مظفر گڑھ کی شخصیات

سرزمین مظفر گڑھ کی معتبر شخصیات

محمد شہزاد

سابق چیف جسٹس آف پاکستان سید تصدیق حسین جیلانی

تصدیق حسین جیلانی 6 جولائی 1949ء کو ضلع مظفر گڑھ کے قصبے خانگڑھ میں ایک پولیس آفیسر سید رمضان شاہ کے گھر پیدا ہوئے ۔ ہائی اسکول کی تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہوں نے گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان سے گریجوایشن کی ڈگری حاصل کی۔ ایف سی کالج سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کیا۔ اس کے بعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے بیچلر آف لاء کیا۔ انہوں نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے وظیفے پر لندن یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس لیگل اسٹڈیز سے قانون کا کورس مکمل کیا۔ انھیں 12 اکتوبر 2007 ء کو ایک خصوصی کانووکیشن میں سدرن ورجینیا یونیورسٹی کی طرف سے ” ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے 1974ء میں ملتان میں اپنی وکالت کا آغاز کیا۔ لاہور ہائی کورٹ میں وکیل کی حیثیت سے اندراج کے بعد وہ 1976ء میں لاہور ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے اور 1978ء میں پنجاب بار کونسل کے ممبر بن گئے ۔ آپ جولائی 1979 ء میں پنجاب کے اسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل مقرر ہوئے اور 1983ء میں سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ کے طور پر رجسٹرڈ ہوئے ۔ انھیں 1983ء میں پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔
7 اگست 1994 ء کو وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی طرف سے ان کی نامزدگی کی منظوری کے بعد ان کو لاہور ہائیکورٹ کا جج مقرر کیا گیا جب کہ آپ 31 جولائی 2004ء میں سپریم کورٹ کے جج مقرر ہوئے ۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی، چیف جسٹس آف پاکستان رہ چکے ہیں۔ انہوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ریٹائر ڈ ہونے پر یہ عہدہ سنبھالا ۔ تصدق حسین جیلانی ان ججوں میں شامل تھے جنھیں سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے تین نومبر 2007ء میں ملک میں ایمر جنسی کے نفاذ کے بعد گھروں کو بھیج دیا تھا۔
جسٹس تصدق حسین جیلانی ان سینئر جوں میں شامل تھے جنہیں زبردستی ریٹائر ڈ کیا گیا تھا اور انھیں براہ راست سپریم کورٹ سے حراست میں لیا گیا تھا۔ وکل تحریک مارچ 2009ء کو معطل عدلیہ کی بحالی کا باعث بنی۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اعلان کیا کہ صدر آصف زرداری نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے چیف جسٹس سمیت ایمر جنسی سے قبل کی عدلیہ کو بحال کر دیا ہے۔ 31 جولائی 2009ء کو، جسٹس جیلانی سمیت ایک مکمل 14 رکنی بنچ نے ہنگامی اعلان اور پی سی او نافذ کرنا غیر قانونی اور غلط قرار دیا [57]۔ 17 اگست 2013ء کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے نئے کمشنر کی تقرری تک جسٹس جیلانی کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا۔ انہوں نے سابق جسٹس فخر الدین ابراہیم کی جگہ لی، جنہوں نے 30 جولائی 2013ء کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا 2013ء میں آپ چیف جسٹس آف پاکستان تعینات ہوئے [58]۔ اپنے حلف کے فورا بعد خصوصی سیکیورٹی پروٹوکول سے انکار کر دیا۔ پاکستان میں مذہبی اظہار رائے کی آزادی کے بارے مشہور زمانہ سو موٹو کیس میں آپ کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے ایک شاندار فیصلہ دیا۔ 2013ء میں پشاور چرچ حملے کے بعد جسٹس جیلانی عدالت نے از خود اقدام اٹھایا، نیز ہندو برادری کی جانب سے ان کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کے خلاف دائر دیگر درخواستوں اور کیلاش قبیلے کو دھمکیوں کا حوالہ دیتے ہوئے 19 جون 2014 ء کو سپریم کورٹ نے اقلیتوں کے تحفظ اور مذہب کی آزادی سے متعلق ایک اہم فیصلہ جاری کیا جسے جسٹس جیلانی نے جسٹس عظمت سعید اور مشیر عالم پر مشتمل بینچ میں لکھا۔ پاکستان میں مذہبی اظہار رائے کی آزادی کے اس فیصلے کا موازنہ امریکہ میں براؤن بمقابلہ بورڈ آف ایجو کیشن کیس سے کیا جاتا ہے [59]۔ جولائی 2008 ء میں ان کو امریکی بار ایسوسی ایشن نے پاکستان کے ان بچوں کی طرف سے رول آف لاء ایوارڈ لینے کے لئے مدعو کیا تھا جنھوں نے ملک میں قانون کی بالا دستی کو برقرار رکھنے میں ہمت اور استقامت کا مظاہرہ کیا تھا۔ آپ ایک آزاد خیال اور ترقی پسند جج سمجھے جاتے رہے ہیں، اور بعض اوقات انھیں عدالت عظمی کا انتہائی اعتدال پسند مبر قرار دیا جاتا تھا۔ وہ ” زندہ دستور” کے حامی رہے ہیں۔ آپ شہری آزادیوں اور بنیادی حقوق کے حامی رہے ہیں۔ آپ نے خواتین کے حقوق ، غیرت کے نام پر قتل و غارت گری اور تعلیم کے حق سے متعلق اہم فیصلے گئے۔ انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار جسٹس اپیلینس نے سابق چیف جسٹس تصدیق حسین جیلانی کو انصاف کے اعلی ایوارڈ سے نوازا ہے۔ جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کو یہ ایوارڈ مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر دیا گیا ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ جیلانی یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ عالمی عدالت انصاف کے صدر نے جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کو ایوارڈ ملنے پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے الفاظ دہرائے اور کہا کہ آپ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، ریاست کے سامنے برابر کے شہری ہیں۔ تصدق حسین جیلانی عالمی انصاف منصوبے کے لئے اعزازی شریک چیئر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ حکومت نے تصدق حسین جیلانی کو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس میں عالمی عدالت انصاف میں ایڈ ہاک جج مقرر کیا تھا۔ ان کا نام نگراں وزیر اعظم کے لئے 2018ء میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے تجویز کیا تھا۔ ضلعی حکومت مظفرگڑھ نے آپ کی شاندار خدمت کے اعتراف میں آپ کو 2019 ء نشان مظفر گڑھ ایوارڈ دیا ہے ۔ آپ ان دنوں ملتان میں مقیم ہیں۔

میاں افراسیاب مہدی ہاشمی قریشی ۔ سفیر پاکستان

آپ ضلع مظفر گڑھ کی پہلی شخصیت ہیں جو سفیر کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ آپ سفارت کار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دانشور اور سکال بھی ہیں ۔ آپ نے 34 سال وزارت خارجہ میں ملک اور قوم کی خدمت سرانجام دی۔ میاں افراسیاب مہدی ہاشمی کا تعلق خانگڑھ کے نزدیک دریائے چناب پر واقع ٹھٹھہ قریشی کے قریشی خاندان سے ہے۔ آپ کے والد میاں مظفر مہدی ہاشمی بھی اپنے وقت کے سکالر اور سیاست دان تھے۔ ان کا سلسلہ نسب حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کے خاندان سے جاملتا ہے۔ کئی صدیوں سے قریشی خاندان اس علاقے میں آباد ہے [60]۔ ان کے آبا و اجداد کو دریائے چناب کے کنارے واقع یہ علاقہ شہنشاہ جہانگیر نے دیا تھا۔ بعد میں آپ کے اجداد نے اس علاقے میں دیگر قوموں کو زمینیں دیکر یہاں آباد کیا۔ انگریز دور میں بھی ٹھٹھہ قریشی کی اہمیت قائم رہی۔ اس دور میں میاں غوث بخش قریشی ، میاں فضل کریم قریشی اور میاں خدا بخش قریشی نمایاں رہے۔ ان کے دادا میاں خدا بخش قریشی ہاشمی وضع داری، رکھ رکھاؤ مہمان نوازی اور سخاوت کا نمونہ تھے۔ ان کا ڈیرہ ہمہ وقت آبادرہتا تھا اور پورے پنجاب سے بڑے بڑے سیاستدان آپ کے پاس تشریف لاتے تھے ۔ میاں خدا بخش قریشی ہاشمی کے دو بیٹے میاں مظفر مہدی ہاشمی اور میاں کا ظم مہدی ہاشمی قریشی تھے۔ انکے بیٹے میاں کاظم مہدی قریشی ہاشمی کی شادی سابق گورنر پنجاب اور سجادہ نشین دربار حضرت بہاؤ الحق میاں سجاد قریشی کی بہن کے ساتھ ہوئی۔ انکے بیٹے میاں مظفر مہدی ہاشمی اپنے وقت کے اعلی تعلیم یافتہ شخص تھے ۔ ایوب دور میں ذوالفقار علی بھٹو اور ملک مصطفے کھر کے ساتھ آپ قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ انکے والد میاں مظفر مہدی ہاشمی قریشی اس وقت ممبر قومی اسمبلی تھے جب یہ سمیت ضلع مظفر گڑھ کی قومی اسمبلی کی صرف دو نشستیں تھیں [61]۔ 1966ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان حکومت سے الگ ہو کر نئی سیاسی جماعت بنارہے تھے تب وہ میاں مظفر مہدی ہاشمی کو اپنی جماعت میں شمولیت کی دعوت دینے انکے گھر ٹھٹھہ قریشی بھی آئے تھے مگر میاں مظفر مہدی ہاشمی بھٹو کے ساتھ شامل نہ ہوئے۔ ٹھٹھہ قریشی میں واقع انکی قدیم اور تاریخی حویلی کئی سیاسی واقعات کی امین ہے۔ قیام پاکستان کے وقت خان گڑھ اور آس پاس کے کئی ہندو زمیندار گھرانوں نے کئی ماہ یہاں انکی حویلی میں پناہ لئے رکھی [62]۔ میاں افراسیاب مہدی ہاشمی قریشی کا بچپن یہیں گزرا ہے۔ آپ کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی میں انکے دادا میاں خدا بخش قریشی اور والد میاں مظفر مہدی ہاشمی کا بڑا ہاتھ ہے۔ شرافت، تہذیب، مہمان نوازی اور وضع داری کی صفات انھیں اپنے دادا سے جبکہ درویشی ، سادگی اور علم وادب سے لگاؤ جیسی خوبیاں والد سے ورثے میں ملی ہیں۔ آپ مظفر گڑھ میں 18 جنوری 1956ء میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم لارنس کالج گھوڑا گلی مری سے حاصل کی ۔ آپ 1964ء سے 1976 ء تک لارنس کالج گھوڑ اگلی مری میں زیر تعلیم رہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کی۔ آپ نے 1984 ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے فارن سروس آپ پاکستان کو جوائن کیا اسی دوران مختلف عہدوں پر فائز رہے ۔ واشنگٹن ڈی سی، نیو دہلی اور بیجنگ میں سفارتی خدمات سرانجام دیں۔ 1987-91 ء میں امریکہ میں سفارتی خدمات پر مامور رہے ۔ 06-2003ء بیجنگ میں تعینات رہے۔ 1994-97 نئی دہلی میں فرسٹ سیکرٹری رہے۔ وزارت خارجہ اسلام آباد میں امریکہ اور انڈیا کے حوالے سے ڈیسک کے انچارج تھے ۔ 2014 ء سے 2016 ء تک وزارت خارجہ میں ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ کے فرائض سر انجام دیئے۔ 2011 ء سے 2014 تک بنگلہ دیش میں ہائی کمشنر رہے اور بعد ازاں وزارت خارجہ میں ایڈیشنل فارن سیکرٹری تعینات رہے۔ اپریل 2016ء میں نیوزی لینڈ میں ہائی کمشنر تعینات ہوئے [63]۔آپ 16 کتابوں کے مصنف بھی ہیں ۔ 2017ء میں آپ نے پیغمبر اسلام پر ایک کتاب لکھی
(The Greatest Man in The History is Muhammad (PBUH جو نیوزی لینڈ کے دارالحکومت ویلنگٹن میں شائع ہوئی۔ ان کی لکھی کتابوں میں ایک کتاب سقوط ڈھا کہ کتنی حقیقت کتنا افسانہ ، ایک شاندار کتاب ہے۔ ان کی ایک اور کتاب US Relation with South Asia ہے۔ سفارتکاری کے شعبہ میں ملک اور ضلع مظفر گڑھ کا نام روشن کرنے اور اعلیٰ صلاحیتیوں کا مظاہرہ کرنے پر ضلع گورنمنٹ نے 2019 ء میں آپ کو ہلال مظفر گڑھ ایوارڈ دیا۔ آپ ان دنوں اسلام آباد میں مقیم ہیں ۔

انسپکٹر جنرل پولیس میاں محمد ایوب قریشی

مظفر گڑھ شہر کا ایک خوش قسمت خاندان ایسا ہے کہ جسے اللہ نے علم اور عزت کی دولت سے خوب سرفراز کیا ہے۔ قاضی دین محمد قریشی کے بیٹوں کو علم سے عشق تھا۔ والدین صبح شام اللہ سے دعا کرتے کہ ان کے تمام بچے اعلیٰ افسر بنیں ۔ اللہ نے ان کے والدین کی دعاؤں کو شرف قبولیت سے سرفراز کیا اور سب کے سب بھائی اعلیٰ عہدوں پر پہنچے ۔ آج نہ صرف ضلع مظفر گڑھ میں بلکہ پورے سرائیکی وسیب میں اس خوش بخت گھرانے کی مثال دی جاتی ہے۔ اس خاندان کے تمام افراد کی داستان حیات نوجوان نسل کیلئے مشعل راہ ہے کی کس طرح انہوں نے محنت لگن اور علم سے محبت کی بدولت اپنا اور اپنے والدین کا نام سر بلند کیا۔ تعلیم ہی نسلوں کے سنور نے اور قسمت بدلنے کا سب سے مختصر اور آسان رستہ ہے ۔ اس خاندان کے میاں محمد ایوب قریشی انسپکٹر جنرل پولیس کے عہدے تک پہنچے ۔ فاروق اعظم ایئر کموڈور ریٹائر ہوئے ۔ ڈاکٹر تنویر قریشی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے میڈیکل سپرٹینڈنٹ بنے ۔ انجینئر شاہد جمیل قریشی وزیرمملکت برائے مواصلات رہے۔ انجینئر محمد سلیم قریشی نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجوایشن کی ۔ ساجد نعیم قریشی (مرحوم) پولیس میں انسپکٹر کے عہدے سے مستعفی ہو کر سیاست میں آئے اور قومی اسمبلی کے حلقہ سے 2013ء میں تحریک انصاف کے امیدوار تھے۔ میاں محمد ایوب قریشی 25 جون 1962ء کو مظفر گڑھ کے محلہ شیخو پورہ میں ایک معروف علمی اور مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ان کے اجداد عرب سے سندھ ، ملتان اور بعد میں مظفر گڑھ منتقل ہوئے ۔ ان کے خاندان کا شجرہ ملتان کے قریشی خاندان سے جاملتا ہے۔ آپ کے دادا قاضی نورالدین ہاشمی قریشی اپنے وقتوں کے نیک ، پارسا اور درویش آدمی تھے ۔ قاضی نورالدین ہاشمی مظفر گڑھ میں واقع در بار غوث حمزہ کے احاطے میں دفن ہیں ۔ آپ کے والد قاضی دین محمد بھی نیک اور صاحب کردار انسان تھے۔ ان کی والدہ بہت پر ہیز گار خاتون تھیں اور ساری زندگی بچوں اور بچیوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیتی رہیں [64] ۔ ان کے اجداد خاص طور پر والدین کا فیض تھا کہ تمام بھائی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول مظفر گڑھ اور گریجوایشن میں گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ سے ناپ کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے کے امتحان میں دوسری پوزیشن حاصل کی ۔ بعد میں بہاؤالدین زکریا یو نیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کی ۔ ایم بی اے کرنے کے بعد کچھ عرصہ کارپوریٹ سیکٹر میں ملازمت کی اسی دوران میں آپ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن سے بطور فیکلٹی ممبر منسلک ہوئے ۔آپ نے 1986ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے پولیس سروس آف پاکستان کو بطور اے ایس پی جوائن کیا۔ آپ کا تعلق 14 دین کا من گروپ سے ہے۔ دوران سروس آپ گوجرانوالہ، ٹانک، بہاولپور ، صادق آباد اور ملتان کینٹ تعینات رہے۔ بطور ایس پی آپ ملتان، بہاولپور ، خیر پور (سندھ) کراچی ویسٹ اور ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے بھی تعینات رہے۔ بطور بٹالین کمانڈر پنجاب کانسٹبلری ملتان بھی خدمات سرانجام دیں۔ بطور ایس ایس پی CTD پنجاب فرائض سر انجام دیئے ۔ آپ بطور DIG کرائم اور لیگل افیئر ز بھی تعینات رہے ۔ 2012ء میں آپ کو آئی جی جیل خانہ بلوچستان تعینات کیا گیا ۔ 2018ء میں آپ آئی جی بلوچستان کے عہدے سے 22 گریڈ میں ریٹائرڈ ہوئے ۔ میاں محمد ایوب قریشی نے دوران ملازمت 42 ممالک کے سرکاری دورے کئے ۔ آپ نے امریکہ ، چین، جرمنی ، آسٹریلیا اور ملائشیا سمیت کئی ممالک سے پیشہ وارانہ تربیت حاصل کی ۔ چین میں پبلک پالیسی کے حوالے سے ایڈوانس کورس کیا۔ دوران سروس آپ نے کئی کتب اور کئی ریسرچ پیپرز بھی تحریر کئے ۔ آپ قومی اخبارات میں کالم بھی لکھتے ہیں۔ ان دنوں آپ مظفر گڑھ میں مقیم ہیں۔ ہمیشہ اپنے شہر کے لوگوں کے دکھ سکھ میں شریک رہے۔ ان دنوں مقامی سیاست میں کافی متحرک ہیں اور مستقبل میں مظفر گڑھ شہر کے قومی حلقہ سے الیکشن میں حصہ لینے کے خواہش مند ہیں۔ اس سے پہلے ان کے دو بھائی بھی سیاست میں متحرک رہے ہیں ۔ 2002 ء کے الیکشن میں ان کے چھوٹے بھائی میاں شاہد جمیل قریشی مظفر گڑھ شہر کے حلقے سے مسلم لیگ (ق) کے پلیٹ فارم سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور کابینہ میں وزیرمملکت برائے مواصلات رہے ۔ 2013ء میں ان کے چھوٹے بھائی میاں ساجد نعیم قریشی (مرحوم) نے PTI کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے حلقہ سے الیکشن لڑا۔ سرکاری ملازمت کے دوران اقتدار کے ایوانوں میں وقت گزارنے کے بعد آپ چاہتے تو کسی دوسرے ملک یا دیگر افسران کی طرح اسلام آباد یا لاہور میں باقی زندگی گزار سکتے تھے مگر آپ نے اپنی دھرتی کا قرض چکانے کیلئے کارزار سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دراصل 2002 کے الیکشن میں میاں شاہد جمیل قریشی کی جیت کے پیچھے میاں ایوب قریشی کا ہاتھ تھا۔ میاں شاہد جمیل قریشی وزیر مملکت برائے مواصلات نے شہر میں جو ترقیاتی کام کروائے ان کے حوالے سے اصل وژن میاں ایوب قریشی کا تھا۔ آپ نے مظفر گڑھ اور ملتان کے درمیان دریائے چناب پر پل کی تعمیر اور مظفر گڑھ شہر میں شمالی بائی پاس کی تعمیر سمیت دیگر اہم منصوبوں میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ابھی بھی آپ اپنے شہر اور لوگوں کی خدمت کے جذبے کے ساتھ سیاست میں آئے ہیں ۔ آپ مظفر گڑھ میں ٹیکنالوجی یو نیورسٹی، میڈیکل کالج اور انڈسٹریل اسٹیٹ سمیت کئی اہم ترقیاتی منصوبوں کا خواب آنکھوں میں سجائے خطے کے عوام کی ترقی کیلئے کوشاں ہیں

مظفر گڑھ کا دانشور چہرہ ۔ رانا محبوب اختر

مظفر گڑھ چھ دریاؤں کا سنگم ہے یہ بہت مردم خیز دھرتی ہے اس دھرتی نے ہر شعبہ زندگی میں کئی نابغہ روزگار ہستیوں کو جنم دیا ہے سیاست سے لیکر علم و فن تک ہر میدان میں یہاں کے لوگوں نے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے سرزمین مظفر گڑھ اگر چہ تخت لاہور و اسلام آباد کے حکمرانوں اور یہاں کے مقتدر لوگوں نے اس ضلع کو پسماندہ رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر پھر بھی ہر دور میں اس دھرتی کے خاکستر میں موجود چنگاریوں نے شعلہ بن کر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی آنکھوں کو چکا چوند کیا ہے ۔ کتنی حیران کن بات ہے کہ یہاں کے کم پڑھے سیاستدانوں نے ملک بھر کے اہل سیاست کی قیادت کی ہے تو غور کرنے کی بات ہے کہ یہاں کا علی تعلیم یافتہ اور اخلکو کل کیا ہوگا؟ رانا محبوب اختر اس کی روشن مثال ہیں وہ آج کے دور میں نہ صرف پاکستان میں ضلع مظفر گڑھ کا دانشور چہرہ ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح کے مایہ ناز لکھاری ہیں۔ وسیع مطالعے ، مشاہدے اور خدا داد صلاحیتوں کی بنا پر لکھی گئی ان کی تحریریں عالمی ادب کے مقابلے میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ فرزند مظفر گڑھ ہی ایس پی آفیسر، سکالر، کالم نگار اور مصنف رانا محبوب اختر مظفر گڑھ کے نواحی تاریخی قصبے محمود کوٹ کے پسماندہ ترین گاؤں اتر اوالا میں 1955ء کو ایک کاشتکار رانا غلام محمد اترا کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق اتر ابرادری سے ہے۔ بچپن میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تو ان کی بہادر، جفاکش اور شفیق ماں نے باپ کی کمی کو پورا کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ ان کی ماں نے محنت و مشقت کر کے اور زیور بیچ کر اپنے بچوں کی پرورش کی۔ انکی شدید خواہش تھی کہ انکے بیٹے پڑھ لکھ کر اچھے انسان بنیں اور بیٹوں نے بھی ماں کی جد و جہد کو رائیگاں نہیں جانے دیا۔ تینوں بیٹے اعلی عہدوں پر پہنچے ۔ رانا محبوب اختر نے ملک کے سب سے بڑے اور اعلیٰ امتحان سی ایس ایس کو پاس کیا اور سی ایس پی آفیسر بنے۔ ایک اور بھائی رانا مسعود اختر انگریزی زبان کے پروفیسر اور اس وقت گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ کے پرنسپل اور اعلی انتظامی صلاحیتوں کے حامل منتظم میں تعلیمی بورڈ ڈیرہ غازیخان اور بہاولپور کے چیئر مین بھی رہے ہیں ۔ سب سے چھوٹے بھائی را نانسیم اختر وکیل ہیں اور کوٹ ادو بار کے صدر رہے ہیں ۔ رانا محبوب اختر کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ ہمہ جہت شخصیت کے حامل را نا محبوب اختر نے زندگی کا ہر دور خوب گزارا ہے۔ گورنمنٹ ہائی سکول قصبہ گجرات سے میٹرک کر کے گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ میں داخل ہوئے۔ کالج کے دنوں طلبہ سیاست میں سرگرم رہے اور گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ کی طلبہ یونین کے صدر منتخب ہوئے اور اس زمانے میں آج کے کئی مقامی سیاست دانوں کے طالب علم لیڈر تھے ۔ وسیع حلقہ احباب تب بھی تھا اور آج بھی ہے۔ مالی حالات اتنے اچھے نہ تھے لہذا اس ہونہار طالب علم نے سردار کوڑے خان ٹرسٹ سے ملنے والے وظیفے کی مدد سے گریجوایشن اور ماسٹر کی ڈگری مکمل کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اپنی ماں، کوڑے خان جتوئی اور ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی زندگی کی اہم ترین ہستیاں قراردیتے ہیں ۔ ماں نے مشکل حالات میں پالا پوسا اور پڑھایا ، کوڑے خان جتوئی کے بنائے ٹرسٹ کے تعلیمی وظیفے سے تعلیمی مدارج طے کئے اور ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی ملتان یونیورسٹی سے ماسٹر کیا۔ یہ سب عنایات ان پر دھرتی کا قرض تھیں جو آج یہ ادا کر رہے ہیں ۔ اب تک مظفر گڑھ کے چھ ہزار بچوں کی مالی معاونت کر چکے ہیں مگر اس عظیم خدمت کا ڈھنڈ ور انہیں پیٹتے اور نہی کسی ایوارڈ اور ستائش کے طلب گار ہیں بلکہ یہ کام ایک قومی فریضہ سمجھ کر آج بھی ادا کر رہے ہیں۔ 1979ء میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے انگریزی زبان و ادب میں ایم اے کیا یو نیورسٹی میں ایڈ ہاک لیکچر رمقرر ہوئے اور کچھ عرصہ بطور لیکچر ایمرسن کالج ملتان میں پڑھاتے رہے۔ 1983ء میں سی ایس ایس کیا۔ آپ کا تعلق 11 ویں کامن سے ہے۔ 17 سال تک آڈٹ اور اکاؤنٹس میں خدمات سرانجام دیں دوران ملازمت سرکاری فرائض کی ادائیگی کے طور پر میں جرمنی، فرانس، اٹلی ، انڈونیشیا اور برازیل جیسے ملکوں کا دورہ کیا۔ 2000 ء میں سرکاری ملازمت سے مستعفی ہو کر ملٹی نیشنل کمپنی کے کی ملازمت اختیار کی۔ آج کل ہر قسم کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو کر علم و ادب سے وابستہ ہیں۔ سرائیکی وسیب اور پسماندہ لوگوں کی ترقی اور فلاح پر لکھتے رہتے ہیں۔ بلاشبہ آج کی صحافت میں اردو زبان میں ان سے بڑا کوئی کالم نگار نہیں ہے ۔ قومی اخبار روزنامہ خبریں میں دست نمو کے عنوان سے مستقل کالم لکھتے ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ لوک بیانیہ اور سیاست“ اور ” مونجھ سے مزاحمت تک ان کی معروف کتابیں ہیں۔ صوبہ سندھ کے سفر کی رودادوں پر مشتمل ایک سفر نامہ زیر اشاعت ہے اور اس کی کچھ اقساط روزنامہ خبریں میں شائع بھی ہو چکی ہیں

میاں ابراہیم برق ۔۔ وزیر تعلیم متحدہ پنجاب

میاں ابراہیم برق نے مظفر گڑھ کی سیاست میں بہت اہم مقام پایا ہے۔ آپ 1945 ء سے 1947 ء تک متحدہ پنجاب کے وزیر تعلیم رہے۔ علی پور اور جتوئی کی سیاست میں ان کا طوطی بولتا تھا۔ آپ خضر حیات ٹوانہ کے دست راست تھے ۔ برق ان کا تخلص تھا جو بعد میں ان کے خاندان کے تمام افراد کی پہچان بن گیا۔ میاں ابراہیم برق خان بہادر مولوی غوث بخش کے اکلوتے بیٹے تھے ۔ مولوی غوث بخش اپنے دور کے اعلی تعلیم یافتہ شخص تھے ۔ پہلے سکول ٹیچر تھے ۔ بعد میں انگریز سرکار نے انھیں آنریری مجسٹریٹ مقرر کیا ۔ 1918ء میں انھیں خان بہادر کا لقب دیا گیا ،میاں غوث بخش کو آڈر آف برٹش ایمپائر بھی دیا گیا [74]۔ میاں ابراہیم برق 12 مئی 1912ء کو علی پور میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم علی پور اور انڈیا سے حاصل کی ۔ گریجوایشن کی ڈگری اسلامیہ کالج پشاور سے حاصل کی اور قانون کا کورس بھی پاس کیا ۔ 40 کی دہائی میں سیاست میں داخل ہوئے ۔ 1945ء کے تاریخی انتخابات میں میاں ابراہیم برق یونینسٹ پارٹی کے امیدوار تھے اور انڈین نیشنل کانگریس بھی ان کی حمایت کر رہی تھی مگر یہ آل انڈیا مسلم لیگ کے امیدوار سردار نصر اللہ خان جتوئی سے الیکشن ہار گئے ۔ کیونکہ الیکشن کے وقت یونینسٹ پارٹی متحدہ پنجاب میں اقتدار میں تھی ۔ لہذا پوری حکومتی مشینری یونینسٹ پارٹی کے امیدواروں کی حمایت کر رہی تھی ، اس لیے سرکاری افسران کی جانبداری کیخلاف بطور احتجاج سردار نصر اللہ خان جتوئی الیکشن والے دن ایکشن سے واک آؤٹ کر گئے ۔ لہذا میاں ابراہیم برق کو کامیاب قرار دیا گیا مگر ووٹوں کی گنتی میں ابراہیم برق شکست کھا گئے تھے۔ میاں ابراہیم برق 1947 ء تا 1949 ء تک بھی قانون ساز اسمبلی کے ممبر رہے۔ 1951ء اور 1955ء کے انتخابات میں وہ سردار نصر اللہ خان جتوئی سے ہار گئے [75]-65-1962 ء میں مغربی پاکستان اسمبلی کے ممبر رہے۔ 69-1965ء میں بھی مغربی پاکستان اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ۔ 1970ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا بہت زور تھا مگر علی پور جتوئی کی سیٹ سے میاں ابراہیم برق جمعیت علمائے اسلام کی ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ بعد میں وہ بھی بھٹو سے متاثر ہو کر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ۔ 1977ء کے انتخابات میں وہ پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے ان کا مقابلہ معروف عالم دین اور مذہبی شخصیت مولا نا لقمان علی پوری سے تھا۔ بڑا زور کا مقابلہ تھا مگر وہ جیت گئے اور پاکستان قومی اتحاد کے مولا نا لقمان علی پوری کو شکست ہوئی۔ بعد میں بھٹو کیساتھ مذاکرات میں پاکستان قومی اتحاد نے جن 32 حلقوں میں دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کیا تھا ان میں یہ حلقہ بھی شامل تھا۔ میاں ابراہیم برق 4 جولائی 1982ء میں فوت ہوئے [76]۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر ذوالفقار علی برق، یوسف علی برق، امیر علی برق (ایڈیشنل چیف سیکرٹری بلوچستان ) اور سلطان علی برقی تھے۔ میاں ابراہیم برق کی بڑی بیٹی سردار منظور احمد خان گوپانگ کے ساتھ بیاہی گئی تھیں جبکہ دوسری بیٹی مخدوم الملک شمس الدین گیلانی کی شریک حیات تھیں ۔ سجادہ نشین مخدوم افتخار الحسن گیلانی میاں ابراہیم برق کے
نواسے ہیں۔
میاں ابراہیم برق کے بیٹے ذوالفقار علی برق پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے۔ سابق ممبر قومی اسمبلی ذوالفقار علی برق 12 اکتوبر 1936ء کو علی پور میں پیدا ہوئے ۔ 18 اکتوبر 2009 علی پور میں فوت ہوئے ۔ ذوالفقار علی برق نے ابتدائی تعلیم علی پور سے حاصل کی۔ بعد میں کا نونٹ سکول شملہ (انڈیا) میں زیر تعلیم رہے۔ آپ ایچی سن کالج میں بھی مختصر عرصہ کیلئے پڑھتے رہے بعد ازاں ایمرسن کالج سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا اور نشتر میڈیکل ملتان سے ایم بی بی ایس کیا۔ دوران سروس کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور ، حیدر آباد اور میسی میں خدمات سرانجام دیں۔ انگلینڈ سے ایف آری ایس فیلو رائل کالج آف سرجری کی ڈگری حاصل کی ۔ کوونٹری ہسپتال انگلینڈ میں 2 سال شعبہ امراض چشم میں کام کیا ۔ وطن واپسی پر قائداعظم میڈیکل کالج میں پروفیسر مقرر ہوئے ۔ آپ نے 1982ء میں نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور سیاست کے میدان میں داخل ہوئے ۔ 1985ء میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے [77]۔ 1988ء میں دوبارہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اس الیکشن میں ان کو جمعیت علمائے پاکستان (نورانی گروپ) کی حمایت حاصل تھی۔ ان کی شادی گھلو خاندان میں ہوئی ۔ ڈاکٹر ذوالفقار علی برق نے سرزمین مظفر گڑھ کے لوگوں کی بہت خدمت کی آپ ایک عرصہ تک علی پور اور جتوئی کے مختلف دیہاتوں میں مفت طبی کیمپ لگاتے تھے ۔ جہاں مستحق مریضوں کا مفت علاج کرتے تھے۔ آپ نے لاکھوں لوگوں کو آنکھوں کی روشنی عطا کی [78]۔ ڈاکٹر ذوالفقار علی برق کے دو بیٹے ہیں ۔ ڈاکٹر محمد علی برقی جو قائد اعظم میڈیکل میں پڑھاتے ہیں جبکہ ڈاکٹر رفعت علی برق بھی پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہی ہیں آپ نے نشتر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ نشتر میڈیکل کالج کی طلبہ یونین کے ہنگامہ خیز الیکشن 90-1989ء میں صدر منتخب ہوئے ۔ آپ زمانہ طالب علمی میں پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ تھے ۔ آپ مایہ ناز ماہر امراض چشم ہیں۔ ان دنوں برق پولی کلینک بہاولپور کے ڈائریکٹر ہیں ۔ آپ سماجی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں اور سرزمین مظفر گڑھ کے لوگوں کی خدمت میں پیش ہیں

 نوبزادہ نصر اللہ خان۔۔ بابائے جمہوریت

نوابزادہ نصر اللہ نے ساری عمر اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور جمہوریت کے فروغ اور ترقی کے لئے ہر مارشل لا کے سامنے دیوار بن کر کھڑے رہے۔ سیاسی جماعتوں کو متحد رکھنے کی اُن کی کاوشیں عوام کو آج بھی یاد ہیں ۔ نوابزادہ نصر اللہ خان سیاست میں بردباری، برداشت، شائستگی اور اختلاف کو حقائق اور دلیل سے پیش کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ کشمیر کمیٹی کے چیئر مین کی حیثیت سے انہوں نے عالمی محاذ پر کشمیریوں کی آزادی اور حق خود ارادیت کے لیے زبر دست سفارتی جنگ لڑی اور افغانستان میں روسی اور امریکی جارحیت اور مداخلت کے خلاف قائدانہ اور جرات مندانہ آواز اٹھائی۔ نظام مصطفے اور تحفظ ختم نبوت تحریک میں نوابزادہ نصر اللہ خان نے بے مثال کردار ادا کیا۔ نوابزادہ نصر اللہ خان نے ساری سیاسی زندگی میں پاکستان کے استحکام، آئین اور جمہوریت کے تحفظ اور آمریتوں کے خلاف جنگ لڑی۔ جہاں آپ سیاسی طور پر ایک مضبوط فکر رکھتے تھے ، وہاں مذہبی طور پر بھی وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے، تحریک ختم نبوت کے مجاہد اور بڑے رہنما تھے ۔ برصغیر کے نامور خطیب، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی قربت اور تربیت نے سونے پر سہاگے کا کام کیا اور وہ ملک کے سیاسی افق پر 50 سال سے زیادہ عرصے تک روشن ستارہ بن کر چکے۔ ملک میں جب بھی جمہوریت کے حوالے سے تاریخ لکھی جائے گی پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے بانی نوابزادہ نصر اللہ خان کا نام ہمیشہ سنہری لفظوں سے لکھا جانے کا[80]۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کا تعلق ملتانی پٹھانوں کی بابر شاخ سے تھا [81] ۔ ان کے اجداد نواب مظفر خان حاکم ملتان کے دور حکومت میں خانگڑھ میں سکونت پذیر ہوئے ۔ نواب نصر اللہ خان کے دادا اللہ داد خان نے 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کی حمایت کی تھی۔ انگریزوں نے انہیں آنریری مجسٹریٹ مقرر کیا تھا۔ وہ 1895ء میں انتقال کر گئے۔ ان کے بیٹے نوابزادہ سیف اللہ خان کو 1894ء میں خان بہادر کا لقب دیا گیا [82]۔ آنریری مجسٹریٹ مقرر ہوئے ۔ 1910 ء میں انگریز نے انہیں نواب کا لقب دیا اور گیارہ گاؤں الاٹ کیے تھے ۔ انہوں نے دو شادیاں کیں ۔ نوابزادہ نصر اللہ خان ان کی دوسری بیوی سے تھے ۔ 1911ء میں نوابزادہ سیف اللہ خان مسلم لیگ میں شامل ہوئے ۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان 13 نومبر 1916 ء میں خان گڑھ میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول مظفر گڑھ سے حاصل کی۔ ایچی سن کالج میں زیر تعلیم رہے وہاں سے انٹر کیا [83]۔ انھوں نے 1935ء میں طالب علم رہنما کی حیثیت سے ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ آپ کا خاندان یونینسٹ پارٹی سے وابستہ تھا، نوابزادہ نصر اللہ خان نے اپنی خاندانی روایت سے انحراف کرتے ہوئے حکومت سے تعاون کی بجائے اقتدار کی مخالفت کی سیاست کا آغاز کیا اور اپنے خاندان کے بزرگوں کے برعکس حکمران جماعت یونینسٹ پارٹی میں شامل ہونے کی بجائے مسلمانوں کی شدت پسند جماعت مجلس احرار میں شمولیت کی۔ یہ جماعت انگریز کی غلامی کے خلاف تھی اور انگریز کو بر صغیر سے نکالنے کے لئے عملی جدو جہد کر رہی تھی۔ اختلافات کے باوجود تحریک پاکستان کی حمایت کی اور 23 مارچ 1940ء کو قرار داد پاکستان کی منظوری کے موقع پر نوابزادہ نصر اللہ خان نے آل انڈیا مسلم یگ کے منٹو پارک لاہور میں منعقد ہونے والے جلسہ عام میں شرکت کی [84]۔ وہ اس موقع پر ترکی ٹوپی ، اچکن اور پاجامہ میں ملبوس تھے ، حالانکہ اس وقت وہ ایک سرگرم احراری طالب علم رہنما کی حیثیت سے اپنی ایک الگ پہچان رکھتے تھے ، اُن کی اس تاریخ ساز جلسے میں شرکت اُن کی اعلی سیاسی بصیرت کی مظہر ہے۔ مملکت خدارا، پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد نوابزادہ نصر اللہ خان نے مجلس احرار کی فکر کو خیر باد کہہ دیا اور پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے : 195 ء میں خان گڑھ کے دو حلقوں سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، لیکن مسلم لیگ کے ساتھ آپ کا زیادہ عرصہ نباہ نہ ہو سکا۔ جب مسلم لیگی حکومت نے شہری آزادیوں پر پابندیاں لگانی شروع کیں تو نصر اللہ خان نے ان پالیسیوں پر شدید تنقید کی اور پارٹی سے مستعفی ہو گئے ۔ نصر اللہ خان کی سیاست میں جمہوریت اور اسلام اہم عناصر رہے۔ انھوں نے ممتاز دولتانہ کی زرعی اصلاحات کی مخالفت میں پیر نو بہار شاہ کے ساتھ مل کر انجمن تحفظ حقوق زمینداران تحت الشریعہ بھی قائم کی اور بعد میں 1953ء میں ختم نبوت تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا ۔ 1956ء میں پاکستان کا پہلا دستور بنا تو نصر اللہ خان اس کو بنانے والی دستور ساز اسمبلی کا حصہ تو نہیں تھے لیکن اس کے تحفظ کرنے والوں میں پیش پیش رہے۔ جنرل ایوب خان نے 1958ء میں فوجی راج قائم کیا تو نصر اللہ خان کی سیاست کا سب سے سرگرم دور شروع ہوا۔ وہ اس وقت جناح عوامی لیگ میں شامل ہو چکے تھے جس کے سربراہ حسین شہید سہروردی تھے [85]۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان 1962ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ، وہ جناح عوامی لیگ نہیں تھے جو بعد میں عوامی لیگ کہلائی ، سید حسین شہید سہروری اس جماعت کے صدر اور نوابزادہ نصر اللہ خان نائب صدر تھے۔ ان کی کوششوں سے جنرل ایوب خان کے خلاف حزب مخالف کی جماعتوں کا اتحاد ڈیموکریٹک فرنٹ وجود میں آیا ۔ وہ اس اتحاد کے کنویز تھے اور ایوب خان کے بالواسطہ انتخاباتی نظام کے خلاف 1956 ء کے آئین کی بحالی کے لیے جدو جہد کرتے رہے۔ 1965ء کے صدارتی انتخاب میں نوابزادہ نصر اللہ خان نے بانی پاکستان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت میں حزب مخالف کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں ایک بار پھر اہم کردار ادا کیا۔ محترمہ فاطمہ جناح ایک متنازع انتخابات میں ہار گئیں اور نصر اللہ خان کو بھی قومی اسمبلی انتخابات میں شکست ہوئی لیکن پارلیمانی نظام کی بحالی کے لیے جمہوری تحریک زور پکڑتی چلی گئی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان نے شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات پیش کرنے کے بعد عوامی لیگ کا الگ دھڑا قائم کر لیا تھا لیکن ایوب خان کے فوجی راج کو ختم کرنے کے لیے انھوں نے شیخ مجیب کی جماعت سمیت تمام جماعتوں کو جمہوری مجلس عمل (ڈیک) کے اتحاد میں جمع کر لیا جس کی عوامی مہم کے دباؤ میں ایوب خان نے سیاسی رہنماؤں سے بات چیت کے لیے گول میز کانفرنس منعقد کی۔ آخر کار 1969ء میں انہوں نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان جمہوری پارٹی بنالی [86] – نصر اللہ خان نے ایوب خان کے خلاف سیاسی اتحاد بنانے کا جو کام شروع کیا وہ مرتے دم تک ان کی پہچان بن گیا اور وہ متضاد سیاسی جماعتوں کو ایک مرکز پر اکٹھا کرنے کے ماہر بن گئے ۔ ان کے حامی انھیں بابائے جمہوریت کہتے تھے اور ان کے مخالفین کہتے تھے کہ وہ جمہوریت کے دور میں مارشل لگوانے کے لیے اور مارشل لا کے دور میں جمہوریت کی بحالی کے لیے کام کرتے ہیں۔ 1970ء کے انتخابات میں نوابزادہ نصر اللہ خان نے غلام مصطفے کھر کے ہاتھوں دو حلقوں میں شکست کھائی لیکن جیسے ہی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت بنی انھوں نے پیر پگاڑا کی سر براہی میں حزب مخالف کو متحد کر لیا اور 1977ء کے انتخابات سے پہلے پیپلز پارٹی اور بھٹو کی زبردست مقبولیت کے سامنے نو جماعتوں کا قومی اتحاد تشکیل دے دیا۔ قومی اتحاد کی انتخابات میں دھاندلیوں کے الزام کے خلاف تحریک کا نتیجہ جنرل ضیا کے مارشل لا کی صورت میں نکلا تو چند سال بعد میں نوابزادہ نصر اللہ خان نے پیپلز پارٹی کو اس کے زبردست مخالفین کے ساتھ بٹھا کر ضیا الحق حکومت کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت (ایم آرڈی) کی بنیاد رکھ دی جس نے جنرل ضیا الحق کے خلاف 1983ء میں زبردست احتجاجی تحریک چلا کر فوجی رہنما کو ریفرنڈم کرانے اور 1985ء کے انتخابات کرانے پر مجبور کر دیا [87]۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کی اتحادی سیاست جنرل ضیا کی موت کے بعد شروع ہونے والے جمہوری ادوار میں بھی چلتی رہی۔ انھوں نے پہلے بے نظیر بھٹو کی 1988 ء کے انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کو گرانے کے لیے کمبائنڈ اپوزیشن یا کوپ کے نام سے حزب مخالف کی جماعتوں کو اکٹھا کیا اور جب بے نظیر کی حکومت کو صدر اسحاق خان نے رخصت کر دیا تو 1990 ء کے انتخابات کے بعد بننے والی نواز شریف کی حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی سے مل کر آل پارٹیز کانفرنس کی بنیا درکھ دی۔ 1993ء میں بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت وہ واحد حکومت تھی جس میں نوابزادہ نصر اللہ خان نے شمولیت اختیار کی اور حزب اختلاف سے دور رہے۔ وہ اس دور میں قومی کشمیر کمیٹی کے چیئر مین بنے۔ جب بے نظیر بھٹو کی حکومت کو صدر فاروق لغاری نے رخصت کیا تو نصر اللہ خان ایک بار پھر نئے انتخابات کے بعد 1997ء میں بننے والی نواز شریف حکومت کے خلاف سرگرم ہو گئے ۔ بارہ اکتوبر 1999ء کو جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد نصر اللہ خان کا بڑا کارنامہ دودانگی حریفوں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو بحالی جمہوریت کی تحریک (اے آرڈی) میں اکٹھا کرنا تھا [88]۔ 2002ء میں بی اے کی شرط کی وجہ سے وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے ۔ آپ 26 ستمبر 2003 ء کو اسلام آباد میں اللہ کو پیارے ہوئے ۔ انھیں انکے آبائی قصبے خانگڑھ میں دفن کیا گیا۔ نصر اللہ خان نے اپنے لیے حزب اختلاف کے رہنما کا کردار چنا اور پچاس سال سے زیادہ اسے بڑی خوبی سے نبھایا۔ وہ بہت شائستہ اور صحیح گفتگو کرتے تھے۔ ان کی آواز بھاری اور دل آویز تھی۔ وہ اپنی تقریروں میں برمحل شعروں کا استعمال کرتے اور ان کے منہ سے اپنے بدترین مخالفین کے بارے میں بھی کوئی ناشائستہ بات نہیں سنی گئی ۔ نصر اللہ خان لاہور میں ریلوے اسٹیشن کے پاس نکلسن روڈ کے ایک سادہ سے کرائے کے مکان میں رہتے تھے جو ان کی جماعت کا صدر دفتر بھی تھا اور جس کے چھوٹے سے کمرے میں پاکستان کے بڑے بڑے سیاست دان سیاسی معاملات پر ان سے مشورے اور بات چیت کے لیے آتے ۔ ان کے انداز تکلم میں احراری لیڈروں کی سی شان بان تھی اور معلومات کا جو خزانہ خدا نے ان کو بخشا تھا وہ اسے زندگی بھر لٹاتے رہے ۔ وہ سیاست میں شرافت اور وضعداری کا اعلیٰ نمونہ تھے ۔ اُن کی کالے پھندنے والی ترک ٹوپی انہیں منفرد اور ممتاز بنادیتی تھی۔ یہ ٹوپی ترکوں اور خلافت عثمانیہ کے ساتھ اُن کے دلی تعلق کا اظہار تھی ۔ نواب زادہ نہ صرف ایک بڑے سیاستدان تھے بلکہ ایک بڑے انسان بھی تھے ۔ وہ اپنی سادگی حلیمی اور خلوص سے سب کو اپنا گرویدہ بنالیتے تھے۔
ان کا دستر خوان وسیع تھا اور کھانے کے وقت ہر مہمان ان کے کمرے میں ان کے ساتھ کھانا تناول کرتا تھا۔ ٹیلی وژن پر کرکٹ میچ دیکھنا، خبر میں سننا اور اخبارات پڑھنا ان کے پسندیدہ مشاغل تھے۔ وہ شاعری بھی کرتے تھے اور اردو زبان کے قادر الکلام شاعر تھے ۔ شاعری میں وہ ناصر مخلص کرتے تھے ۔

میاں مظفر مہدی ہاشمی قریشی ۔۔۔ دانشور، سیاح اور سیاستدان

تاریخی قصبہ ٹھٹھہ قریشی کے قریشی خاندان کا بڑا نام ہے اس خاندان کے افراد نے نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر اپنی اہلبیت ، قابلیت اور لیاقت کا لوہا منوایا ہے اس خاندان میں کئی نامی گرامی افراد پیدا ہوئے جنھوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں سرزمین مظفر گڑھ کا نام روشن کیا۔ یہ خاندان ایک صدی سے زیادہ عرصے سے سیاست میں سرگرم عمل ہے۔ میاں فضل کریم قریشی، مظفر مہدی ہاشمی قریشی، میاں احسان کریم قریشی، میاں امتیاز علی قریشی ، عابد علیم قریشی اور میاں محمد عمران قریشی سمیت اس خاندان کے کئی افراد سیاست میں سرگرم عمل رہے ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ میاں مظفر مہدی ہاشمی قریشی منفرد مقام کے حامل ہیں۔ میاں مظفر مہدی ہاشمی ضلع مظفر گڑھ کے دانشور سیاستدان تھے ۔ سابق صدر بھارت ڈاکٹر ذاکر حسین ان کے استاد تھے ۔ پاکستان سوسائٹی لندن کے صدر رہے [98]۔ ٹھٹھہ قریشی کا یہ چشم و چراغ اور مظفر گڑھ کی سیاست کا روشن ستارہ 1928ء کو خدا بخش ہاشمی قریشی کے ہاں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم مظفر گڑھ سے حاصل کی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے میٹرک کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے تاریخ کے مضمون میں ماسٹر کیا۔ لندن یونیورسٹی سے بی اے آنرز ہسٹری میں کیا۔ آپ کچھ عرصہ پنجاب یونیورسٹی میں بیچرر رہے [99]-60 کی دہائی میں سیاست میں فعال ہوئے اور 1965ء میں مظفر گڑھ سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ آپ ایک عظیم محب وطن پاکستانی اور نظریہ پاکستان کے عظیم داعی تھے۔ انہوں نے نظریہ پاکستان کے حو الے سے ایک شاندار کتاب بھی تحریر کی جو سن 19 میں شائع ہوئی۔ وہ اپنی کتاب تاریخ نظریہ پاکستان کے بیک ٹائٹل پر اپنے بارے میں خود یوں رقم طراز ہیں [100]۔ میں از خود بھی بھی علم کی تلاش میں سرگرداں نہیں رہا۔ حالات کے چھیڑے مجھے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے رہے۔ پنجند کے نزدیک چناب کے کنارے تھصہ قریشی سے اٹھا کر مجھے جمنا کے کنارے دہلی کھڑا کر دیا گیا۔ جامعہ اسلامیہ دہلی میں 6 برس قیام کے بعد مجھے میٹرک کی سند ملی گئی ۔ آزادی کے حصول کے بعد میں بلاد ہند سے بلاد پاکستان کی طرف منتقل ہو گیا۔ یہاں کسی بھی علمی ادارے میں میرا دل نہ لگا اور کچھ عرصہ محض آوارہ گردی میں گزرا۔ بالآخر راوی کے کنارے گورنمنٹ کالج کے نیو ہوٹل میں مجھے ایک کمر امل گیا۔ موروثی طور پر تاریخ کے علم سے مجھے جو تھوڑی بہت دلچسپی تھی اس کی بنا پر مجھے ایم اے تاریخ کی سند مل گئی ۔ پنجاب کے محکمہ تعلیم میں ابھی میں نے ایک برس بھی پورا نہیں کیا تھا کہ اپنے آپ کو دریائے ٹیمز کے کنارے کھڑا پایا ۔ لندن یونیورسٹی دو برس کے بعد مجھے بی اے آنرز کی سند کا حقدار قرار دیدیا۔ یہ سب کچھ بس ہو گیا۔ اس دوران میں بھی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا ۔ نصابی سرگرمیوں سے زیادہ مجھے غیر نصابی معاملات میں دلچسپی رہی۔ کتاب سے زیادہ مجھے کسی بڑی شخصیت کی محبت لطف دیتی تھی ۔ میرے والد صاحب خدا بخش قریشی اسدی الہاشمی بذات خود ایک عظیم انسان تھے۔ انہوں نے میری ابتدائی تربیت کی اور میری تعلیم کی خاطر کوئی کسر نہ چھوڑی۔ وہ از خود نہ تو کبھی شہرت کے طالب رہے اور نہ انہیں کی ۔ لیکن پنجند سے لیکر جھنگ تک دریائے چناب کے کنارے کا شاید ہی کوئی خانوادہ ہو جو ان کے کردار کا معترف نہ ہو ۔ ان کے بعد میرے اساتذہ نے مجھے وہ کچھ دیا جو کتابیں انہیں دے سکتی تھیں۔ لیکن تعلیم کے دوران اور تعلیم کے بعد میرا بڑا مشغلہ سیاحت تھا۔ تمام مغربی یورپ، شمالی امریکہ، بھارت، بنگلہ دیش اور چین میں خوب گھوما اور یادداشتیں لکھیں ۔ ایک دفعہ مجھے قومی اسمبلی کی رکنیت سے بھی نواز دیا۔ جس کی بے لطفی سے میں نے چار برس تک لطف اٹھایا۔ 1971ء کی جنگ کے دوران میں نے رضا کارانہ طور پر مجاہد فورس میں شمولیت اختیار کی اور بطور کپتان فوجی تربیت حاصل کی ۔ ” رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھے۔

میاں مظفر مہدی ہاشمی دانشور لکھاری اور سیاستدان ہونے کیساتھ ساتھ ایک سیاح بھی تھے ۔ ساری زندگی سپر د سیاحت کرتے رہے۔ انہوں نے بھارت ، امریکہ، برطانیہ، فرانس سکیم ، ہالینڈ، ڈنمارک، سویڈن، ناروے جیسے ملکوں کا سفر کیا۔ ان ملکوں کے سفر کی یادداشتوں پر ایک کتاب دیش پردیش، تحریر کی جو سن 19 میں شائع ہوئی۔ وہ اس کتاب کے پیش لفظ میں خود یوں تحریر کرتے ہیں۔ ” میں نے دنیا کے تقریباً 15 ممالک کی سیاحت کی ہے جبکہ اپنے ملک میں خوب گھوما پھرا ہوں ، وہ اپنے سفرنامے دیش پردیش کے بارے میں یوں لکھتے ہیں ۔ یوں تو اُردو زبان میں متعد د سفرنامے لکھے گئے ہیں لیکن میرے آئیڈیل صرف دو مقدی بشاری اور علامہ مسعودی ہیں۔ میری زیادہ تر سیاحت تعلیم کے دوران ہوئی ، لندن یونیورسٹی میں جب بی اے آنرز کا طالبعلم تھا تو چھٹیوں میں تنہا نکل جاتا تھا۔ یورپ کے لوگوں سے ملتا، ان کے خیالات سنتا شہروں کو دیکھتا ، وہاں کے قصبوں میں قیام کرتا۔ وہاں کی خوبصورت زمین کے مناظر سے لطف اندوز ہوتا اور اسی طرح ایک ملک سے دوسرے ملک چلا جاتا۔ بھی بسوں میں بھی دوست کیسا تھ اسکی ذاتی کار میں [101] مظفر مہدی 1965ء کے بعد بھی سیاست میں سرگرم رہے۔ 1970ء کے الیکشن میں حصہ لیا مگر کامیاب نہ ہو سکے ۔ 2010ء میں آپ کا انتقال ہوا ۔ آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ انکے ایک بیٹے میاں افراسیاب مہدی ہاشمی قریشی سفیر پاکستان رہنے والے سرزمین مظفر گڑھ کے اولین فرزند ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com