سرزمین مظفر گڑھ کے نامور علماء اور مشائخ
حضرت پیر گانمن شاہ بخاری
آپ کا اصل نام غلام رسول شاہ ہے ۔ آپ شاعری میں گانمن تخلص کرتے تھے جس وجہ سے آپ گانمن شاہ کے نام سے مشہور ہوئے ۔ آپ 1924 کو سید غلام حسن شاہ کے گھر موضع لدھا لنگر بستی سیداں تحصیل کوٹ ادو میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا سلسلہ نسب امام باقر سے جاملتا ہے آپ کے جد امجد حضرت شاہ عیسی کا مزار بلوٹ شریف ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع ہے ۔ حضرت گانمن شاہ نے دینی تعلیم حضرت مولانا اللہ بخش ( جہانیاں ) اور حضرت مولانا غلام محمد شاہ ( ڈیرہ غاریخاں) سے حاصل کی۔ بچپن سے مذہبی شاعری کا شوق تھا۔ شاعری میں استاد مولانا کریم بخش پر دیسی سے اصلاح لیتے تھے تحریک آزادی میں آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ آپ شاعر ادیب مبلغ شعلہ بیاں مقرر ، سیاستدان اور نعت خواں تھے ۔ پورے سرائیکی وسیب میں آپ کی شعلہ بیانی کے چرچے تھے ۔ آپ 45 سال تک وعظ و تبلیغ کے شعبے سے وابستہ رہے ۔ 1970ء کے انتخابات میں ملک غلام مصطفے کھر کے مقابلے میں الیکشن میں بھی حصہ لیا ۔ سیاسی طور پر آپ جمعیت العلمائے پاکستان سے وابستہ تھے ۔ مولانا حامد علی خاں اور حضرت احمد سعید شاہ کاظمی کے ساتھ ملکر کام کیا ۔ حضرت احمد سعید شاہ کاظمی آپ کا بڑا احترام کرتے-[42]
آپ خدا ترس ، دریا دل بھی اور مہمان نواز تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کا ڈیرہ ہمہ وقت آبادرہتا تھا۔ آپ بے آسرا طلبہ کی مالی معاونت کرتے تھے ۔ آپ نے تین شادیاں کیں مگر اولاد نہ ہوئی آپ نے ملک باغ علی پتل کے پوتے کو اپنا بیٹا بنا لیا اور اسکی پرورش اور تعلیم و تربیت کی جو آج مولانا پیر اللہ بخش کے نام سے آپ کے مزار کا سجادہ نشین اور مدرسے اور مسجد کا منتظم ہے۔ آپ جنوری 1989ء میں اللہ کو پیارے ہوئے ۔ کوٹ ادور میلوے اسٹیشن سے شمال مغرب میں محلہ پیر گانمن شاہ میں آپ کا مزار واقع ہے ہر سال ماہ شوال میں آپ کا دوروزہ عرس منعقد ہوتا ہے ۔ شاعری میں نعت گوئی آپ کی پسندیدہ صنف تھی۔ مادری زبان سرائیکی میں شاعری کرتے تھے۔ آپ کی وفات کے بعد کالمی کتب خانہ اندرون بوہڑ گیٹ ملتان نے آپ کے نعتیہ کلام پر مشتمل دیوان بخاری“ شائع کیا۔
مولا نا لقمان علی پوری۔ رفیق امیر شریعت [43]
مولا نا لقمان علی پوری سیاست اور دعوت کے میدان میں بڑا نام ہے ۔ آپ ضلع مظفر گڑھ کے اولین علما میں شامل ہیں جو سیاست کے میدان میں آئے اور جاگیرداروں کا مقابلہ کرتے رہے ۔ آپ حق اور بیچ کی آواز تھے ۔ مولا نا لقمان علی پوری 1929ء کو علی پور میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد ملک محمد رمضان معروف صوفی بزرگ اور عالم دین پیر فضل علی شاہ آف مسکین پور کے مرید خاص تھے۔ پیر فضل علی شاہ نے آپ کا نام رکھا اور آپ کو گھٹی دی ۔ اس گھٹی کی تاثیر تھی کہ بچپن سے آپ کا لگاؤ دینی علوم کی طرف تھا۔ ابتدائی تعلیم معروف تاریخی مدرسے کو ٹلہ تم علی شاہ سے حاصل کی ۔ آپ نے مولانا الہی بخش ، حافظ حبیب اللہ آف یا کیوالی اور مولا نا نظام الدین جیسے علما سے کسب فیض حاصل کیا ۔ دورہ حدیث اور مزید تعلیم آپ نے خان پور میں مولانا عبد اللہ درخواستی سے حاصل کی ۔ 1949ء میں فارغ التحصیل ہو کر ختم نبوت کے پلیٹ فارم سے دینی وسیاسی خدمت کا آغاز کیا۔ آپ نے امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری کی صحبت میں وقت گزارا اسی لئے رفیق امیر شریعت کے لقب سے مشہور ہوئے ۔ آپ سیاست کے میدان میں بھی سرگرم عمل رہے اور آپ کا شمار جمعیت علمائے اسلام کے بڑے رہنماؤں میں ہوتا تھا ۔ آپ نے ختم نبوت کی تحریک اور بھٹو دور میں تحریک مصطفے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ ضیاء کے مارشل میں نفاذ شریعت کیلئے سرگرم عمل رہے۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ آپ پر 22 مقدمات قائم کئے گئے مگر حق گوئی اور بے باکی سے باز نہ آئے 1965 ء سے 1990 ء تک الیکشن میں حصہ لیا 1977 ء کے انتخابات میں علی پور کے قومی اسمبلی کے حلقے سے آپ قومی اتحاد کے امیدوار تھے ۔ آپ جیت گئے تھے مگر آپ کو زبردستی ہرا دیا گیا ۔ 1985 ء کے غیر جماعتی الیکشن میں آپ نے حصہ نہیں لیا۔ ساری زندگی دین کی سربلندی اور ختم نبوت کی تحریک میں گزار دی۔ وفات سے ایک دن پہلے علی پور میں ختم نبوت کے جلسے میں شرکت کی ۔ 16 نومبر 2000ء میں اللہ کو پیارے ہوئے ۔ آپ کی نماز جنازہ میاں مسعود احمد دین پوری نے پڑھائی۔ وصیت کے مطابق آپ کو دین پور شریف میں دفن کیا گیا۔ آپ اعلیٰ پایے کے مقرر اور خوش الحان قاری تھے آپ کے انداز خطابت میں پیر عطا اللہ شاہ بخاری کی جھلک تھی ۔ اب آپ کے نواسے حافظ عمر خان گوپانگ سیاست اور دعوت دین کے میدان میں آپ کے بچے پیروکار ہیں ۔
مولانا عبد القادر آزاد ۔۔ خطیب شاہی مسجد لاہور
1939ء میں کو ہا نہ ضلع حصار میں حضرت سید سعید احمد کے ہاں ولادت کے بعد آپ کا نام عبد القادر آزاد تجویز کیا گیا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم حضرت مولانا سید سعید احمد سے حاصل کی ۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے مدرسہ قاسم العلوم ملتان سے سند فراغت حاصل کی۔ مولانا ڈاکٹر سید محمد عبد القادر آزاد زندگی بھر علم کے حصول میں منہمک رہے۔ آپکے والد مرکزی مسجد مین بازار مظفر گڑھ میں خطیب رہے ۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے خاندان نے مظفر گڑھ میں رہائش ختیار کی ۔ آپ نے مدرسہ احیاء العلوم عید گاہ مظفر گڑھ سے بھی تعلیم حاصل کی ۔ میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول مظفر گڑھ سے پاس کیا ۔ آپ نے حکیم الامت مجدد ملت مولانا اشرف علی تھانوی بحیثیت مفسر قرآن میں پی ایچ ڈی کر کے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ ریاست بہاولپور میں آپ نے مرکزی درس گاہ اسلامی مشن سے تدریسی خدمات کی ابتداء کی۔ آپ اس ادارہ کے مہتم اور پرنسپل کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔ 1970ء میں آپ لاہور آئے اور بادشاہی مسجد کی خطابت کے فرائض آپ کے سپرد کئے گئے ۔ انہوں نے دین کی خدمت کیلئے اعلیٰ طبقوں اور جدید تعلیم یافتہ حضرات میں تبلیغ و اصلاح دین کو اپنا نصب العین بنایا۔ مولانا آزاد ایک محنتی اور انتھک انسان تھے ۔ مولانا آزاد سادگی نفاست اور پاکیزگی کا مزاج رکھتے تھے [44]۔ 1974ء میں جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سربراہی کانفرنس بلائی تو بادشاہی مسجد میں عالم اسلام کے سر برہان مملکت کی امامت کی سعادت آپ کو حاصل ہوئی ۔ شاہ فیصل مرحوم کی طرف سے آپ کو یہ اعزاز حاصل رہا آپ ہر سال فریضہ حج کیلئے ساتھیوں سمیت حجاز مقدس حاضری دیتے ۔ آپ نے تحفظ ناموس رسالت کی ہر تحریک میں حصہ لیا۔ 1977ء میں جب تحریک نظام مصطفی ملی لی کر لی ولانا آزاد نے سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور محراب و منبر سے حق کی آواز کو بلند کر کے محبت رسول اللہ کا پیغام دیا ۔ انہوں نے امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری مولانا مفتی محمود اور مولا نا عبد اللہ درخواستی اور مولانا غلام غوث ہزاروی سے سیاسی اور مولانا خان محمد کندیاں شریف اور اپنے والد گرامی حضرت پیر سید سعید احمد سے دینی و روحانی فیض حاصل کیا۔ مولانا آزاد دنیا کے اکثر ممالک میں اشاعت اسلام کیلئے تشریف لے جاتے رہے جن میں امریکہ، برطانیہ، ناروے، ڈنمارک، سویڈن، انڈونیشیاء، ملیشیا، سعودی عرب، کویت، عراق، ایران، سوڈان ، برونائی، دار السلام ،مصر، لیبیا چاڈ وغیرہ جیسے ممالک شامل ہیں ۔ 2013ء میں آپ کا انتقال ہوا اور آپ کو لاہور میں دفن کیا گیا [45]۔
مولانا خلیل الرحمن بھٹی آف را ؤ والا
مظفر گڑھ میں مسلک اہلحدیث کے بانی مولانا خلیل الرحمن بھٹی آف راؤ والا ہیں جنھوں نے تقریباً ایک صدی قبل راؤ والا گاؤں میں دینی مدرسے کی بنیاد رکھی اور لوگوں کے عقائد کی درستی کے عظیم کام کو سر انجام دیا ۔ جب وہ اس علاقے میں آئے تو انھوں نے دیکھا کہ مسلمان صرف نام کے مسلمان ہیں اسلامی تعلیمات اور اسلامی احکامات سے کوسوں دور قبر پرستی اور بدعات میں پڑے ہوئے ہیں ۔ مولانا خلیل الرحمن بھٹی لگ بھگ 1830 ء میں مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور کے گاؤں اگو کی بھٹیاں میں خدا بخش بھٹی کے گھر پیدا ہوئے ۔ جب بڑے ہوئے تو والد نے نزدیکی گاؤں لکھو کی میں معروف دینی گھرانے کے بزرگ مولانامحمد لکھوی کے مدرسے میں داخل کرادیا۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ محمد یہ کھوکی سے حاصل کی ۔ بعد میں برصغیر کے نامور علما سے کسب فیض حاصل کیا ۔ آپ نے علم نحو وعربی علوم مولوی قمر الدین اور حافظ نورمحمد مراد آبادی نے حاصل کئے۔ علم منطق و فلسفہ کی تعلیم مولا نا عبد العزیز امروہی ، سید امیر احمد بن امیر حسن سہسوانی اور مولوی عبدالکریم لاہوری سے حاصل کی۔ آپ نے فقہ اور حدیث کے علوم کی تحصیل مولانا اکبر علی محدث سے رامپور میں حاصل کی۔ آپ فقہ کے چار آئمہ میں سے کسی کی تقلید کے قائل نہ تھے تحصیل علوم کے بعد دین کی دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں ریاست بہاولپور اور سرائیکی وسیب کے سفر کا موقع ملا تو یہاں مسلمانوں کی حالت زار اور دین سے دوری کو شدت سے محسوس کیا اور اہل و عیال سمیت فیروز پور کے گاؤں اگو کی بھٹیاں سے ضلع ملتان کے نواحی قصبے شجاع آباد کے گاؤں ( آج یہ گاؤں آپ کے نام سے خلیل والا کہلاتا ہے ) میں منتقل ہوئے یہاں مسجد و مدرسہ کی بنیا د رکھی اور دین کی تبلیغ اور خدمت کا کام شروع کیا۔ آہستہ آہستہ لوگ آپ کی طرف راغب ہونا شروع ہوئے ۔ آپ نے اپنے بیٹوں عبدالرحمن، عبد اللہ اور عبدالحق کو بھی دین کی تعلیم دی اور انھیں دین کی خدمت کیلئے مختلف علاقوں میں روانہ کیا [46]۔ مولا نا عبداللہ کو دریائے چناب کے گاؤں قوم والا کھا بھی میں بھیجا جنھوں نے وہاں مدرسے کی بنیا د رکھی ۔ آپ نے دعوت و تبلیغ کیلئے دریائے چناب کے پار روہیلانوالی کے نواحی علاقوں میں کام کرنے کا فیصلہ کیا اور بندہ اسحاق کے قریب کھوہ عاقل والا تشریف لے گئے جہاں کھا بھی قوم کے افراد اور مولا نا عبداللہ جاوید کے پڑدادا نے ان کی میزبانی کی ۔ (ان کی نسبت سے اس گاؤں کا نام اب بستی مولوی ہے ) ۔ بعد میں آپ نے کھوہ مبارک والا پر مسجد اور مدرسے کی بنیاد رکھی اور اپنے بیٹے مولانا عبدالرحمن کو یہاں مقرر کیا ۔ آپ خود یہاں کئی سال مقیم رہے اور علاقے کے لوگوں کو دین کی طرف راغب کرتے رہے ۔ آپ کی کاوشوں سے اس علاقے میں بہت سارے لوگوں کے عقائد کی درستی ہوئی اور انھوں نے قبر پرستی چھوڑ دی۔ راؤ والا میں قائم آپ کے مدرسے میں دور دراز علاقوں سے طلبا پڑھنے آتے ۔ آپ کے دینی مقام مرتبے کی وجہ سے علاقے کے کبھی زمیندار آپ کا بے حد احترام کرتے تھے۔ خلیل والا کے مدرسے میں آپ کے شاگردوں میں حضرت مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی بھی شامل تھے جو عظیم عالم دین سید بدیع الدین شاہ راشدی پیر آف جھنڈ ا سندھ کے استاد تھے۔ آپ عالم با عمل شخصیت تھے۔ آپ انتہائی متقی اور پرہیز گار تھے ساری زندگی دین کی خدمت میں گزار دی [47]۔ مولا نا عبد الحق کی باشی (احمد پور شرقیہ ) آپ کے شاگرد تھے جو مکہ معظمہ میں مسجد بیت الحرام میں استاد کے فرائض سر انجام دیتے رہے ۔ دیگر شاگردوں میں مولانا عبد التواب ملتانی ، مولانا عبداللہ کلر والی مولانا احمد دین (بھٹ والا ) اور مولا نا عبد اللہ چنگوانی (ڈیرہ غازی خان ) شامل ہیں۔ آپ اور آپ کے بیٹوں کی قائم کردہ دینی درسگاہوں سے ہزاروں تشنگان علم نے علم کی پیاس بجھائی۔ آپ کے بیٹوں میں مولانا عبدالرحمن کو فن خطابت اور مولا نا عبد اللہ کوفن مناظرہ میں کمال حاصل تھا۔ تحصیل ماتلی ضلع بدین سے مولانا صالح محمد 28 سال تک آپ کی صحبت میں رہے۔ انھیں اپنی بیٹی جو عالمہ وحافظ تھی کا رشتہ بھی دیا۔ وہ بعد میں سندھ تشریف لے گئے اور تا عمر دین کی تبلیغ میں مصروف رہے [48]۔
آپ کا انتقال 1920ء میں ہوا۔ آپ کی آخری آرام گاہ خلیل والا تحصیل شجاع آباد (ملتان) میں واقع ہے۔ آپ کے بعد بھی آپ کے آل اولاد نے دین کی تبلیغ و دعوت کا کام جاری رکھا۔ آج آپ کے پڑ پوتے پروفیسر مولانا محمد ابراہیم بھٹی محدث اور پروفیسر ضیا الحق بھٹی کا شمار ملک کے نامور علمائے اہلحدیث میں ہوتا ہے ۔ پروفیسر ابراہیم بھٹی اور پر فیسر ضیا الحق بھٹی نے دینی تعلیم مشہور مدرسہ جامعہ ستاریہ اسلامیہ کراچی سے حاصل کی ۔ جامعہ کراچی سے ایم اے اسلامیات و عربی کی ڈگری حاصل کی۔ محکمہ تعلیم سندھ میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔ پورے ملک سمیت سندھ میں خاص طور پر دین کی دعوت و تبلیغ کا بھی فریضہ سر انجام دیتے رہے ہیں۔ سید بدیع الدین شاہ راشدی ان کے اساتذہ اور ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے سید بدیع الدین شاہ راشدی اسلامک یونیورسٹی (کراچی) قائم کی ہے۔ جہاں سندھ سمیت ملک بھر کے طلبا تحصیل علم میں مصروف ہیں [49]۔
پیر فضل علی شاہ آف مسکین پور شریف
برصغیر پاک و ہند کی عظیم روحانی خانقاہ سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ فضلیہ مسکین پور شریف تحصیل جتوئی میں واقع ہے۔ اسکی بنیاد ایک صدی قبل روحانیت کی تعلیم و تربیت دینے والی معروف شخصیت صوفی بزرگ حضرت خواجہ پیر سید محمد فضل علی شاہ نے رکھی تھی آپ کا خاندان عباسی یلغار میں عرب سے ہجرت کر کے سندھ میں قیام پذیر رہا۔ کچھ عرصہ بعد خاندان کے چند افراد ضلع میانوالی کالا باغ چلے گئے وہاں ایک نئے گاوں کو آباد کیا اس گاؤں کا نام اس قوم کے پہلے فرد و اؤ د عباسی کے نام سے داؤدخیل ہو گیا۔ حضرت پیر فضل علی شاہ نے ابتدائی دینی تعلیم وہاں اپنے علاقہ سے لیکر سہارن پور میں شیخ الحدیث مولانا احد علی سہارنپوری سے بخاری شریف پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔ آپکے ہم درس ساتھی مولانامحمد قاسم نانوتوی اور سرسید احمد خان تھے بعد میں آپ نے راہ سلوک میں سلسلہ نقشبندیہ کی نامور علمی شخصیت حضرت مولا نا خواجہ عثمان دامانی سے نسبت قائم کی۔ انکے بعد دندن شاہ بلاول ضلع تلہ گنگ میں حضرت خواجہ لعل شاہ کے بیعت ہوئے۔ انکے وصال کے بعد حضرت خواجہ محمد سراج الدین سے خرقہ خلافت حاصل کیا۔ آپ حضرت پیر قریشی کے نام سے مشہور ہو گئے ۔ اپنے خاندان کے افراد سے مشورہ کیا کہ انگریز کے مظالم بڑھتے جارہے ہیں اور اس سلسلے میں کئی مرتبہ انگریز نے آپکوستایا بھی تھا۔ ارادہ ظاہر فرمایا کہ واپس اپنے وطن عرب ہجرت کر جاتے ہیں ۔ لہذا ایک بڑی کشتی خریدی گئی اور دریا سندھ کیونکہ کالا باغ سے گزرتا ہے۔ سفر کا آغاز کیا اور آپ کے ساتھ 8 خاندان روانہ ہوئے ۔ دوران سفر ایک رات پڑاؤ کے لیے جتوئی کے قریب رکے رات کو قیام کے بعد صبح کو کشتی نہ ملی تو معلوم ہوا کہ در حقیقت آپکی کشتی کو رات کی تاریکی میں غزلانی قوم کے کسی فرد نے چوری کر لیا ہے۔ زاد راہ ختم ہونے کے بعد آپ نے ادھر ہی مستقل قیام کا فیصلہ کیا۔ قریب میں موجود روحانی پیشو محترم سید کرم حسین شاہ آف کوٹلہ رحم علی شاہ کو کسی نے اطلاع کی کہ ایک مسافر خاندان کا نقصان ہوا ہے اور اس خاندان کا ہر فرد دینی تعلیم سے آراستہ ہے تو انہوں کمال محبت میں اپنے ذاتی رقبہ میں سے 150 ایکٹر زمین اور اشیاء ضرور یہ بھی دیں اور مستقل یہیں قیام کا مشورہ دیا۔ بعد میں آپ نے آباد کاری کے ذریعے حکومت سے رقبہ حاصل کیا اور اس جگہ کا نام مسکین پور رکھا۔ بس یہی وہ مقام ہے جہاں آپ نے روحانیت کا درس شروع کیا۔ جوق در جوق لوگ آپ کے قافلے میں شامل ہوتے گئے۔ آپ نے کئی تبلیغی دورے بھی کئے ۔ دہلی میں مسکین پور کے نام سے خانقاہ قائم کی جو آج تک موجود ہے۔ آپ کا وصال یکم رمضان المبارک 1354 ہجری 1934 عیسوی کو ہوا ۔ آپکا مزار مسکین پور شریف میں مرجع خلائق ہے۔ آپ کی وصیت تھی کہ میری قبر بنا کر نشان مٹادینا اور میرے لنگر کو کبھی بند نہ کرنا۔ آج دنیا کے کئی ممالک سعودی عرب ، ترکی، عراق، شام ایران افغانستان، ترکمانستان، سمرقند، بخاره امریکہ، کنیڈا، برطانیہ، انڈونیشیا، ملائشیاء، نجی اور آسٹریلیا میں آپ کے سلسلہ سے منسلک خانقاہیں قائم ہیں اور مخلوق خدا فیض یاب ہو رہی ہے [50]۔ آپ کی مکمل سوانح حیات اور فرمودات پر معنی کافی کتب موجود ہیں۔ جس میں مقامات فضلیہ ، ارشادات فضلیہ، ملفوظات فضلیہ اور انوار فضلیہ شامل ہیں۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے نواسہ حضرت پیر سید کلیم اللہ شاہ جانشین خانقاہ وسلسلہ بنے ، آپ نے دینی تعلیم حاصل کر کے روحانیت کے بحر بیکراں میں قدم رکھا اور سب سے پہلے اپنے نانا جان سے سے فیض حاصل کیا پھر ضلع لیہ میں واقع سواگ شریف کے معروف عظیم روحانی پیشوا حضرت خواجہ غلام حسن سواگ اور واں بھچراں سے حضرت مولانا حسین علی سے علم حاصل کیا۔ شجاع آباد سے شیخ طریقت مولانامحمد عبداللہ بہلوی اور مولانا عبد الغفور العباس مدفون بقیع نے بھی خرقہ خلافت سے نوازا ۔ آپ کے ساتھ بھی ہزاروں لوگوں نے نسبت جوڑی جس میں خانگڑھ کے نواب زادے بھی شامل ہیں آپ نے اندرون ملک اور بیرون ملک کئی تبلیغی دورے کئے ۔ آپ کا وصال بھی بر موقع سالانہ اجتماع 23 مارچ 1988ء کو ہوا۔ آپ کے بعد آپکی وصیت کے مطابق آپکے صاحبزادہ پیر سیدمحمد شاہ کو خانقاہ نقشبندیہ مجددیہ فضلیہ کا مندنشین بنایا گیا اور برموقع سالانہ پروگرام آپ کو خانقاہ اور سلسلہ سے مشائخ و مریدین نے اپنا امیر منتخب کیا جو تا حال ہیں۔ موجودہ جانشین نے اپنی ابتدئی دینی تعلیم اپنے ہی ادارے سے حاصل کی اور تکمیل اپنے والد کی تمنا کے مطابق مدینہ منورہ میں اسلامیہ یونیورسٹی سے 4 سال لگا کر کی ۔
علامہ رسول بخش سعیدی آف برمنگھم انگلینڈ
علامہ رسول بخش سعیدی یکم جنوری 1964ء کو تحصیل علی پور کے نواحی گاؤں باقر شاہ شمالی میں میاں فیض بخش کے گھر پیدا ہوئے ۔ ان کے اجداد کا پیشہ کاشت کاری تھا۔ آپ نے پرائمری کی تعلیم گاؤں کے سکول سے حاصل کی ۔ علی پور کے مدرسہ سے حفظ قرآن کیا ۔ درس نظامی عربی اور فارسی کی تعلیم کے ابتدائی برسوں میں مولانا عبدالغفور غوثوی اور مولانا نیاز احمد فریدی آپ کے اساتذہ تھے۔ اس کے بعد دار العلوم عید گاہ کبیر والا ضلع خانیوال میں چھ برس یک درس نظامی کی تعلیم حاصل کی۔ لاہور میں مدرسہ جامعہ نظامیہ سے دورہ حدیث اور دیگر علوم کی تکمیل کی۔ حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی سے حدیث کی مزید تعلیم حاصل کی ۔ اس دوران جدید عصری تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا ۔ میٹرک ، ایف اے اور گریجوایشن کرنے کے بعد بین الاقوامی اسلامی یو نیورسٹی اسلام آباد میں داخلہ لیا اور وہاں سے ایم اے عربی کے امتحان میں یو نیورسٹی کو ٹاپ کیا [51]۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد تدریس کے پیٹے سے وابستہ ہوئے ۔ جامعہ رضویہ لاہور میں پڑھاتے رہے۔ ماڈل ٹاؤن لاہور کے سکول میں خطیب رہے اور اسلامک سنٹر میں تفسیر قرآن پڑھاتے رہے ۔ 1993ء میں آپ سلطان با ہوٹرسٹ کی دعوت پر برطانیہ کے شہر برمنگھم تشریف لے گئے ۔ وہاں جامعہ اسلامیہ میں سربراہ کا عہدہ سنبھالا ۔ آپ نے برطانیہ میں دین کی دعوت کے کام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے نو جوانوں کو تیار کرنے کی خاطر فیضان رسول ایجو کیشنل انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی۔ برمنگھم میں مسلمان بڑی تعداد میں آباد میں آپ کا ادارہ یہاں مسلمان نوجوان نسل کو دین کی تعلیم بہم پہنچا رہا ہے۔ آپ دن رات دین کی ترقی و ترویج میں سرگرم عمل ہیں اب تک جاپان، ناروے پیچیم ، چین ،شام، مراکش مصر اور متحدہ عرب امارات سمیت دنیا کے کئی ممالک میں فروغ دین کے لئے لیکچر دے چکے ہیں [52]۔ 2011ء میں سعودی عرب کے بادشاہ شاہ عبداللہ بن عبد العزیز کی خصوصی دعوت پر سعودی عرب کا دورہ کیا اور حج کی سعادت حاصل کی ۔ آپ جماعت اہلسنت برطانیہ کے کئی مرتبہ صدر رہ چکے ہیں آپ دیار غیر میں دین اسلام کے حقیقی ترجمان کے طور پر مصروف عمل ہیں۔ اب تک کئی غیر مسلم آپ کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہو چکے ہیں 2000ء میں دورہ جاپان کے دوران آپ نے 5 غیر مسلموں کو مسلمان کیا۔ ضلع مظفر گڑھ کی عوام اور سرزمین کو اپنے اس عظیم سپوت کی خدمات پر ناز ہے۔
علامہ سید محمد یار شاہ نجفی علی پور
سید محمد یا رشاه نجفی مسلک اہل تشیع کے فرقے اثناء عشریہ سے تعلق رکھنے والے عظیم عالم دین اور فقیمہ ہیں۔ 12 گی 1913 ء کو بمقام چاہ وزیر والا مضافات علی پور میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے 1933ء میں میٹرک پاس کیا۔ آپ باب العلوم ملتان داخل ہوئے حضرت مولانا شیخ محمد یار سے اخذ فیض کیا پھر آپ علامہ سید محمدباقر چکڑالوی ہندی کی خدمت میں حاضر ہوئے جہاں درس نظامی کی بقایا کتابوں کے علاوہ طب کی بھی بعض کتب پڑھیں ۔ کچھ صہ آپ مولا نا طالب حسین کی خدمت میں بھی رہے چند دن مدرسہ ناظمیہ لکھنؤ میں بھی گزارے۔ اس کے بعد آپ حفیوں کے مشہور مدرسے جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور تشریف لے گئے ۔ جہاں حضرت مولانا حافظ مہر محمد اچھروی سے کتابیں پڑھیں۔ اس کے بعد آپ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے نجف اشرف تشریف لے گئے ۔ نجف اشرف میں آپ کے اساتذہ کرام میں علامہ آغا سید حسین ، علامہ آغا شیخ محمد ظہرانی ، علامہ سیدمحمد جواد تبریزی ، شیخ عبدالحسین رشتی اور علامہ مرزامحمد باقر زنجانی شامل ہیں [53]۔ آپ 1942 ء میں وطن واپس آئے ابتدا میں علامہ سید محمد باقر نقوی کی سرپرستی میں چک 38 تحصیل خانیوال میں تدریس سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد باب العلوم ملتان ٹھٹھہ سیال ، سیت پور ضلع مظفر گڑھ ، جلالپور نگیانہ اور خوشاب کے مدارس میں علوم کو عام کیا ۔ 1961ء میں آپ اپنے آبائی شہر علی پور تشریف لائے اور دارالہدی محمدیہ کی بنیاد رکھی اور باقی زندگی یہیں پر درس و تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔
علامہ سید صفدر حسین نجفی
[54] صفدر حسین نجفی 1932ء میں ضلع مظفر گڑھ کے علاقہ علی پور میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا شجرہ نسب سید جلال الدین سرخ پوش بخاری سے جاملتا ہے، جو حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے ۔ آپ کے والد سید غلام سرور اپنے شہر کے شیعہ علما میں شمار ہوتے تھے۔ سید صفدر حسین نجفی نے دینی علوم کے حصول کا آغاز سات سال کی عمر میں حوزہ علمیہ ملتان سے کیا۔ جہاں آپ نے اپنے چا نامور عالم دین سید محمد یار شاہ نقوی نجفی سے کسب فیض حاصل کرنے کے علاوہ مختلف دینی مدارس سے بھی استفادہ کیا جن میں خانیوال اور مدرسہ باب العلوم کے علاوہ ملتان میں اہل سنت کا ایک مدرسہ بھی شامل ہے۔ 1947 ء سے 1950 ء تک درس نظامی کیلئے مدرسہ صادقیہ خانپور مظفر گڑھ، مدرسہ خان گڑھ اور مدرسہ باب النجف جاڑا ، ڈی آئی خان میں تعلیم حاصل کی ۔ 1950ء کو آپ اعلی تعلیم کے حصول کے لئے نجف اشرف چلے گئے ۔ 1956ء میں آپ نجف اشرف سے پاکستان کے شہر لاہور واپس آئے تو موچی دروازہ جامعہ المنتظر میں مدرس کی حیثیت سے دینی خدمات شروع کیا۔ یہ مدرسہ بعد میں وسن پورہ منتقل ہوا جہاں پر آپ نے تدریس کے علاوہ نماز باجماعت کا بھی اہتمام کیا اور لوگوں کو گھر گھر جا کر نماز باجماعت میں شرکت کی دعوت کی ۔ کچھ عرصہ بعد علامہ اختر عباس نجفی کے نجف جانے پر 1966ء کو آپ اس مدرسہ کے پرنسپل بن گئے اور مدرسہ کو وسن پورہ سے ماڈل ٹاؤن لاہور منتقل کیا جو آج کل پاکستان کی قدیمی ترین دینی درسگاہ سمجھی جاتی ہے۔ آپ نے مختلف کتابوں کی تالیف اور ترجمہ بھی کیا جن میں تغییر نمونہ، پیام قرآن ، منشور جاوید ، سیرت آئمہ اور احسن المقال قابل ذکر ہیں ۔ سید صفدر حسین نے پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی بعض دینی مدر سے قائم کئے ۔ 1953ء میں نجف میں ایک پاکستانی سادات گھرانے میں آپ نے شادی کی۔ آپ کی چار بیٹیاں اور چھ بیٹے ہیں جو اسلامی علوم سے منسلک ہیں ۔ 3 دسمبر 1989 ء کو 57 سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی اور جامعہ المنتظر لاہور میں دفن ہوئے۔ آپ کی نماز جنازہ سید محمد یار شاہ نجفی نے پڑھائی۔ وفات کے بعد آپ کو حسن ملت کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔علامہ ریاض حسین نجفی [55]
حافظ سید ریاض حسین نجفی 1941 ء کو کھوئی سیداں والا تحصیل علی پور ضلع مظفر گڑھ میں پیدا ہوئے ۔ آپ سید حسین بخش نقوی کے بیٹے اور علامہ سید محمد یار شاہ نجفی کے بھتیجے اور شاگرد ہیں ۔ آپ نے سید غلام قاسم شاہ کی محضر میں قرآن مجید حفظ کیا ، 1957ء میں لاہور آئے ، جامعتہ المنتظر میں شیخ الجامعہ مولانا اختر عباس نجی اور محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی جیسے علما سے فیض یاب ہوئے اور نجف میں سید محسن الحکیم اور سید مینی جیسے جید علما سے علم دین حاصل کیا۔ آپ 1969ء کو جامعتہ المنتظر واپس آئے اور علوم کی تدریس میں مشغول رہے، آپ میں سال سے زائد کھر سے درس پڑھا رہے ہیں۔ 2019 ء سے آپ وفاق المدارس شیعہ پاکستان کے صدر ہیں۔ سید محسن الحکیم ، سید مینی، علامہ سید محمد یار نقوی ابھی شیخ الجامعہ مولانا اختر عباس نجفی اور علامہ سید صفدر حسین نجفی آپ کے اساتذہ ہیں۔ مولانا سید مہتاب حسین نقوی ستمبر 1922ء میں علاقہ دامان ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے دور افتادہ گاؤں رنگ پور جنوبی میں سید غلام جعفر نقوی کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام غلام رسول رکھا گیا مگر آگے چل کر وہ مہتاب حسین نقوی کے نام سے جانا اور پہچانا گیا۔ مڈل پاس کرنے کے بعد علمی پیاس بجھانے کے لئے جناب مولانا ہدایت حسین نجفی کے پاس بستی گڈن ود ھے والی تحصیل وضلع بھکر حاضر ہوئے کچھ ابتدائی کتابیں ان سے پڑھیں پھر انہی کی ہدایت پر تحصیل شورکوٹ ضلع جھنگ میں مولانا سید فدا حسین نجفی سے مروجہ درس نظامی کی تعلیم حاصل کی پھر مدرسہ ناصر یہ جون پور (یو۔ پی انڈیا ) تشریف لے گئے وہاں سے تاج الا فاضل کے علاوہ الہ آباد یو نیورسٹی سے مولوی، عالم اور فاضل فقہ کے امتحانات امتیازی حیثیت سے پاس کیے اور یونیورسٹی کی طرف سے انعام و میڈل کے حق دار ٹھہرے۔
1945ء میں وطن مراجعت فرمائی اور دو سال تک موضع بیٹ ہوگھا بستی نور پور سادات بہل تحصیل و ضلع بھکر میں لوگوں کی تربیت کرتے رہے اور اقامت صلوٰۃ کا فریضہ ادا کیا اسی دوران میں مہر نوازش علی خان ترگڑ کی دعوت پر جاڑ یا نوالہ رنگ پور کھیرا تحصیل و ضلع مظفر گڑھ تشریف لائے پہلی ہی ملاقات میں اپنائیت اتنی بڑھی کہ ایک ساتھ رہنے کے عہد و پیمان طے پاگئے اور یکم دسمبر ۱۹۴۷ء کو آپ نے جاڑیانوالہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ زیارات مقامات مقدسه ایران و عراق سے شرف یاب ہوئے ۔ 1961ء میں گورنمنٹ سکول میں عربی مدرس تعینات ہوئے جہاں نہ صرف لسان قرآن کی تعلیم دی بلکہ طلبا کے اندر تزکیہ نفس کے رحجانات کو فروغ دیا 1982ء میں سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہو گئے ۔ 1983ء میں حج سے مشرف ہوئے۔ اہلیان مظفر گڑھ شہر کی درخواست پر کچھ عرصہ کے لئے جامعہ المفید تیری مظفر گڑھ میں بطور پرنسپل خدمات سرانجام دیں اور قلیل مدت میں جامعہ کو حقیقی تدریسی و تعلیمی مرکز میں تبدیل کر دیا بعد ازاں اپنے گاؤں لوٹ گئے جہاں علم و عمل سے بھر پور زندگی گزارنے کے بعد ۱۴ اگست 2006ء کو خالق حقیقی سے جاملے اور قبرستان کے لئے اپنی وقف کردہ زمین میں دفن کئے گئے [56]۔ جون پور سے وطن کے لئے مراجعت فرمائی تو آپ کے استاد محترم مولانا سید حسن نواب به نفس نفیس ریلوے سٹیشن تک چھوڑنے آئے الوداع کہتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے اور نصیحت فرمائی کہ دین کو ذریعہ معاش نہ بنانا اس نصیحت پر آپ نے تمام عمر عمل کیا اور صلہ وستائش سے بالا تر ہو کر دین خدا کی تبلیغ کی اور اس عمل کو خالص خدا کیلئے انجام دیا استاد کی اسی نصیحت کے ہی سبب کسب معاش کے لئے محکمہ تعلیم میں بطور مدرس کے ملازمت اختیار کی۔ آپ کی اولاد میں سے بڑے بیٹے ڈاکٹر سید مشتاق مہدی آپ کی علمی روایت کے امین ہیں جو اپنی پیشہ دارانہ مصروفیات کے باوجود کئی کتابیں تصنیف کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب گزشتہ سال محکمہ سوشل سیکیورٹی سے ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ انکی کتب میں المتاب، چراغ حرف سلسبیل دعا، معرفت نہج البلاغه متاع حرف ، گفتار صدق اور قرآن صحیفہ انسانیت شامل ہیں۔
یہ مضمون محمد شہزاد کی کتاب "سرزمین مظفرگڑھ "سے لیا گیا ہے