مظفر گڑھ کی ثقافت

 مظفر گڑھ: کے فن کار اور گلوکار

تو قیر ناصرـ ڈرامہ آرٹسٹ

تو قیر ناصر ڈرامہ آرٹسٹ [106] مشہور ڈرامہ آرٹسٹ، ڈائر یکٹر اور پروڈیوسر کا تعلق مظفر گڑھ شہر کے محلہ بخاری والا سے ہے۔ آپ 14 ستمبر 1954ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مظفر گڑھ سے حاصل کی ۔ گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ سے گریجویشن کرنے کے بعد آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کیا۔ اداکاری آپ کا مشغلہ تھا جواب آپ کا جنون بن چکا ہے۔ آپ نے 1978 ء میں پاکستان ٹیلی ویژن سے اداکاری کا آغاز کیا۔ آپ کے مشہور ڈراموں میں کشکول، سونا چاندی، لنڈا بازار راہیں، ریزہ ریزہ ، پناہ، سمندر، دہلیز پرواز تھکن اور دھرتی شامل ہیں ، آپ نے پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور ڈرامے راہیں میں جو را بھٹی کے کردار کو اس خوبصورتی سے نبھایا کہ یہ کردار آپ کو فن کی بلندیوں پر لے گیا۔ ڈرامے نمک میں آپ نے نواب سکندر حیات کا کردار نبھایا۔ آپ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹ کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ حکومت پاکستان نے آپ کی شاندار فنی خدمات کے اعتراف میں آپ کو پرائڈ آف پاکستان اور تمغہ امتیاز سے نوازا ہے۔ آپ نے مظفر گڑھ کا نام پوری دنیا میں روشن کیا۔ اہل مظفر گڑھ کو اپنے اس سپوت پر فخر ہے۔ اہل مظفر گڑھ نے آپ کی بے مثال خدمات کی بدولت آپ کو 2019ء میں ہلال مظفر گڑھ دیا ہے۔

شاہ نذر نابینا ادا کار [107]

پیدائشی طور پر نا بینا تھے۔ مگر بہت بڑے فنکار تھے ۔ 1916ء میں جھگی والا میں پیدا ہوئے ۔ قرآن پاک حفظ کیا مگر بعد میں اداکاری کا پیشہ اختیار کیا۔ ٹو رنگ تھیٹر کمپنی میں شامل ہوئے ۔ کمال کا حافظہ پایا تھا۔ 15 سال تک اداکاری اور ہدایت کاری کے پیشے سے وابستہ رہے۔ آپ شاعر بھی تھے۔ سرائیکی میں شاعری کرتے تھے اور معروف سرائیکی شاعر غلام حیدر یتیم سے اصلاح لیتے تھے ۔ بعد میں جھگی والا سے شاہ جمال کے نزدیک ایک گاؤں بستی احمد شاہ منتقل ہو گئے ۔ باقی زندگی نہیں گزاری۔ 1991ء میں اللہ کو پیارے ہوئے ۔ انھیں بجا طور پر مظفر گڑھ کے عظیم اور اولین ادا کاروں میں شامل کیا جاتا ہے۔

شیخ خلیل احمد ۔ اداکار

آپ کا تعلق مظفر گڑھ شہر سے ہے۔ آپ ٹی وی کے اداکار ہیں اور پی ٹی وی کے کئی ڈراموں میں کردار ادا کر چکے ہیں۔ شیخ خلیل احمد نے 1971ء میں مظفر گڑھ ڈرامہ اینڈ کلچرل فورم کی بنیاد رکھی۔ اس فورم سے انہوں نے مظفر گڑھ میں بے شمر ادبی ثقافتی اور موسیقی کے پروگرام کیے۔ آپ نے پاکستان کے چوٹی کے ادا کار گلوکار اور ادبی مشاہیر کو اپنے فورم پر مدعو کیا۔ مظفر گڑھ میں جدید تھیز کے بانی ہیں اور بیشمار ادا کاروں کو اپنے اسٹیج ڈراموں میں کام کا موقعہ دیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن لاہور سنٹر کے کامیاب ڈرامہ سیریل اندھیرا اجالا، سونا چاندی اور وارث کی ٹیم کو اپنے اسٹیج پر کام کرنے کا اعزاز بخشا۔ معروف ٹی وی ٹار تو قیر ناصر اور انکے بڑے بھائی پرویز روبی ، مقبول قریشی ریڈ یو آرٹسٹ اور شیخ عاشق حسین اس فورم کے بانی اراکین میں شامل ہیں۔ بعد ازاں افضل چوہان ، ندیم رحمن ملک ، شیخ جمیل احمد اور کلیم اللہ بلوچ بھی اس فورم کے ابتداء سے شامل ہوئے اور ایک طویل عرصہ ساتھ رہے۔ اداکار قوی خان آپ کے قریبی دوست ہیں۔ آپ ایک ماہر فن تعمیر بھی ہیں۔ آج کل پیرانہ سالی کی زندگی گزار رہے ہیں [108]۔

سائرہ خان ۔ معروف اداکارہ

فلم اور ٹی وی کی مشہور اداکارہ سائرہ خان کا تعلق مظفر گڑھ کے نواحی گاؤں میراں حیات ہے ہے ۔ وہ شوبز کی دنیا میں سال 1996ء سے 2011 ء تک فعال رہیں۔ بعد میں شوبز کو خیر باد کہ دیا۔ سائرہ نے تھیٹر فلم اور ٹیلی ویژن میں کام کیا۔ پی ٹی وی پر کئی یادگار ڈراموں میں کام کیا۔ فلم گھونگھٹ اور ڈریم گرل ان کی مشہور فلمیں ہیں ۔ ان کی شانداری اداکاری پر انھیں لکس اسٹائل ایوارڈ (2006 ء ) دیا گیا۔ انکا کیر میر ایک حادثے سے شروع ہوا اور حادثے پر ختم ہوا ۔ وہ میٹرک کے رزلٹ کی وجہ سے گھر سے چلی گئیں۔ اسے خوف تھا کہ امتحان کے خراب نتائج کی وجہ سے، اس کے والد اس کے ساتھ سخت سلوک کریں گے، لہذا وہ گھر سے فرار ہو گئیں ۔ لاہور میں، اس نے ایک اسٹوڈیو کے مالک سے ملاقات کی، جس نے سائرہ کے فوٹوشوٹ کا بندو بست کیا۔ اس کی کامیاب ٹیلی ویژن سیریز پراندہ (1998ء) ہے۔ ڈرامہ بیٹی (2005ء) میں شاندار اداکاری نے اسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔ سائرہ خان پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی ایک نہایت در مسائل خاتون اداکارہ تھیں اگر ان سے متعلق کہا جائے کہ وہ آئی اور چھا گئی تو کچھ بے جانہ ہوگا۔ اپنے فن اداکاری سے دنیا کو مبہوت کر دینے والی یہ اداکارہ اچانک ہی ٹی وی سکرین سے اوجھل ہو ئیں اور اور پھر ان سے متعلق خبروں کا سلسلہ بھی بند ہوگیا۔ 2011ء میں سائرہ نے شوبز انڈ سٹری چھوڑ دگی۔ وہ اب اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ جو ہر ٹاؤن، لاہور میں رو رہی ہیں۔ اس نے اسلام کی تبلیغی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا ہے۔ دراصل ایک حادثے نے انکی زندگی بدل دی۔ سائرہ خان نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ اچی کار چلا رہی تھی جب اس نے حادثاتی طور پر ایک چھوٹی لڑکی کو ٹکر ماردی۔ بچی شدید زخمی ہوگئی تھیاور سائرہ خان کو خدشہ تھا کہ شاید وہ زندہ نہ رہ سکے ۔ سائرہ خان نے بتایا کہ وہ بچی کو اسپتال لے گئیں اور جاتے ہوئے انہوں نے اللہ سے وعدہ کیا کہ اگر یہ چھوٹی بچی زندہ بچ گئی تو وہ ہمیشہ کے لئے شوبز کی دنیا چھوڑ دے گی ۔ ڈاکٹروں نے معجزانہ طور پر اس چھوٹی بچی کو بچایا اور سائرہ نے اپنے وعدے کو پورا کرنے کا فیصلہ کیا [109]۔

شعور ناصر اداکار

یکم جنوری 1963ء میں کمال پور خانگڑھ میں پیدا ہوئے ۔ 1979ء میں گورنمنٹ ہائی سکول خان گڑھ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ انٹرگورنمنٹ کالج مظفر گڑھ سے کہا۔ محکمہ مال میں بطور پٹواری تعینات ہوئے ۔ سرائیکی اور اردو کے شاعر ہونے کے ساتھ خدا داد صلاحیتوں کے حامل ادا کار بھی ہیں۔ اب تک کئی سٹیج اور ٹی وی کے ڈراموں میں کام کر چکے ہیں [110]۔

بلال اعوان۔ اداکار

فلم اور ٹی وی کے معروف اداکار لکھاری اور ہدایت کار بلال اعوان 1965ء میں ڈیرہ غازی میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی وہیں سے حاصل کی ۔ بچپن سے ہی اداکاری کا شوق تھا۔ سٹیج ڈراموں میں کام شروع کیا۔ پی ٹی وی ڈراموں میں 1988 ء سے کام شروع کیا ۔ پی ٹی وی کے ڈراموں عینک والا جن ، سلسلہ، بند گلی ٹھنڈی چھاں میں بطور اداکار کام کیا۔ 1993ء میں مظفر گڑھ منتقل ہوئے آج کل مظفر گڑھ میں رہائش پذیر ہیں ۔ پی ٹی وی کے ڈرامے طفیلی ہاؤس میں بطور اداکار کام کر رہے ہیں [111]۔

اجمل لانگ ۔ اداکار، گلوکار اور صحافی

اجمل لانگ یکم جون 1988 ء کو مظفر گڑھ کے نواحی شہر خانگڑھ کے قریبی گاوں موضع لانگ میں ملک رفیق لانگ کے گھر پیدا ہوئے۔ اجمل لانگ نے پرائمری تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول بستی مجودا ہن سے حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان ہائی سکول خانگڑھ سے پاس کیا اور بہا الدین زکریا یونیورسٹی سے 2009ء میں بی اے پاس کیا۔ اجمل لانگ کو بچپن سے ہی ادا کاری اور موسیقی سے لگا تھا۔ جب وہ بی اے کی تعلیم حاصل کر رہے تھے اس دوران اجمل لانگ نے موقع پا کر رحیم یار خان میں بننے والی سرائیکی زبان کی فلم ‘ چوری ڈھول میں بطور اداکار کام کیا اور پھر رحیم یارخان میں بنے والی ایک اور سرائیکی فلم فیضو استرا میں بھی کام کیا۔ اجمل لانگ نے اپنے شہر خانگڑھ میں دسمبر 2008 ء میں لانگ آرٹ پروڈکشن ہاؤس کے نام سے پرائیویٹ پروڈکشن ہاؤس کی بنیاد رکھی ۔ اجمل لانگ نے شوبز سرگرمیوں میں بطور ڈائیریکٹر، رائیٹر، پروڈیوسر، اداکار، شاعر اور سنگر اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ آج کل صحافت سے وابستہ ہیں۔ بچ ٹی وی کے رپورٹر ہیں اور ساتھ لانگ ایونٹ منیجمنٹ کمپنی بھی بنائی ہوئی ہے [112]۔

علی شاہ فردوس ۔ اداکار

1980ء کو مظفر گڑھ میں پیدا ہوئے ۔ کمرشل کالج مظفر گڑھ سے ڈی کام کرنے کے بعد اداکاری سے وابستہ ہوئے ۔ 1994ء میں پہلے سٹیج ڈرامے میری ماں دعا کرنا میں کشمیری مجاہد کا کردار ادا کیا ۔ لاہور فلم انڈسٹری میں مختلف فلموں میں سپورٹنگ ایکٹر کے طور پر کام کیا۔ PTV کے سرائیکی ڈرامے رت رنکیلٹری میں اداکاری کی ۔ 3 سال یک وسیب ٹی وی کے ساتھ بطور ادا کار وابستہ رہے روہی ٹی وی میں کام کیا ۔ اب تک بیشار سٹیج شو ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں [113]۔

اقبال پٹھانے خان ۔ قوال

پاکستان کے سب سے بڑے لوک گلوکار پٹھانے خان کے بیٹے اقبال پٹھانے خان اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے موسیقی کے شعبہ سے وابستہ ہیں ۔ والد کی طرح کافی گائیکی میں طبع آزمائی کرتے ہیں ۔ ان کا تعلق کوٹ ادو سے ہے اب تک کئی کافیاں گیت گا چکے ہیں ۔ جبکہ ان کے بھانجے اور پٹھانے خان کے نواسے اولیس ٹھانے خان بھی قوالی گانے میں خوب مہارت رکھتے ہیں۔

سجاد ساقی ۔ لوک گلوکار

ریڈیو، ٹی وی کے معروف لوک سنگر سجاد ساقی کا تعلق آلود ے والی سے ہے ۔ سجاد ساقی عرصہ میں سال سے فن گائیکی سے وابستہ ہیں۔ اب تک ریڈیو ٹی وی، اسٹیج اور مغلوں میں ہزاروں گیت گا چکے ہیں ۔ ان کے گیتوں کے سینکڑوں البم ریلیز ہو چکے ہیں۔

ریاض ساقی ۔ معروف لوک گلوکار

ریاض ساقی کا تعلق مظفر گڑھ سے ہے ، گلوکاری کا آغاز 1992ء میں کیا ۔ گلوکاری میں انکے استاد معروف گائیک استاد مولا بخش مرحوم تھے جبکہ اللہ دتہ لونے والے سے بھی رموز گائیکی سیکھنے کا موقع ملا۔ اب تک تین سو مقبول سرائیکی گیت گا چکے ہیں ۔ ریاض ساقی نے معروف شعرا مصطفے مستو مرحوم ، مظہر خان چانڈیہ، شاکر شجاع آبادی عابد مجتبی اور مشتاق سبقت کے لکھے گیت بڑی خوبصورتی سے گائے ہیں ۔ عرصہ 10 سال سے تھل چوک مظفر گڑھ میں ساقی میوزک اکیڈمی چلا رہے ہیں جہاں نو جوانوں کی تربیت کر رہے ہیں ۔ نہ ونج و دیار ڈاڑھی مونجھ آندی اے ان کا مقبول ترین گیت ہے [114]۔

جاوید مگسی لوک گلوکار

مظفر گڑھ میں حقیقی معنوں میں پٹھانے خان کے بعد جس گلو کار نے عوامی مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے اور سرائیکی وسیب میں اپنی عوامی شناخت قائم کی وہ جاوید مگسی ہے۔ جاد ید مگسی کا تعلق مظفر گڑھ شہر کی مگسی فیملی سے ہے۔ کسی دور میں ان کا گیت رتی کا روالے آساکوں چاتی جلیں ہا بے حد مقبول ہوا تھا سرائیکی وسیب کا کوئی ایسا فرد نہیں تھا جس نے یہ گیت نہ سنا ہو ۔ اب تک ریڈیو ٹی وی اسٹیج اور محفلوں میں ہزاروں گیت گا چکے ہیں ۔ ان کے گیتوں کے سینکڑوں البم ریلیز ہو چکے ہیں۔

رشید ملک – گلوکار، کمپیئر اور اناؤنسر

معروف گلوکار ، اناؤنسر اور کمپیئر رشید ملک کا تعلق مظفر گڑھ سے ہے ۔ آپ پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان پر اپنے فن کا لوہا منوا چکے ہیں ۔ زمانہ طالب علمی سے فن گلوکاری سے وابستہ ہیں ۔ اس فن میں استاد شوکت علیم ان کے اساتذہ ہیں ۔ اب تک کئی ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں ۔ ایف ایم ریڈیو کے آرجے کے طور عرصہ سے خدمات دے رہے ہیں۔ پی ٹی وی کے کئی پروگراموں کی میزبانی کے فرائض سر انجام دے چکے ہیں ۔ ان دنوں آپ ریڈیو ست ایف ایم 103 کے پروگرام کے میزبان ہیں ۔ پی ٹی وی پرت انکیلوی ، راحت ، پنجند اور شوجوان میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔جبکہ سرائیکی پروگرام الرف انگیری، بول دے جوگی ہتم رات کی رانی ہو، کی میزبانی کے فرائض عرصہ تک سرانجام دیتے ہیں۔

عاشق دیوانہ ۔ لوک گلوکار

استاد عاشق دیوانہ کا تعلق خان پور بگا شیر سے ہے ۔ آپ کا شمار سرائیکی گلوکاری کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ گلوکاری میں ان کے استاد منظور علی خان آف لیہ ہے۔ آپ نے 90 کی دہائی میں گلوکاری کا آغاز کیا۔ ان کے گیتوں کے اب تک 50 سے زائد الم آچکے ہیں ۔ ان کے مشہور گیتوں میں اللہ بیلی جانی وو، نیاں تہاڈیاں کھوٹیاں ہن اور جیون چار دیہاڑے شامل ہیں۔ سرائیکی زبان کے مشہور گیت نگار اشولال فقیر اور مصطفی مستو کے کئی گیت گا چکے ہیں۔

معروف گلوکارہ منی مورنی

کسی دور میں پورے سرائیکی وسیب میں منی مورنی کی آواز گونجتی تھی ان کے کئی گیت بہت مقبول ہوئے۔ ان کا تعلق ضلع مظفر گڑھ سے ہے۔ دریائے چناب کے کنارے آباد مور قبیلے کی منی مورنی کا اصل نام اصل نام منظور مائی ہے ۔ 23 سال تک ریڈیو پاکستان ملتان پر گیت گائے ۔ منظور مائی معروف منی مورنی 1970ء میں مظفر گڑھ کے گاؤں نہستی سندیلہ (خان گڑھ) میں ایک غریب خاندان کے واحد بخش مور کے ہاں پیدا ہوئی ۔ غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکی ۔ چھ سال کی عمر میں والد فوت ہو گئے تو والدہ نے دوسری شادی کر لی ، دنیا کے دکھ درد اور محرومیوں نے گلوکار بنا دیا ماں باپ کی جدائی میں گیت گانا شروع کئے۔ نانا پیار سے منی مورنی کہتا تھا اور یہی نام ان کا تعارف بن گیا ۔ جبکہ ان کے استاد فیض بخش خاں ان کو پیار سے پروین کہہ کر بلاتے تھے ۔ نانا ، رشتہ دار اور پوری برادری ان کے فن گائیکی کے سخت خلاف تھے ۔ 13 سال کی عمر میں گانا شروع کیا۔ پہلے پہل لوگ تماشوں ، لوکل پروگراموں میں گا نا شروع کیا۔ پھرتی ، ریڈیو ٹی وی پر بھی گیت گائے۔ کسی دور میں ان کی آواز پورے سرائیکی وسیب میں گوشتی تھی۔ استاد فیض بخش خان فن گلوکاری میں ان کے استاد ہیں اب تک ان کے گیتوں کے سینکڑوں والیم ریلیز ہو چکے ہیں ۔ 1993ء میں محمد حسین چوہان حامد پور کنورا (ملتان) سے شادی کر لی ۔ وہاں سے تین بیٹے ہوئے ۔ 2018 ء میں خاوند نے طلاق دے دی ۔ اس وقت بے یارومد درشتہ داروں کے پاس ملتان میں مقیم ہیں اس دل کے عارضے میں جتلا ہیں۔ سجاد ساقی ، آصف شاہ اختر سلیمی، جاوید گی جیسے گلوکار کے ساتھ والیم ریلیز ہوئے۔ ریڈیومتان سے ان کے کئی گیت نشر ہو کر مقبولیت حاصل کر چکے ہیں ۔ اسکے مقبول گیتوں میں دل تیکوں ہو کیا جو ہامی رویس وردی ویندی جو پئیں ، نہ اوں پچھے نہ میں ڈیئے اور جتی سی ڈی موچی آمیڈے سانول یا ر دی شامل ہیں ۔ 35 سالہ فنی سفر میں جو کچھ کھایا تھا اس پر سابق خاوند نے قبضہ کر لیا ہے۔ حتی کہ ان کے تینوں بیٹوں کو بھی ان سے جدا کر دیا مینی مورنی نے اپنے خاوند کی خاطر بہت کچھ کیا۔ خاوند قتل اور ڈکیتی کے مقدمات میں جیل میں تھا۔ انھوں نے کیس کی پیروی کر کے اس کو چھڑوایا خاوند پہلے سے شادی شدہ تھا اور پہلی بیوی کے کہنے پر عمر کے آخری حصے میں ان کو طلاق دے کر در بدر کر دیا [115]۔

نوٹ: مضمون محمد شہزاد کی کتاب "سر زمین مظفرگڑھ” سے لیا گیاہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com