ضلع کو سیاسی حوالہ سے بھی پورے ملک میں بہت شہرت حاصل ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران یہاں سے مسلم لیگ کا پیغام پورے ضلع میں لوگوں تک پہنچا کر پاکستان کے حق میں راہ عامہ کو ہموار کیا۔ قیام پاکستان کے بعد یہاں کے سیاسی زعماء حکومتی معاملات میں شامل رہے ان میں سے مشتاق احمد خان گرمانی، گورنر اور وزیر داخلہ رہے۔ عبدالحمید خان دستی وزیرتعلیم اور وزیر اعلیٰ بھی مقرر کئے۔ ابراہیم برق وزیر رہے جبکہ قادر بخش جھکڑ جنکا تعلق اس وقت ضلع کی تحصیل لیہ سے تھا صوبائی وزیر مقرر ہوئے ۔ 1958 کے مارشل لاء کے نتیجے میں ایبڈو کے تحت جن سیاست دانوں کو سیاست سے روک دیا گیا ان میں عبد الحمید دستی بھی شامل تھے۔ ایوب خان کے دور حکومت میں ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں تحصیل کوٹ ادو سے کھر خاندان کے ایک نوجوان ملک غلام مصطفیٰ کو ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور ذوالفقار علی بھٹو سے دوستانہ مراسم کی بنا پر وہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے ۔ اور جب پارٹی کو 1971 میں اقتدار ملاتو وہ پنجاب کے گورنر اور پہلے سویلین مارشل لاء اور ایڈ منسٹریٹر مقرر ہوئے۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد وہ وزیر اعلیٰ بھی بن گئے۔ لیکن بھٹو صاحب سے اختلافات کی بناء پر اقتدار سے علیحدہ ہو گئے۔ اس دور میں مظفر گڑھ شہر سے امجد حمید خان دستی مبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں شامل رہے۔ وہ سات دفعہ صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے وزیر خزانہ اور وزیر تعلیم بھی رہے۔ ضلع کے سیاست دانوں میں انکا نام انتہائی احترام اور عزت سے لیا جاتا ہے۔ کیونکہ ان پر کبھی کرپشن یا بد عنوانی کا الزام نہیں لگا۔ نواب زادہ نصر اللہ خان بھی قومی سطح پرضلع کی پہچان رہے ہیں۔ اگر چہ قیام پاکستان کے وقت ان کا تعلق مجلس احرار سے تھا۔ جس نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی تاہم 1947 کے بعد انہوں نے ملک میں جمہوریت اور لوگوں کے حقوق کے لئے بہت قربانیاں دیں۔ مختلف حکومتوں کے خلاف تحریکوں کی قیادت کی اور حکومتوں کے بنانے اور ہٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ دوبار پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے ۔ دائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں کے اتحاد کے وہ مختلف مواقع پر سر براہ رہے۔ اگر چہ ان کا زیادہ عرصہ حزب اختلاف کی قیادت کرنے میں گزرا تاہم محترمہ بینظیر بھٹو کے دورے حکومت 1988 میں انہیں کشمیر کمیٹی کا چیئر مین بنایا گیا۔ اور ان کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر تھا۔ اسی دور میں ان کی جماعت پاکستان جمہوری پارٹی (پی ڈی پی) کے ٹکٹ پر انکا بیٹا منصور احمد خان ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوا۔ اور انہیں پنجاب میں وزیر مال مقرر کیا گیا۔ جمہوریت کی بحالی اور سول آزادی کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش 1977 کے مارشل لاء کے بعد جہاں پورے ملک میں سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوا وہاں مظفر گڑھ میں بھی سیاسی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجہ میں ضلع میں نئے چہرے سامنے آئے ان میں تحصیل کوٹ ادو سے ملک سلطان محمود ہنجرا، ملک محمد رفیق کھر ، ملک غلام ربانی تحصیل مظفر گڑھ سے نواب زادہ منصور احمد خان، میاں عطا محمد قریشی اور سردار نصر اللہ خان جتوئی شامل ہیں۔ سب سے بڑی تبدیلی 2002 کے الیکشن کے نتیجہ میں آئی کیونکہ اس الیکشن میں امیدواروں کے لئے بی اے کی شرط تھی اس لئے بہت سے نئے چہرے سامنے آئے ۔ الیکشن کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر مسز خالدہ محسن قریشی ،حنا ربانی کھر، انجینئر شاہد جمیل قریشی، سید باسط سلطان لغاری اور عبد القیوم خان جتوئی منتخب ہوئے ۔ کاسٹ ووٹوں کی شرح اس الیکشن میں ماضی کے سیاستدانوں میں سے سردار امجد خان دستی اور سردار عبد القیوم خان جتوئی کامیاب ہوئے ۔ جبکہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے دیگر حلقوں میں کئی نئے چہرے سامنے آئے۔ منتخب ہونے والی پارلیمنٹ نے ملک کی تاریخ میں پہلی پانچ سال کی مدت پوری کی اور سال 2008 میں دوبارہ انتخابات منعقد ہوئے۔
اس طرح صدر پرویز مشرف کی حکومت نے سال 2008 میں دوبارہ انتخابات کرائے اس میں بھی امیدوار کے لئے بی۔ اے ہونا ضروری تھا۔ الیکشن کے موقع پر بہت گہما گہمی تھی کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو اور مسلم لیگ ن کے نواز شریف ملک میں واپس آچکے تھے اور عدلیہ کی آزادی کے لئے ایک تحریک چل رہی تھی۔ ضلع میں سیاسی طور پر اس الیکشن کے نتیجہ میں حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ اس الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں کا مقابلہ برسراقتدار جماعت مسلم لیگ قائد اعظم کے امیدواروں سے تھا۔ تمام پانچ نشستوں پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کا کامیاب ہو گئے جبکہ دوسرے نمبر پر مسلم لیگ قائد اعظم کے امیدوار آئے ۔ اس جماعت کی قیادت چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہی کر رہے تھے۔ ان انتخابات کے نتائج اسطرح سامنے آئے۔
2007 کی انتخابی فہرستوں کے مطابق ضلع میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد تیرہ لاکھ انتالیس ہزار سات سو دو تھی۔ جبکہ 2011 کی لسٹوں کے مطابق اب یہ تعداد چودہ لاکھ تہتر ہزار آٹھ سو باون ہے۔ سال 2010 میں جمشید احمد دستی کی اہلیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور ان کی ڈگری کے خلاف کیس دائر کیا گیا جس پر انہوں نے سپریم کورٹ میں ایم این اے سے استعفیٰ دے دیا اس حلقہ میں دوبارہ ضمنی انتخابات منعقد ہوئے یہ ایک کانٹے دار مقابلہ تھا جس میں جمشید دستی تنہا تھا۔ جبکے اس مقابلے میں تمام بڑے سیاسی لیڈر، جاگیردار اور سابق ناظمین تھے جو پنجاب میں برابر اقتدار ن لیگ کے ایماں پر اکھٹے ہو کر جمشید احمد دستی پاکستان پیپلز پارٹی کی مخالفت کر رہے تھے۔ 2008 الیکشن میں افتخار احمد خان نے مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا جبکہ 2010 کے ضمنی انتخابات میں انہوں نے اپنے بھائی منصور احمد خان کے ساتھ مل کر پاکستان جمہوری پارٹی کی ٹکٹ پر قسمت آزمائی کی۔ تیسرے امیدوار سابق گورنر ملک غلام مصطفیٰ کھر تھے۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے امیدوار تھے
اس ضمنی الیکشن میں بڑی گہما گہمی تھی ۔ جمشید احمد خان دستی کیلئے بہت مشکلات تھیں۔ خود انکی اپنی پارٹی میں ایک لابی ان کے خلاف تھی ۔ ساتھ ہی عدالت میں نا اہلی کے کیس کی سماعت بھی جاری تھی ۔ اور حلقہ کے تمام سیاسی لوگ ان کے مخالف تھے ۔ اس ضمنی الیکشن میں ضلع میں دو بڑے سیاستدان ملک غلام مصطفیٰ کھر اور نوابزادہ نصر اللہ کے بیٹے افتخار احمد خان ناکام ہوئے اور 2001 کے بلدیاتی الیکشن میں سامنے آنے والے ضلع اسمبلی کے لیبر کونسلر اور بعد میں یونین ناظم بنے والے جمشید احمد خان دستی نے حیرت انگیز طور پر کامیابی حاصل کی۔
نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔