سال بعد میں نوابزادہ نصر اللہ خان نے پیپلز پارٹی کو اس کے زبردست مخالفین کے ساتھ بٹھا کر ضیا الحق حکومت کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت (ایم آرڈی) کی بنیاد رکھ دی جس نے جنرل ضیا الحق کے خلاف 1983ء میں زبردست احتجاجی تحریک چلا کر فوجی رہنما کو ریفرنڈم کرانے اور 1985ء کے انتخابات کرانے پر مجبور کر دیا [87]۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کی اتحادی سیاست جنرل ضیا کی موت کے بعد شروع ہونے والے جمہوری ادوار میں بھی چلتی رہی۔ انھوں نے پہلے بے نظیر بھٹو کی 1988 ء کے انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کو گرانے کے لیے کمبائنڈ اپوزیشن یا کوپ کے نام سے حزب مخالف کی جماعتوں کو اکٹھا کیا اور جب بے نظیر کی حکومت کو صدر اسحاق خان نے رخصت کر دیا تو 1990 ء کے انتخابات کے بعد بننے والی نواز شریف کی حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی سے مل کر آل پارٹیز کانفرنس کی بنیا درکھ دی۔ 1993ء میں بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت وہ واحد حکومت تھی جس میں نوابزادہ نصر اللہ خان نے شمولیت اختیار کی اور حزب اختلاف سے دور رہے۔ وہ اس دور میں قومی کشمیر کمیٹی کے چیئر مین بنے۔ جب بے نظیر بھٹو کی حکومت کو صدر فاروق لغاری نے رخصت کیا تو نصر اللہ خان ایک بار پھر نئے انتخابات کے بعد 1997ء میں بننے والی نواز شریف حکومت کے خلاف سرگرم ہو گئے ۔ بارہ اکتوبر 1999ء کو جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد نصر اللہ خان کا بڑا کارنامہ دودانگی حریفوں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو بحالی جمہوریت کی تحریک (اے آرڈی) میں اکٹھا کرنا تھا [88]۔ 2002ء میں بی اے کی شرط کی وجہ سے وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے ۔ آپ 26 ستمبر 2003 ء کو اسلام آباد میں اللہ کو پیارے ہوئے ۔ انھیں انکے آبائی قصبے خانگڑھ میں دفن کیا گیا۔ نصر اللہ خان نے اپنے لیے حزب اختلاف کے رہنما کا کردار چنا اور پچاس سال سے زیادہ اسے بڑی خوبی سے نبھایا۔ وہ بہت شائستہ اور صحیح گفتگو کرتے تھے۔ ان کی آواز بھاری اور دل آویز تھی۔ وہ اپنی تقریروں میں برمحل شعروں کا استعمال کرتے اور ان کے منہ سے اپنے بدترین مخالفین کے بارے میں بھی کوئی ناشائستہ بات نہیں سنی گئی ۔ نصر اللہ خان لاہور میں ریلوے اسٹیشن کے پاس نکلسن روڈ کے ایک سادہ سے کرائے کے مکان میں رہتے تھے جو ان کی جماعت کا صدر دفتر بھی تھا اور جس کے چھوٹے سے کمرے میں پاکستان کے بڑے بڑے سیاست دان سیاسی معاملات پر ان سے مشورے اور بات چیت کے لیے آتے ۔ ان کے انداز تکلم میں احراری لیڈروں کی سی شان بان تھی اور معلومات کا جو خزانہ خدا نے ان کو بخشا تھا وہ اسے زندگی بھر لٹاتے رہے ۔ وہ سیاست میں شرافت اور وضعداری کا اعلیٰ نمونہ تھے ۔ اُن کی کالے پھندنے والی ترک ٹوپی انہیں منفرد اور ممتاز بنادیتی تھی۔ یہ ٹوپی ترکوں اور خلافت عثمانیہ کے ساتھ اُن کے دلی تعلق کا اظہار تھی ۔ نواب زادہ نہ صرف ایک بڑے سیاستدان تھے بلکہ ایک بڑے انسان بھی تھے ۔ وہ اپنی سادگی حلیمی اور خلوص سے سب کو اپنا گرویدہ بنالیتے تھے۔
ان کا دستر خوان وسیع تھا اور کھانے کے وقت ہر مہمان ان کے کمرے میں ان کے ساتھ کھانا تناول کرتا تھا۔ ٹیلی وژن پر کرکٹ میچ دیکھنا، خبر میں سننا اور اخبارات پڑھنا ان کے پسندیدہ مشاغل تھے۔ وہ شاعری بھی کرتے تھے اور اردو زبان کے قادر الکلام شاعر تھے ۔ شاعری میں وہ ناصر مخلص کرتے تھے ۔
یہ مضمون محمد شہزاد کی کتاب "سرزمین مظفرگڑھ "سے لیا گیا ہے