تھل:مغربی پنجاب کے قبائل
جنوبی ایشیاء میں ایرانی شہنشاہ دارا کی شکست کے بعد جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ یونانی اچھنیزین لوگوں کی طرح ہندوستانی قبائل نے بھی متحد ہو کر دارا کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور خود مختاری کا اعلان کر دیا جو پہلے بیان کے مطابق پانچویں صدی ق م کے وسط میں ایرانی تسلط کے خاتمے کے بعد مغربی پنجاب بڑھتے ہوئے عدم استحکام اور الجھن کا شکار ہوتا چلا گیا جس کے نتیجے میں ایک نیاسیاسی نظام برآمد ہوا۔ کیونکہ ایرانی حملہ کے وقت سے ہی بہت سارے ایسے جنگجو قبائل پنجاب میں داخل ہوئے جو اصل میں دارا کے مخالف اور دشمن تھے۔ ان قبائل میں جارتا، ابھیرا، بلیس کا اور واہی شامل تھے۔ مہا بھارت کے باب دیو گا پروان کی تحریر کے حوالہ سے بدھا پر کاش نے بیان کیا ہے کہ یہ وحشی قبیلے کمانوں، نیزوں اور ڈھالوں سے مسلح تھے انہوں نے مقامی آبادی – لوگوں کے ساتھ قریبی تعلق اور رشتہ ازدواج تک قائم کر لیے۔ ان قبائل کا پہلا پڑاؤ دریائے سندھ اور جہلم کا درمیانی محلہ تھل تھا لیکن بعد میں یہ لوگ مشرقی پنجاب اور ہندوستان میں پھیل گئے۔
شفیع سا گیری دا مانجاب میں غیر ملکی قبائل جو جنگی فنون سے آگاہ تھے ان مسلح گروپوں کی لوٹ مار سے علاقہ کا سماجی ڈھانچہ بالکل تبدیل ہوتا چلا گیا۔ ان غیر ملکیوں کے ساتھ ساتھ پنجاب کے مقامی لوگوں میں بھی کیسے کرا ایک جنگجو طبقہ پیدا ہو گیا جس میں وارت، کول، گان سرینی، اور گراما جیسے قبائل اور تنظیمیں شامل تھیں۔ ان میں ایک نہایت قدیم قبیلہ” "چک بھی شامل تھا جبکہ ورتوں کو خاص کر جنگ و جدل کرنے والہ جتھہا کہا جاتا تھا۔ ان کو سرخ اور سیاہ لباس کی وجہ سے شناخت کیا جاتا تھا۔ ان جتھوں قبیلوں اور تنظیموں میں جنگجو عصر غالب تھا۔ جبکہ لڑا کا فوج اور مذہبی پروہتوں میں تمیز کرنا بہت مشکل تھا۔ مہا بھارت کے ایک باب کردن پروان میں انہیں راجیہ جا کا کہا گیا ہے اور رگ دید میں اپنی نے انہیں کتریا جا کا کے نام سے پکارا ہے۔ آریان کو خود مختیارلوگ کہتے جبکہ انگریز مورخ جشن انہیں چور کہتا ہے۔ یہ لوگ دریائے سندھ سے لے کر دریائے راوی تک پھیلے ہوئے تھے ۔ یہ لوگ جنگجو یا مذہبی رنگ اختیار کرنے میں آزاد تھے۔
ان میں بعض دودھ پیتے اور سور، مرغی، گائے ، گدھے، اونٹ اور بھیڑ کا گوشت کھاتے تھے۔ قدیم لوگوں کی طرح یہ بھی لہسن ، پیاز ، شراب اور آم کا استعمال کرتے تھے۔ ان کی باغیانہ روش آزاد فطرت گروہ بندی شاہی نظام کی مخالفت اور سیاسی استحکام اور اختیارات کی مرکزیت سے انکار ہی کی وجہ سے تاریخی حوالوں میں ارسترک یعنی جس طرح ان کو مقامی زبان پراکرت، ارات یا جدید لغت میں اردودھ” کہا گیا ہے، جس کے معنی ہیں بے وطن لوگ یا چور لٹیرے۔ انہی وجوہات کی بنیاد پر ان قبائل نے بہت جلدی ایرانی شہنشاہت سے آزادی حاصل کر لی اور بہت عرصہ تک مختلف گروپ کی صورت میں آزادانہ طرز کی زندگی بسر کرتے رہے۔ ان میں کچھ حد تک قبائلی نمار یاستی اکائیاں موجود تھیں جن کو جنتا پر کہا گیا ہے، چھوٹی ریاست یا مقامی حکومت ۔ ان میں ایک گلا کنوئی نام کی ریاست بھی تھی جو دریائے چناب اور راوی کے درمیان قائم تھی جبکہ سلطنت گندھارا دو حصوں میں تقسیم تھی جس میں ایک کا پایہ تخت پشکلا دتی موجودہ چارسدہ کے قریب بھولی کے مقام پر اور دوسراٹیکسلا تھا۔
مغربی گندھارا پر ہستنایان اور جنوب مشرقی گندھارا پر امجھ خاندان کا ایک فرد راجہ ابھی حکمران تھا۔ جبکہ گندھارا کے جنوب کا وسیع میدانی مخطہ موجودہ تھل جسے وبیکا” کہا گیا، پر ایک دوسرا قبیلہ یودھا جیو سمگھا پھیلا ہوا تھا۔ ایودھا قبائل کے متعلق جو اس میدانی علاقے میں حکمران تھا اور دریائے سندھ اور جہلم کے درمیان واقع تھا، ایک اہم ثبوت جو روڑاں کے مقام سائیڈ اے سے ملنے والے سکے ہیں جن پر اس قبیلہ کا کا نام تحریر تھا۔ یہ اس بات کی نشانی تھی کہ کسی واحد شخص کی بجائے پورے خاندان کے افراد شامل ہوتے تھے۔ روڑاں کے مقام سے بودھا قبائل کے سکوں کا ملنا اس بات کی نشان دہی ہے کہ واقعی ایک د بیکا نام کی ریاست اس قبیلے کے قبضہ میں تھی۔ یہ لوگ جنگجو خصلت کے مالک تھے اور یہ ذات یات کے بغیر ایک قبائلی طرز کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ یہ ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی بھی کرتے رہتے تھے۔ جیسا کہ انہوں نے چوتھی صدی قبل مسیح کے اول میں ریاست و بیکا (موجودہ ھل) سے اس وقت نقل مکانی کی جب ان پر رومی فوج نے حملہ کیا ، ان کے شہروں کو برباد کر دیا اور خاندان کے اکثر افراد کوقتل کر دیا۔ سکندر کے بعد راجہ چندر گپت کی فتوحات سے متاثر ہو کر اس علاقے سے نقل مکانی کر کے جنوب مشرق کی طرف دریائے ستلج اور راوی کی وادی میں چلے گئے۔ یودھا کے علاوہ اس میدانی خطہ میں اور بھی کافی خاندان آباد تھے جو ممکن ہے یودھا کے اتحادی ہوں مہا بھارت کے حوالوں سے معلوم ہوا ہے کہ ان میں برہمن گروپ پالوہ اور دتا دھن جبکہ ان میں کھشتریوں کے ایک گروپ را جنی کا ذکر بھی ملتا ہے۔
ایک دوسر اقبیلہ جوشودر کے نام سے مشہور تھا کے بارے میں قدیم ہندی تحریروں سے معلوم ہوا ہے کہ یہ قبیلہ بھی دریائے سندھ کی وادی میں مقیم تھا۔ مشہور ہے کہ یہ لوگ اسلحہ کا کاروبار کرتے تھے۔ انہیں وات ستروپ جیونی کہا گیا ہے جبکہ ان میں سے کچھ لوگ جنگوں اور لڑائی کو بیٹے کے طور پر اختیار کرتے تھے۔ پینی ان کو ابراہمنک اور جناپد کے نام سے بیان کرتا ہے جو بظاہر سو دارائیوں کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ سودارائی وہ لوگ تھے جنہوں نے سندھ میں سکندر رومی کے خلاف سخت مزاحمت کی تھی۔ یونانی تاریخ دان گندھارا کے جنوبی علاقہ تھل کے کسی مقام پر برہمنوں کے ایک شہر کا ذکر کرتے ہیں جس کا نام انہوں نے اناڑی بیان کیا ہے جبکہ پینی نے راجنوں کا علاقے یودھا جیوی سمگھا کا ذکر کیا ہے جو غالباً کہیں جنوب کے میدانی علاقوں میں واقع تھا۔ بدھا پر کاش کے بیان سے مجھے اس بات پر اختلاف ہے کہ انہوں نے پنی ، جو سنسکرت کا مصنف تھا، کو ایسے بیانات سے جوڑا ہے جو بہت بعد کے ہیں۔ پنی کے متعلق ہم پہلے تحریر کر چکے ہیں کہ انہوں نے چاروں دید تحریر کیے تھے جو ۱۵ ویں صدی قبل مسیح سے لے کر 10 ویں صدی قبل مسیح کے دوران تحریر ہوئے جبکہ بدھا پر کاش پانی کو ۴ ویں صدی قبل مسیح تک کے واقعات سے ان کا تعلق بتاتا ہے۔ ہم اس پر بحث کرنے کی بجائے اپنے مدعا کی طرف آتے ہیں کہ ان تمام حالات و واقعات سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ تمام گروپ کو رو سلطنت اور آچمینی و ایرانی اقتدار کے خاتمے کے بعد کی غیر یقینی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود مختیار ہو گئے تھے۔
انہوں نے مسلح گروپ بھی تشکیل دیے تھے اور اپنی حفاظت کے لیے اپنے آپ کو فوجی انداز میں منظم کر لیا ۔ پنجاب میں اکثر قبائل اپنے آپ کو جنگجو گروپوں میں پیشہ اور ذریعہ معاش سمجھ کر شمولیت اختیار کرتے تھے۔ دراصل ان قبائل کی مشترکہ فوجی تحریک ایک قبائلی سماجی ڈھانچے کا باعث بنی اور اسی اصطلاح اور برابری کا ایک ثبوت یودھا بیوی سنگھا تھی اور جنہوں نے گندھارا کے جنوبی میدانی علاقہ تھل میں ریاست وہیک قائم کر رکھی تھی۔ وادی سندھ کے ان وسیع و عریض میدانوں میں ایودھا جیوی اتحاد کے علاوہ کچھ دوسرے لوگ بھی آباد تھے جن میں کشو درک اور مالوے شامل ہیں۔
یہ لوگ پنجاب کے ایک بڑے قبیلے مدد کے جانشین تھے۔ بدھا پرکاش کے بیان کے مطابق جو انہوں نے اپنی باب ۲-۱۰۸-۶ = ۷-۱۳-۳ کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ مدر قبیلہ دو حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک اپرا مدر جبکہ دوسرا پر دامدر۔ اپر امدر چناب اور جہلم کے درمیانی علاقہ ضلع گجرات میں مقیم تھا جبکہ دوسرا قبیلہ پر وامدر چناب اور راوی کے درمیان گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے علاقوں میں پھیلا ہوا تھا۔ ان کا مرکزی شہر جس کا نام مسکالا بتایا گیا ہے۔ یہ دریائے ایگا کے کنارے آباد تھا۔ یہ دریا ناروال اور سیالکوٹ کے قریب سے گزرتا تھا جو موجودہ فیصل آباد اور جھنگ کے مشرق سے ہوتا ہوا شور کوٹ سے تقریباً چار پانچ کلو میٹر جنوب میں دریائے چناب میں شامل ہو جاتا تھا۔ ان مدر قبیلے کے دہی طبقے کو مالا کے نام سے جانا جاتا تھا کیونکہ اس وقت تک ان علاقوں میں پراکرت زبان کو ثانوی حیثیت مل گئی تھی۔ اس لیے ان کی ایک شاخ بھدر بھلہ کے نام سے مشہور ہوئی۔
ان تمام مدروں نے اسی دوران سلوؤں کے ساتھ رہنا شروع کر دیا۔ مہا بھارت کے حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مدری شہزادی ملاوی کا سلوؤں قبیلے کے ایک شہزادے ستیاون کے ساتھ شادی ہو گئی تھی۔ جس کی اولاد بعد میں "مالوے مشہور ہوئی۔ یہ صورت حال چوتھی صدی قبل مسیح تک رہی۔ آخر میں سکندر کے حملے کے وقت ہی مالوے گندھارا کے جنوب میں آباد تھے۔ ان کا اصل مقام ملتان سے لے کر بہاول پور تک کا علاقہ تھا۔ ان کے ساتھ ایک دوسرا قبیلہ کو شرک بھی انہیں علاقوں میں آباد تھا جنہوں نے مل کر سکندر کا مقابلہ کیا جبکہ شمال کے پہاڑی سلسله یعنی شمالی گندھارا کے علاقوں میں ایک قبیلہ او بھی آباد تھا۔ آ مینی سلطنت کے خاتمے کے بعد پنجاب میں بڑھتی ہوئی آبادی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مغربی مورخ سڑا بونے دریائے راوی سے چناب اور جہلم تک جبکہ دریائے جہلم سے سندھ تک ۵۰۰ آباد شہروں کے متعلق بتایا ہے۔ ایک اور بیان جو پنی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق مغربی پنجاب کے ان میدانی علاقوں میں ۷۵۰ شہر اور قصبے آباد تھے اور ان میں کچھ شہر تو ہزار کی آبادی سے اوپر تھے۔ ان میں بعض قائل نمار یاتی اکائیاں موجود تھیں جنہیں جنا پر کہا گیا ہے۔ جھنگ شہر کے شمال میں واقع نیم پہاڑی سلسلہ کے علاقوں پر ایک اور اہم قبیلہ پورو آباد تھا جس کو پاؤ روا بھی کہتے تھے۔ یہ کئی نام جو پورو تھیلے کو دیے گئے یعنی پاؤ روا، پادرس، یا پورس اصل میں ایک ہی نام ہے۔
مہا بھارت کے کئی مقامات پر پاؤرس کو پاؤ روا کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ مسٹر یوبلن کے خیال کے مطابق پورس اور پاؤرس ایک لفظ ہے جبکہ قدیم ہندوستانی تحریروں اور دیدوں میں یہ دونوں نام لفظ پورڈ سے نکلے ہیں۔ اس کا مخرج ہندا ایرانی لفظ پور وہی ہے۔ رگ وید کے باب (۱-۳۶-۱) کے پیرے میں سیان نے پورو کو کئی یا متعدد کے معنوں میں بیان کیا ہے۔ پورو ایک کہ ایک طرح سے پاؤکروں کا بعد امجد کھا جاتا ہے۔ رگ وید میں دس بادشاہوں کی لڑائی میں پور و قبائل کیسے کرنا کے سردار پوروکس کا ذکر آیا ہے جس نے اتحادی افواج کی سربراہ کی حیثیت سے اس جنگ میں کیا ۔ ان شمولیت اختیار کی۔ اس جنگ میں پوروکس کو شکست ہوئی اور وہ پنجاب میں اپنی قوت کمزور کربیٹھے۔ ہم پہلے باب میں بیان کر چکے ہیں کہ شکست کے بعد پور و بادشاہ ہموارانہ نے کورو پورو اتحاد کر کے دریائے چناب کے اس پار جہلم کے دونوں طرف اپنی کھوئی طاقت دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے او ان علاقوںپر اپنی حکومت قائم کر لی جوریاست کور کشتر کے نام سے مشہور ہوئی ۔ کور ریاست میں مغربی پنجاب کے تمام علاقے دریائے سندھ تک شامل تھے جس کو قدیم ہندی روایتوں میں اتر کورو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
یہ وسیع سلطنت اتر پردیش سے لے کر مغرب میں پنجاب کے تمام علاقے اس میں شامل تھے۔ اس کا سر براہ سمورانہ کا بیٹا تھا جو کور د سوانا نام سے جانا جاتا تھا۔ اس عظیم بادشاہ نے اپنی سلطنت کو پراگ (موجودہ اللہ آباد ) تک وسعت دے دی۔ چوتھی صدی قبل مسیح کے آخر نصف تک ہمیں کو روکشتر یا اتر کورد سلطنت کئی حصوں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ شمال مغرب میں گندھارا کے مرکز ٹیکسلا پر ایک دوسرے خاندان اس کا راجہ ابھی حکمران تھا جبکہ جنوب کے تمام میدانی علاقے تھل پر ایودھا جیوی اور کچھ دوسری اقوام کے لوگ قابض تھے جسے ریاست وہیک” کا نام دیا گیا ہے۔ ٹیکسلا کے جنوب مشرق میں کو ہستان نمک کے نیم پہاڑی سلسلہ سرگودھا اور چکوال کے علاقوں پر راجہ سو بھائی کی حکومت تھی۔ اسے یونانی مورخین نے سوفائی ٹیز کا نام دیا ہے۔
اس کی سلطنت کا مرکز کہیں چنیوٹ کے قریب تھا جبکہ سکندر کے ساتھ چلنے والے مورخین ان کی ریاست کا مرکز بھیرہ کا مقام بیان کرتے ہیں۔ اگر یہ بات واضح ہے کہ راجہ سو بھائی کی حکومت دریائے سندھ اور جہلم کے درمیان واقع تھی تو اس راجہ کا جنوب کے میدانوں علاقوں پر کتنا کنٹرول تھا۔ وی ائی سمتھ کے بیان کے مطابق راجہ سو بھائی کی حکومت کو ہستان نمک کے زیریں علاقہ پر تھی تو اس کی ریاست سرگودھا، خوشاب اور چکوال ضلعوں کے درمیان ہوسکتی ہے جبکہ اس راجہ کا مزید جنوب کے میدانی علاقوں اور وہاں آباد قبائل پر کوئی سیاسی اثر رسوخ نہیں تھا۔ دریائے جہلم اور چناب کے درمیان ایک پورو بادشاہ کی حکومت تھی جسے راجہ پورس کہا جاتا ہے۔ کہیں راجہ پورس تھا جس نے یونانی بادشاہ سکندر کا مقابلہ کیا۔ راجہ پورس کو بدھا پر کاش اور دوسری قدیم ہندی تحریروں میں مہا راجہ پورس کا خطاب دیا گیا ہے۔
یہ ہندی خطاب اسی طرح ہے جس طرح اردو میں اعظم یا انگلش میں الیگزینڈر کے الفاظ۔ اس کی سلطنت کے مرکز کے بارے میں ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ممکن ہے کہ راجہ پورس کی حکومت دریائے جناب سے لے کر دریائے سندھ تک کے علاقوں پر ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ میدانی علاقوں مچھل” پر جو قبائلی سردار حکمران تھے ، وہ کسی حد تک راجہ پورس کی عملداری میں ہوں اور پورس کو اپنا حاکم اعلیٰ تصور کرتے ہوں ۔ پورس نے کسی جنگی حکمت عملی کے تحت یونانی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان جنگ کا انتخاب دریائے جہلم پار کیا ہو اور ان کا اثر رسوخ دریائے سندھ تک کے علاقوں پر ہو کیونکہ ہمیں تاریخی بیان سے پتہ چلتا ہے کہ ایرانی بادشاہ دارا اور یونانی بادشاہ سکندر کے درمیان جنگ میں جس ہندوستانی راجہ فور نے دارا کی مد کی تھی وہ بقول بدھا پرکاش راجہ پورس ہی تھا۔
یونانی مورخین پورس کی سلطنت دریائے جہلم کے مشرق میں بتاتے ہیں اور دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیان میدانی خطہ کو . ریاست وہیک کا نام دیتے ہوئے اس علاقہ پر ایک سے زائد اقوام کی حاکمیت بتاتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے پہلے دریائے سندھ کے پار مشرقی علاقوں پر خود ایرانی بادشاہ کا قبضہ اور اثر ورسوخ ہو اور اس وقت بھی ان علاقوں پر قابض قبائلی سردار کے ساتھ پرانی حکومت کے تعلقات اچھے ہوں جس سے ایرانی بادشاہ نے ان میں سے کسی طاقتور قبائلی سردار کو اپنی مدد کیلئے کہا ہو اور وہ سردار دوسرے لوگوں کی مدد سے ایک فوج تیار کر کے ایرانی بادشاہ کی مد کیلئے اہمیت کا اند واہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ سردار یا کمانڈر جو اس ہندی فوج کی کمان سنبھالے ہوئے تھا، کا نام فورتھا یا ایرانیوں نے اس کا نام فورتحریر کیا ہو۔ اس ہندی راجہ نے ایرانی بادشاہ کی مدد کیلئے فوج، جس میں جنگی ہاتھی بھی شامل تھے، ان کو روانہ کیا جبکہ اسی فوجی دستہ کی آمد سے پہلے ایرانی گیری دیچھے فوج شکست کھا چکی تھی اور داراسوم جو اس وقت ایران کا بادشاہ تھا قتل ہو چکا تھا۔ اس طرح سکندر نے ایران کے تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
نوٹ: یہ مضمون ملک محمد شفیع کی کتاب (قدیم تاریخ تھل) سے لیا گیا ہے۔