مظفر گڑھ کی سیاست

مظفر گڑھ کے نامور سیاستدان

محمد شہزاد

نواب مشتاق احمد خان گورمانی ۔۔۔ گورنر مغربی پاکستان 

نواب مشتاق احمد خان گورمانی 1905ء کو ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کے ایک گاؤں ٹھٹھہ گورمانی میں گورمانی بلوچ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام زمان خان گورمانی تھا۔ میاں زمان خان گورمانی کے دو صاحبزادے تھے مشتاق احمد گورمانی اور نیاز احمد گورمانی ۔ نواب مشتاق احمد گورمانی نے ابتدائی تعلیم مظفر گڑھ کے ہائی سکول سے حاصل کی اعلیٰ تعلیم کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں چلے گئے ۔ یہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد انڈین سول سروس میں سرکاری ملازمت کا آغاز کیا۔ جلد ہی سرکاری ملازمت چھوڑ کر سیاست میں آگئے [68]۔ 1930 ء قانون ساز اسمبلی کے ممبر نامزد ہوئے ۔ 1935 ء میں پنجاب قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ 1937 ء سے 1942 ء تک پنجاب کی وزارت تعلیم اور صحت کے پارلیمانی سیکرٹری رہے 1942 ء سے 1945 ء تک ڈائریکٹر جنرل ایمپلائمنٹ اور پاپولیشن رہے ۔ 1946 ء کی انٹر نیشنل لیبر کانفرنس میں انڈیا کی نمائندگی کی ۔ 1947ء سے 1948 ء تک ریاست بہاولپور کے وزیر اعظم تھے انہوں نے ریاست بہاولپور کے پاکستان کے ساتھ الحاق میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ پاکستان بننے کے بعد امور کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے وزیر رہے۔ 1951 ء سے لیکر 1954 ء تک ملک کے وزیر داخلہ رہے جبکہ 1954 ء سے 1955 ء تک گورنر پنجاب رہے۔ ون یونٹ بننے کے بعد 1955 ء سے 1958 ء تک مغربی پاکستان کے گورنر رہے۔ پاکستان کی سیاست میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاکستانی حکومت کا سارا کام ان کے فیصلوں پر ہوتا تھا۔ سیاسی طور پر اعلیٰ سطح کے سیاستدان تھے۔ کشمیر ایشو پر کمیٹی کے سربراہ رہے اور کئی ممالک کے دورے کر کے انکو پاکستان کے موقف کا حامی بنایا۔ سابق وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر سردار ابراہیم مسلم کانفرنس کے راہنما چودھری غلام عباس اور پاکستان کی طرف سے اس وقت کے وزیر نواب مشتاق احمد گورمانی کے ساتھ 28 اپریل 1949 ء کو کراچی میں الحاق کشمیر اور گلگت بلتستان کا معاہدہ ہوا [69]۔ پاکستان کے وزیر داخلہ تھے جب قادیانی ایشو پر لاہور میں ہونے والے کریک ڈاؤن کے وقت انہی کے احکامات ہی جاری ہورہے تھے ۔ سیاسی دور میں ان کی سیاست کے سامنے سب بے بس تھے کیونکہ یہ کسی دانشور سے کم نہ تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی بیٹیوں اور ورثا نے ان کے نام پر گورمانی فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی اور ان کی جا گیر اور آمدن میں سے ایک ارب روپے کی رقم لاہور میں واقع لمز LUMS جیسے ایلیٹ کلاس کے ادارے کو دی جہاں ان کے نام پر نواب مشتاق احمد خان گورمانی سکول آف ہیومنٹیز اور سوشل سائنسز قائم ہے [70]۔ انسانیت کی خدمت کی ایک اعلی مثال ان کی گورمانی فاؤنڈیشن ہے ۔ اس کے پلیٹ فارم سے ہر سال سینکڑوں وسیب کے طالبعلموں کو سکالرشپ دیا جاتا ہے۔ آپ پر لیاقت علی خان کو قتل کرانے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ لیاقت علی خان کی موت دہائیوں تک پاکستانی عوام کیلئے ایک معمہ بنی رہی ۔ واقعہ کو دہائیوں تک مختلف تناظر میں دیکھایا جاتا رہا، کبھی کہا گیا کہ اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے لیاقت علی خان کو قتل کرایا۔ کبھی نواب مشتاق احمد گورمانی کبھی اور کبھی ایک اہم خفیہ ادارے کے سر براہ اعتزاز احمد پر بھی اس قتل کا شبہ کیا جاتا رہا جنہیں اچانک ہلاک کر دیا گیا تھا۔ نواب مشتاق گورمانی کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہوئے لیاقت علی خان نے ایک بار کہا تھا: مشتاق گورمانی جلیبی کی طرح سیدھا ہے۔ کہتے ہیں کہ شہادت سے چند دن پہلے نواب لیاقت علی خان اپنی کا بینہ میں رد و بدل کا فیصلہ کر چکے تھے ۔ راولپنڈی میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کے جلسہ کے دن غلام محمد نواب مشتاق گورمانی اور خواجہ ناظم الدین اس روز راولپنڈی میں ہی موجود تھے۔ مگر سوائے نواب مشتاق گورمانی کے دوسروں نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس جلسہ میں شرکت نہ کی ۔ مشتاق گورمانی اس وقت جلسہ گاہ آئے جب قاتل اپنا کام کر چکا "ا۔ لیاقت علی خاں کو نواب مشتاق گورمانی کی گاڑی میں ہسپتال پہنچایا گیا۔ وزیر اعظم کے انتقال کے بعد نواب مشتاق احمد گورمانی خاموشی سے کراچی چلے گئے۔ غلام محمد اور خواجہ ناظم الدین نے ہسپتال پہنچنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ وزیر اعظم کی نعش ہسپتال میں پڑی تھی اور کا بینہ کے ارکان کرسیاں بانٹنے میں اُلجھے ہوئے تھے۔ لیاقت علی خان کے قتل پر سیاستدانوں کے رویوں کے بارے میں ایوب خان اپنی کتاب ” جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی کے صفحہ نمبر 70 پر لکھتے ہیں ، ” جب میں پاکستان واپس آیا تو مجھے کراچی میں نئی کابینہ کے اراکین سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ میں نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین، چودھری محمد علی ، مشتاق احمد گورمانی اور دوسرے لوگوں سے ملاقات کی۔ ان میں سے کسی نے نہ تو مسٹر لیاقت علی خان کا نام لیا اور ند ان کے منہ سے اس واقعے پر افسوس یا دردمندی کے دو بول ہی نکلے "[71] ۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد جونئی کا بینہ بی گی ، اس میں نواب مشتاق احمد گورمانی کو جو اس سے پہلے وزیر برائے امور کشمیر تھے، وزیر داخلہ کا عہد دہل گیا تھا میل کے متعلق تفتیش بے نتیجہ رہی تو لامحالہ نواب مشتاق احمد گورمانی کو اعتراضات کا نشانہ بنا پڑا۔ ان اعتراضات سے بچنے کے لیے انہوں نے انگلستان کے اسکاٹ لینڈ یارڈ کی مدد حاصل کی اور وہاں سے ایک ماہر سراغ رساں کو بلا کر تفتیش پر مامور کیا۔ لیکن اقدام بھی محض اتمام حجت ثابت ہوا۔ اس سے لیاقت علی خان کے قتل کے اسباب پر کوئی روشنی نہ پڑ سکی۔ لیاقت علی خان کے قتل کا معمہ بالآخر کئی دہائیوں کے بعد حل ہو گیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے  مخصوص مدت کے بعد جاری کی جانے والی دستاویزات میں لیاقت علی خان کے قتل کے بارے میں مکمل تفصیلات دی گئی ہیں۔ ان دستاویزات کے مطابق اس وقت کی امریکی حکومت نے افغان حکومت کی معاونت سے پاکستانی وزیر اعظم کا قتل کرایا تھا 172۔ نواب مشتاق احمد گورمانی کو غدار بھی کہا گیا۔ 23 اگست 1957ء کو زیڈ۔اے۔ سلہری نے ٹائمنز آف کراچی میں خط شائع کیا جو مبینہ طور پر نواب مشتاق احمد گورمانی نے سردار پٹیل کو لکھا اور بہاولپور ریاست پر قبضہ کر نیکا کہا۔ اس قسم کے دعوی کی تردید نواب بہاولپور نے بھی کی ۔ اس خط کی اشاعت پر نواب مشتاق گورمانی نے صحافی اور اخبار پر ہتک عزت کا دعویٰ کر دیا۔ اس مقدمے میں عدالت نے نواب مشتاق احمد گورمانی کو بیگناہ قرار دیا اور جہتک عزت کا یہ دعوئی نواب مشتاق گورمانی جیت گئے [73]۔ 1965ء کی جنگ میں نواب مشتاق احمد گورمانی نے شہداء کے خاندانوں کیلئے 23 مربع زمین عطیہ کی۔ 13 اکتوبر 1965ء کو گورمانی خاندان نے نیشنل ڈیفنس فنڈ میں 1500 یکٹر زرعی اراضی بطور عطیہ پیش کی 28 دسمبر 1965ء کو چین کے تعاون سے کوٹ ادو میں انجینئر نگ کمپلیکس کیلئے 156 یکٹر زمین دینے کا اعلان کیا۔ 1964ء کے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کی بھر پور حمایت کی۔ ایوب خان کے دور میں سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر کے اپنے گاؤں ٹھٹھہ گورمانی منتقل ہو گئے۔ 1970ء میں جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ 1974ء میں اپنی فیملی کے ہمراہ لاہور میں رہائش پذیر ہوئے۔ لاہور میں 1982 ء میں ان کا انتقال ہوا۔ لاہور میں ہی دفن کیا گیا۔ ان کے داماد بریگیڈیر غضنفر خان ضیا کے دور میں پنجاب کا بینہ میں وزیر رہے۔

 

یہ مضمون محمد شہزاد کی کتاب "سرزمین مظفرگڑھ "سے لیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com