متحدہ ہندوستان میں رسم و رواج کے حوالے سے بہت عجیب و غریب رسومات رائج تھیں۔ کلچر دراصل پورے معاشرے کی تمام سرگرمیوں کے عکس کا نام ہے اور ڈاکٹر جالبی کے مطابق کلچر اس کل کا نام ہے جس میں مذہب و عقائد علوم و اخلاقیات معاملات و معاشرت فنون و ہنر اور ساری عادات شامل ہیں۔ کلچر میں زندگی کے مختلف مشاغل ہنر علم و فنون رسم و رواج معاشرے میں حسن و لطافت اخلاق میں تہذیب عادات میں شائستگی لب و لہجہ میں نرمی اپنی روایات اور تاریخ کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھنا اور ان کو بلندی پر لے جانا بھی شامل ہے۔ اسی پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو کئی سو برس پہلے ہندوستان کے کلچر کے بارے میں تزک بابری میں بیان کیے گئے واقعات ماضی کے زمانے کی پوری طرح وضاحت کرتے ہیں۔ تزک بابری میں مرقوم ہے کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے کہ جس میں تفریحات بہت کم ہیں یہاں کے باشندے بھی قبول صورت نہیں ہیں انہیں اپنی دوستانہ مجلسوں، بے تکلفانہ محبتوں یا مخلصانہ ربط وضوابط کے لطف کا کوئی اندازہ نہیں۔ یہ دینی صلاحیتوں سے عاری ہیں یہ اپنی دست کاری تخلیقات سے متعلق کوئی نیا منصوبہ نہیں سوچ سکتے اور نہ کوئی ایجاد کر سکتے ہیں نہ یہاں گھر اچھے ہیں نہ یہاں گوشت عمدہ ملتا ہے۔ ان کے بازاروں میں نہ اچھی غذا ہے نہ روٹی نہ حمام میں نہ کالج نہ شمعیں نہ مشعلیں نہ کوئی شمع دان عوام ننگے پاؤں پھرتے ہیں۔ یہ منظر کشی ہندوستان کے ماضی کے مجموعی کلچر کی عکاسی کرتی ہے۔ اس تناظر میں اگر مظفر گڑھ کے کلچر پر بحث کی جائے تو شاید یہاں بھی ہندوستان کا اثر کلچر معرض وجود میں آیا۔ تھا تا ہم وقت کے ساتھ ساتھ یہاں پر مختلف معاشرتی رسم و رواج نے جنم لیا اور ایک خاص ضلع میں عرصہ دراز سے بہت سے عجیب و غریب رسم و رواج رائج ہیں اور لوگ جادو ٹونہ اور پیری مریدی کے بہت قائل ہیں۔ علاوہ ازیں کچھ لوگ فرسودہ رسومات پر بھی عمل کرتے ہیں۔ سفر کے بارے میں مختلف اعتقادات ہیں۔ مثلاً منگل اور بدھ کے دن شمال کی جانب سفر کرنا اچھا نہیں۔ پیر اور جمعہ کے دن اس سمت میں سفر کرنا اچھا ہے۔ جمعرات کے دن جنوب کی طرف ٹھیک نہیں بلکہ بدھ کا دن مناسب ہے۔ منگل اور بدھ کے دن پہاڑوں کی جانب سفر کرنے کیلئے اچھا نہیں سمجھے جاتے ۔ کہتے ہیں:
منگل بدھ نہ جاویں پہاڑ
متان جیتی بازی آویں ہار
اس طرح جو کام بدھ کو شروع کیا جائے گاوہ خیر و عافیت سے مکمل ہوگا۔ مسلمان جمعرات کو ٹھنڈا دن سمجھتے ہیں جو کام شروع کیا جائے گا وہ دیر سے مکمل ہوگا۔ نئے کپڑے بدھ اور ہفتے کے دن نیا زیوراتوار کے دن منگل کا دن فصل کاٹنے کیلئے اور بدھ کا دن ہونے کیلئے اچھا سمجھا جاتا ہے۔ بدھ کا دن گائے کی خریداری کے لیے جمعہ کا دن گھوڑ ا ہفتہ کا دن بھینس کی خریداری کیلئے اچھا سمجھا جاتا ہے۔ بعض مہینے جانوروں کے بیچنے اور دینے کے اعتبار سے اچھے نہیں سمجھے جاتے۔ بیساکھ اونٹنی کے لیے جیٹھ بلی کے لیے ساون گھوڑی کے لیے بھادوں گاؤں کے لیے ماگھ بھینس کے لیے پوہ بکری کے لیے بچے دینے کے اعتبار سے منحوس ہیں۔ اگر ان مہینوں میں یہ جانور بچے دیں تو رکھنے والوں کے لیے پریشانی ہوتی ہے۔ کا تک کے مہینے میں پیدا ہونے والے انسان کے بچے کو منحوس سمجھا جاتا ہے لگاتارتین لڑکیوں کے بعد پیدا ہونے والا لڑکا یا تین لڑکوں کے بعد پیدا ہونے والی لڑکی دونوں اچھے شگون نہیں سمجھے جاتے سفر پر جاتے وقت کئی شگون ہیں۔ اگر کسی شخص کو کوئی عورت پانی کا گھڑا لیے ہوئے جاتی دکھائی دے یا کوئی بچہ نظر آئے تو پھر کوئی جھاڑو دینے والا نظر آئے تو اسے نیک شگون سمجھا جاتا ہے۔ اگر پانی کا خالی گھڑا لیے جاتے ہوئے عورت ہاتھ میں خالی ٹوکری لے جاتے ہوئے مالن برہمن، مولوی نظر آئے تو یہ بدشگونی کبھی جاتی ہے۔ اس طرح اگر بلی راستہ کاٹ دے تو یا کام شروع کرتے وقت کوئی چھینک دے اسے براشگون لیکن دو سے زائد چھینکوں کا آنا درست ہے اگر کوئی کتہارات کے وقت روتا ہے تو یہ موت کا شگون ہے۔ مرغ کا دن کے وقت بانگ دینا مرغی کا اذان دینا بھی خطرے کی علامت ہے دائیں آنکھ کا پھڑکنا فائدہ بائیں کا نقصان پاؤں میں کھجلی کا مطلب سفر آٹا گوندھتے ہوئے برتن سے باہر گر جائے تو مطلب ہے کہ مہمان آنے والا ہے، جوتی پر جوتی چڑھ جائے تو سفر توے پر پکتی ہوئی روٹی بہت زیادہ پھول جائے تو کھانے والے مہمان کو بہت بھوک ہاتھ سے دوا کا گرنا شفایابی اور چیونٹیاں اگر بلوں سے دانہ لے کر نکل پڑیں تو بارش کا امکان ہے۔
کچھ مقولے
بھرا بھرانواں دے چڑ کا نواں دے
شریک مٹی دادی بھیڑا
ماں مترائی تے پیو قصائی
ہمسائے تے ماں پیو جائے
گل مونہوں کڈھی تے پرائی ہوئی
ڈھاڈا مارے تے روون نہ ڈیوے
رب نیڑے کہ گھسن نیڑے
ضلع میں میلے اور عرس بھی منعقد ہوتے ہیں اور غریب لوگ سال میں صرف عید یا کسی میلے کے موقع پر نئے کپڑے اور جوتے پہنتے ہیں اور ان کے لیے یہ خوشی کے بہترین مواقع ہیں۔ تعلیم کے فروغ اور صنعتی ترقی کے ساتھ رسم و رواج میں بھی حیرت انگیز تبدیلیاں آرہی ہیں ماضی کے ٹوٹکے اور کہاوتیں اپنا اثر کھو رہی ہیں۔ بجلی گھروں اور پارکوں کے بننے سے ملک کے مختلف حصوں سے لوگ یہاں آباد ہوئے ہیں۔ آمد ورفت کے بہتر ذرائع سے چاروں صوبوں کی ٹریفک یہاں سے گزرتی ہے ۔ کراچی، کوئٹہ اور پشاور جانے والی بس ٹرک اور آئل ٹینکر یہاں سے گزرتے ہیں کوٹ ادو اور جتوئی روڈ کی کشادگی اور مظفر گڑھ علی پور روڈ ہیڈ پنجند کے ذریعے ہزاروں گاڑیوں سرحد اور پنجاب سے سندھ اور بلوچستان جاتی ہیں مختلف انحیال لوگوں کے میل جول نے نے فرسودہ رویات کو ختم کرنے اور روشن خیالی کو جہنم دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تعلیمی اکیڈمیوں میں بھی پورے ملک کے بچے داخل ہوتے ہیں اس سے بھی رسم و رواج میں تبدیل آئی ہے۔ 1947ء میں یہاں کے مرد چادر اور پگڑی استعمال کرتے تھے اور شلوار صرف سرکاری ملازمین ہی استعمال کرتے ہیں۔ سکولوں میں اساتذہ کرام بھی صبح کے وقت چادر پہن کراتے تھے ان کے کپڑے سکول میں موجودرہتے تھے اور سکول کے اوقات کے دوران وہ شلوار میض استعمال کرتے تھے۔ کھپتوں ، بازاروں ، گلیوں اور میلوں ٹھیلوں میں ہر جگہ بچے، جوان اور بوڑھے چادر نمیض اور بگڑی پہنتے تھے ۔ پورے ضلع میں اگر کوئی پتلون پہنے ہوئے نظر آجاتا تھا تو لوگ اسے گھیر ملکی پا انگریزی بابو کہتے تھے ۔ لیکن اب صورت حال بالکل مختلف ہے۔ اٹھانوے فیصد لوگ شلوار قمیض استعمال کرتے ہیں۔ ایک فیصد پتلون استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ سکولوں اور کالجوں میں نوجوان پتلون کو بطور یو نیفارم استعمال کرتے ہیں اسی طرح کھانے پینے کے انداز میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ 1970 ء تک ضلع میں دیہاتوں میں مٹی کے برتن استعمال میں لائے جاتے تھے۔ لیکن یہ برتن اب یا تو شو پیس کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں یا پھر کتابوں میں انکی تصویر میں ملتی ہیں۔ مٹی کے گھڑے کا ٹھنڈا پانی تو شاید اب کسی دیہات میں کم ملتا ہے۔ جس طرح چہ خا، چکی ختم ہو چکی ہے اسی طرح مٹی کے برتن بھی ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔ پرانے وقتوں میں لوگ دو پہر کے وقت سایہ دار درختوں کے جھرمٹ میں اکھٹے بیٹھتے تھے ۔ ٹھنڈی چھاؤں میں مٹی کے گھڑے کے ٹھنڈے پانی سے لطف اندوز ہونے کے بعد حقہ پیتے تھے اور ایک دوسرے سے محبت تعاون اور دکھ درد بانٹتے تھے لیکن اب سڑک بجلی اور موبائل فون ہے ہر انسان کو ایک دوسرے کے قریب نہیں بلکہ تنہا کر دیا ہے۔ محبت و پیار کی محفلیں ختم ہو گئی ہیں باہمی تعاون و خلوص کی جگہ ریا کاری اور خود غرضی نے لے لی ہے۔ اور انسان ایک دوسرے سے بیگانہ ہوتے جار ہیں ہیں۔ اسی طرح دیہاتوں میں شادی بیاہ اور میلے ٹھیلے کے جو اجتماع تین دن تک جاری رہتے تھے اور اس موقع پر روکتی جھومر، رقص اور میراثی گانا وغیرہ پیش کرتے تھے۔ لوگ چار پائیوں پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے وہ رسم بھی اب ختم ہو گئی ہے۔ اب دیہاتوں میں بھی لوگ ٹینٹ اور کرسیاں استعمال کرتے ہیں اور یہ رسومات چند گھنٹوں پر محیط ہوتی ہیں جہاں آنے والوں مہمانوں کو واپس جانے کی بہت جلدی ہوتی ہے۔ اب روائتی کھانوں میں ساگ ، باجرے کی روٹی لکھن ہی ، دیسی مرغی کی بجائے ، برانکر ، چائے اور کولڈرنک ستعمال ہوتے ہیں جبکہ حقہ کی بجائے سگریٹ کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ البتہ ایک رسم داری ب بھی ضلع میں موجود ہے۔ مہمانوں کی خاطر تواضع کرنے کی رویت اب بھی موجود ہے۔ ضلع میں سالانہ تہوار اور میلے بڑے جوش و خروش سے منائے جاتے تھے اور دیہاتی لوگوں کیلئے یہ تفریح کے مواقع سمجھے جاتے تھے جس میں علاقائی رقص ۔ سپورٹس اور تہذیب و عافت کا اظہار ہوتا تھا ان میں اولیاء کرام کے مزارت پر سالانہ ہونے والے عرس کے علاوہ ئی سرور کا سنگ جو مراد آباد اور بگا شیر سے شروع ہو کر ڈیرہ غازی خان میں سخی سرور کے ربار تک اونٹوں پر جاتا تھا اور راستے میں مختلف مقامات پر پڑاو ڈالتا تھا خصوصاً کر مداد ریٹی کے مقم پر دربار عبداللہ شاہ بخاری پر سالانہ میلہ لگتا تھا۔ جس میں باہر سے اونٹوں پر نے والے زائرین کے علاوہ مقامی لوگ بھی شرکت کرتے تھے اور دو دن تک عید کا سماں رتا تھا۔ یہ میلہ تو اب بھی لگتا ہے لیکن وہ روائتی سنگھ، اونٹوں پرانے والے زائرین اب نہیں تے ہیں۔ اسی طرح ہر سال گندم کی کٹائی سے پہلے بیساکھی کا تہوار منایا جاتا تھا۔ دیہاتی ک اس موقع پر خوشی کا اظہار کرتے تھے۔ لیکن اب تیز رفتار زمانے نے خوشی ۔ تفریح میل بلاپ کے یہ پر مسرت اور پر خلوص مواقعے چھین لئے ہیں۔ کاشتکاری کے پرانے طریقے ی ختم ہوتے جارہے ہیں۔ پہلے کاشت کیلئے ہل کو دو بیل چلاتے تھے ۔ بڑی مشکل سے دن میں ایک جوڑے بیل کے ساتھ ایک ایکڑ ز نین پر ہل چلانا ممکن تھا۔ آبپاشی کیلئے نویں اور تھے جو بیلوں کے ذریعے چلاتے جاتے تھے۔ گندم کی کٹائی درانتی کے ذریعے تھی ۔ عورتیں مرد اور بچے اس میں حصہ لیتے تھے جبکہ گندم اگانے کیلئے بھی بیل استعمال تے تھے ۔ اب تمام کا شتکاری جدید طریقوں سے ہوتی ہے۔ ہل چلانے کیلئے ٹریکٹر پاشی کیلئے نہری پانی یا ٹیوب ویل اور کٹائی وغیرہ کیلئے بھی کئی علاقوں میں ہار ولسٹر مشین اعمال ہونے لگی ہے ۔ جن لوگوں کے پاس یہ مشینری نہیں ہے وہ یہ کرایہ پر لیتے ہیں۔ اب ف غریب کاشتکار ہی اس مشینری سے محروم ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔