سلطان فتح علی ٹیپو شہید کا خاندانی پس منظر
حضرت شاہ بہلول کا تعلق راجپوت قوم کی ایک شاخ سپراء سے تھا۔ جو شمالی ہندوستان سے لالیاں کے قریب کو ٹھہ شاہ بہلول میں قیام پذیر ہوا۔ بعد میں چنیوٹ سے مشرق کی طرف پنڈی بھٹیاں روڈ پر اس جگہ قیام کیا جسے اب شبہ شاہ بہلول کہتے ہیں اور ان کا مزار بھی اسی جگہ ہے۔ حضرت شاہ بہلول کے دو بیٹے حمد علی اور ولی محمد تھے۔ بڑے بیٹے محمد علی کی شادی حضرت حسن بخت کی صاحبزادی زینت بیگم سے ہوئی اور حضرت شیخ محمد حسین کے ساتھ گلبرگہ چلے گئے ۔ گلبرگہ میں ہی محمد علی کے ہاں دو بیٹے فتح محمد اور محمد الیاس پیدا ہوئے ۔ جو اپنی والدہ کے ساتھ اراکاٹ چلے گئے ۔ وہاں فتح محمد نے عابد خان کے ماتحت ملازمت اختیار کر لی اور منصب دو ہزار پیادہ اور پانچ صد سوار معہ فیل و نقارہ وعلم پر سر بلند ہوا ارا کاٹ میں قیام کے دوران ہی فتح محمد کے ہاں دو بیٹے شہباز خان اور حیدر علی پیدا ہوئے شہباز خان کی عمر دس سال اور حیدر علی کی عمر پانچ سال تھی کہ فتح محمد دوران جنگ شہید ہو گیا ۔ اس کی اہلیہ اپنے بچوں کے ہمراہ بالا پور میں رہتی تھی کہ بالا پور کے حکمران عباس قلی خان نے حیدر علی کی والدہ سے اٹھارہ ہزار روپے خزانہ سر کار میں جمع کرانے کا اس بناء پر حکم دیا کہ فتح محمد کی طرف سے یہ رقم سرکار کو واجب الادا ہے۔ مگر حیدر علی کی والدہ رقم کی ادائیگی نہ کر سکی تو اس نے گھر کا تمام اثاثہ لوٹ لیا۔ شہباز خان اور حیدر علی کو دو بڑے بڑے نقاروں میں بند کر کے اوپر چمڑا مروا دیا اور ہوا کیلئے چھوٹے چھوٹے سوراخ رکھ دیئے ۔ والدہ حیدر علی، فتح محمد کے بھتیجے حیدر خان کے پاس گئی ۔ جو اس وقت میسور کے حاکم کے پاس ملازمت کرتا تھا کہ میرے بچے مجھے آزاد کروا دو۔ لہذا حیدر خان نے رقم بھیج کر بچوں کو آزاد کر والیا اور ان کو اپنے پاس سرنگا پٹم بلا لیا۔ انہیں فنون سپہ گری، تیغ زنی، کمند امنی ، اسپ تازی اور تفنگ اندازی کی تعلیم دینا شروع کر دی ۔ حیدر علی فنون جنگ میں ماہر ہو گئے تو ان کے چچا زاد بھائی حیدر خان ان دونوں بھائیوں کو وزیر میسور نندراج کے پاس لے گیا۔ شہباز خان کو ایک سو پیادہ اور پچاس سواروں کا افسر مقرر کر وا دیا۔ جبکہ حیدر علی کو سرنگا پٹم میں ہی ایک فوجی دستہ پر افسر تعینات کر دیا اور وہیں حیدر علی کی شادی کر دی۔ پہلی بیوی فوت ہونے کے بعد سلطان حیدر علی نے دوسری شادی نواب سعد اللہ خان تھہیم کی پڑ نواسی نواب سادات علی کی بیٹی اور میر علی رضا کی ہمشیرہ فاطمہ بیگم عرف فخر النساء سے کی ۔ جس کے بطن سے سلطان فتح علی ٹیپو شہید 21 ستمبر 1751ء کو بنگلور کی ایک بستی دیوان بلی میں پیدا ہوا۔ نواب سعد اللہ خان تفہیم کی بیوی مسماة نور بیگم چنیوٹ کے جہ خاندان سے تھی جس کے بطن سے زینب بیگم پیدا ہوئی اور اس کی شادی میر شہاب الدین سے ہوئی جس کے بطن سے میر قمر الدین نظام الملک پیدا ہوئے ۔ یہی وجہ ہے کہ نواب سعد اللہ خان کی اولاد ماد نیہ نوابان حیدر آباد برار ارا کاٹ اور دکن کی ثانوی جد شمار ہوتی ہے۔
جب سلطان فتح علی ٹیپو کی عمر پانچ سال ہوئی تو نواب حیدر علی نے اسے عربی اور فارسی میں تعلیم دلوانا شروع کی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سلطان فتح علی ٹیم کو فتون سپہ گری اور شہسواری سکھلائی گئی ۔ سولہ سال کی عمر میں اس نے اپنے آپ کو ایک لائق شہزادہ اور بہادر سپاہی ثابت کیا ۔ باپ کے حکم کے مطابق میدان جنگ میں ، جنگ سے مکمل واقفیت حاصل کی۔ دو سال کے بعد ایک لائق سپہ سالار بن گیا۔ سترہ سال میں نواب حیدر علی نے اسے مدر اس پر حملہ کرنے کا حکم دیا تو اس نے مدراس کے قرب وجوار میں فرنگیوں کے ناک میں دم کر دیا۔ یہ 1767ء کا واقعہ ہے جب موخر الذکر کا تاریخ میں پہلی مرتبہ نام آیا۔ اسی طرح سلطان فتح علی ٹیپو نے بالترتیب کئی جنگوں میں حصہ لیا۔ 1775ء میں مرہٹوں اور میسور پر حملہ کیا۔ 1780ء میں انگریزوں اور حیدر علی کے درمیان میسور کی دوسری جنگ ہوئی۔ اس سال نواب حیدر علی نے اسے 18 ہزار سوار فوج، 4 ہزار پیدل سپاہ اور 12 تو پیں دے کر شمالی سرکا ر فتح کرنے کے لئے بھیجا۔ 6 ستمبر 1780ء کو سلطان فتح علی ٹیپو اور کرنل بیلی کے درمیان مباکم کے قریب مقابلہ ہوا ۔ جس میں کرنل بیلی گرفتار ہو گیا اور انگریزوں نے ہتھیار ڈال کر صلح کر لی اور قیدی واپس لے لئے 1784 میں سلطان فتح علی نے بغاوت فرد کی اور اپنے سفیروں کو تر کی اور فرانس روانہ کیا جو 1786ء کو واپس پہنچے ۔ 1787ء میں سلطان نے دوسری مرتبہ سفیر کو فرانس بھیجا – 1789ء میں میسور کی تیسری جنگ شروع ہو گئی جو 1792ء میں سرنگا پٹم کے معاہدے پرختم ہوئی ۔ 1799ء میں میسور کی چوتھی جنگ شروع ہوئی ۔ انگریزوں نے 14 مئی 1799ء کو سرنگا پٹم کے علاقہ کا محاصرہ کر لیا۔ ادھر سلطان فتح علی ٹیپو بھی مقابلہ میں آگیا اور انگریز فوج کے ساتھ بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے سرنگا پٹم کے قلعہ کے دروازہ پر جام شہادت نوش فرمایا ۔ مختلف تواریخ کا مطالعہ کرنے کے باوجود بھی مجھے یہ سمجھ نہیں آیا کہ سلطان فتح علی ٹیپو شہید نے شخصہ فتح علی کب آکر آباد کیا۔ جب کہ اس نے خود اپنی ساری زندگی میسور، اراکاٹ اور سرنگا پٹم کی جنگوں میں گزار دی اور سرنگا پٹم بھی شہ شیخ علی سے بہت دور ہے ۔ اگر دوسری بات بھی مان لی جائے کہ سلطان فتح علی ٹیپو اپنی اولاد کو یہاں چھوڑ گیا تھا تا کہ میری اولاد کسی جنگ میں ماری نہ جائے ۔ جب نواب حیدر علی نے اپنے بہادر بیٹے سلطان فتح علی کی قربانی کی پرواہ نہ کی تھی تو سلطان فتح علی ٹیپو کہاں کا بزدل تھا جو اپنی اولاد کو جنگ سے بچا کر ٹھٹھہ فتح علی چھوڑ جاتا۔ ایسے دعوی وروایات درست نہیں۔ اگر درست ہیں تو کوئی مستند ثبوت پیش کیا جائے آئندہ ایڈیشن میں تصحیح کر دی جائے گی۔
یہ مضمون داکٹر ارشاداحمد تھیم کی کتاب ” تاریخ چینیوٹ "سے لیا گیا ہے