مظفر گڑھ کے سیاسی خاندان
پاکستان کے ابتدائی برسوں میں مظفر گڑھ کے سیاستدانوں کا پورے ملک میں بڑا شہرہ تھا۔ پارلیمانی دور 58-1947ء میں سردار عبدالحمید خان دستی ، نواب مشتاق گورمانی اور میاں ابراہیم برق کا طوطی بولتا تھا۔ بعد میں نوابزادہ نصر اللہ خان ، ملک غلام مصطفی کھر اور ملک قادر بخش جکھر، سیاست کے حوالے سے مظفر گڑھ کی پہچان بنے۔ یہاں مظفر گڑھ کے سیاسی خاندانوں کا مختصر احوال پیش کیا جارہا ہے۔
گورمانی خاندان
سنانواں کے نواحی قصبے ٹھٹھہ گورمانی کے بلوچ قبیلے گورمانی کے افراد نے سیاست میں بڑا نام کمایا ہے۔ اس خاندان کے خان بہادر میاں محبوب احمد خان گورمانی انگریز دور میں آنریری مجسٹریٹ تھے ۔ گورمانی خاندان کے سپوت احمد سلطان گورمانی پہلی جنگ عظیم میں مارے گئے تھے ۔ اس کے بدلے انگریز نے ان کو کافی جاگیر دی۔ شیخ احمد گورمانی 1932 ء میں انتقال کر گئے ۔ ان کے بیٹے محبوب گورمانی آنریری مجسٹریٹ مقرر ہوئے ۔ غلام جیلانی گورمانی شیخ احمد گورمانی کے پوتے اور احمد سلطان گورمانی کے بیٹے تھے ۔ 1915ء میں پیدا ہوئے۔ نواب مشتاق احمد خان گورمانی قیام پاکستان سے بھی پہلے سیاست میں سرگرم ہوئے آپ پہلی مرتبہ 1930ء میں ممبر قانون اسمبلی منتخب ہوئے ۔ پاکستان بننے کے بعد وہ بڑے اہم عہدوں پر فائز رہے ۔ وہ ملک کے وزیر داخلہ، وزیر امور کشمیر اور گورنر جنرل مغربی پاکستان رہے۔ وہ ریاست بہاولپور کے وزیر اعظم بھی رہے ۔ ایوب دور میں ان پر پابندی لگ گئی ۔ 1964ء کے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی ۔ 1970ء کے بعد وہ سیاست سے کنارہ کش ہو گئے ۔ نواب مشتاق احمد خان کو مارنی کے ایک اور رشتہ دار میاں غلام جیلانی گورمانی 1945ء کے تاریخی انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کے امیدوار تھے اور اس الیکشن میں ریکارڈ 7524 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے [2] ۔ یونینسٹ پارٹی کے ملک قادر بخش جھکر صرف 3741 ووٹ لے سکے میاں غلام جیلانی 49-1947 ء تک بھی ممبر صوبائی اسمبلی رہے۔ 55-1951ء بھی نمبر قانون ساز اسمبلی پنجاب رہے۔
میاں غلام جیلانی گورمانی 58-1955ء بھی قانون ساز اسمبلی پنجاب کا حصہ رہے۔ ان کے بیٹے میاں طارق گورمانی کافی دیر تک سیاست میں فعال رہے ہیں۔ 2002ء میں ممبر صوبائی اسمبلی رہے۔ اس خاندان کے کئی افراد سیاست میں سرگرم رہے ۔ مہر احمد خان گورمانی نے 1988ء کے تاریخی ضمنی الیکشن میں کوٹ ادو کی قومی اسمبلی کی نشست پر غلام مصطفے خان جتوئی کا مقابلہ کیا ۔ وہ پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے مگر الیکشن ہار گئے ۔ خالد احمد گورمانی اور طارق احمد گورمانی بھی سیاست میں آئے ۔ 2013ء کے الیکشن میں اس خاندان کے ذیشان گورمانی ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے [3]۔
احسان پور کے ہنجراہ
تاریخی قصبے دائرہ دین پناہ کے نزدیکی گاؤں احسان پور سے تعلق رکھنے والے ہنجراہ خاندان نے سیاست میں بڑا نام کمایا ہے۔ وضع داری اور رکھ رکھاؤ کے حامل ہنجراہ بنیادی طور پر زمیندار ہیں ۔ ملک سلطان محمود منجراہ پہلے شخص تھے جو سیاست کے میدان میں کامیاب ہوئے۔ وہ مسلسل 1985,1988,1990,1997ء میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ان کے بھائی ملک اجمل بنجراہ میونسپل کمیٹی دائرہ کے چیئر مین رہے جبکہ ایک اور بھائی ملک افضل ہنجراہ ضلع کونسل کے چیئر مین رہے۔ 2000ء میں سلطان محمود بنجر اوضلع ناظم منتخب ہوئے ۔ 2002ء میں ان کے بھیجے ملک احمد یار بنجر او مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی اور 2008ء میں ملک احمد یار نجراہ دوبارہ ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ 2013ء میں وہ تیسری مرتبہ ممبر صوبائی اسمبلی بنے اور شہباز شریف حکومت میں صوبائی وزیر جیل خانہ جات رہے ۔ 2013ء میں ملک سلطان محمود بنجر اون لیگ کے ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2018ء میں ملک سلطان محمود ہنجراہ اور ملک احمد یار بنجراہ الیکشن ہار گئے مگر ملک قاسم بنجر او ن لیگ کی طرف سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2017ء میں ملک سلطان محمود بنجراہ کے بھتیجے ملک قاسم منجر اضلع کونسل مظفر گڑھ کے وائس چیئر مین منتخب ہوئے [4]۔
قصبہ شیخ عمر کے قریشی
کوٹ ادو کے نواحی گاؤں شیخ عمر کا قریشی خاندان اپنی وضع داری اور شرافت کی سیاست کی بنا پر منفرد مقام کا حامل ہے۔ ان کی خاندانی تاریخ کے مطابق ان کے ابداد عرب سے سندھ آئے۔ کئی صدیوں بعد سندھ سے میانوالی قریشیاں منتقل ہوئے پھر وہاں سے تونسہ شریف کے گاؤں بنڈی میں آمقیم ہوئے ۔ ان کے اجداد میں ایک بزرگ مخدوم نورالدین قریشی ہاشمی آج بھی تو نسہ شریف میں دفن ہیں۔ ان کے خاندان کے ایک فردم یاں غلام حسین قریشی ضلع مظفر گڑھ میں کوٹ ادو کے قریب دریائے سندھ کے کنارے آباد ہوئے ۔ انگریز دور میں اس خاندان کے تین افراد میاں غلام نبی قریشی ، میاں کوڑا قریشی اور میاں خدا بخش قریشی ذیلدار مقرر ہوئے ۔ گڑھی شریف (چوک قریشی) کا قریشی خاندان بھی ان کا رشتہ دار ہے ۔ گڑھی میں ان کے خاندان کے بزرگ میاں شیر محمد غازی کا دربار واقع ہے [5] ۔ اس خاندان کے میاں غلام عباس قریشی نے قومی سیاست میں قدم رکھا۔ جب غلام مصطفیٰ کھر سن 1972ء میں گورنر نے تو انہوں نے قومی اسمبلی کی سیٹ چھوڑ دی اس سیٹ پر میاں عباس قریشی ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر نمبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ 1977ء میں آپ کامیاب نہ ہو سکے۔ 1989ء میں چیئر مین ضلع کونسل ہے۔ دوبارہ 1997ء میں ن لیگ کی ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ میاں غلام عباس قریشی کے بیٹے میاں امجد عباس قریشی مسلم لیگ ق کی طرف سے سینیٹ منتخب ہوئے۔
اسی خاندان کے میاں محسن قریشی نے بڑا نام کمایا۔ ان کی شریک حیات مسز خالدہ محسن قریشی 2002 ء میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو ئیں۔ وہ خود 2008ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر مبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ان کیساتھ زندگی نے وفانہ کی وہ 2014ء میں اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ ان کی بیوی خالدہ حسن قریشی 2012ء میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر ممبر سینیٹ آف پاکستان بھی رہیں۔ 2018 ء کے الیکشن میں ان کے بیٹے آزادڈاکٹر شبیر علی قریشی حیثیت میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو کر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ۔ اب ڈاکٹر شبیر علی قریشی وزیرمملکت برائے ہاؤسنگ ہیں۔ قریشی خاندان کے کئی افراد ضلع کونسل کے ممبر منتخب ہوتے رہے ہیں۔ میاں ذوالفقار علی قریشی ناظم یونین کونسل رہے ہیں۔ میاں محسن علی قریشی کے بھائی میاں غلام علی قریشی کافی عرصہ سے ضلع کی سیاست کا اہم نام ہیں۔ آپ کئی مرتبہ چیئر مین یونین کونسل اور ممبر ضلع کونسل رہے ہیں [6]۔
سنانواں کے گھر
موضع کھر غربی کے گھر خاندان نے سیاست میں بہت بڑا نام کمایا ہے۔ اس خاندان کی طرف سے سیاست کی ابتدا ملک غلام مصطفیٰ کھر نے کی جب وہ 1962 ء کے انتخابات میں اس علاقے کے بڑے جاگیر دار گورمانی خاندان کو ہرا کر مبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وہ سیاست میں ایسے آئے کہ انہوں نے پھر مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ سن 1962ء میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ بھٹو سے ان کی دوستی قائم ہوئی ۔ پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں شامل ہیں ۔ 1970ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر نوابزادہ نصر اللہ کو ہرا کر مبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ بھٹو دور میں گورنر پنجاب اور وزیر اعلیٰ پنجاب بنے ۔ ضیاء دور میں جلا وطن رہے ۔ 1985 ء کے غیر جماعتی انتخابات میں ان کے دو بھائی غلام مجتبی غازی کھر اور ملک مرتضی کھر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ملک غازی کھر دو بار چیئر مین ضلع کونسل بھی رہے۔ 1988ء میں ملک غلام مصطفی کھر دو حلقوں سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ان کے چھوٹے بھائی ملک نور ربانی کھر 1988 ء میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہو کر پنجاب میں صوبائی وزیر جنگلات رہے ۔ 1990 ء میں ملک غلام مصطفیٰ کھر پھر دو حلقوں سے ممبر قومی اسمبلی بنے۔ ضمنی الیکشن میں ان کے چھوٹے بھائی ملک غلام محمد نور ربانی کھر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔
1993ء میں ملک غلام مصطفیٰ کھر قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے کامیاب ہوئے۔ ایک سیٹ چھوڑ دی اس سیٹ پر انکے چھوٹے بھائی ملک فخر الرسل عربی کھر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ ملک مصطفے کھر اس بار بینظیر حکومت میں وفاقی وزیر پانی وبجلی بنے جبکہ ان کے دو بیٹے ملک عبد الرحمان کھر اور ملک بلال کھر بھی ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ملک عبد الرحمان کھر منظور وٹو کی پنجاب حکومت میں صوبائی وزیر بنائے گئے ۔ 1985 ء میں نور ربانی کھر ممبر صوبائی اسمبلی بنے ۔ ملک غلام محمد نور ربانی کھر 1997 ء میں ن لیگ کے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ ملک رفیق کھرمن 1988 بن 1990 ، اور 1997ء میں ممبر صوبائی اسمبلی رہے۔ 2002ء میں غلام محمد نور ربانی کھر کی بیٹی حناربانی کھر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو ئیں ۔ 2008ء میں وہ دوبارہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ وہ وزیرمملکت برائے اقتصادی امور اور وزیر خارجہ پاکستان رہیں ۔ 2013 ء اور 2018ء میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشستوں پر نمبر قومی اسمبلی رہیں ۔
2013 ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر ملک نور ربانی کھر آزاد امیدوار جمشید دستی سے الیکشن ہار گئے، کیونکہ دو حلقوں سے منتخب ہونے کی وجہ سے جمشید دستی نے یہ سیٹ چھوڑ دی تھی ۔ لہند اسمنی الیکشن میں ملک نور ربانی کھر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے ۔ 2013 ء کے انتخابات میں ملک مصطفیٰ کھر کوٹ ادو کی سیٹ پر مسلم لیگ فنکشنل کے امیدوار تھے مگر وہ ن لیگ کے سلطان محمود بنجراہ سے الیکشن ہار گئے ۔ 2018ء میں ملک غلام مصطفیٰ کھر تحریک انصاف کے امیدوار تھے مگر وہ آزاد امیدوار ڈاکٹر شبیر علی قریشی سے الیکشن ہار گئے ۔ 2008ء میں کھر برادری کے انجینئر بلال گھر پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر سنانواں سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے، کھر برادری کے ملک فاروق کھر 1997ء میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ 2002 ء اور 2008ء میں ان کے بھتیجے ملک جواد کامران کھر مسلم لیگ ق کی طرف سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ گھر خاندان کے ملک مرتضی رحیم کھر 2013ء میں آزاد حیثیت سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ 2018 ء کے عام انتخابات میں کھر خاندان کے چشم و چراغ ملک رضا ربانی کھر ( جو ملک نور ربانی کھر کے بیٹے اور حنا ربانی کھر کے بھائی ہیں) پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ملک فخر الرسل عربی کھر کی بیوی صائمہ سفینہ 2002ء میں پیپلز پارٹی کے کوٹے پر خواتین کی مخصوص نشستوں پر ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہو ئیں [7]۔ اس خاندان کے ملک اللہ ڈتہ کھر قائمقام ضلع ناظم رہے جبکہ فتح محمد کھر وائس چیئر مین ضلع کونسل رہے۔
مظفر گڑھ کے دستی
مظفر گڑھ شہر اور شہر کے گردو نواح میں دستی بلوچ قبیلہ آباد ہے۔ اس قبیلے کے پہلے شخص سردار عبدالحمید خان دستی تھے جو سیاست کے میدان میں داخل ہوئے ۔ قیام پاکستان سے پہلے وہ سرکاری وکیل تھے مگر تحریک پاکستان کی خاطر سرکاری وکالت چھوڑ کر سیاست میں آگئے ۔ 1945ء کے تاریخی انتخابات میں انہوں نے یونینسٹ پارٹی کے میاں فضل کریم قریشی کو شکست دیکر کامیابی حاصل کی تحریک پاکستان کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں [8]۔ قیام پاکستان کے بعد وہ 1947 ء سے 1958 ء تک مسلسل منتخب ہوتے رہے اور ہر کابینہ میں وزیر ر ہے ۔ وہ 1955ء میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ ایوب دور میں ان پر پابندی لگ گئی۔ 1970ء کے انتخابات میں ان کے بیٹے سردار امجد حمید دتی ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ وہ 1970 ء سے 2002 ء تک سات بار ممبر صوبائی اسمبلی بنے۔ صوبائی وزیر خوراک صحت تعلیم اور خزانہ رہے۔ ان کے چھوٹے بیٹے اقبال حمید دتی کئی بار میونسپل کمیٹی مظفر گڑھ کے چیئر مین منتخب ہوئے۔ ان کی پوتی تہمینہ دستی نے ایک بار ضلع ناظم ہمبر صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اگر کامیاب نہ ہو سکیں ۔ 2008ء اور 2013ء کے الیکشن میں سردار اقبال حمید دستی کے بیٹے سردار عبد اکئی خان دستی نے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ انگر کامیاب نہ ہو سکے ۔
2018 ء کے الیکشن میں آزاد حیثیت میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہو کر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے اور صوبائی مشیر زراعت مقرر ہوئے ۔ جمشید دستی اگر چہ سردار عبدالحمید خان دستی کے خاندان سے تعلق نہیں رکھتے مگر دتی قبیلے کے اہم سیاستدان ہیں ۔ 2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر مبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ جعلی ڈگری پر استعفی دید یا اور ضمنی الیکشن میں سن 2011ء میں دوبارہ منتخب ہوئے۔ 2013 ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی چھوڑ کر آزاد حیثیت سے قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے مبر منتخب ہوئے۔ سنانواں میں کھر فیملی کو 60 سال میں پہلی مرتبہ شکست سے دو چار کیا۔ مگر ضمنی الیکشن میں اپنے چھوٹے بھائی جاوید دستی کو میدان میں اتارا جونور ربانی کھر سے شکست کھا گئے ۔ 2014ء میں جمشید دستی تحریک انصاف میں شامل ہوئے مگر جلد ہی پارٹی چھوڑ کر اپنی سیاسی جماعت عوامی راج پارٹی کی بنیاد رکھی ۔ 2018ء میں انہوں نے اپنی پارٹی عوام راج پارٹی کے پلیٹ فارم سے سولو فلائٹ کا فیصلہ کیا مگر وہ اور ان کی پارٹی بری طرح شکست سے دو چار ہوئے ۔ خود جمشید دستی منظفر گڑھ کے دو قومی اسمبلی اور ایک صوبائی اسمبلی کے حلقے سے اپنے حریف امیدواروں سے ہار گئے ۔ دستی قبیلے کے عبد القیوم خان دستی ، شعیب خان دستی اور عمر خان دستی مقامی سیاست میں فعال رہے ہیں [9]۔
خانگڑھ کے نواب
ضلع مظفر گڑھ میں سب سے پہلے نمبر قانون اسمبلی بنے کا شرف خانگڑھ کے نواب خاندان کو حاصل ہے۔ نواب عبداللہ خان 1921ء میں قانون ساز کونسل کے ممبر بنے ۔ وہ 1924ء میں دوبارہ قانون ساز کونسل کے ممبر بنے ۔ 1945ء کے انتخابات میں نوابزادہ نصر اللہ خان آل انڈیا مسلم لیگ کے سردار عبدالحمید خان دستی سے شکست کھا گئے ۔ وہ مجلس احرار کے امیدوار تھے اور مجلس احرار کے سربراہ عطاء اللہ شاہ بخاری ان کی الیکشن کمین کیلئے تشریف بھی لائے تھے [10]۔ قیام پاکستان کے بعد 1951 ء کے انتخابات میں نوابزادہ نصر اللہ خان صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں سے مسلم لیگ کے امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئے ۔ 1962ء میں نواب نصر اللہ خان ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ 1965 ء میں نوابزادہ نصر اللہ خان میاں مظفر مہدی ہاشمی سے الیکشن ہار گئے ۔ 1970 ء میں وہ پیپلز پارٹی کے ملک غلام مصطفیٰ کھر کے ہاتھوں قومی اسمبلی کی نشست پر شکست سے دوچار ہوئے ۔ 1977ء میں وہ پی این اے ( پاکستان قومی اتحاد) کے ٹکٹ پر نمبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ مگر یہ اسمبلی نہ چل سکی۔ 1985 ء کے انتخابات میں انہوں نے حصہ نہیں لیا۔ 1988ء میں وہ نمبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور اپوزیشن کا کردار ادا کرتے رہے۔ 1990ء میں وہ جمعیت علمائے اسلام نورانی کے میاں عطاء قریشی کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے۔ 1993ء میں وہ پاکستان جمہوری پارٹی کے پلیٹ فارم سے مبر قومی امبلی متخب ہو کر چیئر مین کشمیر کمیٹی رہے۔ 1997ء میں دو ن لیگ کے عطاء قریشی سے شکست کھا گئے ۔
2002 ء میں وہ الیکشن میں حصہ نہ لے سکے۔ ان کے بیٹے نوابزادہ منصور احمد خان مسلسل چار مرتبہ 1988 1990 1993ء اور 1997ء میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 1993ء میں منظور وٹو اور عارف کئی کا بینہ میں پنجاب کے صوبائی وزیر مال رہے ۔ 2002 2008 ء اور 2013 ء اس خاندان کے تمام افراد الیکشن ہار گئے ۔ 2000ء سے 2005 تک نوابزادہ نصر اللہ خان کے چھوٹے بیٹے نوابزادہ اسرار خان تحصیل ناظم رہے ۔ 2018ء میں ان کے ایک بیٹے نوابزادہ منصور احمد خان تحریک انصاف کی طرف سے ممبر صوبائی اسمبلی جبکہ دوسرے بیٹے نوابزادہ افتخار احمد خان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر مبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ اس خاندان کے کئی افراد نوابزادہ بیرم خان، ابرار خان اور حفیظ خان مقامی سیاست میں فعال رہے [11]۔
جتوئی خاندان
دریائے سندھ کے کنارے قصبہ جتوئی میں بسنے والے جتوئی بلوچوں کا کبھی سیاست میں طوطی بولتا تھا مگر اب سیاست میں وہ اپنی پرانی شان و شوکت کھو بیٹھے ہیں۔ اس خاندان کے مورث اعلیٰ خان بہادر سردار کوڑے خان جتوئی انگریز دور میں اہم مقام کے حامل تھے اور آنریری مجسٹریٹ تھے۔ ان کے بھتیجے سید خان جتوئی کے بیٹے سردار نصر اللہ خان جتوئی نے انتخابی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا [12]۔ وہ 1945ء میں عملی سیات میں آئے ۔ 1945 ء کے تاریخی انتخابات میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے یونینسٹ پارٹی کے ابراہیم برق کو ہرا چکے تھے مگر واک آؤٹ کر جانے کی وجہ سے ابراہیم برق کو کامیاب قرار دیا گیا تھا۔ وہ 55-1954 ء اور 58-1955 ممبر صوبائی اسمبلی رہے اور بعد میں ان کے بیٹے سردار نذر محمد خان جتوئی سدا بہار سیاستدان تھے جو 1970ء،1985 1988ء،1990ء اور 1993ء میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کی کابینہ میں مشیر بھی رہے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے سردار نصر اللہ خان جتوئی 1993 ء کے ضمنی انتخابات میں جیت کر صوبائی وزیر ہے۔ سردار نصر اللہ خان جتوئی 2005-2000 ء تک تحصیل ناظم جتوئی بھی رہے۔
نذر محمد خان جتوئی کے بڑے بیٹے سردار عبد القیوم خان جتوئی جو ان کے بعد جتوئی قبیلے کے چیف بنے اور سیاست میں بہت نام کمایا۔ 1990ء میں سردار عبد القیوم خان جتوئی پہلی مرتبہ جمعیت علمائے اسلام نورانی کی ٹکٹ پر نمبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 1993ء میں وہ دوبارہ اسلامی جمہوری اتحاد کی ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی بنے مگر بینظیر حکومت میں شامل ہو گئے ۔ 1997ء میں قومی اسمبلی کی نشست سے ہار گئے ۔ 2002ء اور 2008ء میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ 2005ء میں وہ پیپلز پارٹی کی سے طرف ضلع ناظم منتخب ہوئے۔ 2008ء میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہر کر وفاقی وزیر دفاعی پیداوار بھی رہے ۔ 2013ء اور 2018ء میں جتوئی خاندان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ سردار عبد القیوم خان جتوئی اور ان کے بیٹے سردار داؤد خان جتوئی شکست سے دو چار ہوئے۔ ان کے کزن سردار معظم علی خان جتوئی 2008ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو کر وزیرمملکت برائے فوڈ سیکورٹی رہے ۔ 2013 ء اور 2018 ء کے الیکشن میں وہ شکست سے دو چار ہوئے ۔ 2008ء میں سردار عبد القیوم خان جتوئی ممبر صوبائی اسمبلی بھی منتخب ہوئے مگر صوبائی اسمبلی کی سیٹ چھوڑ دی۔ ان کے خاندان کے سردار رسول بخش خان جتوئی 1997ء میں نواز لیگ کی طرف ممبر صوبائی اسمبلی رہے۔ ان کے بیٹے یاسر عرفات جتوئی 2002ء میں جبکہ دوسرے بیٹے خرم رسول جتوئی 2008ء میں ممبر صوبائی اسمبلی رہے۔ اس خاندان کے سردار خان محمد خان جتوئی 2013ء میں نواز لیگ کی طرف سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ جتوئی قبیلے کے کئی افراد سردار مہدی خان جتوئی ، غلام حیدر خان جتوئی [13] اور سردار شوکت خان جتوئی بھی مقامی سیاست میں فعال رہے ہیں۔
کا نڈھ کے بخاری
کو ٹلہ رحم علی شاہ کے مدرسے اور بخاری خاندان کے علماء کا بہت اہم کردار ہے ۔ اس پورے علاقے میں دین کی تعلیم کے فروغ میں سو سال سے زائد عرصہ تک اس خاندان کے افراد صرف تعلیم دینے میں مصروف رہے۔ اس علاقے ( راجن پور، مظفر گڑھ، خانپور، اوچ شریف اور جلال پور پیر والا) کے ہر دوسرے عالم نے یہاں سے تعلیم حاصل کی [14] مگر 70 کی دہائی میں پیر عبداللہ شاہ بخاری وہ پہلے فرد تھے جو سیاست کے میدان میں داخل ہوئے۔ پیر عبد اللہ شاہ بخاری نے تن تنہا سیاست کے میدان میں اپنے حریفوں کا خوب مقابلہ کیا۔ پیر عبداللہ شاہ بخاری پہلی مرتبہ 1977ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر مبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ ان کا مقابلہ جتوئی قبیلے کے چیف نذرمحمد خان جتوئی سے رہا۔
1988ء میں پیر عبداللہ شاہ دوبارہ روہیلانوالی کے حلقے سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم پی اے بنے۔ 1990ء میں وہ اقبال خان لغاری سے ہار گئے مگر 1993ء میں نوابزادہ نصر اللہ کی جماعت پاکستان جمہوری پارٹی کے ٹکٹ پر تیسری مرتبہ ایم پی اے بنے ۔ 1997ء میں ان کے بیٹے مخدوم باسط سلطان بخاری روہیلانوالی سے اور وہ خود جتوئی سے نواز لیگ کی ٹکٹ پر ایم پی اے بنے ۔ 2002ء میں وہ خود بی اے کی شرط کی وجہ سے الیکشن لڑ سکے مگر ان کے بیٹے مخدوم باسط سلطان بخاری ممبر قومی اسمبلی اور مخدوم ہارون سلطان بخاری ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ہارون سلطان بخاری پرویز الہی کا بینہ میں صوبائی وزیر لائیو سٹاک وڈیری ڈویلپمنٹ مقرر ہوئے ۔ 2008ء میں بخاری خاندان تمام نشستیں ہار گیا تھا مگر قسمت نے ساتھ دیا اور ضمنی الیکشن میں پہلے ہارون سلطان بخاری آزاد جیت کرن لیگ کی پنجاب حکومت کے ساتھ مل گئے پھر چنوں خان لغاری کی عدالتی نا اہلی سے خالی ہونے والی نشست پر ضمنی الیکشن میں باسط سلطان بخاری بھی ایم پی اے بن کر حکومت میں شامل ہو گئے ۔
2013ء میں بخاری خاندان ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن میں اترا ہمخدوم باسط سلطان بخاری ایم این اے اور چھوٹے بھائی ہارون سلطان بخاری ایم پی اے بنے اور شہباز شریف حکومت میں صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر رہے۔ 2018 ء کے الیکشن میں مخدوم باسط سلطان بخاری نے آزاد حیثیت میں دونوں نشستیں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی جیت لیں اور تحریک انصاف میں شامل ہوئے ضمنی الیکشن میں ہارون سلطان بخاری نے آزاد حیثیت میں اپنی والدہ کا مقابلہ کیا جو تحر یک انصاف کی امیدوار تھیں ۔ اس مقابلے میں والدہ سید زہرہ عبداللہ شاہ بخاری کامیاب ہوئیں۔ اس سے پہلے 2005 ء میں عبداللہ شاہ بخاری کی بیٹی سیدہ ماریہ بتول بخاری تحصیل جتوئی کی ناظمہ رہیں۔ اس خاندان کے پیر رؤف احمد شاہ بخاری ناظم یونین کونسل رہے۔ جبکہ اس خاندان کے سید جمیل احمد حسین بخاری 1985 ء سے مبر قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑتے رہے ہیں ۔ سید جمیل احمد حسین بخاری پہلی مرتبہ 1997 ء میں ن لیگ کی ٹکٹ پر مبر قومی امیلی منتخب ہوئے ۔ 2013 ء کے ایکشن میں ان کے بیٹے ہیرسٹ رحم علی شاہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر تحریک انصاف کے امیدوار [15].
علی پور کا گوپانگ خاندان [16]
تحصیل علی پور میں دریائے سندھ کے کنارے پر پھیلے ہوئے گوپانگ بلوچ اس علاقے کی سب سے بڑی برادری ہیں ان کے جد امجد سردار جان محمد خان گوپانگ کا قیام پاکستان سے پہلے اس علاقے میں بڑا نام اور دبدبہ تھا۔ وہ دار العلوم دیو بند کی مالی امداد کرتے تھے۔ سکھر میں مسجد بسمہ اللہ وائی اور لاہور کی مشہور زمانہ مسجد شب بھر کی تعمیر میں مالی تعاون کیا تھا۔ یہ وہ مسجد ہے جس کی تعمیر میں خود علامہ اقبال نے حصہ لیا تھا۔ ان کا شعر ہے۔
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
سردار جان محمد خان علاقے کے مسلمانوں کے بڑے حامی اور غیرت مند مسلمان تھے ۔ ان کے بیٹے سردار نواب خان سیاست کے میدان میں آئے اور 1951 ء میں صوبہ پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، ان کے بعد ان کے بیٹے سردار منظور خان گوپانگ سیاست میں آئے۔ ضلع کونسل کے چیئر مین منتخب ہوئے ۔ وہ سیاست میں بادشاہ گر تھے ۔ میاں ابراہیم برق ان کے سر تھے ۔ میاں ابراہیم برق کی جیت میں ان کا اہم کردار رہا۔ 1970ء میں مصطفیٰ کھر ان کی حمایت سے مظفر گڑھ سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ ان کے بعد ان کے چھوٹے بھائی سردار عاشق خان گوپانگ سیاست میں آئے ، کئی بار 1985ء ، 1988ء ،1990ء ، 1993ء اور 1997 ء میں ممبر صوبائی اسمبلی ، 2005ء میں ضمنی الیکشن میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2013 ء میں سردار عاشق خان کو پانگ آزاد حیثیت سے ممبر قومی اسمبلی جبکہ بیٹے عامر طلال خان گوپانگ ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہو کر ن لیگ کی حکومت میں شامل ہوئے ۔
ان کے بیٹے عامر طلال خان گوپانگ 2008ء میں مسلم لیگ ق کی ٹکٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی بنے ۔ ان کے چھوٹے بھائی سردار خضر خان گوپانگ 2000 ء میں اور پھر 2005 ء میں تحصیل ناظم جتوئی بنے ۔ 2018ء میں عامر طلال کو پانگ تحریک انصاف کی ٹکٹ پر مبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ 2017ء میں سردار منظور خان گوپانگ کے پوتے سردار حافظ عمر خان گوپانگ اپنے دادا کی روایت پر چلتے ہوئے ضلع مظفر گڑھ کے چیئر مین ڈسٹرکٹ کونسل منتخب ہوئے۔ سردار حافظ عمر خان گوپانگ علی پور کے معروف عالم دین مولا نا لقمان علی پورے کے نواسے بھی ہیں ۔ آپ وضع داری ، رکھ رکھاؤ اور شرافت کی سیاست کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ سیاست میں وہ اپنے دادا سردار منظور خان کے وارث ہیں جبکہ خدمت دین میں اپنے نانا حضرت مولا نا لقمان علی پوری کی مسند کو سنبھالے ہوئے ہیں۔
بیٹ میر ہزار خان کے لغاری
بیٹ میر ہزار خان کے لغاری بلوچ بلدیاتی سیاست میں حصہ لیتے تھے مگر سر دارا اقبال خان لغاری پہلے شخص تھے جنہوں نے صوبائی سیاست میں قدم رکھا ۔ وہ 1990ء میں پاکستان جمہوری پارٹی کی ٹکٹ پر رو بیلانوالی بیٹ میر ہزار خان کے حلقے سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ 1993ء اور 1997ء میں وہ کامیاب نہ ہو سکے ۔ 2002ء میں اس کے بیٹے سردار اللہ وسایا عرف چنوں خان لغاری مسلم لیگ ق کی طرف سے مبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2008ء میں اللہ وسایا عرف چنوں خان لغاری پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم پی اے بنے مگر جعلی ڈگری پر ناہل ہوئے۔ ضمنی الیکشن میں ان کے بھائی سمیع اللہ خان لغاری الیکشن ہار گئے ۔ 2018 ء میں اقبال خان لغاری کے پوتے اور اللہ وسایا خان لغاری کے بیٹے خرم سہیل لغاری آزاد حیثیت میں ایم پی اے بن کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور آج معاون خصوصی برائے وزیراعلیٰ پنجاب ہیں۔ سردار رب نواز خان لغاری ممبر ضلع کونسل منتخب ہوتے رہے تھے۔ ضلع کونسل کے وائس چیئر مین بھی رہے۔ ان کے بیٹے سردار مجاہد خان لغاری ناظم ممبر ضلع کونسل اور چیئر مین یونین کونسل منتخب ہوتے رہے ہیں ۔ لیاقت لغاری نے 2008ء کے الیکشن میں صوبائی سیٹ پر قسمت آزمائی کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ اس قبیلے کے سردار اجمل خان لغاری ، حاجی ولی محمد خان لغاری سردار سلیم خان لغاری سردار ایاز خان لغاری، مشتاق خان لغاری ، اور جعفر مشتاق خان لغاری بلدیاتی اور مقامی سیاست میں فعال رہے ہیں [17]۔
علی پور کے برق
یہ دراصل ارائیں ہیں اور برق تخلص اختیار کیا ہوا تھا۔ اس لیے برق مشہور ہوئے ۔ اس خاندان کے میاں ابراہیم برق پاکستان بننے سے پہلے متحدہ پنجاب کے وزیر تعلیم تھے ۔ 1945 ء کے الیکشن میں یونینسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سردار نصر اللہ خان جتوئی سے ہار گئے تھے مگر ایکشن سے واک آؤٹ کرنے پر سردار نصر اللہ خان جتوئی کی بجائے میاں ابراہیم برق کو کامیاب قرار دیا گیا تھا اور وہ متحدہ پنجاب کے وزیر تعلیم مقرر ہوئے تھے۔ اس کے بعد میاں ابراہیم برق 49-1947 ، 65-1962ء اور 69-1965ء ممبر قانون ساز اسمبلی اور 1970ء میں وہ نمبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 1977ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر نمبر منتخب ہوئے ۔ 1985ء میں ان کے بیٹے ڈاکٹر ذوالفقار علی برق ممبر قومی اسمبلی بنے ۔ وہ دوبارہ 1988ء میں نمبر قومی اسمبلی بنے۔ اس کے بعد برق خاندان سیاست سے آؤٹ ہو گیا اور آج تک اپنی جگہ نہیں بنا سکا[18] 2008ء میں میاں ابراہیم برق کے بیٹے امیر علی برق صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔
سیت پور کے مخدوم
مخادیم سیت پور نے لودھی نہ حکمرانوں سے حکومت چھین کر سیت پور ریاست پر برسوں تک حکمرانی کی۔ انگریز دور میں اس خاندان کے افراد بڑے بڑے عہدوں فائز تھے۔ مخدوم محمدحسن آنریری مجسٹریٹ مقرر ہوئے [19]۔ مخدوم حسن 1930 ء سے 1935 ء تک ممبر قانون ساز اسمبلی ہے ۔ کچھ عرصے تک یہ خاندان سیاست سے باہر رہا۔ 1970ء اور 1977ء میں مخدوم ارشاد مبر صوبائی اسمبلی بنے۔ سن 1992ء میں مخدوم الطاف حسین بخاری چیئر مین ضلع کو نسل منتخب ہوئے ۔ 2000 ء میں مخدوم الطاف کے بیٹے مخدوم سید رضا شاہ بخاری ضلع نائب ناظم رہے۔ 2018 ، مخدوم سید رضا شاہ بخاری پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ پر مبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ اس سکھ ، خوش اخلاق اور عجز و انکساری کا پیکر مخدوم سید رضا شاہ بخاری اپنے اجداد کی خوبصورت اور حسین روایات کے بچے امین ہیں اور اس وقت لوگوں کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ جبکہ اس خاندان کے دیگر کئی افراد مقامی سیاست میں فعال رہے ہیں [20]۔
ٹھٹھہ قریشی کے قریشی
ایک سو سال سے اس خاندان نے سیاست سمیت ہر میدان میں اپنی صلاحیت اور قابلیت کا لوہا منوایا ہے اس خاندان کے میاں غوث بخش قریشی ہاشمی انگریز دور میں آنریری مجسٹریٹ تھے ۔ میاں غوث بخش قریشی کے بیٹے میاں فضل کریم بخش قریشی 1937ء میں ممبر قانون ساز اسمبلی منتخب ہوئے۔ بعد میں ڈسٹرکٹ کونسل کے وائس چیئر مین منتخب ہوئے [21]۔ 1945ء کے تاریخی انتخابات میں میاں فضل کریم بخش قریشی یونینسٹ پارٹی کے امیدوار تھے ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے سردار عبدالحمید خال، دستی سے شکست کھا گئے ۔ اس خاندان کے میاں مظفر مہدی ہاشمی 1965ء میں نوابزادہ نصر اللہ خان کو شکست دیکر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ 1970ء میں اس خاندان کے میاں مصطفیٰ ظفر قریشی ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ 1977ء میں وہ دوبارہ ممبر صوبائی اسمبلی بنے ۔
میاں احسان کریم قریشی 1985 ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی نشست پر ملک غازی گھر کے مقابلے میں 55 ہزار ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے تھے ۔ 2002ء میں میاں امتیاز علیم قریشی مسلم لیگ ق کی طرف سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور پارلیمانی سیکرٹری رہے۔ 2008ء میں ان کے بیٹے میاں عمران قریشی مسلم لیگ ق کے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ 2013 ء میں میاں عمران قریشی دوسری مرتبہ نمبر صوبائی اسمبلی ن لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اور پارلیمانی سیکرٹری رہے۔ شرافت، لیاقت اور تہذیب میں یہ خاندان سب سے اونچے مقام پر فائز ہے۔ اس خاندان کے دیگر کئی افراد بلدیاتی سیاست میں نمایاں رہے۔ میاں حسن مغیث قریشی یونین ناظم رہے۔ میاں عباس قریشی بھی یونین ناظم رہے۔ میاں امتیاز علیم قریشی اور انعام کریم قریشی وائس چیئر مین ضلع کونسل رے ں رہے ہیں [22]۔
خانگڑھ کے ڈوگر (23)
خان گڑھ کا ڈوگر خاندان سیاسی ، سماجی اور تاریخی طور پر بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ خاندان مشرقی پنجاب کی ریاست پٹیالہ کے گاؤں سے ہجرت کر کے خان گڑھ آباد ہوا۔ ان کے مورث اعلیٰ سردار لکھنا ڈوگر نے 1722ء میں برنالہ پر قبضہ کر کے اپنی حکومت کی بنیاد رکھی ۔ 1752ء میں پٹیالہ پر قبضہ کرلیا اور احمد شاہ ابدالی کی آشیر باد سے سردار لکھنا ڈوگر نے سردار آلا سنگھ کے ساتھ ملکر اپنا راج قائم کیا اور احمد شاہ ابدالی کو 3 لاکھ پچاس ہزار روپے سالانہ مال گزاری دینے کا وعدہ کیا آلا سنگھ راجہ اور سردار لکھنا ڈوگر ان کی فوج کے چیف مقرر ہوئے ۔ یہ ریاست پٹیالہ تقسیم ہند کے وقت تک قائم تھی ۔ سردار لکھنا ڈوگر مسلمان تھا یوں ریاست پٹیالہ کا کمانڈر ان چیف مسلمان ہونے کی وجہ سے مسلمان ریاست میں پر امن زندگی گزارتے تھے۔ تقسیم کے بعد یہ علاقہ بھارت میں شامل ہوا تو وہاں سے مسلمان خاندانوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کی ۔ ہجرت کے دوران ڈوگر خاندان کے کئی افراد شہید ہو گئے ۔ ان کا دعوی ہے کہ پاکستان کیلئے پہلا شہید ان کے خاندان سے تھا ۔ سردار عبدالغنی ڈوگر شہید 1947ء کے فسادات میں شہید ہوئے ۔ ڈوگر خاندان قیام پاکستان کے وقت سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا۔ اس خاندان کے سردارشا کر ڈوگر کافی دیر تک سیاست میں فعال رہے مگر کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ صرف مبر ضلع کونسل منتخب ہوتے رہے۔ 2005ء میں اس خاندان کے سردارآباد و گرمسلم لیگ ق کی طرف سے تحصیل ناظم مظفر گڑھ منتخب ہوئے۔ وہ 2008ء اور 2013ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے ۔
2018 ء میں ڈوگر خاندان کے چشم و چراغ اور نوجوان سیاستدان سردارعون حمید ڈوگر پہلی مرتبہ تحریک انصاف کی ٹکٹ پر ممبرصوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ آج کل وہ پارلیمانی سیکرٹری ہیں۔ ڈوگر خاندان وضع داری رکھ رکھاؤ مہمان نوازی اور شرافت کی سیاست میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس خاندان کے سردار اظہر ڈوگر میونسپل کمیٹی خان گڑھ کے وائس چیئر مین رہے ہیں ۔
رو ہیلا نوالی کے کھا بھی
روہیلانوالی کے نزدیک دریائے چناب کے مغربی اور مشرقی کناروں پر کھا کبھی بڑی تعداد میں آباد ہیں مگر ان کی افرادی قوت اور ووٹ بنک ضلع ملتان اور مظفر گڑھ میں منقسم ہے، یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کی سب سے بڑی برادری ہونے کے باوجود صوبائی اسمبلی کی سیاست میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔ ضلع ملتان کی طرف سے ملک عباس کھا کھی 2018ء میں تحریک انصاف کی طرف سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے مگر زندگی نے ان کیساتھ وفا نہ کی۔ ضلع مظفر گڑھ میں ملک نیاز احمد کھا کھی اور ان کے بیٹے ملک سعید احمد کھا بھی کئی مرتبہ ممبر ضلع کونسل رہے۔ اس خاندان کے افراد نے اپنے بل بوتے پر سیاست میں نام کمایا ہے۔ ملک سعید احمد کھا بھی نے صوبائی اسمبلی میں قسمت آزمائی کی مگر نا کام رہے۔
کھا بھی برادری کے ایک اور چشم و چراغ ملک فیاض حسین کھا بھی جو علاقے کے بڑے زمیندار اور سیاستدان ہیں۔ وہ سابق ایم این اے میاں عطاء محمد قریشی کے دست راست تھے۔ سیاست میں ان کا کردار بادشاہ گر کا رہا ہے۔ وہ سیاست میں کچی اور کھری روایتوں کے امین ہیں۔ اس برادری کے ملک اللہ ودھایا کھا بھی چیئر مین یو نین کونسل رہے۔ انکے بھائی ملک ریاض کھا بھی نائب ناظم رہے۔ اس برادری کے ملک محمد شفیع کھا کھی ( آدم کھا کبھی ) مقامی سیاست میں فعال رہے ۔ ناظم کے الیکشن میں حصہ لیا [24]۔ کھا بھی آف موہری والا نے بھی بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا ملک کو ثر ملک اکرام کھا کبھی وائس چیئر مین یونین کونسل رہے۔
لنگڑیال خاندان
اس خاندان کے ملک غلام احمد لنگڑیال اور ملک شبیر لنگڑیال سب سے پہلے سیاست کے میدان میں اترے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ 2002ء میں مسلم لیگ ق کی ٹکٹ پر ملک احمد کریم قسور لنگڑیال پہلی مرتبہ مبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ وہ مسلسل تین مرتبہ مبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور ہر بار پارلیمانی سیکر یٹری بنے ۔ 2008ء میں ملک احمد کریم قسور لنگڑیال متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے منتخب ہوئے اور صوبائی اسمبلی میں ن لیگ کے اتحادی بن کر حکومت میں شامل رہے۔ جبکہ 2013 ء میں ن لیگ کی ٹکٹ پر مبر صوبائی اسمبلی بنے ۔ 2018 ء میں وہ آزاد حیثیت سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے جبکہ ان کے چھوٹے بھائی ملک عبد اللہ فہد لنگڑیال بھی شہر سلطان سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ اس خاندان کے ہونہار چشم و چراغ ملک عمر خالد لنگڑیال یو نین کونسل آلودے والی کے ناظم اور چیئر مین منتخب ہوئے۔ جبکہ ملک عبداللہ فہد لنگڑیال بھی یونین ناظم اور چیئر مین یونین کونسل رہے۔ ان کے چچا ملک عبد القدیر حسن لنگڑیال بھی بلدیاتی سیاست میں فعال رہے۔ ممبر ضلع کونسل اور یو نین ناظم رہے [25]۔
کر مداد قریشی کے قریشی
بلدیاتی سیاست میں نام کمانے والے قریشی خاندان کے میاں علمدار عباس قریشی نے 2013ء میں صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر آزاد حیثیت سے جیت کر سیاست میں دھما کہ کیا۔ وہ ن لیگ کی پنجاب حکومت میں شامل رہے۔ 2018ء میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے ۔ مگر ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت میں دوبارہ نمبر صوبائی اسمبلی منتخب ہو کر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ اس خاندان کے میاں دوست محمد قریشی ، میاں مسعود احمد قریشی ، میاں تاج محمد قریشی اور میاں عزیز قریشی بھی سیاست میں فعال رہے ہیں [26]۔
بصیرہ کے قلندرانی
ماضی میں اس خاندان کے سرداروں کا بڑا نام تھا۔ مگر اب وہ مقام نہیں رہا۔ سردار نوازش خان قلندرانی 1977ء میں ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے مگر بعد میں کئی مرتبہ الیکشن میں حصہ لیا مگر کامیاب نہ ہو سکے ۔ اب ارشد خان قلندارنی سیاست میں سرگرم عمل ہیں۔ اس خاندان کے کئی افراد مقامی بلدیاتی سیاست میں کافی سرگرم رہے ہیں [27]۔
مظفر گڑھ کے تھہیم
تصمیم خاندان کا مظفر گڑھ شہر میں بڑا نام رہا ہے۔ شیخ فضل حسین 1965ء میں مغربی پاکستان اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ۔ شیخ فضل حسین ایوب دور میں 1965 ء تا 1969ء کی مغربی پاکستان اسمبلی میں ممبر رہے۔ اس وقت پورے ضلع مظفر گڑھ کی صرف دو سیٹیں ہوتی تھیں۔ بعد میں ان کی بیٹے میاں محمد حسین عرف منا شیخ بڑی دیر تک سیاست میں پنجہ آزمائی کرتے رہے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ میاں محمد حسین عرف منا شیخ اور انکے بھائی نوازش شیخ ضلعی اسمبلی میں ناظم منتخب ہوئے [28]۔
سیت پور کے شمسی
2002 ء میں اس خاندان کے سید قائم علی شاہ شمسی ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور ق لیگ کی پنجاب حکومت میں شامل رہے ۔ 2005ء میں ان کے چھوٹے بھائی سید علی رضا شاہ شمسی ضلع نائب ناظم رہے۔ 2008ء 2013 اور 2018ء میں قائم علی شاہ نئی صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں کامیاب نہ ہو سکے [29]۔
ڈیڈھے لعل کے قریشی
اس خاندان کے میاں عطاء محمد قریشی نے سیاست میں بڑا نام کمایا تھا مہر ضلع کونسل رہے۔ وہ پہلی مرتبہ 1985ء میں مضبوط سیاسی خاندانوں کو شکست دیکر ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ان کا مقابلہ ہمیشہ نوابزادہ نصر اللہ خان سے رہا۔ 1988ء میں وہ قومی اسمبلی کی نشست پر نوابزادہ نصراللہ خان کے مدمقابل تھے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ 199ء میں وہ پہلی مرتبہ جمعیت علمائے اسلام نورانی گروپ کی ٹکٹ پر نوابزادہ نصر اللہ خان کو شکست دیکر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ 1993ء میں وہ نوابزادہ نصر اللہ خان سے ہار گئے ۔مگر 1997ء میں ن لیگ کی ٹکٹ پر دوبارہ نوابزادہ نصر اللہ خان کو ہرا کر مبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور ریلوے کے پارلیمانی سیکرٹری رہے۔ اس خاندان کے میاں نذر حسین قریشی بھی ممبر ضلع کونسل جبکہ میاں عطاء محمد قریشی کے بیٹے میاں تنویر رسول قریشی بھی ممبر ضلع کونسل
رہے [30]۔
سنانواں کے کشکوری
بڑے بڑے جاگیرداروں کے مقابلے میں سنانواں کے کشکوری بلوچ کچھ بھی نہ تھے مگر جس شخص نے گشکوری خاندان کو پہچان دی وہ میں نیاز خان کشکوری کشکوری بلوچ قوم کے پڑھے لکھے نوجوان انجینئر کاشف ممتاز گشکوری ایڈوکیٹ جو کہ اب وائس چیئر مین پنجاب بیت المال مظفر گڑھ میں نے دسمبر 2012 ء میں کشکوری اتحاد کونسل کی بنیاد رکھی ، اس تنظیم نے تمام گشکوری برادری کو اکٹھا کیا۔ یوں نیاز خان گشکوری کو قبیلہ کا چیف منتخب کرتے ہوئے 2013 ء میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑایا گیا جس سے وہ مخالف امیدوار سے تقریبا ساڑھے تین ہزار ووٹ سے شکست کھا گئے لیکن تب تک انہوں نے کھروں اور گور مانیوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ 2018 ء میں نیاز خان کشکوری تحریک انصاف کے ٹکٹ پر مضبوط کھر خاندان اور گورمانی خاندان کو شکست دیکر ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ عوامی سوچ کے عوامی لیڈر ہیں۔ لوگوں سے قریبی رابطہ رکھتے ہیں ، عاجزی، انکساری اور مروت ان کی شخصیت کا خاصا ہے۔ اس خاندان کے چن خان کشکوری بلدیاتی تاریخ کے پہلے چیئر مین میونسپل کمیٹی سنانواں رہے
ہیں [31]۔
جانگلہ خاندان
شاہ جمال کا جانگلہ خاندان بھی بلدیاتی اور صوبائی سیاست میں سرگرم عمل رہا ہے ۔ اس خاندان کا مقامی سیاست میں بڑا مقام ہے۔ مہر حافظ کریم بخش جانگلہ قیام پاکستان کے بعد دو مرتبہ 1951 ء اور 1958ء (MLA) نتخب ہوئے۔ مہ محمد بخش جانگلہ ایڈوکیٹ پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر ہے۔ عمر امیر عبداللہ جانگلہ چیئرمین اور مر ضلع کونسل رہے۔ مبر امیر عبداللہ جانگلہ نے 1970ء اور 1985 ء کے الیکشن میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ مہر سجاد حسین جانگلہ چیئر مین اور ممبر ضلع کونسل رہے۔ مہر تنویر احمد جانگلہ بھی مر ضلع کونسل رہے اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ مہر غلام نبی ارشد جانگلہ بھی ضلعی سیاست میں فعال ہیں۔ مہر غلام بنی ارشد جانگلہ اور ان کے خاندان کا شاہ جمال کی یاست میں اہم کردار رہا ہے۔ آپ 1998ء میں مجبر ضلع کونسل منتخب ہوئے ۔ 2000ء سے 2010 تک دو مرتبہ ناظم یو نین کو نسل شاہ جمال رہے، انکے پیامبر غلام فرید جانگلہ چیئر مین یونین کونسل رہے ۔ ان کے کزن مہر غلام علیجانگلہ چیئر مین یونین کونسل منتخب ہوئے [32]۔
مراد آباد کے سیال
مراد آباد کے نزدیک قصبہ ٹھٹھہ سیالاں کے سال اپنی وضع داری اور رکھ رکھاؤ میں جھنگ سیال کی روایتوں کے امین ہیں ۔ مہر ارشاد سیال اس قصے کے پہلے سیاستدان ہیں جنھوں نے بڑا نام کمایا ہے ۔ پہلے پہل بلدیاتی سیاست میں سرگرم رہے ۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر مظفر گڑھ شہر کے حلقے سے صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا اور 25 سال بعد یہ سیٹ دستی خاندان سے چھین لی ۔ 2008ء سے 2013 ء تک ممبر پنجاب اسمبلی رہے ۔ 2013ء کے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ 2018ء میں قسمت آزمائی کی آپ مظفر گڑھ شہر کے قومی اسمبلی کے حلقے سے پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے ۔ جمشید دستی مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو شکست دیکر کامیاب ہوئے اس وقت ممبر قومی اسمبلی ہیں ۔ ان کے بھائی مہر امیر اکبر سیال 2016ء میں چیئر مین یو نین کونسل منتخب ہوئے [33]۔
بندہ اسحاق کے چھجڑے
بندہ اسحاق کے چھجڑہ خاندان کا سیاست میں بڑا نام ہے یہ یہاں کے جدی پشتی زمیندار ہیں ان کے مورث اعلیٰ میاں عمر وڈا چھجڑا، میاں محمد حسین ناز اور میاں عمر علی نیاز کا مقامی سیاست میں اہم کردار رہا ہے۔ میاں عمر علی نیاز کے پوتے میاں فضل حسین چھجڑہ کا ضلع مظفر گڑھ کی سیاست میں بڑا اثر رسوخ تھا ۔ علاقے کے لوگ انھیں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ آپ کے دادا میاں عمر علی نے آپ کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ آپ موضع بنڈہ اسحاق اور موضع فیض پور کے نمبر دار تھے ۔ آپ مقامی سیاست میں سرگرم رہے۔ قومی حلقے میں آپ کا کردار بادشاہ گر تھا۔ آپ جوانی میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ان کے بعد انکے چھوٹے میاں اعجاز حسین نے انکی جگہ لی [34]۔ میاں اعجاز حسین چھجہ کئی بار مبر ضلع کونسل اور یونین ناظم منتخب ہوئے ۔ میاں اعجاز کی وفات کے بعد انکے بیٹے میاں زاہد رضا معجوہ چیئر مین یونین کونسل رہے ۔ اس خاندان کے میاں شفقت حسین عابد اور میاں شباب مہدی چھجرہ بھی ناظم کا ایکشن لڑتے رہے ہیں۔ اب اس خاندان کے میاں عون رضا چھجڑہ رئیس اعظم بندہ اسحاق اپنے نانا میاں فضل حسین چھجڑہ کے جانشین ہیں اور سماجی خدمت میں پیش پیش ہیں ۔ جبکہ قادر پور سے اس خاندان کے میاں ارشاد حجرہ ممبر ضلع کونسل رہے۔ یکروالی کی پچھڑہ برادری سے میاں الطاف چھجڑہ ، میاں الیاس کریم چھجڑہ اور میاں ابوذر غفاری چھجڑہ آف کلر والی بھی مقامی سیاست میں بہت اہم مقام رکھتے ہیں ۔ میاں ابوذر غفاری
2016ء میں چیئر مین ضلع کونسل منتخب ہوئے۔
مظفر گڑھ کی چانڈیہ برادری
چاند یہ برادری مظفر گڑھ کی بڑی سیاسی حقیقت ہے ۔ مگر ان کا ووٹ بنک کئی حلقوں میں بکھرا ہوا ہے۔ اس برادری کے کئی افراد ضلع کونسل کی سیاست سے آگے نہ جاسکے۔ کئی افراد نے صوبائی سیاست میں حصہ لیا مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ اکرم خان چانڈیہ 2016ء میں مظفر گڑھ شہر کی میونسپل کمیٹی کے چیئر مین منتخب ہوئے ۔ ان کے بھائی اجمل خان چانڈیہ 2018ء کے ایکشن میں مظفر گڑھ شہر کے صوبائی حلقے سے عوامی راج پارٹی کے امیدوار تھے۔ صرف چند ووٹوں سے الیکشن ہار گئے ۔ اس برادری کے مظہر خان چانڈیہ، گلاب خان چایڈ یہ اور محد حسین چانڈ یہ مبر ضلع کونسل اور ناظم رہے ہیں۔
اس بی مجاہد چاند یہ بھی یو نین ناظم اور چیئر مین رہے اسکے بھائی غلام قادر خان چانڈ یہ 2002ء میں پیپلز پارٹی کی طرف سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ اس برادری کے اظہر خان چانڈ یہ 2018 ء میں مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ سے رنگ پور کے صوبائی اسمبلی کے حلقے سے کامیاب ہوئے ہیں اور اس وقت ممبر صوبائی اسمبلی ہیں۔ اس برادری کے منیر خان چانڈیہ بھی بلدیاتی اور مقامی سیاست میں فعال رہے ہیں [35]۔ روہیلا نوالی سے تعلق رکھنے والے سردار عنایت خان چانڈیہ بھی ضلع کی سیاست میں بہت فعال رہے ۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کے دست راست اور سیاسی ساتھی تھے جنھوں نے وفا کی داستان رقم کی۔ ہمیشہ نوابزادہ نصر اللہ خان کے سیاسی ہم سفر رہے ۔ آپ مایہ ناز وکیل اور ضلع کی سیاست کا بڑا نام تھے۔ جمہوری پارٹی کی ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے ایکشن میں حصہ بھی لیا۔
بنگل والی کا گوپانگ خاندان
محمد نواز خان المعروف نیو خان اور ان کے بھائی رب نواز خان گوپانگ کے خاندان نے سماجی اور سیاسی میدان میں بڑا نام کمایا ہے۔ اس خاندان کے پہلے فرد سردار اختر خان گوپانگ تھے جو سیاست کے میدان میں آئے۔ 2 مرتبہ یونین ناظم منتخب ہوئے۔ 2016ء میں انکے بیٹے سردار سہیل اختر خان گوپانگ یو نین کونسل کے چیئر مین منتخب ہوئے ۔ 2018 ء کے عام انتخابات میں اختر خان گوپانگ نے پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے ایکشن میں حصہ لیا مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ 2008ء کے ضمنی الیکشن میں انکے چارب نواز خان گوپانگ نے صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر قسمت آزمائی کی مگر نا کام رہے۔ مقامی سیاست میں یہ خاندان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دوبی میں اپنا کاروبار کر تے ہیں مگر اپنی علاقائی روایات سے جڑے ہوئے ہیں [36]۔
دانریں کے سید
شاہ جمال کے نزدیک موضع دائریں کے سید بھی کافی عرصہ سے مقامی سیاست میں سرگرم عمل رہے ہیں ۔ سید جمیل شاہ بخاری اور نعیم بخاری الیکشن میں حصہ لیتے رہے ہیں ۔ سید جمیل شاہ بخاری یو نین ناظم اور چیئر مین منتخب ہوئے ۔ 2018ء میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی نشست پر ایکشن میں حصہ لیا اور دوسرے نمبر آئے ۔ ان سے پہلے سید سردار شاہ یہاں سے ممبر ضلع کونسل منتخب ہوتے رہے ہیں [37]۔ اس خاندان کے سید نعیم بخاری بھی مقامی سیاست میں حصہ لیتے رہے ہیں۔
پیر آف فاضل ( پیر دی بھینی ) کے سادات
رنگ پور کے نزدیک واقع پی دی بھینی کے سادات کا روحانی اور سیاسی طور پر بڑا نام ہے۔ ان کا سلسلہ نسب اوچ شریف کے سادات سے جاملتا ہے۔ پیر دی بھینی کا سادات گھرانہ دربار چک نورنگ شاہ جہانیاں ( ضلع جھنگ) اور سید راجن شاہ (یہ) کا گدی نشین ہے۔ یہاں کے سادات پیر نورنگ شاہ جہانیاں کی اولاد ہیں۔ کئی صدیاں پہلے ان کے اجداد اوچ شریف سے اس علاقے میں منتقل ہوئے اور رنگ پور جھنگ ، احمد پور سیال اور آس پاس کے علاقوں میں تبلیغ دین کا کام سرانجام دیا انگریز دور میں اس خاندان کے پیر سید کرم حسین شاہ بخاری آنریری مجسٹریٹ تھے اور مقامی سیاست میں فعال تھے۔
ان کے بعد ان کے بیٹے مخدوم سید عطا حسین شاہ بخاری ضلع کی سیاست کا اہم نام تھے ۔ ساٹھ کی دہائی میں پیر سید کرم حسین شاہ کے پوتے مخدوم سید مظفر حسین شاہ ضلع کونسل کے ممبر منتخب ہوئے۔ اس گھرانے کے مخدوم سید مظفر حسین شاہ بخاری اس وقت دربار چک نورنگ شاہ جہانیاں کے گدی نشین اور یہاں کے سادات کے بزرگ ہیں۔ سید مظفر شاہ بخاری 2000ء میں مسلم لیگ ق کی طرف تحصیل ناظم کے امیدوار تھے۔ اس خاندان کے پیر سید فدا حسین شاہ بھی سیاست میں فعال تھے ۔ ان کے بھائی مخدوم سید غلام عباس شاہ ممبر ضلع کونسل رہے۔ سید فدا حسین شاہ کے بیٹے سید عاشق حسین شاہ بھی ممبر ضلع کونسل رہے ہیں [38]۔ سید عاشق حسین شاہ المعروف سید سردار شاہ ملنسار اور با اخلاق نوجوان ہیں ۔ سیاست اور خدمت کے میدان میں اپنے بزرگوں کے جاں نشین ہیں۔
روہیلا نوالی اور خان گڑھ کا بھٹہ خاندان
روہیلا نوالی اور خان گڑھ کے بھٹہ خاندان کے افراد بھی دیر سے سیاست میں سرگرم عمل ہیں مگر ضلع کی سیاست سے آگے نہیں جاسکے ۔ سردار غلام رسول خان بھٹہ ، سردار غلام قادر خان بھٹہ ، سردار احسن خان بھٹہ، سجاد خان بھٹہ (مانکا بھٹہ ) سردار رفیق خان بھٹہ اور میاں اسماعیل خان بھٹہ ممبر ضلع کونسل اور یونین ناظم منتخب ہوتے رہے ہیں۔ اگر چہ سجاد خان بھٹہ نے ممبر صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر قسمت آزمائی کی مگر کامیاب نہ ہو سکے اسی طرح 2018ء کے الیکشن میں میاں اسماعیل خان بھٹہ نے بطور آزاد امیدوار 14 ہزار ووٹ لئے مگر کامیاب نہ ہو سکے [39]۔ میاں اسماعیل خان بھٹہ کا مقامی بلدیاتی سیاست میں بڑا نام رہا ہے۔
شا جمال کا مکول خاندان
مکول علاقہ شاہ جمال کے زمیندار ہیں۔ مکول خاندان کے کئی افراد سیاست میں سرگرم عمل رہے ہیں ۔ میاں خالد مصطفے مکول کئی بار ناظم اور نمبر ضلع کونسل منتخب ہوئے دو مرتبہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ انگر کامیاب نہ ہو سکے ۔ 2013ء میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر 26 ہزار ووٹ لیکر دوسرے نمبر رہے ۔ میاں سلیم اصغر مکول بھی ناظم اور چیئر مین یونین کونسل رہے۔ نوجوان اور پر عزم خضر حیات مکول بھی ضلع کی سیاست میں فعال ہیں دو مرتبہ یونین ناظم اور چیئر مین کے امیدوار تھے [40]۔
علی پور کے کھلنگ
انگریز دور میں ان کے ایک بزرگ ملک احمد بخش کھلنگ ذیل دار تھے ۔ جو ملک شیر محمد کھلنگ کے بیٹے اور الحاج ملک عبداللہ کھلنگ کے بھائی تھے۔ 1960ء میں الحاج ملک عبداللہ کھلنگ ( نمبر دار ) یونین کونسل جھلا رہیں کے چیئر مین بنے۔ واضح رہے کہ یونین کونسل جھلار میں کے 1960 ء سے اب تک کھلنگ ہی چیئر مین بنتے آرہے ہیں۔ ملک خر محمد کھلنگ ، روبینہ عزیز کھلنگ اور ملک عبدالعزیز کھلنگ ضلع کی سیاست کے بڑے نام ہیں ۔ ای طرح ارشد مشتاق کھلنگ بھی چیئر میں یونین کونسل رہے ہیں۔ روبینہ عزیز کھلنگ کو مشرف دور میں نئے بلدیاتی نظام میں پاکستان کی پہلی خاتون ناظم منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ 2013ء میں شہر سلطان کے صوبائی حلقے سے ملک عبدالعزیز کھلنگ نے پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور دوسری پوزیشن پر رہے۔ 2018 ء کے الیکشن میں انہوں نے آزاد امیدوار کے طور پر علی پور کے صوبائی حلقے سے الیکشن میں حصہ لیا مگر کامیاب نہ ہو سکے [41]۔
رنگ پور کے تر گڑ
رنگ پور کے ترگر قیام پاکستان سے سیاست میں سرگرم عمل ہیں۔ ضلع کی سیاست میں ان کا اہم مقام رہا ہے ۔ اس خاندان کے مہر ناصر ترگڑ نے 4 مرتبہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا مگر کامیاب نہ ہو سکے ۔ 2002ء میں انھوں نے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے بہت ووٹ لئے تھے مگر 2008ء میں مسلم لیگ (ن) نے ان کو ٹکٹ نہ دیکر زیادتی کی۔ مہر عبدالحسین تر گڑ بھی ضلع کی سیاست میں فعال ہیں ان دنوں ضلعی چیئر مین عشر وز کوۃ کمیٹی ہیں۔ تحریک انصاف سے وابستہ ہیں [42]۔