چینیوٹ کی شخصیات

چینیوٹ: فاضل ترین شخصیات

داکٹر ارشاداحمدتھیم

نواب وزیر خان :

نواب وزیر خان کا اصل نام علم الدین” تھا ۔ انصاری خاندان میں شیخ عبدالطیف کے ہاں 1605ء بمطابق 1014ھ کو چنیوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے باپ اور دادا شیخ حسام ایک جید عالم مفتی اور ماہر حکیم تھے ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ 10 سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا بیس سال کی عمر میں عربی اور فلسفہ کی تعلیم بھی مکمل کرلی ۔ آپ کے باپ اور دادا چونکہ ایک ماہر حکیم تھے ۔ جس وجہ سے نواب وزیر خان کے دل میں بھی شوق پیدا ہوا کہ میں بھی فن طبابت حاصل کر کے دکھی انسانوں کی خدمت کروں۔ لہذا آپ کی دلی خواہش کے مطابق انہیں اس دور کے ماہر حکیم دوائی کے پاس بھیج دیا۔ جہاں سے انہوں نے تھوڑے ہی عرصہ میں فن طبابت حاصل کر لیا اور اچھے شہرت یافتہ طبیب ہوئے ۔ 1628ء میں آپ کو قسمت کھینچ کر لاہور لے گئی۔ صرف ایک سال لاہور میں قیام کرنے کے بعد 1629ء میں دہلی چلے گئے۔
کچھ ہی عرصہ دہلی میں قیام کرنے کے بعد اکبر آباد چلے گئے ۔ جہاں آپ نے کامیاب حکیم ہونے کی حیثیت سے جلد شہرت حاصل کی اور مغل دربار کے وزراء وامراء بھی آپ سے ہی علاج معالجہ کروانے لگے۔ انہی دنوں شہزادہ خرم (جو بعد میں شاہ جہاں کے نام سے ہندوستان کے تخت پر جلوہ افروز ہوا) بہت بیمار ہو گیا تو اس نے حکیم علم الدین کو بلا بھیجا جب انہوں نے اس کا علاج کیا تو وہ بالکل تندرست ہو گیا۔ شہزادہ خرم نے خوش ہو کر بہت سے انعامات سے نواز ا اورمحل میں داخل ہونے کی اجازت دے دی ۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد شہنشاہ نورالدین جہانگیر کی پیاری بیوی ملکہ نور جہاں سخت بیمار ہو گئی ۔ جس کی وجہ سے شہنشاہ جہانگیر بہت پریشان ہو گیا۔ اس نے وزراء وامراء کو حکم دیا کہ جلدی کسی قابل حکیم کی تلاش کرو۔ انہوں نے شہنشاہ نورالدین جہانگیر کے سامنے حکیم علم الدین انصاری کا نام پیش کیا۔ شہنشاہ نے فوراً حکیم صاحب کو طلب کیا اور ملکہ نور جہاں کی حقیقت بیان کی تو حکیم صاحب نے علاج کی حامی بھر لی۔ حکیم علم الدین نے ایک کمرے میں گیلی ریت کی ایک موٹی تہہ بچھوا کر ملکہ نور جہاں کو اس پر ایک چکر چل کر واپس جانے کو کہا۔ جب وہ اس ریت پر چل کر واپس چلی گئی تو حکیم صاحب نے اس کے قدموں کے نشانات میں ریت کے اندر تیز نوکیلی نشتریں دبا دیں۔ جن کی نوکیں معمولی ریت سے باہر تھیں ۔ ملکہ کو دوبارہ انہی قدموں کے نشانات پہ واپس آنے کو کہا۔ جو نہی ملکہ نور جہاں انہی قدموں کے نشانات پہ قدم رکھتی ہوئی چلی تو تیز نشتریں اس کے قدموں میں چھ گئیں ۔ جس سے اس کے جسم کا فاسد خون نکل کر ریت میں شامل ہو گیا تو ملکہ بالکل تندرست ہو گئی ۔ بادشاہ نے خوش ہو کر ایک لاکھ روپے بطور انعام دیا ۔ ملکہ نور جہاں نے غسل صحت کرنے کے بعد سات لاکھ روپے انعام دیا، اس کثیر رقم سے آپ نے دہلی میں ایک بہت بڑا دواخانہ بنوایا۔ شہنشاہ نور الدین جہانگیر نے حکیم علم الدین کو نواب وزیر خان کا خطاب دے کر 1632ء بمطابق 1041 ھ کو لاہور کا گورنر مقرر کر دیا۔ شہنشاہ نورالدین کی وفات کے بعد جب شہزادہ خرم شاہ جہان کے نام سے ہندوستان کے تخت پر متمکن ہوا تو اس نے خوش ہو کر نواب وزیر خان کو ایک لاکھ روپے نقد انعام خلعت فاخرہ خنجر مرضلع ، ایک اونٹ اور ایک گھوڑا باز تین عطا کیا
اور پانچ ہزار ذات سے ہزار سوار کے جلیل القدر منصب پر سرفراز کیا ۔ 1641ء بمطابق 1050ھ کو 9 سال لاہور پر حکمرانی کرنے کے بعد شاہ جہاں نے نواب وزیر خان کو صفدر خان کی جگہ اکبر آباد کا صوبیدار مقرر کر دیا ۔ نواب وزیر خان نے اپنے ذاتی خرچ پر بہت کی عمارات تعمیر کروائیں اور وزیر آباد شہر آباد کیا۔ نواب وزیر خاں نے جو عمارات تعمیر کروائیں ان میں پری محل جو بعد میں تباہ ہو گیا مگر مسجد پری محل اب بھی موجود ہے۔ مسجد وزیر خاں اور ٹیکسالی دروازے کے جنوب کی طرف سمیاں بازار میں ایک زنانہ محل تعمیر کروایا۔ یہ کل بھی سکھوں کے عہد میں تباہ و برباد ہو گیا مگر اس محل کی مسجد اب بھی موجود ہے۔ جسے وزیر خاں کی مسجد خورد کہتے ہیں۔ اکبر آباد میں نواب وزیر خاں کی حکومت کو ابھی دس ماہ ہی ہوئے تھے کہ قولنج کی مرض میں مبتلا ہو گئے۔
21 جمادی الاول 1051ھ بمطابق 1641ء کو خالق حقیقی سے جاملے ۔ آپ کے جسد خاکی کو اکبر آباد میں سپرد خاک کیا گیا۔ نواب وزیر خاں کے دو بیٹے سعید خاں اور صلاح الدین خاں اور ایک بیٹی مہر النساء تھی۔ شہنشاہ شاہ جہاں کو نو اسب وزیر خاں کی وفات پر از حد دکھ ہوا اور اس کے بیٹوں سعید خاں اور صلاح الدین خاں کو دربار میں بلا کر شاہانہ
الطاف سے نوازا۔
اللہ تمہارا رب ہے اس کی بادشاہی ہے اور اس کے سوا جنہیں تم پوجتے ہودانہ خرما کے چھلکے تک کے مالک
نہیں” (سورۃ فاطر آیت نمبر 13 )

قاضی محمد یوسف” قاضی القضاة”

قاضی محمد یوسف 1013ھ بمطابق 15 فروری 1604ء کو قریشی انصاری خاندان میں پیدا ہوئے۔ 6 برس کے ہوئے تو نواب وزیر خاں گورنر لاہور کے والد محترم شیخ عبد الطیف (جو کہ ایک جید عالم اور مفتی تھے ) سے دینی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ 12 سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا۔ اس کے بعد دورہ حدیث کی تعلیم مکمل کی اور فقہی مسائل سے آگاہی حاصل کی۔ آپ عقل و دانش کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ہمیشہ بھی بولتے ۔ آپ کی صداقت و دانشمندی کا بڑا چھ چا تھا۔ نواب وزیر خاں گورنر لاہور نے شہنشاہ شاہ جہاں سے آپ کا ذکر کیا لہذ ا شاہ جہاں نے آپ کو دربار میں طلب کیا۔ 1045ھ بمطابق 12 مئی 1636ء کو شہنشاہ کے حضور پیش ہوئے ۔ شاہ جہاں آپ کی صداقت و دانائی سے بہت متاثر ہوا ، اور اگلے روز 13 مئی 1636ء کو قاضی القضاة (شعبہ بدل کا اعلیٰ افسر) کے عہدہ پر فائز کر دیا۔ ساتھ ہی تین لاکھ روپے نقد انعام و دیگر مراعات سے نوازے گئے ۔ آپ صوبے کی عدالتوں کی اپیل سنتے اور شہنشاہ کو بھی عدل و انصاف کرنے میں مشورہ دیتے ۔ آپ ایک متجر عالم اور عادل ترین قاضی تھے ۔ آپ کے عدل سے خوش ہو کر شاہ جہاں نے انہیں چنیوٹ کی حکومت کی سر براہی سونپی اور وسیع جاگیر بطور انعام پیش کی۔ نواب وزیر خاں نے لاہور میں 1044ھ بمطابق 1635ء کو جامع مسجد کی بنیاد رکھی۔ جب یہ مسجد 1051 ھ بمطابق 1642ء کو مکمل ہوگئی تو نواب وزیر خاں نے آپ کی عدالت میں پیش ہو کر اس مسجد اور اس سے ملحقہ دکانوں، مکانوں اور قطعات اراضی کو ایک وصیت کے ذریعے اپنی اولاد کے حق میں منتقل کیا ہے۔ اس وصیت نامے پر آپ کے دستخط بطور ” قاضی القضاۃ موجود ہیں ۔ شاہ جہاں کی وفات کے بعد اور نگ زیب عالمگیر بھی آپ کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ۔ انہوں نے ”فتاوی عالمگیری کی ترتیب کیلئے قاضی محمد یوسف کی سربراہی میں ہی علماء کی مجلس مشاورت تشکیل دی 29۔ اس کام کو آپ نے بڑے احسن طریقے سے تکمیل تک پہنچایا۔ آپ نے 1068ھ بمطابق 3 ستمبر 1659ء کو 55 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اور نگ زیب عالمگیر کو آپ کی وفات پر بہت صدمہ پہنچا۔

نواب سعد اللہ خان تصمیم چنیوٹی

اسمیت و وطنیت :

چنیوٹ سے 9 کلومیٹر دور پنڈی بھٹیاں روڈ پر ایک پسماندہ گاؤں پترا کی
میں آیا تھہیم خاندان کا فرد امیر بخش کا شتکاری کرتا تھا۔ جو اپنے باپ کرم الہی اور دادا نظام الدین کی طرح عبادت گزار، ایماندار اور بہت محنتی تھا۔
ایک سوداگر کابل سے اعلیٰ قسم کے انار اونٹوں پر لاد کر دہلی کی طرف روانہ ہوا۔ تا کہ یہ انار دہلی میں امراء کو فروخت کر کے کثیر زر کماؤں گا۔ یہ اونٹوں کا قافلہ دہلی جانے کیلئے پترا کی ” کے قریب سے گزر رہا تھا کہ امیر بخش معمول کے مطابق اپنے کھیتوں میں کام کر رہا تھا۔ جب قافلہ اس کے قریب آیا تو اس نے پوچھا کہ یہ قافلہ کہاں جا رہا ہے؟ اور اونٹوں پر کیا لا دا ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ایک سوداگر کے انار ہیں جو کابل سے دہلی امراء کیلئے لے جائے جا رہے ہیں ۔ امیر بخش نے عرض کیا کہ صرف ایک انار کی مجھے ضرورت ہے اگر مہربانی ہو سکے تو کر دیں۔ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم ملازم ہیں اور مالک اس قطار کے پیچھے گھوڑے پر سوار ہے اس سے بات کریں ۔ جب مالک کا گھوڑا قریب آیا تو امیر بخش نے سوداگر سے درخواست کی کہ مجھے ایک انار چاہیے اگر عنایت ہو سکے تو ضرور فرما دیں۔ جس پر سوداگر نے اونٹوں کی قطار کو رکنے کا اشارہ کیا اور امیر بخش سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ آپ کو انار کی کیا ضرورت پیش آئی ؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ میری اہلیہ امید سے ہے اور وہ پندرہ سولہ روز قبل سے بار بار اسرار کر رہی ہے کہ مجھے جہاں سے ملے ایک انار ضرور لا دولہذا آپ ضرور مہربانی فرما کر ایک انار مجھے دے دیں اور میں اس کی قیمت ادا کر دیتا ہوں۔ سوداگر نے لمحہ بھر سوچنے کے بعد امیر بخش کو مخاطب کر کے کہا کہ میں آپ کو ایک انار نہیں بلکہ اناروں سے بھرے ہوئے دونو کرے دیتا ہوں ۔ مگر آپ مجھے صرف یہ لکھ دیں کہ اس کی قیمت میرا فرزند ادا کرے گا۔ جس پر امیر بخش نے کہا کہ جناب میں غریب آدمی ہوں میر افرزند کہاں کا امیر ہوگا ؟ جو تمہیں اتنے اناروں کی قیمت ادا کرے گا۔ آپ مہربانی فرمائیں مجھے صرف ایک انار دے کر اس کی قیمت وصول کر لیں۔ لیکن سوداگر کے بار بارا سرار کرنے پر امیر بخش مان گئے تو سوداگر نے ملازم کو حکم دیا کہ جن اونٹوں پر شہنشاہ وقت کیلئے اتار جارہے ہیں ان میں سے ایک اونٹ بٹھا ئیں۔ انار تو سارے ہی اعلیٰ قسم کے تھے مگر جو شہنشاہ و بیگمات کیلئے جارہے تھے وہ سب سے اعلیٰ قسم کے تھے۔ لہذ الملازموں نے ان میں سے ایک اونٹ کو بٹھایا اور دوٹو کرے بھر کر امیر بخش کو دے دیئے اور تحریر لکھوالی کہ اس کی قیمت میرا فرزند ادا کریگا۔ قافلہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا تو ملازمین نے سوداگر سے پوچھا کہ یہ تو ایک نہایت غریب آدمی ہے۔ آپ نے اسے مفت اتنے انار دے دیئے اور وہ بھی سب سے اعلیٰ قسم کے۔ آپ اس غریب کے فرزند سے کیا لیں گے ۔ جس پر سوداگر نے جواب دیا کہ یہ انار کابل سے میں شہنشاہ وامراء کے ہاتھ فروخت کرنے کی نیت سے لایا تھا۔ ان میں سے کسی غریب کو دینے کا نام بھی نہ تھا۔ آج سے پندرہ سولہ روز قبل یہ قافلہ کابل سے ابھی روانہ ہی ہوا تھا کہ ادھر امیر بخش کی اہلیہ نے انار حاصل کرنے کا امیر بخش سے اسرار شروع کر دیا۔ یہ انار شہنشاہ و امراء کیلئے جارہے ہیں ۔ انہیں شہنشاہ وامراء ہی کھا ئیں گے ۔ اس ہے یہ معلوم ہوا کہ اس عورت کے بطن میں جو بچہ ہے وہ بھی ایک وقت میں ہندوستان کا بادشاہ ہوگا۔ جب وہ تخت پر بیٹھے گا تو اگر میری زندگی باقی ہوئی تو یہ تحریر میں اسے دکھا کر اپنی مرضی کی قیمت وصول کروں گا۔
بہر حال قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہا۔ امیر بخش انار لے کر گھر پہنچا اتنے انار دیکھ کر اس کی اہلیہ رحمت بیگم از حد خوش ہوئی ہے۔ وقت گزرتا گیا بالآخر 10 صفر المظفر 1018ھ بمطابق 1609ء بروز جمعرات علی الصبح رب کائنات نے اسے چاند سا بیٹا عطا کیا۔ رشتہ داروں، عزیز و اقارب میں خوشیاں ہونے لگیں۔ کسے کیا معلوم یہ خوشیاں ساتھ غم بھی لائی ہیں۔ اسی شام امیر بخش اس جہان فانی سے رحلت فرما گیا۔ ایک دن کے بچے کو داغ قیمی لگ گیا۔ خوشیوں کی صبح غم کی شام میں بدل گئی ۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کرنے لگے کہ بچہ منحوس ہے جس کے پیدا ہوتے ہی باپ پر موت واقع ہو گئی ۔ مگر کسے کیا خبر کہ یہی وہ بچہ ہے جسے ہندوستان کے جلیل القدر منصب پر فائز ہوتا ہے۔ رحمت بیگم نے اپنے پیارے بیٹے کا نام سعد اللہ خان رکھا جو معنی کے لحاظ سے اس کی شخصیت پر پورا اترا

ابتدائی زندگی :

سعد اللہ خان کی والدہ محترمہ رحمت بیگم بہت نیک ، صوم وصلوٰۃ کی پابند خاتون تھی۔ جب بھی نماز پڑھنے کیلئے جائے نماز پر کھڑی ہوتی تو اپنے پیارے بیٹے سعد اللہ خان کو ساتھ کھڑا کر لیتی۔ ماں نماز پڑھتی رہتی اور سعد اللہ خان بھی ماں کے ساتھ ویسے ہی قیام، رکوع وجود کرتا رہتا ۔ چار، پانچ سال کی عمر میں ہی والدہ محترمہ سے دینی تعلیم حاصل کرنا شروع کی ۔ پانچ برس کے ہوئے تو والدہ کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ ماں باپ کی شفقت سے محروم ہونے والا یہ بچہ اپنے چوں رحیم بخش اور نورالدین کی کفالت میں آگیا۔ نماز کے وقت مسجد میں چلا جاتا۔ ماں سے سیکھے ہوئے طریقہ کے مطابق رکوع و سجود کرتا اور باقی وقت بچوں کے ساتھ کھیلتا رہتا۔ بچوں کے ساتھ بادشاہ و رعایا کا کھیل کھیلتا۔ خود بادشاہ بن جاتا اور اردگرد کے دو تین بچوں کو وزیر بنالیتا اور سامنے بیٹھے ہوؤں کو رعایا بناتا اور بادشاہوں کی
طرح حکم کرتا۔ ایک روز ایک عالی ہمت بزرگ حضرت شاہ برہان اس گاؤں پترا کی“ سے گزر رہے تھے کہ وقت نماز تھا۔ حضرت صاحب گاؤں میں موجود ایک چھوٹی سی کچی مسجد میں نماز پڑھنے کیلئے داخل ہوئے۔ کیا دیکھا کہ پہلے سے ایک چھوٹا سا بچہ رکوع و سجود میں مشغول ہے ۔ حضرت صاحب نے دیکھا اور نماز پڑھنا شروع کر دی ۔ حضرت شاہ برہان ”نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ سعد اللہ خان نماز مکمل کر کے مسجد سے باہر نکل آئے اور دوسرے بچوں کے ساتھ وہی بادشاہ اور رعایا والا کھیل کھیلنا شروع کر دیا۔ خود قدرے اونچی سی جگہ پر بیٹھ گئے دو تین بچے ارد گرد کھڑے کر دیئے اور باقی بچوں کو اپنے سامنے زمین پر بٹھا دیا۔ ایک بچے پہ سوال کیا! کیا تم نے نماز پڑھی ہے؟ جس پر اس بچے نے جواب دیا جی نہیں بادشاہ سلامت میں نے نماز نہیں پڑھی۔ تو سعد اللہ خان نے اپنے ارد گرد بیٹھے ہوئے بچوں کو حکم دیا کہ اسے قید کر دو ۔ لہذا ان تینوں بچوں نے اس بچے کے دونوں ہاتھ پشت پر ایک کپڑے کی رسی سے باندھ دیئے اور اس کا منہ دوسری طرف کر کے کھڑا کر دیا۔ اتنے میں حضرت شاہ برہان بھی نماز پڑھ کر مسجد سے نکل آئے ۔ انہوں نے جب بچوں کا یہ کھیل دیکھا تو لمحہ بھر کھڑے ہو گئے ۔ انہوں نے قدرے اونچی جگہ پر بیٹھے ہوئے سعد اللہ خان کو پہچان لیا کہ یہ وہی بچہ ہے جو مجھ سے پہلے نماز پڑھ رہا تھا۔ تو پھر انہوں نے سعد اللہ خان سے مخاطب ہو کر کہا! بچہ تمہارا نام کیا ہے؟ ۔ انہوں نے جواب دیا کہ میرا نام سعد اللہ خان ہے ۔ انہوں نے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ سعد اللہ خان فورا بولے میں بادشاہ ہوں اور یہ تینوں میرے وزیر ہیں اور میرے سامنے میری رعا یا بیٹھی ہے۔ حضرت شاہ بر ہان مسکرائے اور ایک بندھے ہوئے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ ! اس بچے کو کیوں باندھ رکھا ہے؟ جس پر سعد اللہ خان نے فورا جواب دیا کہ یہ نماز نہیں پڑھتا اس لئے اسے میرے حکم یہ قید کیا گیا ہے۔ حضرت شاہ برہان بڑے حیران ہوئے اور بھانپ گئے کہ یہ بچہ بلند نصیبوں والا ہے ۔ یہ بہت نیک اور ایک وقت کا بادشاہ ہو گا۔ حضرت شاہ برہان نے پوچھا کہ تمہارے والدین کہاں ہیں؟ والدین کا سوال سنتے ہی سعد اللہ خان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور خاموش ہو گئے ۔ جس پر حضرت شاہ بر ہان سعد اللہ خان کو پیار دینے لگے اور کہنے لگے سعد اللہ خان کیوں رور ہے ہو ۔ بتاتے کیوں نہیں؟ تو سعد اللہ خان نے جواب دیا کہ میرے والدین اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ جس پر حضرت شاہ برہان کے دل کو سعد اللہ خان اور زیادہ پیارا لگا۔ حضرت صاحب نے سعد اللہ خان سے اپنے ساتھ چنیوٹ چلنے کیلئے کہا۔ جس پر وہ تیار ہو گئے ۔ لہذا حضرت شاہ برہان نے سعد اللہ خان کے بچوں رحیم بخش و نور الدین سے اجازت لی اور اسے ساتھ کے کر چنیوٹ چلے آئے ۔ اس وقت سعد اللہ خان کی عمر 8 سال تھی ۔ حضرت شاہ برہان نے سعد اللہ خان کو دینی تعلیم دی ۔ قرآن پاک حفظ کر وایا فقہی مسائل سے آگاہ کیا ۔ حضرت شاہ برہان کی مجلس و صحبت نے دو تین سال میں ہی سعد اللہ خان گودینی تعلیم سے آراستہ کر دیا۔ اسی دوران شاہ جہان کا بیٹا’ ڈھول سکندر‘ بھی حضرت شاہ برہان کے ہاں زیر تعلیم تھا۔ سعد اللہ خان اور ڈھول سکندر ہم عصر تھے۔

سفر لاہور :

عظیم آباد صوبہ بہار کے رہنے والے حضرت ملا خواجہ جو حضرت میاں میر کے مرید تھے درویش کامل اور باطنی علوم سے بہرہ ور تھے ۔ جو کہ مرشد کے حکم پر لاہور کی ایک مسجد کے حجرے میں رہائش پذیر تھے ۔ وہاں سے چنیوٹ حضرت شاہ برہان کے پاس تشریف لائے ۔ چند دن قیام کیا انہیں معلوم ہو گیا کہ سعد اللہ خان بہت ہی لائق اور قابل بچہ ہے ۔ اس کا جی چاہا کہ سعد اللہ خان کو اپنے ساتھ لاہور لے چلوں ۔ بوقت رخصت حضرت ملا خواجہ نے حضرت شاہ برہان سے درخواست کی کہ سعد اللہ خان کو میرے ساتھ لاہور جانے کی اجازت دے دی جائے ۔ لہذا حضرت صاحب نے سعد اللہ خان کو لاہور جانے کی اجازت دے دی اور ساتھ ہی فرمایا !
ملا ! یہ میری امانت ہے اس کی حفاظت فرمانا۔ ایسے
سعد اللہ خان اور حضرت ملا خواجہ نے لاہور کا رخ کیا ۔ لاہور پہنچ کر مسجد کے حجرے میں دونوں نے رہائش رکھی۔ حضرت ملا خواجہ سعد اللہ خان کو اپنے ساتھ اپنے مرشد حضرت میاں میر کے پاس لے جاتا جس وجہ سے سعد اللہ خان بھی حضرت میاں میر کی مجلس وصحبت سے فیض یاب ہوتے ۔ یہ سعد اللہ خان کا پہلا سفر تھا۔ بچپن سے جوانی تک لاہور میں قیام پذیر رہے۔ آخر حضرت ملا خواجہ کا 1068ھ میں انتقال ہو گیا تو سعد اللہ خان ” نے سیالکوٹ کا رخ کیا۔ سیالکوٹ پہنچ کر حضرت علامہ کمال الدین کا شمیری کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہی کے پاس علم کلام، حدیث و تفسیر، منطق کی تعلیم حاصل کی ۔ غنیتہ الطالبین کے پہلے مترجم حضرت مولا نا عبد الحکیم سیالکوٹی جو عہد جہانگیری کے نامور فاضل اور صاحب
کرامت بزرگ تھے اپنے فارسی ترجمہ "فتوح الغب“ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ میں، شیخ احمد سر ہندی المعروف حضرت مجد دالف ثانی (جنہوں نے 1625ء میں وفات پائی اور ان کا مزار سرہند شریف میں ہے ) اور سعد اللہ خان تینوں سیالکوٹ میں ایک ہی مدرسہ میں پڑھتے تھے ۔ حضرت مجدد الف ثانی ہم سے کچھ درجے آگے تھے اور ہمارے مرشد حضرت علامہ کمال الدین کا شمیری سعد اللہ خان سے از حد پیار کرتے تھے اور ان کی بڑی قدر کرتے تھے۔ وہ کہتے کہ اس نوجوان نے جس طرح اپنی زندگی کی کایا پلٹ دی ہے اس طرح ہندوستان کی قسمت کو بھی عروج و اقبال سے ہمکنار کرے گا“ سعد اللہ خان بڑے ذہین فصیح البیان ، شعر و ادب میں پاکیزہ ذوق کے مالک تھے۔ تھوڑی عمر میں انہوں نے علم وفضل کی صدائے بازگشت شاہی محلات تک پہنچائی۔

روانگی دہلی :

شیخ عبد المومن سنبھلی جو شہنشاہ کا دیوان تنخواہ تھا۔ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کیلئے کسی اچھے اور قابل معلم کی تلاش میں تھا۔ جب اسے سعد اللہ خان کا علم ہوا تو وہ دیلی سے لاہور پہنچا۔ اس نے سعد اللہ خان سے بالمشافہ ملاقات کی اور دوران گفتگو وہ سمجھ گیا کہ سعد اللہ خان واقعی بہت قابل معلم ہے تو اس نے سعد اللہ خان کو اپنے ساتھ دہلی جانے کیلئے کہا تو وہ تیار ہو گئے ، دہلی پہنچکر شیخ عبد المومن سنبھلی نے سعد اللہ خان کو اپنے مکان میں رہائش دی اور 40 روپے ماہانہ مقرر کیا۔ کچھ ہی عرصہ گزرنے کے بعد میرا اعتماد دولہ کو علم ہوا تو وہ بھی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے بچوں کو بھی ان سے تعلیم دلوانے کیلئے درخواست کی ۔سعد اللہ خان ان کے بچوں کو بھی پڑھانے لگے ۔ کئی وزراء وامراء اور کئی دوسرے لوگ ان سے فقہی مسائل میں مشورے لینے لگے جس وجہ سے ان کی شہرت عام ہو گئی۔

ایران کے بادشاہ کے خط کا جواب :

ایران کے بادشاہ سلطان عباس نے شہنشاہ کو خط لکھا جس میں تین سوال پیش کئے گئے ۔ جس میں پہلا سوال یہ تھا کہ جہان میں کئی ملک میں اور کئی بادشاہ ہیں آپ محض ہندوستان کے بادشاہ ہوتے ہوئے شاہ جہان کیوں کہلاتے ہو؟ ۔ دوسرے سوال میں ایران کے بادشاہ نے ایک لکڑی کا رول بھیجا جس کے دونوں سرے ایک جیسے تھے اور اس کو مکمل روغن کیا ہوا تھا۔ جس کے بارے پو چھا گیا تھا کہ اس کا روغن اتارے بغیر بنا ئیں کہ اس لکڑی کے رول کا نڈھ والا سرا کونسا ہے اور پنداواں سرا کونسا ہے؟۔ تیسرے سوال میں ایک کاغذ کا ٹکڑا تھا۔ جو بظاہر بالکل صاف اور سفید تھا۔ جس پر کوئی تحریر نظر نہ آتی تھی۔ اس بارے پو چھا گیا کہ اس کاغذ پر ایک سوال ہے اس کا جواب بھیجیں۔
یہ خط ملتے ہی بادشاہ پریشان ہو گیا اور سوچنے لگا کہ ان سوالوں کا جواب اسے ایسا دینا چاہیے کہ شاہ ایران آئندہ کوئی سوال نہ کرے۔شہنشاہ نے اپنے تمام وزراء وامراء سے جواب طلب کئے ۔ شیخ عبد المومن سنبھلی جب گھر آیا تو اس نے سعد اللہ خان سے ان سوالات کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ اس کا جواب میں دے سکتا ہوں۔ شیخ عبد المومن سنھبلی نے پوچھا کیا جوابات ہیں تو سعد اللہ خان نے کہا کہ یہاں نہیں شہنشاہ کے دربار میں خود جا کر پیش کروں گا ۔ دوسرے روز شیخ عبد المومن سنبھلی نے شہنشاہ شاہ جہاں سے عرض کیا کہ میرے بچوں کا ایک معلم سعد اللہ خان ہے وہ ان سوالات کے جوابات پیش کر سکتا ۔ بشرطیکہ اسے دربار میں بلایا جائے ۔ جس پر شہنشاہ نے اسے اگلے روز دربار میں طلب فرمایا تو سعد اللہ خان چونکہ آداب شاہی سے پہلے ہی واقف تھے دربار میں حاضر ہو کر سلام و آداب کے بعد بادشاہ کے قریب پہنچ گئے ۔ شہنشاہ شاہ جہاں نے جواب طلب کیا۔ سعد اللہ خان نے پہلے سوال کے جواب میں حروف ابجد کے ذریعے ہند کے اعداد نکالے تو وہ بھی 59 ہوۓ اور جہان کے نکالے تو وہ بھی 59 ہوئے۔ جس پر اس نے لکھا کہ ہند کا بادشاہ جہان کا بادشاہ کہلا سکتا ہے ۔ دوسرے سوال کے جواب میں سعد اللہ خان نے ایک بڑے برتن میں پانی منگوایا اور لکڑی کا رول اس میں رکھ دیا پھر اسے نکال کر ایک سرے یہ لکھ دیا کہ یہ مڈھ بیاور دوسرے پہ لکھ دیا کہ یہ پنداواں ہے ۔ جس پر بادشاہ نے پوچھا کہ یہ کیسے معلوم ہے۔ ہوا تو سعد اللہ خان نے عرض کیا کہ لکڑی کو اگر پانی میں ڈالا جائے تو اس کا مڈھ والا سرا پنداواں سرے سے قدرے نیچا رہتا ہے خواہ سائز دونوں سروں کا ایک جیسا ہو۔ اس پر شہنشاہ کی خوشی کی انتہا نہ رہی ۔ تیسرے سوال کے جواب میں سعد اللہ خان نے کاغذ کے صاف اور سفید ٹکڑے کو پانی میں ڈبو دیا تو پانی میں اس کی تحریر واضح ہوگئی جسے سعد اللہ خان ” نے پڑھ کر کاغذ باہر نکال لیا اور شہنشاہ سے عرض کیا کہ یہ سوال اور اس کا جواب میں آپ کو نہیں دوں گا بلکہ شاہ ایران کو لکھوں گا اور اپنے ہاتھ سے مہر بند کر کے بھیجوں گا۔ جس پر بادشا ہ نے کہا کہ مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ جواب درست ہیں یا غلط تو سعد اللہ خان نے عرض کیا کہ شاہ ایران آپ کو جوابی خط لکھ کر بتا دے گا کہ تمام جوابات درست ہیں یا کہ غلط ہیں ۔ لہذا سعد اللہ خان کو کاغذ اور قلم دیا گیا۔ انہوں نے جواب لکھ کر باقی جوابات کے ساتھ مہر بند کر کے شاہ ایران کو بھیج دیا۔ اس تیسرے سوال اور جواب کا علم خدا تعالی وسعد اللہ خان اورشاہ  ایران کے سوا آج تک کسی کو نہ ہے۔ چند دن کے بعد شاہ ایران کی طرف سے شاہ جہاں کو ایک خط موصول ہوا جس پر لکھا تھا کہ ” جس شخص نے ان سوالات کے جوابات دیئے ہیں وہ ہمیں عنایت فرما دیا جائے ۔ یہ خط پڑھ کر شہنشاہ حیران ہو گیا ۔ سعد اللہ خان کو انعام و اکرام سے نوازا اور وظیفہ مقرر کیا مگر سعد اللہ خان نے ملازمت کے بغیر وظیفہ لینے سے شرعی نقطہ نظر کے مطابق انکار کر دیا۔ جس پر بادشاہ کو بہت دکھ ہوا اور ساتھ ہی فرمایا کہ! میں ایسے خود دار انسان کی قدر کرتا ہوں

بادشاہی سے واسطہ :

جب شاہجہان نے سعداللہ خان میں یہ خاصیت دیکھی تو اس نے سوچا کہ کیوں نہ ایسے انسان کو بادشاہی میں شامل کر لیا جائے ۔ بالآخر شہنشاہ شاہجہان نے صدرالصدور موسوی خان کو حکم دیا کہ فوراً سعد اللہ خان کو میرے پیش کیا جائے ۔ چناچہ 17 رمضان المبارک 1050ھ بمطابق 21 دسمبر 1640ء کو شہنشاہ کے حضور پیش کیا گیا۔ شاہ جہاں نے اسی روز سات ہزاری سات ہزار سوار کا منصب خلعت خاصہ ، نجر مرصع ، جیغہ مرصع اور ایک گھوڑا بازین عنایت کر کے علامی ، فہامی، جملہ الملک کے خطابات و اختیارات دیئے اور درجہ بدرجہ ترقیاں ہوتی گئیں ہے۔ 12 ربیع الثانی 1053ء بمطابق 16 جون 1643ء کو ہزار و پانچ صدی سے سوار منصب اور ایک ہاتھی عنایت ہوا۔ 18 رمضان المبارک 1053ء بمطابق 16 نومبر 1643ء کو دو ہزار پانچصد سوار خدمت میر سامانی جو وزارت عظمی کے منصب سے متصل تھی ۔ 5 شوال 1054ء بمطابق 25 نومبر 1644ء کو دو ہزار پانچ صدی شش صد سوار، 14 ذی قعدہ 1054ء بمطابق 25 نومبر 1644ء کوسہ ہزار پانچ صدی شش صد سوار 9 ربیع الثانی 1055ھ بمطابق 21 مئی 1645ء سہ ہزاری پانچ صدی ہشت سوار ، 3 جمادی الثانی 1055ھ بمطابق 16 جولائی 1645ء کو ضلعت خاص خدمت دیوانی خالصہ شریف، نیز شاہی فرامین کی ترتیب اور دبیران شاہی کو حسب فرمان ہدایات دینے کی ذمہ داری سونپی گئی۔

 عہدہ وزارت عظمیٰ :

سعد اللہ خان کو شاہی ملازمت میں ابھی پانچ برس ہوئے تھے کہ دکن کے صو بیدار دوراں خاں کا انتقال ہو گیا تو شاہ جہاں نے وزیر اعظم اسلام خان مشہدی سے کہا کہ دکن کی صوبیداری کے لئے کسی موزوں شخص کا انتخاب کیا جائے ۔ جس پر اسلام خان مشہدی نے سوچنے کے لئے وقت لیا اور اپنے مشیران خاص سے مشورہ لیا۔ کہ دکن کی صوبیداری کیلئے میں خود اپنا نام پیش کر دیتا ہوں۔ جس پر مشیران خاص نے کہا کہ وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑ کر صوبیداری کیوں لیتے ہو؟ تو اسلام خان مشہدی نے جواب دیا کہ شہنشاہ وزیر اعظم کا عہدہ سعد اللہ خان کو دینا چاہتا ہے۔ مگر موقع کی تلاش میں ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ یہ عہدہ میں چھوڑ کر صوبیداری لے لوں ۔ بجائے اس کے کہ یہ عہدہ مجھ سے چھین لیا جائے ۔ لہذا اگلی صبح اسلام خان مشہدی نے شہنشاہ شاہ جہاں کے سامنے دکن کی صوبیداری کیلئے اپنا نام پیش کر دیا اور وزیر اعظم کے منصب کیلئے سعد اللہ خان کا مشورہ دیا۔ جس پر شاہ جہاں از حد خوش ہوا اور اسلام خان مشہدی کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا کر دکن کا صوبیدار مقرر کر دیا اور 20 رجب 1055ھ بمطابق یکم ستمبر 1645ء کو وزیر اعظم کا قلمدان سعد اللہ خان کے سپرد کر کے نواب کا خطاب دیا اور منصب میں ہزار دو پانچھد کی ترقی دی گئی اور پانچ ہزاری پانچ صد ذات پانچ ہزار پانچ صد سوار کا منصب مرحمت ہوا۔ 8 ربیع الثانی 1058ء بمطابق 29 اپریل 1647ء کوفت ہزار سوار دو اسپہ سر اسپر کا منصب ملا۔ جس سے بڑھ کریا تو شہزادوں کو یا یمین الدولہ آصف خان کو منصب حاصل تھا ۔ چودہ کروڑ دام (35لاکھ روپے) سالانہ تنخواہ مقرر ہوئی ۔ شہنشاہ شاہ جہاں نواب سعد اللہ خان کو اپنے بیٹوں سے بھی عزیز سمجھتا تھا۔ تمام امور سلطنت اس کے سپر د دئیے ۔ دارالشکوہ نے شاہ جہاں سے بے جا شکایتیں کرنا شروع کر دیں۔ مگر اس کا نواب سعد اللہ خان پر کوئی اثر نہ ہوا۔

خصائص :

نواب سعد اللہ خان کی طبعیت میں عاجزی وانکساری موجود تھی ۔ جب تک امور سلطنت کے متعلق اپنے کام سمیٹ نہ لیتے چین سے نہ بیٹھتے تھے ۔ بہت سخی تھے اور لوگوں سے خوش اسلوبی سے پیش آتے۔ غرباء کی امداد اپنی جیب سے کرتے ۔مساکین و بیواؤں کا خاص خیال رکھتے اور مخلوق کو تکلیف پہنچانے والا کوئی نیا ضابطہ جاری نہ کیا ۔ دیانت و ایمانداری کا پیکر تھا۔ ایک روز سعد اللہ خان شاہی دربار میں دیر سے آئے تو شاہ جہاں نے پوچھا کہ سعد اللہ خان دیر سے کیوں آئے ہو تو انہوں نے عرض کیا کہ ایک کتاب میں چند فقرات دیکھے اور انہیں نقل کرتا رہا۔ جس وجہ سے دیر ہوگئی۔ شاہ جہاں نے پو چھا کہ وہ کون
سے فقرات تھے ۔ سعد اللہ خان نے عرض کیا حضور فقرات یہ تھے۔

-1  سلطنت کی بنیاد انصاف پر قائم ہوتی ہے۔
-2  ملک و مال میں اضافہ بہادری و فیاضی سے ہوتا ہے۔
-3 علماء و داناؤں کی ہمنشینی اور جاہلوں سے کنارہ کشی عقل و دانائی کی علامت ہے۔
-4 اپنے اعتقاد پر پابند رہنا چاہیے۔ زیادتیوں اور سختیوں میں بھی صبر کا دامن ہاتھ
سے نہ چھوڑنا چاہیے۔

-5 دینوی کاموں کے بارے مناسب تدابیر اختیار کرنے میں غفلت نہ برتنی چاہیے

-6  خاندان کا دیر تک قائم رہنا قتیموں پر رحم و کرم کرنے سے موقوف ہے اور یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ ضرورت مندوں کی ضرورتیں اس طرح پوری کرنی چاہیے کہ انسان
خود مختاج نہ ہو جائے۔

-7 ملکی کاموں کا انجام وزیروں کے مشوروں کے مطابق ہو۔

-8 فتح وکامیابی اللہ تعالی کے پاک بندوں سے طلب ہمت پر موقوف ہے۔

-9 تندرستی کی طلب اس بناء پر کی جائے کہ مصیبت زدوں کے دکھ درد کا تدراک کیا
جائے۔

10 مجرموں کے جرائم پر معافی کی لکیر بیچ کر خدا کی رحمت سے پر امید رہنا چاہیے۔ بادشاہ نے یہ فقرات سننے کے بعد نواب سعد اللہ خان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور یک رنگ محمودی زردوزی کے چند تھان نواب موصوف کو عطاء کئے ۔ ایک دفعہ نواب سعد اللہ خان کے ایک بچپن کے دوست بشارت شاہ فقیر کو علم ہوا کہ نواب سعد اللہ خان وزارت عظمیٰ پر جلوہ افروز ہیں تو وہ ملنے کیلئے حاضر ہوا۔ مگر در بانوں نے آگے نہ گزرنے دیا تو وہ واپس مڑ کر چاندنی چوک میں بیٹھ گیا۔ جب نواب سعد اللہ خان کی سواری گزری تو وہ سامنے کھڑا ہو کر کہنے لگا اچھا! اب یہ دماغ ہے کہ ملاقات کرناہی گوارہ نہیں کرتے ۔
اور دس ہزار روپے دے کر رخصت کیا اور دربانوں کیلئے ہدایت کی کہ کوئی بھی مجھے
ملنے آئے تو اسے ہرگز نہ روکا جائے۔

کابل کے سوداگر کا پیش ہونا :

کابل کے سودا گر کو (جس کا ابتداء میں ذکر کیا گیا ہے ) علم ہوا کہ ہندوستان کی وزارت عظمی کے جلیل القدر منصب پر فائز ہونے والا نواب سعد اللہ خان پترا کی کے کا شکار امیر بخش کا فرزند ہے۔ گو سوداگر اس وقت ضعیف العمر ہو چکا تھا۔ مگر وہ نواب سعد اللہ خان کے والد محترم سے لکھوائی ہوئی تحریر ( جس کے بدلے اس نے انار دیے تھے ) لے کر پیش خدمت ہوا۔ نواب سعد اللہ خان نے تحریر کو پڑھ کر آنکھوں سے لگایا بوسہ لیا پھر سینے سے الگا کر کھڑے ہو گئے اور سوداگر سے فرمایا کہ آپ جو اور جتنا چاہیں مانگ سکتے ہیں ۔ مگر سوداگر نے عرض کیا کہ میرے اور میری اولاد کے کاروبار پہ لاگو ٹیکس معاف کر دیا جائے ۔ جس پر نواب سعد اللہ خان نے حیران ہو کر کہا کہ یہ تو آپ نے کچھ بھی نہیں مانگا۔ لہذا نواب سعد اللہ خان نے اسی وقت ٹیکس معاف کر دیا اور مزید تحائف دے کر بڑی عزت و احترام سے الوداع کیا۔

مسلک :

نواب سعد اللہ خان اہل سنت والجماعت مسلک کے پیروکار تھے۔ باجماعت نماز پڑھنے کے عادی تھے۔ باقاعدہ تہجد گزار تھے ۔ اس کے دل میں خوف خدا تھا اور رسول اکرم صلى الله لے کے شیدائی تھے ۔ قرآن وسنت کے مطابق چلتے تھے۔ عبادت سے فارغ ہو کر دیر تک بارگاہ الہی میں دعا کیا کرتے ۔ ایک روز عبادت سے فارغ ہوکر دیر تک دعا میں مصروف ہو گئے تو ایک ساتھی نے پوچھا کہ نواب صاحب اب کونسی آرزو باقی ہے جس کیلئے اتنی دیر تک دعا کر رہے ہو تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور جواب دیا کہ ” آدم خوب

ملکی خدمات و عہد وزارت :

نواب سعد اللہ خان نے تمام سابقہ قوانین میں اصلاحات کیں تا کہ رعایا پر بوجھ کم ہو جائے ۔ پہلے کروڑیوں ( تحصیلداروں ) کو حق تحصیل سے پانچ فیصد مجرا دیا جاتا تھا۔ حق تحصیل کے حساب سے کروڑیوں ( تحصیلداروں ) کی تنخواہ 40 دام (ساڑھے بارہ ہزار روپے) سالا نہ ہوتی تھی ۔ نواب سعد اللہ خان نے اس نظام میں ترمیم کر کے یہ حکم نامہ جاری کیا کہ ! ہر کروڑی ایک سو پانچ روپے وصول کرے گا جس میں سے پانچ روپے حق تحصیل کے خود رکھ لے اور سو روپے شاہی خزانہ میں جمع کروائے ۔ اس میں کروڑیوں کی تنخواہوں میں معمولی کمی آئی مگر غریب کروڑیوں کا کچھ نقصان ہوا۔ اس میں شاہی خزانہ میں اضافہ کو مد نظر رکھا گیا۔ یہ معمولی سی ترمیم ہونے کے باوجود بھی سعد اللہ خان کو ساری عمر اپنے اس فعل پر بچھتا وار ہا اور کہا کرتا تھا کہ ” اس دن میرے ہاتھ خشک ہو جاتے اور میں قلم پکڑنے کے قابل نہ رہتا تو اچھا ہوتا‘ محاصلات خالصہ شاہی کی بقایا ئے مالگذاری کی فہرست جب نواب سعد اللہ خان کے سامنے رکھی گئی تو انہوں نے اس پر تحریری حکم جاری کیا کہ اس برف کے منارے کو سورج کے سامنے رکھ دو اور گرمی کے بعد جو باقی بچے اسے وصول کرنے کی کوشش کرو۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ جولوگ بقایائے مالگذاری ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ان کی تحقیق کر کے معاف کر دیا جائے اور باقی لوگوں سے وصول کرنے کی کوشش کرو۔
1055ھ بمطابق 1645ء میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے پورا پنجاب قحط کی
زد میں آگیا۔ شاہ جہاں نے نواب سعد اللہ خان کو حکم نامہ جاری کیا کہ پنجاب کے مختلف مقامات پر دس لنگر خانے تعمیر کروائے جائیں ۔ ہر ایک لنگر خانے سے دوسوروپے روزانہ کی خوراک مسلمانوں کو پکی پکائی اور ہندوؤں کو بذریعہ جنس خام تقسیم ہوا کرے اور پچاس ہزار رو پیدان سفید پوشوں اور ضعیفوں میں تقسیم کیا جائے جو لنگر خانے میں نہیں پہنچ سکتے ۔ لہذا نواب سعد اللہ خان نے شاہی حکم کی تعمیل کی۔ شاہ جہاں کا بڑا بیٹا دارالشکوہ جونو اب سعد اللہ خان کی عزت و اقتدار پر حسد کرتا تھا۔ اس نے شاہ جہاں سے شکایت کی کہ نواب سعد اللہ خان نے کم آمدنی والے اور غیر آباد اضلاع مجھے دے دیئے ہیں۔ زیادہ آمدنی والے اور سر سبز اضلاع خود رکھ لئے ہیں ۔ یہ شکایت سنتے ہی شاہ جہاں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے بیٹے کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ جب نواب سعد اللہ خان کو اس شکایت کا علم ہوا تو اس نے دارالشکوہ کے نائب کو بلا کر اپنے اضلاع اس کو دے دیئے اور اس کے اضلاع خود لے لئے ۔ دو سال گزرنے کے بعد جو اضلاع نواب صاحب نے دارالشکوہ کو دیئے تھے، وہ غیر آباد ہو گئے جو غیر آباد اضلاع دارالشکوہ سے نواب صاحب نے لئے تھے وہ سرسبز و شاداب ہو گئے۔

قرآنی سمجھداری :

ایک روز مسیحی مذہب کا امام دربار شاہ جہاں میں حاضر ہوا ۔ وہ بادشاہ سے سوال کرنے لگا کہ قرآن پاک میں دنوں کا کہیں ذکر نہ ملتا ہے تو شاہ جہاں نے جواب دیا کہ قرآن پاک کی سورۃ یسین آیت نمبر 38 میں’و القمر قدرنہ منازل“ ترجمہ ۔ چاند سے منزلوں کے انداز سے مقرر کر دیئے ہیں، سے دن ہی مراد ہے۔ مسیحی مذہب کا امام بولا حضور نے درست فرمایا لیکن یہ تو پتہ نہیں چلتا کہ سال میں دن کتنے ہیں ۔ اس سوال پہ شاہ جہاں نے نواب سعد اللہ خان کی طرف دیکھا تو انہوں نے عرض کیا حضور والا شان ! رب کائنات ! نے اس کے سوال کا جواب قرآن حکیم کی اسی آیت میں فرما دیا ہے۔ مسیحی مذہب کے امام نے وضاحت طلب کی تو نواب سعد اللہ خان نے شاہ جہاں کی طرف متوجہ ہو کر عرض کیا کہ حضور والا شان قدرنہ“ کے اعداد، ابجد کے لحاظ سے 360 ہوتے ہیں اس سے بڑھ کر قرآن کی ہمہ گیری کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔

تعمیراتی تجاویز :

نواب سعد اللہ خان کے زیر اہتمام شاہ جہانی دور میں درج ذیل عمارات تعمیر ہوئیں۔ تاج محل آگرہ ، قلعہ آگرہ ، موتی مسجد شاہ جہاں آباد (دہلی) ، لال قلعہ تخت طاؤس ، جامعہ مسجد دہلی ، دیوان خاص لاہور ، شالا مار باغ بمعہ سومیل لمبی نہر ۔
نواب سعد اللہ خان کی ذاتی تعمیرات:

1۔ شاہی مسجد چنیوٹ

-2 حویلی میاں خاں لاہور

یہ حویلی نواب سعد اللہ خان نے شروع کی تھی۔ مگر ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے حفظ اللہ خان عرف میاں خان نے مکمل کروائی۔ یہ لاہور کی سب سے بڑی اور عظیم الشان حویلی تھی جواب رنگ محل کے نام سے مشہور ہے۔ 1854ء سے اس عمارت میں مشن سکول کھول دیا گیا جو کہ بوسیدہ ہو گیا۔ جس وجہ سے اسے گرا دیا گیا۔ اب وہاں نئی عمارت تعمیر ہوگئی ہے۔

-3 پتھروں والی حویلی موچی درواز ملا ہور ۔ یہ حویلی بھی نواب سعد اللہ خان نے تعمیر کروائی تھی۔ یہ دونوں حویلیاں نا پید ہو چکی ہیں۔ اب ان کے نام باقی ہیں نشان نہیں۔

-4 حویلی سعد اللہ خان (دہلی ) ۔ دہلی کے لال قلعہ کے لاہوری دروازہ کے باہر ایک چوک تھا جو نواب سعد اللہ خان کے نام سے تھا۔ غالباً یہیں یہ حویلی ہو گی جو کہ 1857ء کے بعد مسمار کردی گئی۔

-5 نواب سعد اللہ خان نے اپنے عہد وزارت میں آگرہ اور متھرا کے درمیان پُر فضا مقام پر دریائے جھرنا کے کنارے ایک شہر بنام "سعد آباد آباد کیا ۔اس وقت سے 1832 ء تک سعد آباد کو ضلعی حیثیت حاصل رہی جس میں بانٹ ، نو جھیل ، مہابن ، رایا، کھنڈولی ، سکندرا، راؤ ، فیروز آباد اور چھاتہ وغیرہ کے اضلاع شامل تھے ۔ 1832ء میں جب نیا ضلع "مستحمر ” قائم ہو گیا تو اس وقت سے سعد آباد ایک تحصیل رہ گئی وہاں بھی ایک مسجد سعد اللہ خان کے نام سے مشہور ہے۔

-6 روضہ حضرت شاہ برہان ( چنیوٹ ) ، یہ روضہ بھی نواب سعد اللہ خان نے تعمیر کرایا تھا ۔ پاس ہی اپنی رہائش کیلئے ایک عمارت بھی تعمیر کروائی جس کی خستہ حال دیوار میں انیسویں صدی کے نصف تک نظر آتی رہیں۔ جنہیں بعد میں سیلابوں نے زمین بوس کر دیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس عمارت کا نشان ہی ختم ہو گیا۔

فوجی خدمات :

نواب سعد اللہ خان صاحب السيف والقلم تھے۔ انہوں نے نہایت خوش اسلوبی
سے فوجی خدمات انجام دے کر بڑے بڑے تجربہ کارسپہ سالاروں سے صاحب السیف کا خطاب حاصل کیا۔

بلخ و بدخشاں کی مہم :

شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے عہد حکومت سے تمام مغلیہ شہنشاہوں کی یہ دلی خواہش چلی آئی کہ اپنے موروثی علاقہ بلخ د بدخشاں اور ثمر قند کو فتح کیا جائے ۔ 1055ھ بمطابق 11 فروری 1646ء کو شہنشاہ شاہ جہاں نے شہزادہ مراد بخش کے زیر قیادت پچاس ہزار سوار ، دس ہزار پیدل، مع بندوق و توپ چلانے والے بلخ و بدخشاں کی مہم پر روانہ کیے۔ ایک حسن ابدال اور کابل سے گزرتے ہوئے 7 جولائی 1646ء کو شاہی فوج بلخ کے قلعہ پر قابض ہوگئی۔ ابھی پوری طرح انتظام نہ ہوا تھا کہ شہزادہ مراد بخش کو وہاں کی آب و ہوا موافق نہ آئی۔ اس نے شاہ جہاں کو درخواست بھیجی کہ مجھے واپس بلایا جائے اور میری جگہ کوئی اور افسر مقرر کیا جائے ۔ شاہ جہاں نے لکھ بھیجا میرا ارادہ ہے کہ فتح کے بعد بلخ وبد خشاں تمہاری تحویل میں دے دوں ۔ مگر باوجود اس فرمان عنایت آمیز کے بھی شہزادہ وہاں رہنے پر رضامند نہ ہوا۔ شاہ جہاں بہت پریشان ہوا کہ اس نازک وقت میں کسی ایسے افسر کو مقرر کیا جائے جس پر تمام فوجی افسر اعتبار کریں اور اس کی طرف مائل ہوں ۔ یہ تمام اوصاف نواب سعد اللہ خان میں پائے جاتے تھے۔ لہذا بادشاہ نے 9 اگست 1646 ء بروز بدھ نواب سعد اللہ خان کو سمجھا کر اور کچھ فوج دے کر بلخ و بدخشاں کی طرف روانہ کیا۔ خلعت ، مرصع جمد ھر مع پھول کٹارہ ، طلائی اور مطلا زین والے دو گھوڑے عطا فرمائے اور ساتھ ہدایت کی کہ خنجان کا راستہ اختیار کرنا اگر چہ دشوار گزار ہے لیکن دوسرے راستوں کی نسبت مختصر ہے ۔ سید فیروز کو حکم پہنچا کہ شاہی فوج کی تنخواہ و دیگر ضروریات کیلئے خزانے سے 25لاکھ روپے بیچ میں پہنچا کر واپس آجانا ہے۔لہذا نواب سعد اللہ خان طویل مسافت طے کرنے کے بعد گیارہ دنوں میں بلخ و بدخشاں پہنچے ۔ انہوں نے شہزادے کو مطمئن کرنے کی امکان بھر کوشش کی مگر وہ کسی صورت بھی وہاں ٹھہر نے کیلئے رضامند نہ ہوا ۔ نواب سعد اللہ خان نے تمام امراء کو حکم دیا کہ شہزادہ سے ملاقات نہ کی جائے اور اس کی رہائش گاہ پر جانے سے بھی منع کر دیا۔ باقی قلعوں اور تھانوں میں امراء کو تعینات کر کے بہادر خاں کو صو بیدار بلخ اور اصالت خان کو سپہ سالار مقرر کر کے لا محدود اختیارات سونپ دیئے۔ نجابت خاں نے بدخشاں کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ تو اس کی جگہ قلیچ خان کو تعینات کر دیا گیا۔ رتم خاں کو اند خود کا انتظام سونپا گیا۔ باغ کے مروجہ مخالص و جھوٹے سکتے بند کر کے خالص سکے رائج کئے گئے ۔ بائیں دن کے قلیل عرصہ میں نواب سعد اللہ خان بلخ و بدخشاں کے نظام حکومت کو درست کر کے واپس پہنچ گیا تو شاہ جہاں نے خوش ہو کر اس کے منصب میں ایک
ہزار سوار کا اضافہ کر دیا۔

قندھار کی مہم :

دارائے ایریان صفی کی وفات کے بعد شاہ عباس ثانی ایران کے تخت پر جلوہ افروز ہوا۔ اس کی عمر صرف گیارہ سال تھی اور کم سنی کی وجہ سے امور سلطنت سے ناواقف تھا۔ علی مردان خان جو حکومت ایران کی طرف سے قندھار کا قلعہ دار تھا، نے قندھار شہنشاہ شاہ جہاں کے سپر د کر دیا۔ تو شاہ جہاں نے خواص خاں کو قندھار کا قلعہ دار مقرر کر دیا۔ اس طرح قندھار مغلوں کے قبضہ میں آ گیا۔ شاہ عباس ثانی جب جوان ہوا تو امراء نے بتایا کہ قندھار آپ کا آبائی ملک تھا۔ جس پر مغل قابض ہو گئے ہیں ۔ شاہ عباس خانی نے قندھار واپس لینے کا ارادہ کر لیا۔ اس نے ایک تحریری خط لکھ کر شاہ قلی بیگ کے ذریعے شاہ جہاں کے پاس بھیجا۔ اس خط میں اس نے سب سے پہلے شاہ جہاں کے اس اقدام کی تعریف کی کہ آپ نے بلخ نذرمحمد کو واپس کر دیا اور پھر عاجزانہ درخواست کی کہ شاہ جہاں قندھار چھوڑ دے۔ اس محلط کا جو جواب ملنا تھا وہ پہلے سے ہی شاہ عباس ثانی کو معلوم تھا۔ لہذا اس نے . ادھر خط روانہ کرتے ہی ادھر فوجی تیاریوں کا حکم دے دیا۔ ہر جنگی محاذ کیلئے اس نے رسد اور للہ فراہم کر دیا۔ بندوقوں اور توپوں کا انتظام کیا اور ایک بڑی فوج تیار کی اور حکم صادر فرمایا کہ کسی بھی وقت کوچ کیلئے تیار رہیں۔ یہ اس کی حکومت کی پہلی فوجی مہم تھی۔ اس لئے ناکامی کے خطروں کا بڑی احتیاط سے انتظام کیا گیا۔ ادھر شاہ جہاں نے بھی خط پڑھ کر اس کے مطالبہ کو رد کر دیا۔ شاہ عباس کی فوجوں نے قندھار کی طرف پیش قدمی شروع کر دی اور شاہ عباس خود بھی 16 دسمبر 1648ء کو قندھار پہنچا۔ قلعہ دار نے بذریعہ عرضداشت شاہ جہاں کو آگاہ کیا کہ دارائے ایران قندھار پر حملہ کرنے کیلئے زبردست فوج لے کر صفاہان سے نکلا ہے ۔ خواص خان کی اس عرضداشت سے دربارشاہ جہاں میں ہلچل مچ گئی۔ اس ہونے والے حملہ کے پیش نظر علی مردان خان ناظم کا بل نے پانچ ہزار فوج اور پانچ لاکھ روپے قلعہ کی مدافعت کیلئے فوراً بھیجا مگر یہ کوشش بھی ناکام ہوئی ۔ بالآخر 11 فروری 1649ء کو قندھار پر ایرانیوں نے قبضہ کر لیا۔ اور محراب خاں کو قلعہ دار مقرر کر دیا۔ دولت خاں نے شاہ جہاں کو خط بھیجا کہ قندھار پر ایرانیوں کا قبضہ ہو چکا ہے تو شاہ جہاں نے شہزادہ اورنگ زیب اور نواب سعد اللہ خان کو پچاس ہزار فوج دے کر قلعہ کی رہائی کیلئے روانہ کیا۔ دونوں پر سالاروں نے فوج لے کر پشاور کی طرف پیش قدمی کی پھر وہاں سے کو ہاٹ ، جمرود اور جلال آباد کے دشوار گزار راستے جن میں اونچے اونچے پہاڑ اور دروں میں برف جھی پڑی تھی۔ کئی جانور ضائع ہو گئے ، پیدل سفر کرنے کی وجہ سے غلہ اور کچھ سامان راستے میں چھوڑنا پڑا زبر دست مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد 25 مارچ 1649ء کو کابل پہنچے۔ شہزادہ اور نگ زیب اور نواب سعد اللہ خان شاہ جہاں کے حکم کے مطابق کابل میں رکے بغیر غزنوی چلے گئے ۔ وہاں پندرہ دن قیام کر کے کچھ غلہ اکٹھا کیا اور وہاں سے روانہ ہو گئے ۔ 9مئی 1649ء کو قلات علوا میں پہنچے ۔ نواب سعد اللہ خان فوج کے پانچی دستے لے کر 14 مئی 1649ء کو قندھار پہنچ گیا۔ دو دن بعد شہزادہ اور نگ زیب سے ملاقات ہوئی۔ اسی روز قلعہ قندھار کا محاصرہ کر لیا ۔ راجہ مان گوالیاری اور جگت سنگھ کے بیٹے بھاؤ سنگھ نے چہل زینہ پہاڑی پر دھاوا بول دیا ۔ ادھر محراب خان نے خفیہ طور پر کچھ بندویچی بھیج دیئے ۔ جونہی شاہی فوج ان کی رینج میں آئی انہوں نے گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ شاہی سپاہیوں اور راجپوتوں نے واپس آکر پہاڑ کے درمیانی حصہ میں لکڑی کا ایک حصار بنایا اور کچھ عرصہ تک قابض رہے۔ قلعہ قندھار کا محاصرہ ابھی تک جاری تھا کہ شہزادہ اورنگ زیب نے قلیچ خان کو آس پاس کے پر گنات (اضلاع) میں غلہ اکٹھا کرنے کیلئے بھیج دیا۔ جب یہ غلہ لے کر واپس آرہے تھے تو نجف قلی میرآخور اور حاجی منوچہر کی زیر قیادت ایرانیوں نے ان پر حملہ کر دیا اور انہیں دریائے ہامون سے پار بھگا دیا۔ انہوں نے قندھار سے جنوب مشرق میں چوبیس میل دور بالا حصار میں دم لیا۔ ابتر ایرانیوں نے اور نگ زیب کے خیمہ سے 4 میل دور پہنچ کر جانور اور مال غنیمت قبضہ میں لے لیا ۔ مگر شاہی فوج نے تعاقب کیا تو وہ ہر چیز چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ قلیچ خان کی وجہ سے شہزادہ بہت پریشان ہوا تو نواب سعد اللہ خان کے مشورہ پر قلیچ خاں کی امداد کیلئے رستم خان کو روانہ کیا۔ جو 25 اگست 1649ء میں بالا حصار میں قلیچ خان سے ملا اور وہاں سے جاسوس بھیج کر ایرانی فوج کی نقل و حرکت معلوم کرنے کے بعد بالا حصار اور شاہ میر کے درمیانی راستہ پر پڑاؤ ڈالا ۔ جس کی وجہ سے ایرانی سپہ سالار مرتضی قلی حملہ کی زد میں آگیا۔ نواب سعد اللہ خان نے فوج کو فوجی ترتیب سے کھڑا کیا اور توپ خانے کی ایک لمبی قطار کے پیچھے نذر بہادر اور راؤ ستر سال ہراول دستہ کے سرغنہ تھے ۔ دایاں حصہ رستم خان اور بایاں حصہ قلیچ خان کی قیادت میں تھا۔ دوسری قطار بنادی مگر مرتضی قلی نے قسم کھائی کہ جب تک شاہ جہانی فوج کو ہرا نہ دوں روزہ افطار نہیں کروں گا۔ فریقین کی زبر دست آتش باری سے جنگ کا آغاز ہوا۔ ایرانیوں نے مغلیہ فوج پر زبر دست دباؤ ڈالا ۔ میچ خان اور ارشاد خان غیر مفتوح انداز میں مقابلہ کرتے رہے۔ سردار خان نے ہتھیار ڈال دیئے مگر رستم خان بروقت پہنچ گیا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی ، ایرانی پسپا ہوئے۔ انکی کچھ تو ہیں اور توڑے دار بندوقیں مغلیہ فوج کے ہاتھ لگ گئیں۔ مگر پھر بھی فتح کے امکانات نظر نہ آرہے تھے۔ محاصرہ بدستور رہا شہزادہ اور نگ زیب کی عقل جواب دے رہی تھی ۔ بالآخر نواب سعد اللہ خان نے ایک زمین روز نہر بنوائی تاکہ خندق سے پانی کھینچ لیا جائے ۔ مگر قلعہ سے زبر دست گولہ باری ہونے سے یہ کوشش ناکام ہوئی۔ مغلیہ فوج کے پاس تو میں بھی کم ہو گئیں اور سردی کی بھی آمد ہونے والی تھی ۔ شہنشاہ شاہ جہاں نے اور تنگ زیب اور نواب سعد اللہ خان کو محاصرہ اٹھا کر واپس آنے کا حکم جاری کیا۔ جو شاہ جہاں کے حکم کے مطابق 3 ستمبر 1649ء کو فوج لے کر واپس پہنچ گئے۔

قندھار کی دوسری مہم :

اگست 1651ء کو شاہ جہاں کشمیر سے واپس لوٹا تو اس نے اورنگ زیب اور نواب سعد اللہ خان کو دوبارہ قندھار پر حملہ کرنے کی تیاری کا حکم دیا اور شاہ شجاع کو بنگال طلب کیا اور راجہ جے سنگھ ، راجہ جسونت سنگھ ، رستم خان اللہ وردی خان اور راجہ وفصل داس کو اگلے سال 20 جنوری 1652ء کو دربار میں حاضر ہونے کے احکام جاری کئے ۔ رستم خان دولاکھ روپیہ لیکر لاہور دربار شاہ جہاں میں حاضر ہو گیا۔ شاہ جہاں نے شہزادہ اورنگ زیب اور نواب سعد اللہ خان کے زیر قیادت 60 ہزار فوج دے کر قندھار کی طرف روانہ کیا ۔ جس میں 16 ہزار ہندو کی اور توپ خانہ والے، 20 ہزار افسر بستر پاؤنڈ وزنی گولہ پھینکنے والی دو بڑی تو ہیں۔ پانچ پاؤنڈ وزنی گولہ پھینکنے والی 20 چھوٹی تو ہیں ۔ 20 چول چھلا ہاتھیوں پر رکھی گئیں ۔ ایک سو اسی تو ہیں اونٹوں پر رکھ کر اور شاہ جہاں کے ذاتی فیل خانے سے منتخب  ہاتھیوں کے علاوہ بہت سے اور ہاتھی فوجی افسروں کی ملکیت سے محکمہ نقل و حمل کے سپرد کر کے روانہ کئے۔ مزید ایک ہزار اونٹ فوج کے استعمال کیلئے دیئے ۔ شاہ جہاں خود 4 اپریل 1652ء کو کابل پہنچ گیا ۔ شہزادہ اور نگ زیب اور نواب سعد اللہ خان کو حکم دیا کہ 2 مئی 1652ء کو ہر صورت قلعہ قندھار کے محاصرہ کا آغاز ہونا چاہیے۔ لہذا بمطابق حکم شاہی نواب سعد اللہ خان بھاری لشکر کے ساتھ قندھار پہنچ گیا اور شہزادہ اور نگ زیب جو ملتان کے راستے آیا تھا وہ بھی قندھار کے قریب شاہی فوج کے ساتھ مل گیا۔ راجہ راج روپ اور مہابت خان نے اجازت لے کر چہل زینہ پہاڑی اور فیٹل کی ماہی پست چوٹی پر طوفان کی طرح حملہ کیا مگر نتیجہ تباہ کن ثابت ہوا۔ نواب سعد اللہ خان نے قلعہ کے دونوں طرف سے خندقیں کھدوانا شروع کیں مگر قلعہ کے اندر سے گولہ باری ہونے کی وجہ سے زیادہ آگے نہ بڑھ سکیں۔ عین مشکل وقت میں توپ خانہ جواب دے گیا۔ زیادہ وزنی گولے لگائے جانے کی وجہ سے تو ہیں اور نگ زیب کی خندق کے اندر ہی پھٹ گئیں ۔ قاسم خان کی توپوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ نواب سعد اللہ خان کی خندق کے اندر موجود توپ پر نا تجربہ کار تو نیکی تھے۔ جو نشانہ کہیں باندھتے اور گولہ کہیں لگتا۔ ایرانی تو بچی بہت تجربہ کار تھے وہ ٹھیک نشانہ پر گولہ لگاتے بالآخر یہ کوشش بھی ناکام ہو گئی اور شاہ جہاں نے حکم دیا کہ محاصرہ اٹھالیا جائے ۔ اورنگ زیب نے درخواست دی کہ کچھا اور وقت دیا جائے۔ مگر بادشاہ نے عقلمندی سے کام لیتے ہوئے فوج کو واپس بلا لیا۔ 9 جولائی 1652ء کو محاصرہ اٹھالیا اور 7 اگست 1652ء کو فوج واپس شاہ جہاں کے پاس کابل پہنچ گئی۔

قلعہ چتور کی مہم :

1654ء کو شہنشاہ شاہجہاں کو علم ہوا کہ رانا جنگت سنگھ کا بیٹارا نا راج سنگھ، جہانگیری معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قلعہ کو مضبوط کر رہا ہے۔ شاہ جہاں نے نواب سعد اللہ خان کو 33 ہزار فوج دے کر قلعہ چتور پر حملہ کرنے کیلئے بھیجا۔ شاہی حکم کے مطابق نواب سعد اللہ خان نے قلعہ چتور پر حملہ کر کے رانا راج سنگھ کو شکست دے کر پندرہ دن میں قلعہ منہدم کر دیا۔ رانا نے مجبور ہو کر دارالشکوہ کی سفارش سے بادشاہ سے معافی چاہی اور شاہ جہاں نے اسے معاف کر دیا۔

مالیاتی نظام سلطنت :

جب شہنشاہ شاہ جہاں ہندوستان کے تخت پر متمکن ہوا تو اس وقت ملکی خزانہ میں سترہ کروڑ پچاس لاکھ روپیہ جمع تھا اور اند از آڈیڑھ کروڑ روپیہ سالانہ مختلف ملکی کاموں پر خرچ ہوتا ۔ جو کہ تاریخی عمارات و جنگی اخراجات کے بغیر تھا۔ مگر جب سے ملکی مالیاتی نظام نواب سعد اللہ خان کے سپر د ہوا تو ملکی خزانہ کی آمدنی ساڑھے سترہ کروڑ سے بڑھ کر اکیس کروڑ ہو گئی۔

اولاد :

نواب سعد اللہ خان کی شادی چنیوٹ میں آباد جہ خاندان کی ایک نیک اور صالح خاتون مسماة نور بیگم سے ہوئی۔ جس کے بطن سے چار بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ جن کے نام بالترتیب لطف اللہ خان، حفظ اللہ خان عرف میاں خاں، عنایت اللہ خان ، خسر و محمد بدیع اور بیٹی زینب بیگم ہیں۔ ان میں عنایت اللہ خان اور خسر ومحمد بدیع کم سنی میں ہی وفات پاگئے تھے –
نواب سعد اللہ خان کی دختر زینب بیگم کی شادی میر شہاب الدین مخاطب بہ غازی الدین خان بہادر فیروز جنگ سے ہوئی۔ جن کے بطن سے میر قمر الدین خان نظام الملک آصف جاہ اول تھے ۔ نواب سعد اللہ خان کی پوتی اور لطف اللہ خان کی بیٹی صاحب بیگم کی شادی میر نظام الملک سے ہوئی ۔ میر نظام الملک نواب سعد اللہ خان کے نواسے تھے ۔ نواب سعد اللہ خان کے بیٹے حفظ اللہ خان عرف میاں خان کی شادی چنیوٹ میں آباد سپراء خاندان کی ایک خاتون مسماۃ صفیہ بیگم سے ہوئی۔ جس کے بطن سے تین بیٹے متوسل خان، حذر اللہ خان اور طالب خان پیدا ہوئے ۔ میر نظام الملک کی بیٹی مہر النساء کی شادی نواب سعد اللہ خان کے پوتے اور حفظ اللہ خان کے بیٹے متوسل خان سے ہوئی ۔ جس کے بطن ہدایت محی الدین الملقب سعد اللہ خان پیدا ہوا اور ہدایت محی الدین کا بیٹا محمد سعد الدین تھا۔ طالب خان کا صرف ایک ہی بیٹا محی الدین بہادر حسن خان تھا ۔ صحی الدین بہادر حسن خان کے تین بیٹے فیروز الدین، بہاؤالدین اور محمد سلیم تھے۔ نواب سعد اللہ خان کے بڑے بیٹے لطف اللہ خان کا ایک بیٹا محمد خلیل اور دو بیٹیاں صاحب بیگم اور حمیدہ بیگم تھیں۔ محمد خلیل کے تین بیٹے حفیظ الدین ، محمد سعید اور محی الدین علی تھے ۔ حفظ اللہ خان کے بیٹے حذر اللہ کی شادی لطف اللہ خان کی بیٹی حمیدہ بیگم سے ہوئی ۔ جس کے بطن سے دو بیٹے جلال الدین ، عزیز الدین اور ایک بیٹی عائشہ پیدا ہوئی۔ بیٹی کم سنی میں ہی اللہ کو پیاری ہو گئی۔ عزیز الدین کے دو بیٹے محمد عبد اللہ اور عبد الرحمن تھے ۔ جلال الدین کے تین بیٹے شمس الدین، کرم علی اور رحمت علی تھے۔ جن کی اولا داب بھی چنیوٹ میں مغل شہنشاہ شاہ جہاں کی طرف سے ملی ہوئی جاگیر میں آباد ہے ۔ نواب سعد اللہ خان کے بڑے صاحبزادے لطف اللہ خان 1054ھ بمطابق 1644ء کو پیدا ہوئے اور اپنے والد محترم کے انتقال کے وقت صرف بارہ سال کے تھے ۔ عالمگیر کے عہد میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ جنگی اور ملکی خدمات اچھی طرح انجام دے کر سہ ہزاری دو ہزار پانچصد سوار کے منصب تک ہی پہنچے تھے کہ 18 شعبان 1114ھ بمطابق 1704ء میں وفات پا گئے۔
حفظ اللہ خان عرف میاں خان 1060ھ بمطابق 1650ء کو پیدا ہوئے اور اپنے باپ کی وفات کے وقت صرف چھ برس کے تھے ۔ عہد عالمگیری میں دو ہزاری پانچصد سوار کے منصب اور صوبیداری خطہ و فوجداری سیوستان پر مامور تھے کہ جانشینی کے پتالیسویں سال عالمگیر 1122ھ بمطابق 1712ء میں انتقال کر گئے ۔ ان کا عالیشان
مقبرہ موضع ” بھو گیوال میں واقع تھا جواب مشکی دی محل“ کے نام سے موسوم ہے ۔ سکھوں کے عہد میں اس کی بہت ساری عمارات کھد گئیں ۔ نہایت خوبصورت سنگ سیاہ کا تعویز تھا۔ وہ بھی سکھوں نے اکھاڑ لیا ۔ 1906 ء تک مسجد تسبیح خانہ اور حوض باقی تھے  اب صرف مسجد اور نام باقی ہے نشان نہیں۔ صاحب تحقیقات چشتی لکھتے ہیں کہ انگریزی عملداری میں یہ مقبرہ مع باغ دو ہزار دوصد پچاس روپے میں نواب علی رضاء صاحب قزلباش نے خریدا۔ ہے

سفر آخرت :

نواب سعد اللہ خان صفر 1066ھ بمطابق نومبر 1655ء کو قولنج کے مرض میں مبتلا ہو گئے۔ تو دہلی سے اپنے آبائی وطن اور اپنے مرشد حضرت شاہ بر ہان کی نگری میں لوٹ آئے۔ حضرت شاہ بر ہان کی خانقاہ کے قریب ہی اپنی رہائش گاہ میں قیام فرمایا۔ دو ماہ تک حکیم محمد داؤد المخاطب بہ تقرب خان کے زیر علاج رہے۔ جمادی الاول 1066 ھ بمطابق فروری 1656ء کو مرض شدت اختیار کر گیا۔ 20 مارچ 1656ء کو شاہ جہاں اور دار اشکوه تیمارداری کیلئے چنیوٹ آئے اور واپسی پر دارالشکوہ سے کہنے لگے کہ سعد اللہ خان کے صحت یاب ہونے کی امید ظاہر نہیں ہوتی ۔ بالآخر اسی مرض کی وجہ سے 22 جمادی الآخر 1066ھ بمطابق 7 اپریل 1656ء بروز اتوار اس جہان فانی سے رحلت فرما گئے۔ ایک روایت کے مطابق آپ کے جسد خاکی کو قبرستان پیر حافظ دیوان میں سپرد خاک کیا گیا۔

جن کے نقش پا کو رکھتی تھی زمیں سر پہ یہ فخر
تربتوں میں خاک آلود ہیں وہ عالی گہر
نام ان کا کوئی اب بھولے سے بھی لیتا نہیں
جن کے دروازوں پر ڈنکا بجتا تھا شام و سحر
تھا مگس کا بیٹھنا بھی تن پہ جن کو ناگوار
فرق پر جن کے ہلایا کرتے تھے خادم چیز
خاک میں مرکز ملے افسوس وہ عالی دماغ
اب نشانِ قبر بھی ان کے آتے نہیں نظر

ہدایت محی الدین الملقب سعد اللہ خان تھہیم

مظفر جنگ :

ہدایت کی الدین املقب بعد اللہ خان ، نواب سعد اللہ خان تصمیم (وزیر اعظم ہندوستان کے پوتے اور حفظ اللہ خان عرف میاں خان کے بیٹے متوسل خان کے ہاں 21 ربیع الاوّل 1112ھ بمطابق 14 اکتوبر 1702ء کو چنیوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنے چچا حذر اللہ سے دینی و دنیوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد فنون سپہ گری، تیراندازی اور شہ سواری سیکھنا شروع کر دی ۔ چند ہی سالوں میں فنون جنگ میں ماہر ہو گئے ۔ 1732ء میں آپ نے ہندوستان کی فوج میں بطور جرنیل شمولیت اختیار کر کے "مظفر جنگ“ کا خطاب پایا۔ آپ بڑے نام ونشان والے عالم، فاضل و شجاع تھے اور سعد اللہ خان کے نام سے مشہور ہوئے ۔ سب سے پہلے انہوں نے ہی فرانسیسیوں کو اپنی فوج میں ملازمتیں دیں۔ جب نظام الملک آصف جاہ فوت ہو گیا تو حیدر آباد کی حکومت نواب نظام الدولہ ناصر جنگ نے سنبھال کر انور الدین کو کرناٹک کا فوجدار مقرر کر دیا ۔ ہدایت محی الدین مظفر جنگ اس وقت بیجا پور میں تعینات تھے ۔ انہوں نے فوج لے کر کرناٹک پر زور دار حملہ کر دیا اور فوجدار نور الدین کو شکست دے کر کرناٹک پر قبضہ کر لیا۔ جب یہ خبر نظام الدولہ ناصر جنگ تک پہنچی تو اس نے بھی فوج لے کر کرناٹک کی طرف پیش قدمی کی۔ ادھر جب ہدایت محی الدین مظفر جنگ کو نظام الدولہ ناصر جنگ کی چڑھائی کا علم ہوا تو وہ بھی اپنی فوج لے کر میدان میں آ گیا۔ 27 ربیع الثانی 1163ھ بمطابق 10 فروری 1753ء کو دونوں فوجوں کے درمیان زبر دست جنگ ہوئی ۔ ہدایت محی الدین مظفر جنگ کی فوج تھوڑی ہونے کی وجہ سے نظام الدولہ ناصر جنگ کی فوج غالب آئی ۔ جس کے نتیجے میں ہدایت محی الدین مظفر جنگ زندہ قید ہو گئے ۔ ان کے ایک وفادار فوجی افسر بہادر خان نے جب اپنے جرنیل ہدایت کی الدین مظفر جنگ کو قید میں دیکھا تو اس نے اپنی فوج اور فرانسیسیوں ( جو کہ اس جنگ میں ہدایت محی الدین مظفر جنگ کے ہمراہ تھے ) کو دوبارہ ہمت والا کر نظام الدولہ ناصر جنگ کی کثیر فوج پر ایساز بر دست حملہ کیا کہ خون کی ندیاں بہا دیں۔ نظام الدولہ ناصر جنگ کی فوج بھاگ کھڑی ہوئی۔ بہادر خان نے ہدایت محی الدین مظفر جنگ کو آزاد کروا کر ناصر جنگ کو قتل کر دیا ۔ 20 محرم 1164ھ
بمطابق 3 نومبر 1753ء کو ہدایت محی الدین مظفر جنگ نے حیدرآباد کی حکومت پر قبضہ کر لیا ۔ حیدر آباد کی حکومت سنبھالے ابھی دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ ہدایت محی الدین مظفر جنگ اپنی والدہ محترمہ مہر النساء ” کو لینے کیلئے پھلجری بندرگاہ کی طرف جارہے تھے۔ کہ راستے میں فرانسیسیوں اور بہادر خان کی فوج میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر لڑائی شروع ہوگئی ۔ ہدایت محی الدین مظفر جنگ نے فرانسیسیوں کی فوج کا ساتھ دیاہے۔ اس لڑائی کے دوران بہادر خان کی فوج کی طرف سے اسے تیر لگا اور 20 ربیع لا ول1164ھ بمطابق 2 جنوری 1754ء کو خالق حقیقی سے جاملے ۔

حافظ خدا بخش صغیر :

حافظ خدا بخش صغیر جوئیہ خاندان میں حافظ محمد بخش صغیر کے ہاں چنیوٹ میں پیدا ہوئے۔ یہ وہی شخصیت تھی جسے چنیوٹ کا پہلا صحافی ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ انہوں نے چنیوٹ میں سب سے پہلا ہفت روز ” المنیر 1898ء میں شائع کیا۔ اسلامیہ ہائی سکول چنیوٹ کے بانیوں میں سے تھے۔ اُردو اور پنجابی میں شاعری بھی کرتے تھے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا ظفر علی خان سے مراسم رکھتے تھے اور انہیں پہلی مرتبہ چنیوٹ دعوت دی۔ اہل علم اور ہر دلعزیز شخصیت تھے ۔ 1942ء میں ان کا انتقال ہوا تو اس روز پورا شہر بند کر دیا گیا۔

الحاج شیخ محمد یوسف و ہرہ سالار :

الحاج محمد یوسف و ہرہ (سالار ) ۱۹۲۲ء کو چنیوٹ میں ایک کاروباری شخصیت شیخ میاں چراغ دین وہرہ کے ہاں پیدا ہوئے اور گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول چنیوٹ سے تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے ۱۲ ربیع اول کے مقدس روز 9 اگست ۱۹۹۵ء کو اس جہان فانی سے کوچ کیا۔ اس سے بڑی کیا خوش نصیبی تھی کہ مرحوم کو ایسا مقدس دن ملا کہ جس روز پوری کائنات کے وارث رحمت العالمین منانے کی ولادت اور وصال ہوا اور یہیں انکی سے عشق رسالت صلى الله عليه وسلم کی دلیل تھی ۔ انہوں نے چنیوٹ میں صحافت کا آغاز کیا ۔ ان کے شہری مسائل پر متواتر بیان اور مکتوبات آج بھی چنیوٹ کی صحافت کی تاریخ میں سب سے نمایاں ہیں۔ چنیوٹ پیاری علاقہ پر پانی پینے کی ٹینکی۔ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم کا سائبان گورنمنٹ الاصلاح ھائی سکول کی منظوری تعمیر اور ہیضے کی وباء میں مریضوں کی خدمت قیام پاکستان کے بعد چنیوٹ میں مہاجرین کی آبادکاری کے علاوہ کئی اجتماعی کاموں کے نمونے ان کی سماجی خدمات کے متعرف ہیں۔ 1965ء کی جنگ میں انہیں پوری تحصیل چنیوٹ کا ڈپٹی چیف وارڈن مقرر کیا جانا ان کی خدمات کا اعتراف تھا۔ زمانہ جنگ تھا یا امن ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کے داعی رہے۔ سالار صاحب چنیوٹ پریس کلب و یونین آف جرنلٹس کے تاحیات سرپرست چلے آرہے تھے ۔ ان کی صحافی شاندار خدمات کو ایک منفرد مقام حاصل تھا۔ اس پر ہر سال نو اگست کو فیصل آباد کے تمام اخبارات خصوصی ایڈیشن شائع کرتے آرہے ہیں جن میں حالات زندگی پینی رپورٹیں شائع ہوتی ہیں جب چینوٹ میں پریس کلب کا پہلی بار افتتاح ہوا تو اس موقع پر فیصل آباد کے تمام اخبارات کے ایڈیٹرز بھی موجود تھے اور اس موقع پر جھنگ کے ڈپٹی کمشنر غلام مرتضی پراچہ نے افتتاح اور اپنے خطاب میں خصوصی طور پر کہا کہ سالار محمد یوسف کی سوچ فکر معاشرہ کی بھلائی پر مرکوز ہے۔ کسی افسر کے دل میں یہ خیال ہو کہ کسی دباؤ کے تحت ان کو جھکا لیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے ۔ ضلع جھنگ کے سابق ڈپٹی کمشنر میاں فیض کریم ان کے کردار سے بہت متاثر تھے۔ جو کافی عرصہ تک چنیوٹ میں بھی بطور مجسٹریٹ تعینات رہے اور ایک انتہائی غریب پرور تھے۔ اسلامیہ ہائی سکول پر جاگیر داروں نے قبضہ کر لیا تو انہوں نے فوری طور پرا صلاح شہر کے نام پر ایک تنظیم بنائی۔ جس میں 20 سرکردہ معززین شہر تھے ۔ اس قافلہ کے ایک سپاہی چوہدری برکت علی جو معروف سائنسدان نخی محمد بھٹہ کے والد ہیں ۔ سالار محمد یوسف نے اپنی اس 20 افراد پرمشتمل ٹیم کے ہمراہ نئے سکول کی منظوری کی کوششیں شروع کر دیں۔ جس میں انہیں نمایاں کامیابی ہوئی۔ اس وقت شیخ برادری کی ایک سرکردہ شخصیت نے انہیں آفر دی کہ تمام سکولوں کی تعمیر کا خرچہ ہم ادا کر دیتے ہیں سکول کا نام میرے نام سے منسوب کر دیا جائے ۔ مگر انسان دوست اور انصاف کے علمبر دار سالار محمد یوسف نے جواب دیا کہ اس میں میرے میں ساتھیوں کی محنت شامل ہے۔ میں اسے کیسے رد کر سکتا ہوں۔ اس پر انہوں نے اصلاح ہائی سکول کا نام تجویز کر دیا جو آج ایک مثالی ادراہ کی صورت میں موجود ہے۔ انہوں نے خاکسار ہونے کے ناطے ہمیشہ فرقہ ورایت سے نفرت کی اور اخوت محبت و بھائی چارہ قائم کرنے کی تلقین کرتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ انجمن مفاد عامہ قائم کی تو اس میں شہر بھر کے تمام مکاتب فکر کے علماء نے انہیں صدر بنایا اور ان کے جنرل سیکرٹری چوہدری محمد عمر ایم اے تھے ۔ جو انتہائی ورکر تھے انجمن مفاد عامہ کے پلیٹ فارم سے بھی انہوں نے اس شہر کے مظلوموں کی بھر پور خدمت کی چنیوٹ میں یہ پہلے مسلمان نیوز ایجنٹ تھے۔ جن کے پاس تمام اخبارات کی ایجنسیاں تھیں۔ اکثر صحافیوں کو قلم کی پاسداری کرنے کی تلقین کرتے رہتے اور بر ملا اس بات کا اظہار کرتے کہ قلم کی عصمت ،ماں کی عصمت سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ قلم فروشی کرنے والا ایسے ہے جیسے اس نے اپنی ماں کی عزت بیچ کر دولت کمائی ہو یہ ہی وجہ تھی کہ وقت کے بڑے بڑے فرعونوں کی ہر سازش کو ناکام بناتے رہے۔ تاہم یہ واحد شخصیت ہے کہ جسے ہر پہلو سے جائزہ لیا تو دل یہ کہنے پر مجبور ہو جاا ہے کہ چنیوٹ کی تاریخ میں اس مرد قلندر کا تذکرہ نہ کرنا تاریخ ادھوری رہ جاتی ہے اور اسے مسخ کرنے والے بھی دیانتدار نہیں بلکہ اپنے منصب سے بد دیانتی کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ یقینا کسی شاعر نے جو عکاسی کی ہے وہ سالار صاحب پر مکمل ہوتی ہے۔

اس نے ایسے شہر کو چھوڑا ہر رستہ ویران ہوا
میرا ہی کیا سارے شہر کا ایک جیسا نقصان ہوا

آغا عبدالواسع ثاقب سلیمانی : 

آغا عبدالواسع ثاقب سلیمانی یکم مارچ 1914ء کو چنیوٹ میں بابو عبد العزیز کے ہاں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد سہارن پور سے ہجرت کر کے چنیوٹ میں آباد ہوئے تھے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول چنیوٹ سے حاصل کی۔ انہوں نے زمانہ طالب علمی میں ہی شعر و شاعری کا آغاز کیا۔
اسلامیہ ہائی سکول سے میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لائلپور (فیصل آباد ) میں داخل ہو گئے۔ جہاں سے ایف اے تک تعلیم حاصل کی اس کے بعد ڈی مونٹ مورسی کالج شاہ پور چلے گئے۔ جہاں سے بی اے کی ڈگری حاصل کی ۔ 1937ء میں آپ کو محکمہ مال جھنگ میں ملازمت مل گئی ۔ آپ ایک اچھے شاعر ، مصور، ادیب اور فن خطاطی کے شہنشاہ تھے ۔ آپ ” لسان القوم” کے خطاب کے حامل تھے ۔ آپ کی پہلی نظم 1938ء میں جھنگ کے ماہنامہ ارمان میں شائع ہوئی ہے۔ ڈاکٹر عزیز علی کے ہفت روزہ یا بخدا میں بھی آپ کی نظمیں اور غزلیں چھپتی رہیں۔ آپ نے انگریزی زبان کی نظموں کا بھی اُردو ترجمہ کیا۔ 1941ء میں آپ نے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے محکمہ میں ملازمت اختیار کرلی
اور اس محکمہ میں 32 سال تک فرائض سرانجام دینے کے بعد 1973ء کو ریٹائر ہو گئے۔

مولا بخش خضر تمیمی :

مولا بخش خضر تمیمی 11 مارچ 1909ء کو چنیوٹ میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم چنیوٹ ہی میں حاصل کی اور اعلی تعلیم کے لئے لاہور چلے گئے ۔ اسلامیہ کالج لاہور سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ان کے دل میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ لہذا لاء کالج لاہور سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ 1922ء میں آپ نے مزاحیہ شاعری کا آغاز کیا۔ گورنمنٹ انٹر کالج دھر مسالہ کانگڑہ میں ملازمت اختیار کر لی ۔ جہاں آپ 1938ء تک اردو و تاریخ کے لیکچرار رہے ۔ بالاآخر ملازمت کو خیر آباد کہہ کر واپس چنیوٹ آگئے اور 1941 ء کو چنیوٹ میں وکالت شروع کر دی ۔ آپ ایک بہت اچھے اور حاضر جواب وکیل تھے ۔ آپ نے 1936ء میں چنیوٹ سے ماہنامہ چناب جاری کیا ۔ 1942ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے آپ کی تقریر بعنوان "دیہاتی رسوم و زبان پنجابی نشر ہوئی۔ جسے اس وقت کے وزیر اعظم پنجاب سر سکندر حیات سن کر بہت متاثر ہوئے۔ لہذا انہوں نے آپ کو تحریک پنچایت کا قانونی مشیر مقرر کیا۔ آپ نے مختلف دیہات کے دورے گئے ۔ جس وجہ سے آپ کو مشاہدات کا موقع ملا۔ اسی دوران انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور تحریک پاکستان کے موقع پر قائد اعظم کے شانہ بشانہ کام کیا۔
آپ پیروڈی کے بڑے ماہر تھے ۔ اور بڑے شاعر کی غزل والنظم کی پیروڈی کر لیتے تھے ۔ 1956ء میں آپ کا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ 1974ء میں اپنی زندگی کے 65 سال پورے کر کے خالق حقیقی سے جاملے۔ آپ کے جسد خاکی کو اسی شہر میں سپرد
خاک کیا گیا۔

مولانا جعفر قاسمی :

مولا نا جعفر قاسمی 6 دسمبر 1927ء کو چنیوٹ میں پیدا ہوئے ۔ آپ چنیوٹ کے قاضی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول چنیوٹ سے حاصل کی ۔ آپ تحریر و تقریر کے ماہر تھے ۔ آپ کی شیریں زبان و انداز بیان سے سامعین کھو جاتے تھے۔ آپ کی پہلی نظم 1945ء کو یاد خدا میں شائع ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آپ دسویں جماعت میں زیر تعلیم تھے۔
چنیوٹ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ لاء کی ڈگری حاصل کرنے کیلئے انگلستان چلے گئے۔ مگر مالی حالت کمزور ہونے کی وجہ سے ارادہ ترک کرنا پڑا اور بی بی سی کی اردو سروس میں بطور براڈ کاسٹر ملازمت، اختیار کر لی۔ کچھ عرصہ تک انگلستان میں قیام کے بعد واپس پہنچ گئے اور پاکستان ٹیلی ویژن لاہور کے مذہبی پروگرام میں بطور کمپیر شمولیت اختیار کی ۔ آپ کے مضامین و غزلیں مختلف اخبارات میں با قاعدہ چھپتے رہے ۔ آپ 1989ء کو چنیوٹ سے فیصل آباد منتقل ہو گئے اور زندگی کے آخری ایام وہیں گزارنے کے بعد 12 اکتوبر 1991ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔

ڈاکٹر عزیز علی :

ڈاکٹر عزیز علی کا نام مسلمان ہونے سے قبل پر تھی لال تھا۔ آپ 1901ء کو پنڈی بھٹیاں میں لالہ ہری چند دھون کے ہاں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم پنڈی بھٹیاں ہی سے حاصل کی اور وہیں ہیو میو پیتھک کی پریکٹس شروع کر دی۔ جلد ہی آپ کا دل اسلام کی روشنی سے منور ہونا شروع ہو گیا۔ جب آپ کے خاندان کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے طرح طرح کی اذیتیں دینا شروع کر دیں۔ لہذا آپ بت خانہ سے منہ پھیر کر صراط مستقیم پر گامزن ہوئے ۔ 5 مئی 1927ء کو اپنی پانچ سالہ بیٹی ” ستونتی“ کو ساتھ لے کر رجوعہ سادات میں سردار غلام عباس سید کے ڈیرہ پر پہنچ گئے ۔ جہاں اپنی پانچ سالہ بیٹی سمیت اسلام قبول کیا۔ سردار غلام عباس نے "پر تھی لال ” سے بدل کر آپ کا اسلامی نام عزیز علی رکھا اور بیٹی کا اسلامی نام کنیز فاطمہ رکھا۔ تین سال تک آپ رجوعہ ہی میں قیام پذیر رہے۔ 1930ء میں سرگودہا چلے گئے۔ جنوری 1937 ء میں سرگودہا سے ہی یاد خدا‘ جاری کیا۔ سات شمارے جاری کرنے کے بعد اگست 1937ء کو دوبارہ چنیوٹ تشریف لائے ۔ ستمبر 1938ء کو اس ماہنامہ کو ہفت روزہ “ کر دیا گیا ۔ 1940ء میں جب تحریک پاکستان کا آغاز ہوا تو آپ نے یاد خدا میں اداریے اور مضامین کے ذریعے عوام کو بیدار کیا۔ 1947ء کے بعد یہ اخبار بند ہو گیا ۔ تو دوبارہ 1950ء میں آپ نے ہفت روزہ نقاد جاری کیا ۔ آپ نے صحافت کے میدان میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ آپ زندگی کی 83 بہاریں دیکھنے کے بعد 19 ستمبر 1984ء میں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔

رائے شنکر داس چرخ چنیوٹی :

رائے شنکر داس چرخ چنیوٹی 1919ء کو چنیوٹ میں پیدا ہوا۔ چنیوٹ میں ہی میٹرک کی تعلیم حاصل کی اور کو چہ ساون سنگھ میں رہائش پذیر رہے۔ انہوں نے 1934ء میں شاعری کا آغاز کیا۔ 1937ء میں مولا بخش خضر تمیمی ایڈووکیٹ کے ہاں بطور کلرک ملازمت اختیار کی۔ دن کو ملازمت کرتے اور رات کو سیٹھ مولچند کی بیٹھک میں بیٹھ کر شعر و شاعری لکھتے۔
شعر و ادب کی ہر محفل میں شرکت کر کے لوگوں کو اپنے کلام سے محظوظ کرتے ۔ 1941ء میں اس پرائیویٹ ملازمت کو خیر باد کہہ کر روڈ انسپکٹر بھرتی ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد یہ ملازمت چھوڑ کر ہیڈ ماسٹر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ پھر 1943ء میں محضر تمیمی کے پاس لاہور میں ملازمت اختیار کی ۔ ڈیڑھ سال بعد 1944ء میں استعفیٰ دے کر ہر ماسٹرز وائس گراموفون کمپنی سے وابستہ ہو گئے ۔ 1952ء میں اس کمپنی سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی ۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے لکھنو اور پھر دہلی میں آل انڈیاریڈیو کی اردو سروس میں ملازمت اختیار کی جہاں مستقل طور پر رہائش پذیر ہو گئے۔ ان کو غزل اور نظم دونوں پر عبور حاصل تھا۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ” آہیں 1941ء میں چنیوٹ سے شائع ہوا۔ حسنِ سخن حسن نظر ،حسن ادب اور جلوہ انجم مجموعے 1956ء کو دہلی سے شائع ہوئے۔

نذیر احمد مجیدی :

نذیر احمد مجیدی 1905ء کو چنیوٹ میں حافظ خدا بخش صغیر کے ہاں پیدا ہوئے۔ اس وقت آپ کے والد چنیوٹ سے ایک رسالہ المنیر “ شائع کرتے تھے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم چنیوٹ سے حاصل کی اور ایس ای کالج بہاولپور سے بی اے کی ڈگری حاصل کی پھر بھی چلے گئے جہاں سیٹھ میبر بخش کے ہاں رہائش اختیار کی ۔۔ انہوں نے اوائل عمری میں ہی ہندوستان کے کافی شہر دیکھ لئے۔ انہوں نے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کر لیا ۔ کافی عرصہ تک مسلم پرائمری سکول گجر بستی فیصل آباد میں پڑھاتے رہے۔ اس کے بعد جاپان چلے گئے کافی عرصہ قیام کرانے کے بعد 1937 ء کو وطن واپس پہنچ کر لاہور میں رہائش پذیر ہو گئے۔ جہاں کیپٹن ملک ممتاز سے مل کر روز نامہ پاسبان“ جاری کیا۔ 1938ء میں یہ اخبار بند ہو گیا تو آپ واپس چنیوٹ پہنچ کر انجمن اسلامیہ میں ملازمت اختیار کر لی ۔ اور بعد میں ڈاکٹر عزیز علی کے کہنے پر ہفت روزہ یاد خدا‘ سے وابستہ ہو گئے ۔ آپ یاد خدا میں چنیوٹ کو در پیش مسائل کے موضوعات پر کالم تحریر کرتے تھے۔ جنہیں ہر قاری پسند کرتا تھا۔ آپ کی تحاریر ہمیشہ مقامی مسائل پہ ہوتی تھیں ۔ "یادخدا” کی اشاعت بند ہونے کے بعد آپ نے چنیوٹ شیخ برادری کے زیر سایہ چمڑے کے کاروبار میں ملازمت اختیار کر لی اور کافی عرصہ شہر سے دور رہے۔ بالآخر 1970ء میں ملازمت سے دست بردار ہو کر مستقل طور پر چنیوٹ میں ہی رہائش پذیر ہو گئے ۔ آپ ایک با کردار اور با اخلاق شخصیت کے مالک تھے اور نومبر 1993ء میں وفات پائی۔

اختیار حسین اختر چنیوٹی :

اختیار حسین اختر چنیوٹی 1922 ء کو راہوائی میں میاں برکت علی کے ہاں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد محکمہ مال میں پٹواری تھے ۔ زمیندارہ کالج گجرات سے بی اے کی ڈگری حاصل کی ۔ لاہور میں ایک غیر سرکاری کمپنی میں ملازمت اختیار کر لی اور ساتھ ہی روزنامہ مشرق اور روزنامہ امروز میں کالم لکھنے شروع کر دیئے ۔ آپ ایک اچھے کالم نگار کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ اسکے بعد آپ نے شاعری میں دلچسپی لینا شروع کر دی ۔ اداس پھول، جوگی اور کرنسی نوٹ کے عنوان پر نظمیں لکھیں۔ کچھ عرصہ تک صحافت کے ساتھ منسلک رہے۔  1935ء میں چنیوٹ تشریف لائے اور سائیں مشتاق حسین لگھڑ کے ہاں رہائش پذیر ہوئے۔ 1952ء میں ایک کتاب ” بیت الحزن” لکھنا شروع کی جس میں انہوں نے نوحوں کی شکل میں واقعہ کربلا کا پورا نقشہ کھینچ دیا۔ متذکرہ بالا کتاب کا مسودہ تیار ہو گیا تو آپ سخت بیمار پڑ گئے ۔ اور تنگدستی بھی بڑھ گئی جس وجہ سے اس کتاب کو نہ چھپوا سکے۔
1959ء میں آپ کا انتقال ہو گیا تو آپ کے جسد خاکی کو جڑانوالہ میں سپرو خاک کیا گیا۔ آپ کی وفات سے کافی عرصہ بعد متذکرہ بالا کتاب کو جنوری 2003ء میں صفدر علی ہاشمی نے چھوا کر تقسیم کیا۔ چنیوٹ کے علاوہ پورے ملک میں ان کے نوحوں کی گونج ہے۔

اختر کچھ اور مانگ لے سوداگری نہ کر
صلہ غم حسین میں جنتیں نہ کر قبول

حضرت مولانا محمد ذاکر :

حضرت مولانا محمد ڈاکٹر ایک علمی وروحانی خاندان میں 1903ء کو میاں عبدالغفور کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ اپنے دونوں بھائیوں حافظ محمد صالح اور مولانامحمد نافع سے بڑے تھے۔ آپ کا نام "محمد ذاکر حضرت خواجہ محمد الدین سجادہ نشین نانی سیال شریف نے رکھا۔ آپ نے حافظ غلام محمداور حافظ عبد الصمد سے با قاعدہ قرآن پاک پڑھنا شروع کیا اور عربی کی تعلیم ایم بی ڈی (ملک بھگوان داس) ہائی سکول چنیوٹ کے معلم مولانا محمد سلطان کھوکھر سے لینا شروع کی ۔ آپ نے چنیوٹ ہی میں کھوکھر انوالی مسجد کے ساتھ مولانامحمد سلطان کے مکان میں رہائش اختیار کی اور صرف دو سال تک چنیوٹ میں قیام کرنے کے بعد واپس چلے گئے اور والد محترم سے اجازت لیکر ریل گاڑی کے ذریعے ملتان پہنچ گئے۔ وہاں مخدوم
حسن بخت کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ جنہوں نے آپ کو مدرسہ نعمانیہ بیرون بو ہر دروازہ میں داخل کروا دیا۔ کچھ ہی عرصہ اس مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ مولانا محمد شاکر کے پاس مدرسہ صدر دینیات (جامعہ عباسیہ ) بہاولپور چلے گئے۔ کچھ عرصہ وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ 1920ء میں سیال شریف چلے آئے اور یہاں مدرسہ ضیاء شمس الاسلام میں داخل ہو گئے ۔ 1921ء میں تحریک خلافت شروع ہوئی تو آپ نے جمعیۃ الطلباء” قائم کی۔ جسے بعد میں مولانا محمد حسین اجمیری نے جمعیتہ الاحرار کا نام دے دیا۔ اس کے بعد آپ نے جمعیت رضا کار قائم کی اور خود اس کے سالار مقرر ہو گئے ۔ آپ نے تحریک خلافت میں حصہ لے کر اس کی قیادت شروع کی جس سے یہ تحریک زور پکڑ گئی ۔ مختلف مقامات پر جلسے اور تقریریں کروا ئیں۔ لہذا اس تحریک خلافت کے جرم میں آپ ” 19 مارچ 1922ء کو گرفتار ہوئے ۔ گرفتاری کے اگلے روز آپ کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا تو مجسٹریٹ نے آپ سے بیان طلب کئے ۔ جس پر آپ نے تحریری طور پر بیان پیش کرنے کا فرمایا۔ تو مجسٹریٹ نے اگلے روز 21 مارچ کی تاریخ مقرر کر کے واپس بھیج دیا ۔ مقررہ تاریخ پر آپ کے تحریری بیان عدالت میں پیش کئے گئے۔ جس پر مجسٹریٹ نے آپ کو زیر دفعہ 151 تعزیرات ہند، چار ماہ قید با مشقت اور زیر دفعہ 17 ڈیڑھ سال کیلئے سنٹرل جیل جہلم میں قید کر دیا۔ ایک سال بعد سنٹرل جیل لاہور منتقل ہو گئے اور دو ماہ کے بعد 2 مارچ 1923ء میں آپ کو روہتک جیل بھیج دیا گیا ۔ 5 سال تک قید و بند کی صعوبتیں جھیل کر 1927ء میں رہا ہوئے اور اسی سال تعلیم مکمل کرنے کیلئے  دار العلوم دیوبند میں داخل ہو گئے ۔ وہاں سے دورہ ء حدیث کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے آبائی قصبہ واپس آگئے ۔ 3 دسمبر 1931ء کو مجلس احرار اسلام کے رضا کاروں کا قافلہ کشمیر کی طرف جہاد کیلئے روانہ ہوا۔ جس میں مولانا محمد ذاکر بھی شامل تھے۔ یہ جہادی قافلہ ایک جلوس کی شکل میں 6 دسمبر 1931ء کو وزیر آباد پہنچا جہاں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ ساتھ ہی مولانا صاحب بھی گرفتار ہو کر ڈسٹرکٹ جیل گوجر انوالہ چلے گئے ۔ 12 جنوری 1932ء میں آپ کو کپ جیل فیروز پور متقل کر دیا گیا ۔ جہاں آپ پر بڑے مظالم ڈھائے گئے۔ خوراک کا ناقص انتظام، وضو کیلئے پانی بند کر دیا گیا ۔ فروری 1932ء کو رہا ہو گئے ۔ آپ نے تحریک ہائے تحفظ ختم نبوت میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ قادیانیت کے خلاف آواز بلند کی اور فتنہ قادیانیت کے خلاف تحریک چلائی جس وجہ سے گرفتاریاں ہونے لگیں۔ 15 مارچ 1953ء کو مولانامحمد ذاکر نے بھی گرفتاری دے دی تو آپ کو سنٹرل جیل لاہور میں بند کر دیا گیا اور اسی رات ان کے چھوٹے بھائی مولانا محمد نافع کو بھی چنیوٹ کی شاہی مسجد سے گرفتار کر کے مگھیا نہ جیل جھنگ میں بند کر دیا گیا۔
15 جون 1953ء کو مولانا محمد ذاکر رہا ہو گئے اور دو ماہ بعد 14 اگست 1953ء کو مولانا محمد نافع بھی رہا ہو گئے ۔ رہائی کے بعد آپ نے دوبارہ قادیانیوں کے خلاف تحریکیں جاری رکھیں اور قادیانیت کے خاتمہ تک دم نہ لینے کا ارادہ باندھ لیا۔ کافی عرصہ ملکی سیاست کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔ آپ دینی وملکی ترقی ، فلاحی ، رفاعی دعوامی امور کیلئے دن رات کام کرنے اور متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں جھلینے کی وجہ سے جسمانی طور پر کمزور ہو گئے۔ اعضاء میں اکڑن اور رعشہ لاحق ہو گیا۔ کافی علاج معالجہ کروانے کے باوجود بھی صحت یاب نہ ہو سکے۔ بالآخر 3 ذوالحجہ 1396ھ بمطابق 25 نومبر 1976ء کو خالق حقیقی سے جا ملے

پروفیسر خالد شبیر  :

پروفیسر خالد شبیر اپریل 1934ء کو نذیر احمد مجیدی کے ہاں چنیوٹ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تین جماعتیں مسلم پرائمری سکول گجر بستی فیصل آباد سے پاس کرنے کے بعد والد محترم کے ساتھ چنیوٹ منتقل ہو گئے۔ اسلامیہ ہائی سکول چنیوٹ سے پرائمری پاس کرنے کے بعد والد صاحب کے ساتھ دہلی چلے گئے۔ وہاں فتح پوری مسلم ہائی سکول چاندنی چوک میں داخلہ لے کر اپنا تعلیمی سفر جاری کر دیا۔ آپ ابھی ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھے کہ اپنے رشتہ داروں سے ملنے کیلئے چنیوٹ تشریف لائے۔ چنیوٹ پہنچ کر ٹائیفائیڈ بخار میں مبتلا ہو گئے جس وجہ سے دوبارہ دہلی نہ جاسکے۔ 1949ء میں مسلم ہائی سکول طارق آباد فیصل آباد میں آٹھویں جماعت میں داخل ہو گئے ۔ 1952ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج فیصل میں داخلہ لے لیا۔ انہوں نے 1952 ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں شمولیت اختیار کی جس وجہ سے کالج کو خیر آباد کہ دیا اور اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1953ء میں دوبارہ اسی کالج داخلہ لے لیا جہاں سے 1957ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ پھر گورنمنٹ کالج لاہور داخل ہو گئے جہاں سے 1959ء میں علم سیاسیات میں ایم اے کیا ۔ 1959ء میں ہی آپ چک نمبر 33 پیر محل کے ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارے میں لیکچرار بھرتی ہو گئے۔ ایک سال بعد اسلامیہ کالج خانیوال ٹرانسفر ہو گئے ۔ اکتوبر 1962ء میں آپ کو سرکاری ملازمت مل گئی اور گورنمنٹ کالج سول لائن ملتان پہلی تقرری ہوئی ۔ مارچ 1969ء میں ایس ای کالج بہاولپور ، پھر فروری 1973ء میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد ٹرانسفر ہوئے ۔ جہاں 12 سال تک ایم اے اسلامیات کے بھی لیکچرار رہے اور اسی کالج سے اپریل 1994ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔ ریٹائر منٹ کے بعد اپنے آبائی وطن چنیوٹ آگئے ۔ بنیادی طور ہر احراری تھے ۔ اسی لئے جماعت سے وابستہ ہوئے۔ آپ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے سب سے چھوٹے بیٹے پیرسید عطاء المہیمن شاہ بخاری مرکزی صدر کے ساتھ بطور مرکزی ناظم اعلیٰ مجلس احرار اسلام پاکستان کے عہدہ پر فائز ہیں ۔ آپ ماہنامہ الاحرار ملتان کے کالم نگار ہیں ۔ آپ کے کالم زیادہ تر ملکی سیاست اور دینی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ آپ لوگوں میں دینی شعور پیدا کرنے ، حکومت کی غیر اسلامی حکمت عملیوں پر تنقید کرنے اور معاشرے کی استحصالی قوتوں کے خلاف ایک تحریک پیدار کرنے کیلئے کالم لکھتے ہیں۔
آپ نے 1990ء میں باقاعدہ شعر کہنا شروع کر دیئے۔ 1995ء میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ ” خواب خواب روشنی“ شائع ہوا۔ اس کے علاوہ تاریخ محاسبہ قادیانیت“ شاہ جی ، اسلام اور اقتدار اعلیٰ اور اب تازہ کتاب اقبال اور قادیانیت“ آپ سوسالہ تاریخ قادیانیت مرتب کر رہے ہیں ۔ پہلی کتاب اور آخری کتاب اسی تاریخ کا حصہ ہے۔ ان کے علاوہ خلاصے، درسی کتب ، جدید کتاب شہریت اور ہمارا پاکستان بھی آپ ہی کی تصانیف ہیں۔ آپ سچے عاشق رسول کے ہیں اور 1953 ء سے قادیانیت کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ آپ ملنسار اور ہر دلعزیز شخصیت ہیں۔ چنیوٹ اور چنیوٹ کے عوام سے خصوصی محبت رکھتے ہیں۔

 

یہ مضمون داکٹر ارشاداحمد تھیم کی کتاب ” تاریخ چینیوٹ "سے لیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com