صدارتی ایوارڈ یافتہ استاد،محمد جمیل قریشی: بانی مثالی سکول
مظفر گڑھ سرائیکی وسیب کا ایک اہم ترین ضلع ہے اس ضلع کے تعارف کے کئی حوالے ہیں کبھی نواب مشتاق خان گورمانی، نوابزادہ نصراللہ خان اور ملک غلام مصطفے کھر اس کا تعارف تھے ۔ پھر کبھی یہاں کے میٹھے منفرد اور خوش ا نکتہ آم اسکی پہچان تھے مگر اب کئی برسوں سے یہاں کے ایک عظیم استاد مظفر گڑھ کے تعارف کا ایک بڑا حوالہ ہیں۔ یہ استاد محترم اس قدر مضبوط حوالہ ہیں کہ آپ ان دنوں پاکستان کے کسی میڈیکل کالج، ہسپتال، انجینئر نگ ادارے، یونیورسٹی، پاکستان ائیر فورس ، ملٹری ، پاکستان نیوی اور سول سروس غرض کسی بھی ادارے میں جائیں آپ کو مظفر گڑھ کے اس عظیم استاد کے شاگر دملیں گے۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی ادارہ ہو شاید ہی کوئی استاد ہو جس کے اس قدر شاگر زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہوں۔ یہ استاد اور اسکی خدمات کئی کیڈٹ کالجوں، کئی یو نیورسٹیوں اور کئی اداروں سے زیادہ ہیں ۔ تدریس پیغمبری پیشہ ہے اگر اس شعبے میں آپ آگئے اور آپ کی وجہ کسی ایک طالب علم کی زندگی سنور گئی تو اس دنیا آنے کا آپکا حق ادا ہو گیا۔ مظفر گڑھ کے اس عظیم استاد نے ایک دو نہیں سینکڑوں نہیں ، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں طالب علموں کی زندگی سنواری ہے ۔ ہزاروں کی زندگی میں انقلاب برپا کیا ہے۔ ہزاروں خاندانوں کی سوچ بدلی ہے ان کے طرز زندگی کو بدلا ہے۔ مظفر گڑھ کے اس عظیم استاد کی خدمات کے اعتراف میں اگر چہ حکومت پاکستان نے
انھیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا ہے مگر ان خدمات کے بدلے یہ ایوارڈ چھوٹا لگتا ہے۔ یہ عظیم اور لیجنڈری استاد خانگڑھ کے رہنے والے ہیں آج سے لگ بھگ پچاس برس قبل انہوں نے شعبہ تدریس میں اپنی خدمات کے طویل سلسلے کا آغاز کیا۔ ابتدائی طور پر بے لوث ہو کر انہوں نے طلباء کو پانچویں اور آٹھویں کے امتحان کے لئے تیاری کرانا شروع کی۔ بورڈ میں پوزیشن لیں اور آہستہ آہستہ انکے کمال فن کا ڈنکا بجتا شروع ہوا۔ پھر انہوں نے پاکستان بھر کے کیڈٹ کالجز میں داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کرانا شروع کی اور اس قدر نام کمایا کہ آج بھی انکے ادارے میں داخلہ کا میابی کی ضمانت ہے۔ پاکستان میں کوئی اور ادارہ اور استاد نہیں ہے جس کے اتنے طلبہ کیڈٹ کالجز میں داخل ہوئے ہوں اب تک بے شمار طلبہ یہاں سے رہنمائی حاصل کر کے کیڈٹ کالجز میں جاچکے ہیں بلکہ وہاں سے فارغ التحصیل ہو کر پاکستان کی افواج میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنے نام سے ملتان میں ایک ادارہ قائم کیا تھا وہ ادارہ اس قدر کامیاب ہوا کہ جگہ کم پڑ گئی پھر انہوں نے منظر گڑھ سے چند کلومیٹر دورعلی پور روڈ پر مالی سکول کے نام سے ایک مثالی ادارے کی بنیاد رکھی ۔ یہ ایک بورڈنگ ادارہ ہے جو گزشتہ 35 سال سے پورے پاکستان کے طلبہ کو علم سے منور کر رہا ہے۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ اس عظیم مثالی استاد نے اس ادار ے کو عظیم تر بنانے میں دن رات ان تھک کام کیا ہے۔ بارش ہو، آندھی ہوطوفان ہو یاعید کا دن ہو یہ استاد اور اسکا سٹاف بچوں کی علمی آبیاری میں مصروف عمل رہے ہیں ۔ یہ سب کچھ استاد جمیل کے دم قدم سے ہیں وہی اس تعلیمی قافلے کے میر کارواں ہیں وہی آج کے سرسید ہیں ۔ استار محمد جیل قریشی 2 فروری 1948 ء کا خان گڑھ میں شیخ محمد صدیق کے گھر پیدا ہوئے ۔ ان کے والد شیخ محمد صدیق قریشی تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے ۔ ان کے اجداد نے قیام پاکستان کے بعد ضلع کرنال کے گاؤں تلی سے ہجرت کی ۔ ہجرت کے دوران ان کے خاندان کے کئی افراد شہید ہو گئے ان کے والد شیخ محمد صدیق بڑے رعب ودبدبے والے انسان تھے۔ سر پر روائتی گڑی باندھتے تھے اور ہاتھ میں لاٹھی رکھتے تھے ۔ خان گڑھ آ کر انہوں نے اپنا کاروبار شروع کیا۔ استاد جمیل قریشی نے ابتدائی تعلیم خان گڑھ ہائی سکول سے حاصل کی ۔ پی ٹی سی کی تعلیم نارمل سکول مظفر گڑھ سے حاصل کی اور امتحان میں پورے پنجاب کو ٹاپ کیا ۔ 1964ء میں ان کی پہلی تعیناتی لیہ کے دور دراز گاؤں میں ہوئی ۔ وہاں سے چند ماہ بعد تبادلہ خان گڑھ ہو گیا ۔ دوران سروس آپ مڈل سکول ٹھٹھہ قریشی اور پائلٹ سکول ملتان بھی تعینات رہے۔ بعد میں دوران ملازمت بھی تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رہا گریجوایشن کے بعد بی ایڈ اور ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔ 1971ء میں ملتان میں تعیناتی کے دوران جنرل سروپ کی حوصلہ افزائی سے جمیل اکیڈمی ملتان کی بنیاد رکھی اور کیڈٹ کالجز انٹری ٹیسٹ کی تیاری کی کلاسز شروع کیں۔ بعد میں کور کمانڈ رملتان جنرل حمید گل بھی ان کی سر پرستی کرتے رہے 1988ء میں سرکاری ملازمت میں 26 سال گزارنے کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی اور مثالی سکول دین
پور مظفر گڑھ کی بنیا درکھی۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ لڑکپن میں ایک واقع نے ان کی زندگی بدل دی۔ ان کے والد نے ایک کام ذمے لگایا۔ وہ کام کرنے کی بجائے آپ دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرتے رہے اور شام کو گھر واپس آکر والد کو بتایا کہ کام ہو گیا ہے ۔ مگر چند دنوں بعد ان کے والد کو پتہ چلا تو انہوں نے سخت ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ میں نے تو تمہارا نام جمیل رکھا تھا کہ تم نام کی لاج رکھو گے مگر تم نے جھوٹ بولا میں تمہارا نام تبدیل کرنے لگا ہوں ۔ اس واقع کے بعد انہوں نے زندگی میں محنت کی اور جمیل سے مثالی ہو گئے۔ بلاشبہ استاد محمد جمیل قریشی حقیقی طور پر معلم مظفر گڑھ بنخر مظفر گڑھ اور محسن مظفر گڑھ ہیں ۔ کیڈٹ کالجز کا کوئی کمال نہیں ہے وہ انٹری ٹیسٹ دینے والے میں ہزار طلبہ میں صرف 60 طلبہ سلیکٹ کرتے ہیں، کمال تو اس جو ہری کا ہے جو زنگ آلود خام لوہے کو اپنے ادارے میں پکا کر اسے کندن بنا دیتا ہے جو پتھر سے ہیرے تراشتا ہے اور سنگ لاخ زمین سے علم کے چشمے نکالتا ہے۔ مثالی سکول اور استاد محد جمیل قریشی لازم وملزوم ہیں آج پاکستان میں سکول جانے والا بچہ بچہ مثالی سکول اور استادمحمد جمیل قریشی سے واقف ہے۔ مثالی سکول اور استاد محمد جمیل قریشی اس قدر جڑے ہوئے ہیں کہ خود دنیا میں اب استاد محمد جمیل قریشی کو لوگ جمیل مثالی کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ عظیم استاد آج اپنے کام سے خود بے مثال ہو گیا ہے لوگوں کے لئے مشعل راہ ہو گیا ہے۔ آج پورے پاکستان میں لوگ اپنے اداروں کو خود بخود استاد محمد جمیل قریشی اورمثالی سے جوڑتے ہیں حتی کہ مثالی سکول مظفر گڑھ کی پورے پاکستان میں دوسری شاخ پتریاٹہ مری کے علاوہ اور کہیں نہیں ہے۔ بے شک استاد محمد جمیل قریشی مثالی ہماری دھرتی کا ایک مضبوط حوالہ ہیں ہمارے ضلع کا تعارف ہیں ہماری پہچان ہیں۔ یعنی طور پر استاد محمد جمیل مثالی کا نام شہرت و عظمت کے آسمان پر جگمگاتے ہوئے ستاروں کی مانند ہمیشہ درخشاں رہے گا۔
نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔