شہدائے مظفر گڑھ
سوار سید دبیر حسین شہید [35]
55 سال قبل 6 ستمبر 1965ء کے روز جب پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے اپنے سارے لشکر کیسا تھ فتح کے گھمنڈ میں پاکستان پر حملہ کیا تو بھارت اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ وہ یہ جنگ جیت کر اپنے مکر وہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیگا۔ 1965ء کی جنگ میں پاک افواج نے انفرادی قوت و عسکری وسائل کے لحاظ سے پانچ گنا بڑے حملہ آور دشمن فوج کو ایسی بہادری اور عزم و استقلال سے روکا کہ جس سے اقوام عالم میں پاک افواج کی اعلیٰ عسکری صلاحیتوں اور سپہ کے جذبہ ایمانی کا اعتراف کیا گیا۔ مغربی پاکستان کے بارڈر کے تمام محاذوں پر پاک افواج نے پاک سرزمین کی جانب بڑھتے ہوئے حملہ آور دشمن کو روکا اور جمخانہ لاہور میں شراب پینے کا خواب دیکھنے والے بھارتی جرنیلوں کو خلاف توقع سخت مزاحمت اور بھر پور مقابلے کے بعد روک لیا گیا تو بھارتی افواج نے سیالکوٹ سیکٹر میں 6 سو سے زائد ٹینکوں کے لشکر کی پوری تیاری کے ساتھ پاکستان پر حملہ کرتے ہوئے پیش قدمی شروع کر دی تو پاک فوج کے کمانڈروں نے دشمن کے عزائم بھانپ کر دفاع وطن کا ایسا پلان مرتب کیا جو کہ بزدل حملہ آور کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ چونڈہ سیالکوٹ کے محاذ پر پاک فوج کے جیالے جانبازوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے دشمن کو روکنے کیلئے سیکٹر کمانڈر سے اذن جہاد طلب کیا تو کما نڈر نے ایسا ولولہ انگیز خطاب کیا کہ پوری سپہ اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے اپنے سینوں پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کو روکنے کیلئے پر جوش ہو گئی۔ سیکٹر کمانڈر نے اپنی سپہ میں جوانوں کو سینوں پر بم باندھ کر دشمن کی یلغار روکنے کیلئے منتخب کیا ، ان میں سے ایک جوان سوار ڈبیر حسین بھی تھا۔ جن کا تعلق مظفر گڑھ ضلع سے تھا۔ سید زبیر حسین کیم جنوری 1945ء کو پانی پت کے ضلع کرنال کے ایک گاؤں فرید پور کے ایک سید گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہندوستان کے وقت ان کی عمر صرف 2 سال پانچ ماہ تھی۔ ان کے والدین ہندوستان سے ہجرت کر کے چنیوٹ ضلع جھنگ میں آباد ہوئے اور بعد ازاں مظفر گڑھ ضلع میں مکان اور زمین الاٹ ہونے کی وجہ سے چنیوٹ سے ہجرت کر کے مظفر گڑھ شہر میں آکر مقیم ہو گئے ۔ سید زبیر حسین نے ابتدائی تعلیم میونسپل پرائمری سکول نمبر 3 سے حاصل کی جبکہ 1962ء میں گورنمنٹ ہائی سکول مظفر گڑھ شہر سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد پنجاب پولیس میں بطور کا نشیبل بھرتی ہو گئے اور پولیس ٹریننگ میں کسی تنازعہ کے بعد دلبرداشتہ ہو کر محکمہ پولیس کی ملازمت چھوڑ دی اور 1963ء میں پاک فوج میں بھرتی ہو گئے۔ ریکروٹمنٹ سیکٹر نوشہرہ میں ٹرینینگ کے دوران اعلیٰ کارکردگی دکھلاتے ہوئے بہترین ریکارڈ ہونے کی سند حاصل کی۔ ٹریننگ مکمل ہوتے ہی رن آف کچھ سیکٹر میں تعینات ہوئے جہاں رن آف کچھ کے معرکہ میں پاک فوج نے بھارتی فوج کو بری طرح شکست سے دو چار کیا۔ رن آف کچھ کے بعد کچھ روز مظفر گڑھ میں چھٹیاں گزارنے کے بعد کھاریاں میں ڈیوٹی پر حاضر ہو گئے ۔ 6 ستمبر کو بھارت نے پاکستان پر اچانک حملہ کر دیا تو ان کی پلاٹون کو چونڈہ سیالکوٹ سیکٹر پر مامور کیا گیا۔ 15 ستمبر کے روز چونڈہ کے محاذ پر ٹینکوں کی بڑی اور خوفناک جنگ میں کمانڈر کی حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے سینوں پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے سامنے لیٹنے والے دستے میں شامل ہوئے ۔ 15 ستمبر 1965ء کو دوسری عالمگیر جنگ کے بعد چونڈہ سیکٹر میں لڑی جانیوالی ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ میں دھرتی کے جن عظیم سپوتوں نے اپنی انمول زندگیاں رضا کارانہ طور پر بخوشی دفاع وطن پر نچھاور کیں ان میں سید زبیر حسین کا ٹھی بھی شامل ہو کر درجہ شہادت پر فائز ہوئے جنہیں اپنی پلاٹون کے دوسرے 19 شہیدوں کیساتھ عید گاہ قبرستان ڈسکہ سیالکوٹ میں پرو خاک کیا گیا۔ شہید کے والد سید ضمیر حسین کا بھی بھی 19 اپریل 1969ء کو بقضائے الہی وفات پاگئے۔ شہید یو ڈیر حسین کے چھوٹے بھائی سید جلال عباس کاظمی ایڈووکیٹ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن مظفر گڑھ کے سینئر رکن ہیں۔ شہید کی فیملی کا یہ شکوہ بالکل صحیح ہے کہ دوسرے تمام شہداء ان کے آبائی شہروں میں یادگار میں قائم کی گئی ہیں مگر مظفر گڑھ میں سید ڈبیر حسین کاظمی کی یاد گار بھی تک تعمیر نہیں کی گئی اور نہ ہی کسی پارک یا گراؤنڈ کو شہید کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔
کرنل مصطفیٰ جمال شہید
خان گڑھ شہر بھی شہداء کا وارث ہے اس شہر کے شہید کرنل مصطفیٰ جمال پر ان کے اہل خانہ اور خان گڑھ کے شہری جتنا فخر کریں اتنا کم ہے شہید کرنل مصطفیٰ جمال کا تعلق بزرگ سیاستدان بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کی فیملی سے ہے کرنل شہید مصطفی جمال نوابزادہ حفیظ اختر خان کے بیٹے ہیں ۔ 10 ستمبر 1968ء کو خان گڑھ میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم مڈل سکول خان گڑھ سے حاصل کی میٹرک میں خان گڑھ ہائی سکول کو ٹاپ کیا۔ اس کے بعد پی اے ایف کالج سرگودھا سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ دوران ملازمت مختلف عہد علاقوں میں تعینات رہے۔ آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر اسلام آباد، کوئٹہ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں میں فرائض سرانجام دیئے [36]۔
انہیں بچپن سے ہی فوج میں جانے کا شوق تھا وہ اکثر اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے اہل خانہ اور دوستوں سے کرتے رہتے تھے اور وہ پاک فوج کے شہداء کے بارے میں بھی اپنے حلقہ احباب میں تذکرہ کرتے رہتے تھے اور ہمیشہ پاک فوج کے شہد مصطفیٰ جمال کے آئیڈیل رہے ہیں ۔ شہید کے دوست ان کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ شہید کرنل مصطفیٰ جمال انتہائی ہمدرد انسان اور ملنسار تھے اور وطن عزیز پر اپنی جان نچھاور کرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے شہید کرنل مصطفیٰ جمال نے میٹرک کا امتحان خانگڑھ سے امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور پاکستان ایئر فورس میں کمیشن حاصل کیا لیکن کچھ عرصہ بعد انہوں نے پاکستان ایئر فورس چھوڑ کر پاکستان آرمی کو جوائن کر لیا اور اپنی محنت اور لگن سے ترقی کرتے ہوئے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچ گئے 22 جون 2013ء کو گلگت بلتستان کے ضلع دیا میر کے علاقہ نانگا پربت میں کیمپ پر پاک آرمی کی وردیوں میں ملبوس دہشت گردوں نے حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں دس غیر ملکی سیاح قتل کر دیے گئے ان سیاحوں کا تعلق یوکرین، چین اور روس سے تھا اس واقعہ سے پاکستان کی ساری دنیا میں رسوائی ہوئی جس پر پاک فوج نے علاقہ میں سرچ آپریشن شروع کر دیا اور اس واقعہ میں ملوث دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے حکومت نے شہید کرنل مصطفی جمال کی قیادت میں ٹیم کے میں ضلع کے پولیس افسر بلال احمر شہید اور پاک فوج کے کیپٹن اشفاق عزیز بھی شامل تھے اس ٹیم نے دن رات محنت کر کے دہشت گردوں کا سراغ لگا نا شروع کر دیا رمضان کی ستائیسویں کی بابرکت رات کو شہید کرنل مصطفیٰ جمال اپنے ساتھی پولیس افسر شہید بلال احمر اور کیپٹن شہید اشفاق عزیز کے ہمراہ آپریشن کی منصوبہ بندی اور تیاری کے لیے ایک مقام پر پہنچے۔ جہاں پر پہلے سے چھپے ہوئے دہشت گردوں نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کر دی جس سے کرنل مصطفیٰ جمال اور پولیس افسر بلال احمر موقع پر شہید ہو گئے جبکہ کیپٹن اشفاق عزیز اور ایک گن مین شدید زخمی ہو گئے جو کہ بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں شہید ہو گئے ۔ کرنل مصطفیٰ جمال شہید اور ان کی ٹیم کی دن رات کی کاوشوں سے جو معلومات اکٹھی کی گئی تھیں ۔ اس پر پاک فوج نے کارروائیاں کرتے ہوئے نانگا پر بہت سانحہ کے ماسٹر مائنڈ حمید اللہ سمیت درجنوں افراد کو گرفتار کر لیا اور ان ملزمان کے ڈیتھ وارنٹ پر چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے دستخط کئے اور ان ملزمان کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ شہید کرنل مصطفیٰ جمال کا جسد خاکی کو ان کے آبائی شہر خانگڑھ لایا گیا اور ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں شہریوں نے اور پاک فوج کے افسران نے بڑی تعداد میں شرکت کی اس موقع پر شہید کرنل مصطفیٰ جمال کے والد حفیظ اختر خان نے کہا کہ ان کا شہید بیٹا متقی پرہیز گار، پابندو صوم صلاۃ اور پکا سچا مسلمان تھا انہیں اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر ہے جس کی وجہ سے ان کے خاندان کا وقار بلند ہوا۔ شہید کرنل مصطفیٰ جمال کے پسماندگان میں ایک بیوہ اور تین بیٹے شامل ہیں شہید کرنل مصطفیٰ جمال کے والد حفیظ اختر خان یونین کونسل کے چیئر مین بھی رہ چکے ہیں جبکہ شہید کے بھائی عبداللہ خان پاکستان نیوی میں آفیسر تھے جو کہ اب ریٹائر ہو چکے ہیں [37]۔
حکومت پنجاب نے 2015ء میں خان گڑھ بائی پاس کا نام تبدیل کر کے لیفٹینٹ کرنل مصطفیٰ جمال خان شہید روڈ رکھ دیا ہے۔
میجر ذکا ء الحق چانڈیہ شہید (38)
دنیا کے مشکل ترین محاذ جنگ سیاچن کے گیاری سیکٹر میں دفاع وطن کا مقدس فریضہ سر انجام دیتے ہوئے برفانی تودے تلے دب جانیوالے پاک فوج کے شہید جانبازوں میں سے ایک میجر ذکا ء الحق خان چانڈیہ شہید کا تعلق مظفر گڑھ کے نواحی گاؤں سے تھا۔ آپ 1981ء میں چوک سرور شہید میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم مثالی پبلک سکول مظفر گڑھ سے حاصل کی ۔ آپ نے کیڈٹ کالج حسن ابدال سے ایف ایس سی کر کے 2000ء میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا ۔ پاک فوج میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ صدارتی ایوراڈ یافتہ مثالی پبلک مڈل سکول دین پور مظفر گڑھ کے بانی الحاج شیخ محمد جمیل قریشی شہید ذکا ء الحق خان چانڈیہ کے بارے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے پیارے دوست سردار عبد الحق خان چانڈ یہ اپنے بیٹے ذکاء الحق کو مثالی پبلک مڈل سکول میں داخل کرانے آئے تو انہوں نے کہا کہ میرے بیٹے کو پاک فوج کا آفیسر بنے اور ملک کیلئے جان دینے کا شوق ہی نہیں بلکہ یہ بچہ جنون کی حد تک اپنے ملک کی فوج سے محبت اور اپنے وطن سے عشق کرتا ہے۔ جب میں نے طالب علم بچے ذکاء الحق کا انٹرویو لیا تو مجھے بچے کی حاضر دماغی اور صلاحیت دیکھ کر خوشی ہوئی اور میں سردار عبد الحق چانڈیہ سے وعدہ کر لیا کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے میں سرخرو ہونگا اور آپ کا یہ بچہ پاک فوج میں افسر بن کر بلند مقام حاصل کرے گا۔ جب کیڈٹ کالج ٹیسٹ میں کامیاب ہو گیا تو مجھے سکول میں آکر فوجی انداز میں سیلوٹ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا ذ کا اپنی منزل مراد کی جانب کامیابی سے بڑھتا چلا جارہا ہے۔ میرے حق میں دعا کرنا۔ مجھے ذکاء الحق کی ان باتوں سے دلی اطمینان حاصل ہوا کہ میں اپنے دوست سردار عبدالحق خان چانڈیہ کے آگے سرخرو ہو گیا۔ شہید کی ماں کنیز بی بی نے اپنے بیٹے کی قبر کے پھولوں کو چومتے ہوئے کہا کہ میرا بیٹا قوم و ملک کی خدمت کرتے ہوئے راہ حق میں شہید اور اپنے وطن کے دفاع کیلئے ڈیوٹی دیتے ہوئے جان کا نذرانہ دیکر سرخرو ہو گیا ہے۔ مجھے اپنے بیٹے کی عسکری زندگی کے ایک ایک دن کی یاد ضرور آتی رہے گی مگر اللہ تعالیٰ کی شکر گزار ہوں کہ میرے ذکاء نے وطن کی خاطر قربانی دیکر شہادت کا عظیم رتبہ پایا اور مجھے بھی شہید کی ماں ہونے کا اعزاز عطاء کر گیا۔
ایس ایس پی ڈاکٹر اعجاز لنگڑیال شہید
آپ 1955ء کو مظفر گڑھ کے قصبے روہیلانوالی کے قریب ایک گاؤں بستی لنگڑیال میں صابر علی کے گھر پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ سکول رو بیلانوالی سے حاصل کی اور میٹرک کے امتحان میں ضلع بھر میں تیسرے نمبر پر رہے۔ گورنمنٹ علمدار حسین کالج ملتان سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ 1983ء میں نشتر میڈیکل کالج ملتان سے ایم بی بی ایس کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور بطور میڈیکل آفیسر شہر سلطان میں تعینات ہوئے۔ 1988ء میں سول سروس کے امتحان میں پاکستان بھر میں آٹھویں پوزیشن حاصل کی [39] ۔ سول سروس اکیڈمی لاہور اور نیشنل پولیس اکیڈمی اسلام آباد سے ٹریننگ کے بعد پولیس سروس آف پاکستان کو بطور اے ایس پی جوائن کیا۔ دوران سروس کوئٹہ، ملتان، جعفر، آباد، ٹانک نصیر آباد اور بہاولپور میں تعینات رہے۔ دسمبر 1999ء میں ڈیرہ اسماعیل خان میں ڈی پی او کا چارج سنبھالا۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کی حیثیت سے علاقے میں منشیات فروشی ، سمگلنگ، دہشتگردی ، فرقہ وارانہ فسادات اور چوری ڈکیتی کی وارداتوں پر قابو پانے کے لیے اہم اقدامات کئے ۔ ملک دشمن اور امن دشمن عناصر کا قلع قمع کرنے کی کوششوں کے ردعمل میں دہشت گردوں نے 7 مئی 2001 ء کو آپ کو فائرنگ کا نشانہ بنایا جس میں آپ نے جام شہادت نوش کیا۔ آپ کو ملتان میں پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ مشہور لکھاری اور پروڈیوسر عاشر عظیم نے انکو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا تھا۔
وہ ایک غریب پس منظر کا آدمی تھا، جو دیہی پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا تھا، جہاں جاگیر دار اور ایس ایچ اوز ندگی اور موت کی طاقت رکھتے ہیں۔ بچپن میں وہ ہر روز دس میل سے زیادہ پیدل چلتا تھا تا کہ اپنے خاک آلود، خستہ حال سکول میں، دیہی سکول کے ماسٹر کی سختی کو برداشت کرے۔ لکھنے کیلئے لکڑی کی سختی ہوتی تھی۔ وہ ایک ایسا آدمی تھا جو کئی نسلوں بعد خاندان میں جنم لیتا ہے، جو فخر کا باعث ہوتا ہے، جو دوسروں کے لئے مثال ، ایک امید اور لوگوں کے لئے ایک خواب ہوتا ہے۔ آج اعجاز احمد لنگڑیال نہیں رہا۔ ایس ایس پی 7 مئی کو ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک قاتل کی گولیوں سے گرا تھا۔ میں اسکی مدد نہیں کر سکتا، کیا قاتل کو احساس ہوا کہ وہ کیا تباہ کر رہا ہے؟ اگر اسے اس شخص کا پتہ چلتا جس کو وہ مار رہا تھا تو کیا اس نے پھر بھی ٹریگر کھینچ لیا ہوتا؟ اگر قاتل اس آدمی کو نہیں جانتا تھا تو وہ کسی اجنبی کے خلاف اس طرح کی سخت کارروائی پر کیوں مجبور ہوا؟ یہاں تک کہ اگر قاتل پکڑا جائے اور اسے لٹکا دیا جائے تو کیا اس کی زندگی اعجاز لنگڑیال کی زندگی کے برابر ہوسکتی ہے؟ [40] آپ کی خدمات ، بہادری اور ایمانداری کے اعتراف میں حکومت خیبر پختونخواہ نے بعد از شہادت آپ کو سب سے بڑے پولیس اعزاز قائد اعظم پولیس میڈل سے نوازا اور ڈیرہ اسماعیل خان پولیس لائنز کو شہید کے نام سے منسوب کیا گیا۔ جبکہ ضلع گورنمنٹ مظفر گڑھ نے 2019ء میں اپنے اس بہادر بیٹے کو ہلال مظفر گڑھ ایوارڈ دیا ہے۔
میجر جہانزیب عدنان شہید
آپ کا تعلق تحصیل کوٹ ادو کے موضع کھیڑا سے ہے آپ 1983ء میں کرنل نور محمد کے گھر پیدا ہوئے ۔ آپ نے مئی 2001 ء میں پاکستان آرمی میں کمیشن حاصل کیا۔ سال 2002 ء میں آپ نے مزار قائد اعظم پر گارڈ کے فرائض سر انجام دیئے۔ آپ نے افریقہ میں یو این او کے امن مشن میں بھی خدمات سرانجام دیں ۔ فروری 2014ء میں پشاور میں تعیناتی کے دوران یہ اطلاع ملی کہ بازرگئی گاؤں میں دہشت گرد موجود ہیں اور اس میں دہشت گردوں کا وہ سرغنہ بھی موجود ہے جس نے بعد میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا۔ میجر جہانزیب عدنان نے جوانوں کیساتھ گاؤں کا محاصرہ کیا۔ فائرنگ کے تبادلے میں کچھ دہشت گرد مارے گئے ۔ اسی دوران ایک چھپے ہوئے دہشت گرد کے حملے میں میجر جہانزیب عدنان شہید ہو گئے ۔ حکومت پاکستان نے انہیں اس بہادری اور دلیری سے فرائض سرانجام دینے پرستارہ بسالت کا اعزاز عطاء کیا۔ دہشت گردوں سے دلیرانہ مقابلہ کرنے اور جرات و بہادری کی لازوال داستان رقم کرنے اور شہادت کا رتبہ حاصل کرنے پر اس فرزند مظفر گڑھ کو ضلع گورنمنٹ نے 2019ء میں بلال مظفر گڑھا ایوارڈ دیا ہے [41]۔
یہ مضمون محمد شہزاد کی کتاب "سرزمین مظفرگڑھ "سے لیا گیا ہے