بزرگ ہستیاں
حضرت شیخ اسماعیل بخاری :
حضرت شیخ اسماعیل بخاری سید احمد کبیر خانی کے نواسے تھے اور سید شیر شاہ جلال سرخ بخاری اُچ شریف کے خاندان سے تھے۔ آپ 562 ہجری میں پیدا ہوئے۔ حضرت دار دھائی عرف دو دا مرد حقانی آف دان گلی کشمیر ، آپ کے مرشد تھے۔ ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپ 618ھ میں اُچ سے قتال پور پھر وہاں سے کبیر والا آئے اور وہاں سے پیر محل پہنچے جہاں کافی عرصہ قیام کیا۔ کمالیہ کے کھرل اور جوئیہ قبائل کو اسلام قبول کروایا۔ پھر وہاں سے کشمیر اپنے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مرشد کے حکم پر کٹھ پہنچے جہاں مہاراجہ کٹھہ کی بیٹی کو مسلمان کر کے اس سے شادی کی ۔ پھر وہاں سے ھٹی بالا راجہ پہنچے کچھ عرصہ وہاں قیام کرنے کے بعد منفی شرقی چنیوٹ پہنچ گئے ۔ آپ کی تبلیغ سے کئی غیر مسلم قبیلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔ 650ھ میں آپ کا وصال ہوا تو آپ کو محلہ مصفی شرقی چنیوٹ شہر میں دفن کیا گیا۔ چنیوٹ کے شیخ سلمانے آپ ہی کی اولاد ہیں ۔ میاں چوہڑ شاہ ،سید غلام عباس رئیس آف ٹھٹھی بالا راجہ اور سید الطاف حسین شاہ سابق ایم ایل اے مرحومین آپ کی اولاد میں سے تھے۔
حضرت شاہ برہان بخاری :
حضرت شاہ برہان بخاری ، سید محبت اللہ کے ہاں ۹۸۱ھ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد بہاولپور سے ہجرت کر کے لاہور تشریف لائے تھے ۔ آپ بچپن ہی سے دینی ود نیوی تعلیم سے بہرور ہو چکے تھے ۔ آپ ہر مجلس میں حضرت میاں میر کے برابر بیٹھتے کیونکہ ان کے ہم عصر تھے۔ ابھی آپ کی عمر ۲۵ سال تھی کہ آپ اپنے مرشد حضرت ملا خواجہ بہاری کے حکم پر اھ میں چنیوٹ تشریف لائے اور مستقل رہائش پذیر ہو گئے ۔ آپ نے اس علاقے میں اسلام کی تبلیغ شروع کر دی۔ جس سے کئی غیر مسلم قبیلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ آپ کا ۱۲ رمضان المبارک امراء میں انتقال ہوا اور محلہ شاہ برہان چنیوٹ میں آپ کا مزار ہے ۔ جو آپ کے ایک مرید اور عقیدت مند نواب سعد اللہ خان ( وزیراعظم شاہجہاں) نے ۱۰۶۳ھ میں تعمیر کروایا۔
حضرت پیر سید حسین شاہ :
پیر سید حسین شاہ چنیوٹ شہر کی ایک ایسی ہستی گزرے ہیں جن کے نام سے آج بھی شہر کا بچہ بچہ واقف ہے۔ آپ نے 1925ء میں بخاری سادات کے مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت علی سے ہوتا ہوا حضرت ہاشم سے جاملتا ہے۔ آپ نے روحانیت کا سلسلہ اپنے والد محترم سید محمد شاہ سے حاصل کیا ۔ آپ شہر چنیوٹ میں روحانی علوم کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ آپ کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ مستجاب ہوتا ۔ پیر صاحب کے مریدین کا حلقہ دور دراز تک پھیلا ہوا ہے۔ دور ونزدیک سے لوگ آپ نے فیض حاصل کرتے تھے۔ پیر صاحب اپنے روز مرہ کے کام اپنے ہاتھ سے سرانجام دیتے تھے۔ آپ اکثر و بیشتر صوفیائے کرام خصوصا شاہ شمس تبریز سبزواری ، شیخ سعدی، بابا بلہے شاہ اور سلطان العارفین کا ذکر فرماتے۔ پیر صاحب کی دعا ئیں اتنی مستجاب ہوتی تھیں کہ اکثر اوقات لاعلاج مریض بھی شفا یاب ہو جاتے تھے ۔ پیر صاحب نے اپنے شب و روز خوشنودی خدواندی میں صرف کئے۔ غریبوں کی مدد اور بے آسرا کی حمایت تمام عمر آپ کا شیوہ رہا۔ آپ غریبوں کی اپنی جیب سے مدد فرمایا کرتے تھے۔ آپ کی زبان سے ہر وقت درود شریف کا ورد جاری رہتا ۔ آپ نے جون 1987ء میں انتقال فرمایا۔ آپ کے جسد خاکی کو عید گاہ کے عقب میں سپرد خاک کیا گیا جہاں اب بھی آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔ اب آپ کے صاحبزادے پیر سید جواد حسین شاہ آپ کے گدی نشین ہیں اور ان کے سلسلہ روحانیت کو پھیلانے اور دین حق کی ترویج میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
حضرت میاں ماند مشتهر ومہ :
حضرت میاں حماند متھرومہ ۱۸۱۳ء کو چنیوٹ سے جنوب مغرب کی طرف جھنگ روڈ پر واقع موضع مصر ومہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کاشت کاری کرتے تھے۔ ایک روز برادری کے کسی فرد نے طنزیہ کہا تم بے مرشد ہو تمہیں کامیابی نہیں ہو سکتی تو آپ اسی وقت مرشد کی تلاش میں نکل پڑے اور چلتے چلتے جھنگ حافظ محد علی کے پاس پہنچے ۔ انہیں سے بیعت کی اور 14 سال تک انہی کے پاس رہے۔ 14 سال کے بعد حافظ صاحب کی اجازت پر دوبارہ چنیوٹ اپنے آبائی گاوں موضع مصر ومہ میں تشریف لائے اور اسلام کی تبلیغ شروع کر دی ۔ آپکی تبلیغ اسلام سے کئی غیر مسلم قبیلوں نے اسلام قبول کیا۔ آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک کنوئیں میں اترتے تو دوسرے سے جانکلتے تھے ۔ آپ نے میاں دوست محمد نیکوکارہ اور کنی عبدالوہاب کو خلافت عطا کی۔ آپ نے ۱۸۹۸ء میں ۸۵ سال کی عمر میں انتقال فرمایا اور آپ کو اپنے آبائی گاوں موضع منتصر ومہ میں دفن کیا گیا جہاں ہر سال عرس منایا جاتا ہے۔ آپ کا میلہ آپ کے خلیفہ بنی عبدالوہاب کے دربار پر چنیوٹ میں ہر سال ۲۷ ہاڑ کولگایا جاتا ہے جو لگا تار تین دن رہتا ہے۔
حضرت شاہ دولت بخاری :
حضرت شاہ دولت بخاری اچ بہاولپور میں پیدا ہوئے ۔ بچپن ہی سے روحانی علوم سے بہرہ ور ہو گئے ۔ آپ سید شاہ جلال سرخ بخاری کی اولاد میں سے تھے۔ آپ اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے ۶۴۰ ھ میں چنیوٹ وارد ہوئے اور قصبہ رجوعہ میں رہائش اختیار کر کے اسلام کی تبلیغ شروع کر دی ۔ آپ کی تبلیغ سے کئی غیر مسلم قبیلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ آپ نہایت عالی ہمت بزرگ تھے۔ ۲۵ ذی انج ۷۳۵ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔ اس علاقہ کے ہرل گلوتر اور ولہ رائے قبائل آپ کے مریدین خاص میں شامل تھے۔ آپ کی اولاد میں شہابل شاہ عبداللہ شاہ، جمال شاہ، اور خیر شاہ قابل ذکر بزرگ گزرے ہیں۔ سادات رجوعہ آپ ہی کی اولاد میں سے ہیں ۔
حضرت مخدوم فتح اللہ سہر وردی :
حضرت فتح اللہ سہروردی کی سن پیدائش کے بارے علم نہ ہوسکا ہے۔ یہ راجپوتوں کی ایک شاخ کھوکھر سے تعلق رکھتے تھے ۔ آپ کے والد کا نام عبداللہ تھا جو سرفراز خاں حکمران پوٹھوہار کا بیٹا تھا۔ حضرت مخدوم فتح اللہ سہر وردی کے دل میں بچپن ہی سے دین کا ایسا شوق پیدا ہوا ۔ جس نے اسے عالم دین بنادیا اور آپ سلسلہ سہروردیہ سے بیعت ہو گئے۔ مخدوم محمد طیب لنگر مخدوم آپ کے مرشد تھے ۔ اپنے مرشد کے حکم پر موضع لنگر مخدوم چینوٹ میں آگئے اور وہاں تبلیغ اسلام کے علاوہ کھیتی باڑی بھی شروع کر دی اور ساتھ ساتھ اسلام کی تبلیغ بھی جاری وساری رکھی ۔ آپ کی تبلیغ سے کئی غیر مسلم قبلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ آپ نے ۱۰۳۵ء میں وفات پائی اور آپ کو یہیں لنگر مخدوم چنیوٹ میں ہی دفن کیا گیا۔
حضرت شیخ حسین شاہ نیکوکارۃ (المعروف ڈھگی والا پیر) :
حضرت شیخ حسین شاہ نیکو کارو جہانیاں میں شیخ آخن کے ہاں ۱۱۳۱ھ کو پیدا ہوئے جو کہ حضرت عبداللہ جہانیاں کے خاندان میں سے تھے ۔ آپ بچپن ہی سے ولی اللہ تھے۔ باطنی علم آپ کو وراثت میں ملا ہوا تھا۔ جب آپ نے جوانی کی سیڑھی پر قدم رکھا تو مرشد کی تلاش میں جہانیاں سے چنیوٹ کا رخ کیا۔ مرشد کی تلاش کرتے کرتے شیر فتح اللہ بانا کے پاس پہنچے اور انہی کے ساتھ رہنا شروع کر دیا۔ جب شیر فتح اللہ باٹا نے آپ میں بہت ساری کرامات دیکھیں تو بہت خوش ہوئے مرشد نے حکم دیا کہ جاؤ چنیوٹ والی پہاڑی پر اپنی رہائش رکھ ۔ لہذا آپ پہاڑی یہ رہائش پذیر ہو گئے۔ اسی جگہ ۱۹۲ ھ میں انتقال فرمایا اور وہیں دفن ہوئے ۔ آپ کے بھائی حضرت حسن شاہ المعروف حسن قتال کا مزار دریائے کے اس پار واقع ہے۔ چنیوٹ ہمیوانہ اور چک نمبر 126 ج ب نیکوکارہ کے نیکو کارے انہی دو بھائیوں کی اولاد ہیں۔
حافظ برخوردار :
حافظ برخوردار ماہ شعبان 1041ھ میں گوجرانوالہ کے علاقہ سد حیرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام چوہدری خان محمد تھا اور آپ کے داد عبدال احمد ایک با اثر زمیندار تھے۔ آپ ابھی دو سال کے تھے کہ آپ کے والد محترم چوہدری خان محمد نے آپ کو اپنی سالی کے پاس بھیج دیا۔ جو کہ قلعہ کنگراں علاقہ بھوانہ میں رہائش پذیر تھی ۔ تا کہ میرا بیٹا علم کے زیور سے آراستہ ہو جائے گا۔ جب آپ کی عمر چار سال ہوئی تو آپ کی خالہ نے آپ کو اپنے گاؤں کے ایک معلم محمد موسیٰ باغبان کے پاس پڑھنے کیلئے بھیج دیا جو کہ باطنی علم سے بہرہ ور نہ تھے بلکہ بچوں کو قرآن مجید حفظ و ناظرہ اور دنیاوی تعلیم پڑھاتے تھے ۔ آپ نے پانچ سال کی عمر میں یعنی ایک سال میں قرآن مجید حفظ کر لیا ۔ جب آپ کی عمر 12 سال کی ہوئی تو خالہ نے آپ کی شادی کر کے علیحدہ ایک غیر آباد کنواں اور تھوڑی سی زمین دے دی ۔ تا کہ محنت کر کے اپنے خاندان کو سنبھال لیں گے۔ وہ غیر آباد کنواں آپ نے آباد کر کے کھیتی باڑی شروع کر دی۔ آپ کو روحانی علم ایک غیبی امداد سے حاصل ہوا تھا۔ حافظ برخوردار کی تبلیغ سے علاقہ کی کئی قومیں رجو کہ ، جیہ ، کھو کہ ، اور چدھڑ وغیرہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔ 1120ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔ میاں حسام الدین آپ کے بیٹے تھے جو ایک عالم و فاضل بزرگ تھے۔ انہی سے آسے نسل چلی منجر اقوم انہی کی اولاد ہیں۔
حضرت شاہ بہلول :
حضرت شاہ بہلول 921ء میں شمالی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام "تینی” تھا آپ کا تعلق راجپوت قوم کی ایک شاخ سپراء سے تھا۔ آپ اپنے والدین کے ہمراہ شمالی ہندوستان سے لالیاں کے قریب ایک گاؤں میں رہائش پذیر ہوئے۔ جسے اب کو ٹھہ شاہ بہلول کہتے ہیں ۔ آپ کے والد محترم نے کھیتی باڑی شروع کر دی اور آپ کو قریب ہی ایک مدرسہ میں داخل کروا دیا۔ استاد صاحب آپ کو سبق دیتے اور جب سنتے تو آپ ایک سبق اور آگے سنا دیتے ۔ کیونکہ آپ مادر زاد ولی تھے ۔ استاد صاحب نے آپ کے والد سے کہا کہ اسے کسی درویش کی خدمت میں پیش کرو ۔ لہذا آپ کو والدین نے مدرسہ سے نکال لیا۔ چند سال فارغ رہے۔ جب آپ کی عمر 20 سال ہوئی تو اپنے ہی خاندان میں شادی کر والی ۔ تو آپ کے ہاں محمد علی اور ولی محمد دولڑ کے پیدا ہوئے ۔ جب آپ کی عمر میں برس ہوئی تو والدین سے اجازت طلب کر کے مدینہ منورہ چلے گئے ۔ براہ راست حضور اکر میں نے سے روحانی علوم سے بہرہ ور ہوئے۔ وہاں سے آپ بغداد حضرت غوث پاک کے روزہ اقدس پر تشریف لے گئے اور ایک سال تک وہیں رہے ۔ ایک سال بعد آپ کو خوشخبری ملی کہ راولپنڈی میں ایک بزرگ آپ کے منتظر ہیں ان کے پاس چلے جاؤ۔ لہذا آپ اس بزرگ کے پاس گئے جو ایک غار میں رہتے تھے ۔ تو انہوں نے وہاں سے حضرت محمد مقیم کے خلیفہ شاہ لطیف برٹی کی خدمت میں بھیج دیا۔ لہذا وہاں سے انہوں نے حضرت لطیف برگی کے حکم پر 955ھ میں لاہور میں حسین ڈھڈی نامی لڑکے کی دست گیری کی جو ابھی زیر تعلیم تھا۔ اسے اپنی کرامت سے قرآن حفظ کرایا اور دستار بندی کر کے واپس چنیوٹ چلے آئے ۔ یہ حسین نامی وہی بچہ تھا جو بعد میں مادھو لال حسین ڈھڈی بنا۔ آپ گوجرانوالہ سے ہوتے ہوئے چنیوٹ پہنچے۔ پنڈی بھٹیاں اور چنیوٹ کے درمیان اس جگہ قیام کیا جسے اب یہ شاہ بہلول کہتے ہیں۔ حضرت شاہ بہلول کے بیٹے محمد علی کی شادی حضرت حسن بخت کی صاحبزادی زینت بیگم سے ہوئی حسن بخت چونکہ حضرت نصیر الدین جمداغ دہلوی (جن کا مزار علاقہ حیدر آباد دکن گلبرگہ میں ہے ) کے خلیفہ تھے ۔ اس لئے وہ اپنے داماد حمد علی کو اپنے ہمراہ گلبرگہ لے گئے ۔ حضرت شاہ بہلول نے 1039ھ میں وفات پائی اور آپ کا مزارطبہ شاہ بہلول میں مرجع خلائق ہے۔
حافظ محمد صدیق لائی :
حافظ محمد صدیق لائی 1152ھ میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی اور کسی بزرگ کے حکم پر حضرت سید عبد القادر جیلانی الثانی کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ جن کا قیام قصبہ پیر کوٹ سدھانہ (جھنگ) میں تھا ۔۔۔ وہاں سے دینی ، دنیاوی ، روحانی علوم سے بہرہ ور ہوئے اور اپنے مرشد کی وفات کے بعد دوبارہ چنیوٹ تشریف لائے ۔ چنیوٹ سے کچھ عرصہ کے بعد قصبہ لالیاں میں ڈیرہ لگالیا اور اسلام کی تبلیغ شروع کر دی ۔ آپ کو شاعری کا بہت شوق تھا۔ آپ نے کئی کتابیں لکھیں ۔ جن میں نور الحقیقت، بحر العشق ، رسالہ چہل حدیث ، رسالة القرآن ، رسالته الجلیل ،ٹولے عبرت نامہ، فرحت نامه، حلیہ شریف، ذوق و شوق ، سہ حرفیاں ، رباعیاں قابل ذکر ہیں ۔ حافظ محمد صدیق لالی ” نے 1218ھ میں وفات پائی اور اپنے آبائی گاؤں میں دفن کیا گیا۔
حضرت میاں رحمت سائیں :
حضرت میاں رحمت سائیں 1787ء کو میاں خیر دین چوہان کے ہاں ضلع گورداس پور میں پیدا ہوئے ۔ ابھی آپ کی عمر دو سال کی تھی کہ 1789ء میں آپ کے والد محترم تلاش روزگار کے سلسلہ میں اپنی بیوی رشید بیگم اور اپنے تینوں بیٹوں نظام الدین عرف نتھا، نیامت علی اور رحمت علی کو ساتھ لے کر شکر گڑھ ضلع نارووال پہنچے ۔ چند دن وہاں قیام کرنے کے بعد قصبہ چونہ وضلع سیالکوٹ میں تقریبا ڈیڑھ سال تک محنت مزدوری کرنے کے بعد گوجرانوالہ چلے گئے۔ جہاں آپ کے والد محترم نے غلام فرید برتن بنانے والے کے ہاں ملازمت اختیار کر لی ۔ تین سال تک اس کی ملازمت میں رہے ۔ اسی دوران ہی انہوں نے برتن بنانے کا طریقہ سیکھ لیا تو ملازمت کو خیر باد کہہ کر خود برتن بنا کر بیچنے شروع کر دیئے۔ چار سال بعد 1798ء میں آپ کے والد محترم میاں خیر دین وفات پاگئے ۔ ٹھیک ایک سال بعد 1799ء میں آپ کی والدہ محترمہ رشید بیگم بھی خالق حقیقی سے جاملی ۔ آپ کے دونوں بڑے بھائیوں نے پہلے محنت مزدوری پھر آہستہ آہستہ ٹھیکہ پر دیوار میں و مکانات بنانے کا کام شروع کر دیا۔ 1805ء میں گوجرانوالہ سے ترک سکونت کر کے پنڈی بھٹیاں پہنچے ۔ میاں رحمت چونکہ دونوں بھائیوں سے چھوٹے اور لاڈلے تھے ۔ ہاتھ سے کام کرنا گوارہ نہ کرتے ۔ ابھی آپ کی عمر 19 سال تھی کہ آپ نے یہاں کے جرائم پیشہ افراد کے ساتھ مل کر چوری، ڈاکہ زنی شروع کر دی ۔ آپ کے دونوں بڑے بھائیوں نے آپ کو بہت سمجھایا۔ مگر آپ اس کام سے باز نہ آئے ۔ تو وہ دونوں آپ کو یہیں چھوڑ کر خود 1810ء میں ریاست کا لووال کے موضع اچھر وال چلے گئے۔ یہاں بھی انہوں نے ٹھیکہ پر دیوار میں اور مکانات بنانے شروع کر دیئے ۔ آپ چھ سال تک پنڈی بھٹیاں کے علاقہ میں جرائم پیشہ افراد کے ساتھ رہنے کے بعد 1816ء میں اپنے بھائیوں کے پاس اچھر وال چلے آئے۔ اچھروال میں آپ کو ایک زمیندار کی بیٹی پسند آ گئی۔ آپ اس کا رشتہ طلب کرتے رہے وہ رشتہ دینے سے انکار کرتے رہے۔ اس وقت ریاست کالو وال پر سردار کالے خان کھوکھر کی حکومت تھی ۔ جب آپ نے اس لڑکی کے والدین کو زیادہ تنگ کیا تو انہوں نے سردار کالے خان کھوکھر کے پاس شکایت کی۔ جس پر سردار نے آپ کو بلایا اور پوچھا کیا تم اس لڑکی کا رشتہ لینا چاہتے ہو؟ ۔ آپ نے فوراً کہا ہاں لینا چاہتا ہوں۔ تو سردار نے کہا کہ مہا راجہ رنجیت سنگھ جو بھی قلعہ چنیوٹ فتح کر کے جھنگ پہنچا ہے۔ اس کے پاس اونٹنیاں اچھی نسل کی ہیں ان میں سے ایک اونٹنی مجھے لا کر دو تب آپ کو اس لڑکی کا رشتہ دے دیا جائے گا۔ سردار کا خیال تھا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ بہت ظالم ہے۔ جب یہ اس کی اونٹنی چوری کرے گا تو وہ اسے دو میں قتل کروادے گا۔ تب اس زمیندار کی جان چھوٹ جائے گی۔ لہذا آپ اچھر وال سے جھنگ پہنچے ۔ آپ کے پہنچنے سے قبل مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنی کمک کے ساتھ قلعہ شورکوٹ کی طرف روانہ ہو چکا تھا۔ آپ نے بھی پیچھا شروع کر دیا اور موقع کی تلاش میں رہے۔ دوپہر کا وقت تھا احمد پور سیال کے نزدیک رنجیت سنگھ نے تھکی ہوئی فوج کو کچھ دیر ٹھہرنے کا حکم دیا تو فوج آرام کیلئے رک گئی۔ گھوڑے، اونٹنیاں، اونٹ باندھ دیئے۔ اسی جگہ آپ کو موقع مل گیا۔ آپ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی اونٹنی کھول کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ جو نہی رنجیت سنگھ کو علم ہوا تو اس نے فوج کو چور کا تعاقب کرنے کا حکم دیا۔ جب آپ دربار حضرت کئی سلطان باہو کے قریب پہنچے تو اتنے میں رنجیت سنگھ کی فوج بھی چڑھ گئی ۔ تو آپ نے جلدی سے اونٹنی باندھ دی اور خود بھاگ کر دربار میں داخل ہو گئے ۔ حضرت بھی سلطان با ہو کے مزار پر پڑی ہوئی چادر کو اٹھا کر نیچے چھپ گئے ۔ رنجیت سنگھ کی فوج نے کافی تلاش کیا مگر نہ ملے۔ جب باہر نکلے اور دیکھا تو اونٹنی جنس بدل کر اونٹ بن چکی تھی ۔ فوج نا کام واپس لوٹ گئی ۔ حضرت سخی سلطان باہو نے آپ کو سینے سے لگایا۔ سلطان العارفین کے سینے سے لگتے ہی آپ کے دل سے جرائم کا زنگار اتر گیا اور روحانی علوم سے بہرہ ور ہو گئے ۔ تب حضرت سخی سلطان باہو نے آپ کو حضرت محمدیہ، حضرت علی، حضرت فاطمہ الزہرا، حضرت امام حسین ، حضرت پیر عبدالقادر جیلانی سے ملاقات کروائی۔ پھر میدان کربلا کی زیارت کروائی اور واقعہ کربلا دکھایا۔ اس کے بعد آپ نے فقیرانہ لباس زیب تن کر لیا اور سلطان العارفین کے فقیروں میں شامل ہو گئے ۔ دس سال تک مرشد کی خدمت میں رہے۔ ایک روز مرشد کے حکم کے مطابق دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ بطرف سرگودہا چل پڑے۔ بمقام ٹھٹھہ نون میں درخت شیشم کے سائے میں بیٹھ کر واقعہ کر بلا لکھنا شروع کر دیا۔ ادھر انگریز کینال سسٹم آفیسر مسٹر ایچ ایس ہیوس نے نہر کھودنے کیلئے جب سروئیر مشین لگا کر دیکھا تو سامنے میاں رحمت سائیں بیٹھے واقعہ کر بلا لکھ رہے تھے ۔ اس نے اپنے ایک اہلکار کو بھیجا کہ اس بزرگ سے کہو کہ علیحدہ ہو جائیں ہم نہر کھودنے کیلئے سروے کر رہے ہیں۔ المکار نے آکر کہا تو آپ نہ اٹھے۔ دوبارہ مسٹر ایچ ایس ہیوس خود آیا۔ اس نے بڑی سختی سے کہا کہ علیحدہ ہو جائیں ہم نہر کیلئے سروے کر رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ابھی میرے سامنے جنگ کربلا ہو رہی ہے۔ جسے دیکھ کر میں لکھ رہا ہوں تو مسٹر ایچ ایس ہیوس نے کہا کہ کہاں ہو رہی ہے؟ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اور بڑی انگلی سے وکٹری کا نشان بنا کر کہا کہ اس میں سے دیکھو ۔ جب مسٹر ایچ ایس ہیوس نے دیکھا تو جنگ ہورہی تھی ۔ اس نے معافی چاہی اور وہاں سے نہر کوتم دے کر گزار لیا۔ اور وہیں آپ کے نام ہیں ایکڑ رقبہ بھی الاٹ کر دیا۔ بارہ برس کا عرصہ باہر سفر میں گزارنے کے بعد دوبارہ حضرت سخی سلطان باہو گی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ مرشد نے آپ کو پورا واقعہ کربلا دکھایا ۔ جنگ کر بلا دیکھتے ہی آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے جو ساری زندگی جاری رہے۔ آنکھوں کے نیچے آنسوؤں کی وجہ سے زخم اور جھریاں پڑ گئیں ۔ آپ کو خواب میں حضرت سخی سلطان باہو نے حکم دیا کہ اپنے وطن کی راہ لو اور وہیں جا کر قیام کرو ۔ لہذا آپ بمطابق حکم اچھر وال پہنچے اور قیام فرمایا۔ آپ نے مرشد کے حکم پر نو سے سال کی عمر میں شادی کی تو آپ کے ہاں چھ بیٹے معصوم علی ، میاں شیر محمد میاں سلطان بخش ، میاں علی محمد میاں ولی محمد اور میاں نور حسین اور ایک بیٹی شیر بی بی پیدا ہوئی ۔ بڑا بیٹا معصوم علی عالم طفلی میں ہی اللہ کو پیارا ہو گیا اور آپ نے بیٹی دربار حضرت کی سلطان باہو کے سجادہ نشین حضرت نور احمد کے عقد میں دے دی۔ آپ ساری زندگی حضرت امام حسین کے غم میں روتے رہے۔ جب آپ کا بیٹا ولی محمد اللہ کو پیارا ہوا تو چند دن کیلئے آپ کے آنسورک گئے ۔ لوگوں نے کہا کہ اب کیوں نہیں روتے تو آپ نے فرمایا کہ فاطمتہ الزہرا کے بیٹے کے غم میں رونے والی آنکھیں اگر اپنے بیٹے کو روئیں تو جھوٹی ہو جاتی ہیں۔
آپ یکم ذوالحجہ 1329ھ بمطابق 1908ء کو 121 سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ آپ کے جسد خاکی کو موضع اچھر وال میں ہی دفن کیا گیا اور آپ کے بڑے بیٹے دربار عالیہ کے پہلے سجادہ نشین میاں شیر محمد نے آپ کا مزار تعمیر کروایا جواب ”کھوئی میاں رحمت کے نام سے مشہور ہے ۔ میاں شیر محمد کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے غلام حسین سجادہ نشین ہوئے اور اب تیسرے سجادہ نشین میاں غلام حسین کے صاحبزادے میاں غلام عباس ہیں۔
حضرت میاں امام الدین المعروف میاں محمدی :
حضرت میاں امام الدین 970ھ کو لالیاں کے قریب موضع ولہ میں پیدا . ہوئے۔ آپ کھو کھر خاندان کے چشم چراغ تھے۔ آپ کے والد محترم حافظ اللہ داد شاہ پور کی لیستی تنگی والا سے ترک سکونت کر کے موضع ولہ میں رہائش پذیر ہوئے اور مسجد کی امامت شروع کر دی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی۔ مزید دینی تعلیم . اصل کرنے کے لئے حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے پاس چلے گئے اور وہاں سے دینی ، روحانی علوم سے بہرہ ور ہوئے ۔ روحانی علوم حاصل کرنے کے بعد اپنے مرشد کے حکم کے مطابق واپس اپنے آبائی وطن کی راہ لی۔ مرشد نے آپ کو الوداع کرتے وقت ایک عصا عنایت کیا اور ساتھ فرمایا کہ جہاں نماز کا وقت ہو جائے اس عصا کو زمین میں گاڑ کر نماز ادا کر لینا اور پھر عصا اکھاڑ کر چلتے رہنا جس جگہ سے عصانہ اکھڑے وہیں ٹھکانہ ہو گا وہیں قیام کرنا۔ چنانچہ آپ نے مرشد کے حکم پر دریائے چناب کے کنارے کے ساتھ ساتھ سفر کرنا شروع کر دیا ۔ جہاں نماز کا وقت ہوتا عصا زمین میں گاڑ دیتے نماز پڑھ کر اکھاڑ لیتے اور چلتے رہتے ۔ حتی کہ جہاں اب آبادی کڑک محمد شریف ہے اس جگہ پہنچے ۔ صبح کی نماز کا وقت تھا۔ آپ نے عصا زمین میں گاڑ کر نماز فجر ادا کی۔ نماز سے فراغت کے بعد عصا اکھاڑنے کی کوشش کی مگر نہ اکھٹر سکا تو آپ نے آس پاس کے لوگوں سے معلوم کیا کہ یہ زمین کس زمیندار کی ملکیت ہے۔ جس پر آپ کو پتا چلا کہ یہ محمد سلطان کنگر کی ملکیت ہے۔ لہذا آپ نے اس سے اجازت لے کر وہیں جھونپڑی ڈال لی اور ساتھ ہی ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کروائی اور ایک کنواں بھی آباد کیا ۔ آپ نے اس علاقہ میں اسلام کی تبلیغ شروع کر دی۔ جس سے کئی غیر مسلم قبیلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔ 1027ھ میں آپ اللہ کو پیارے ہو گئے تو آپ کو اسی جگہ دفن کر دیا گیا۔ حضرت مولانا محمد ذاکر اور موجودہ ناظم جامع محمدی شریف مولانا محمد رحمت اللہ آپ کی اولاد میں سے ہیں۔
محمد فاضل لانگا :
محمد فاضل لانگا 1025ھ کو پیدا ہوئے ۔ آپ کا تعلق کھوکھر خاندان سے تھا۔ آپ کے والد کا نام محمد افضل تھا۔ جو کھیتی باڑی کرتا تھا۔ جب آپ کی عمر 20 سال ہوئی تو آپ اپنے والد کے حکم پر حضرت محمد اسماعیل عرف میاں وڈا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت میاں وڈا کا ڈیرہ دریائے چناب کے کنارے تھا۔ آپ ایک ٹانگ سے لنگڑاتے تھے اس وجہ سے لوگ آپ کو لانگا کہتے ہیں ۔ حضرت میاں وڈا سے ہی آپ ظاہری و باطنی علوم سے بہر دور ہوئے۔ محمد فاضل لانگا نے 1103 ھ میں وفات پائی۔
ڈھول سکندر :
ڈھول سکندر کا اصل نام شاہ سکندر تھا۔ وہ شہنشاہ شاہجہاں کی دوسری بیوی کے بطن سے چودہ اکتوبر 1612ء کو اجمیر میں پیدا ہوا۔ شاہ سکندر کو نہ صرف تاریخ بلکہ مغل خاندان نے خود بھی بھلا دیا۔ ابھی آپ کی عمر تین چار سال تھی کہ لاہور منتقل ہوئے۔ آٹھ برس کے ہوئے تو آپ کے دل میں بزرگوں کی محفلوں میں بیٹھنے کا شوق پیدا ہوا تو آپ لاہور کے مشہور اور عالی ہمت بزرگ حضرت میاں میر کی خدمت میں پیش ہوئے ۔ انہی سے دینی تعلیم حاصل کرنے کا آغاز کیا ۔ ہر مجلس و محفل میں حضرت میاں میر کے ہمراہ رہتے ۔ لاہور میں ہی ایک مجلس میں حضرت میاں میر اور حضرت شاہ برہان نے شمولیت کی حضرت میاں میر کے ساتھ شاہ سکندر بھی تھا۔ حضرت شاہ برہان نے جب شاہ سکندر کو دیکھا تو وہ بھانپ گئے کہ یہ بچہ بہت لائق ہے کیوں نہ اسے اپنے ساتھ چنیوٹ لیجایا جائے۔ لہذا حضرت شاہ برہان نے حضرت میاں میر سے اجازت لی اور شاہ سکندر کو ساتھ لے کر چنیوٹ چلے آئے ۔ حضرت شاہ برہان نے پیار سے اسے ڈھول سکندر کہنا شروع کیا۔ جس وجہ سے اس کا نام شاہ سکندر کی بجائے ڈھول سکندر مشہور ہو گیا۔ کچھ عرصہ تک سعد اللہ خان اور ڈھول سکندر ہم جماعت رہے ۔ سعد اللہ خان لاہور منتقل ہو گئے اور ڈھول سکندر نے درویشی اختیار کرلی اور مستقل طور پر چنیوٹ میں ہی رہا۔ آپ 1649ء کو اس جہان فانی سے رحلت فرما گئے ۔ انہیں وصیت کے مطابق چنیوٹ میں ہی دفن کیا گیا۔ اس جگہ کو آج بھی ڈھول سکندر کہا جاتا ہے۔ ڈھول سکندر کے مزار کے چبوترے کی دیوار اور سیڑھیاں سنگ سیاہ سے بنی ہوئی ہیں ۔ یہ وہی سنگ سیاہ ہے جو بادشاہی مسجد چنیوٹ اور حضرت شاہ برہان کے روضہ میں استعمال ہوا ہے۔ لہذا گمان غالب ہے کہ ہم جماعت اور شاہ جہان کا بیٹا ہونے کی وجہ سے یہ چبوترہ اور مزار نواب سعد اللہ خان تصمیم نے تعمیر کروایا تھا۔
حضرت مخدوم کمال الدین قریشی :
حضرت مخدوم کمال الدین قریشی تحصیل جھنگ کے قصبہ حویلی بہادر شاہ میں تقریباً 987ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق عرب کے مشہور قبیلہ بنوقریش سے ہے۔ آپ نے حضرت شاہ مقیم سے روحانی علم حاصل کیا۔ آپ کو مرشد نے حکم دیا کہ اسلام کی تبلیغ کرو۔ لہذا آپ مرشد کے حکم پر اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے چنیوٹ پہنچے اور کریا نوالی مسجد کے قریب رہائش پذیر ہو گئے ۔ آپ کی تبلیغ سے کئی غیر مسلم قبیلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ آپ نے 1056ھ کو چنیوٹ میں ہی وفات پائی۔ آپ کو وصیت کے مطابق چنیوٹ میں ہی اسی مسجد کے قریب دفن کیا گیا۔
حضرت مخدوم داؤ د احمد قریشی :
حضرت مخدوم داؤ د احمد قریشی 993ھ میں پیدا ہوئے ۔ آپ، حضرت مخدوم کمال الدین قریشی کے چھوٹے بھائی تھے دونوں بھائی ایک مرشد حضرت شاہ مقیم کے مرید تھے ۔ باطنی علم بھی انہی سے حاصل کیا۔ اپنے بھائی مخدوم کمال الدین قریشی کے حکم پر چنیوٹ تشریف لائے اور حضرت شاہ برہان کے روضہ کے نزدیک رہائش اختیار کر لی اور ہیں 1061 ھ میں انتقال فرمایا۔ عقیدت مندوں نے اس جگہ آپ کا مزار تعمیر کروا دیا۔
حضرت مخدوم جمیل الدین قریشی :
حضرت مخدوم جمیل الدینی قریشی 996ء میں پیدا ہوئے ۔ آپ حضرت مخدوم کمال الدین قریشی اور حضرت مخدوم داؤد احمد قریشی کے چھوٹے بھائی تھے۔ آپ بھی حضرت شاہ مقیم سے باطنی علوم سے فیض یاب ہوئے ۔ آپ اپنے بھائیوں کے حکم کے مطابق چنیوٹ تشریف لائے اور محلہ ترکھاناں میں رہائش پذیر ہو گئے ۔ آپ نے یہاں ایک مسجد اور کنواں بھی بنوایا۔ آپ نے 1051 ھ میں وفات پائی تو اسی جگہ ان کو دفن کیا گیا-
حضرت مخدوم جلیل الدین قریشی :
حضرت مخدوم جلیل الدین قریشی 984ھ میں پیدا ہوئے ۔ آپ مخدوم کمال الدین قریشی ، حضرت مخدوم داؤ د احمد قریشی اور حضرت مخدوم جمیل الدین قریشی کے بڑے بھائی تھے آپ اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے چنیوٹ پہنچے اور محلہ ترکھاناں میں رہائش پذیر ہوئے۔ آپ نے 1078 ھ میں وفات پائی اور آپ کو محلہ تر کھاناں میں ہی دفن کیا گیا۔
حضرت میاں سعدالدین نیکوکارہ المعروف سعدن جوان :
حضرت میاں سعد الدین نیکوکارہ المعروف سعدن جوان 934ھ کو اُچ بہاولپور میں میاں فیروز الدین نیکوکارہ کے ہاں پیدا ہوئے ۔ آپ پیج النسل قریشی تھے۔ آپ کے دادا حضرت شیخ احمد کبیر نیکوکارہ ایک عالی ہمت بزرگ تھے ۔ جو حضرت عبداللہ جہانیاں کی اولاد میں سے تھے ۔ آپ کا اصل نام تو حضرت میاں سعدالدین تھا مگر مقامی زبان میں سعدین مشہور ہو گیا اور پھر کثرت استعمال کی وجہ سے سعدین“ سے ”سعدن“ ہو گیا۔ آپ چونکہ بڑے قد و قامت والے بہادر جوان تھے ۔ جس لیئے لوگ آپ کو سعدن جوان کے نام سے پکارنے لگے ۔ آپ مادر زاد ولی تھے۔ اسلام کی تبلیغ اور کفر کے خلاف جہاد کرتے ہوئے 953ھ میں چنیوٹ کے قصبہ ہر سہ شیخ پہنچے اور یہیں قیام پذیر ہوئے ۔ 999ء میں آپ کا انتقال ہوا تو اسی جگہ سپردخاک کیا گیا۔ آپ کا مزار سب سے پہلے میاں کرم شاہ نیکو کارہ نے تعمیر کرایا جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ خستہ حال ہو گیا تو ان کے فرزند میاں احمد علی نیکوکارہ نے محکمہ اوقاف سے درخواست گزار کر دربار کو محکمہ اوقاف کی تحویل میں دے دیا اور ان کے چھوٹے بھائی میاں محمد نواز نیکوکارہ (ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ) کی کوششوں سے محکمہ اوقاف نے دربار کی تعمیر نو او نئی مسجد کی تعمیر اور دربار پر بجلی کا انتظام کیا۔ آپ کا دربار قصبہ ہر سہ شیخ سے جنوب مشرق کی سمت ایک میل کے فاصلہ پر مرجع خلائق ہے ۔ آپ کے مزار پر سب سے پہلے 7 اپریل 1972ء کو میجر (ر) میاں ارشاد حسین نیکوکارہ نے عرس و میلہ لگوایا جو ہر سال 7 تا 19اپریل تین دن لگتا ہے۔ چونتر یا نوالہ و ہر سہ شیخ کے نیکوکارے آپ ہی کی اولاد ہیں ۔
شیر فتح اللہ باتاً :
حضرت شیر فتح اللہ بانا 1076 ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ سادات گیلانی سے تعلق رکھتے تھے ۔ آپ 1103 ھ میں اپنے بڑے بھائی شیر جلال کے ہمراہ چنیوٹ کے علاقہ بھوانہ میں تشریف لائے ۔ جہاں اپنے ہم عصر حافظ برخوردار اور میاں امام الدین سے تعلق جوڑا۔ آپ بڑے عالی ہمت بزرگ تھے۔ ایک روایت کے مطابق آپ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کی ذات کیا ہے تو آپ کے ہاتھ میں کریر کا کچا پھل تھا جسے مقامی زبان میں باٹا کہتے ہیں ، اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری ذات ہے۔ اس کے بعد لوگوں نے آپ کو شیر فتح اللہ باٹا کہنا شروع کر دیا۔ آپ نے 1169ھ میں انتقال فرمایا ۔ آپ کو حویلیاں بائیاں میں دفن کیا گیا۔ آپ کے مزار پر ہر سال 11 ساون کو بڑا بھاری میلہ لگتا ہے۔
میاں خدایار :
میاں خدایار 1183ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق راجپوت قوم کی ایک شاخ کھوکھر سے تھا۔ حضرت مولانا نور احمد نقشبندی آپ کے داماد تھے ۔ آپ ایک عالی ہمت بزرگ تھے ۔ آپ نے 1251 ء میں انتقال فرمایا۔ آپ کے جسد خاکی کو تھانہ صدر چنیوٹ کے سامنے والے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
مائی جیواں :
مائی جیواں 1914ھ میں حضرت شیر شاہ المعروف شیرن پاک کے ہاں لاہور میں پیدا ہوئیں ۔ آپ کے والد محترم سید شیر شاہ بھی ولی اللہ کامل تھے اور ان کا مزار بادامی باغ کے قریب لاہور میں ہے۔ مائی حیوان ہاشمی خاندان سے تھیں اپنے مرشد حضرت پیر کرامت علی شاہ المعروف چھتری والے کے حکم پر شیخو پورہ تشریف لائیں ۔ کچھ عرصہ وہاں قیام کرنے کے بعد فیصل آباد بابا نور شاہ ولی کے دربار کے پاس رہیں اور 1940ء میں چنیوٹ کا رخ کیا اور پہاڑی کے دامن میں محلہ معظم شاہ میں اللہ دتہ ماشکی کے ہاں قیام کیا۔ ایک سال کے بعد دوبارہ فیصل آباد چلی گئیں۔ ایک ماہ وہاں رہنے کے بعد دوبار چنیوٹ آگئیں۔ سارا دن بازاروں میں پھرتے پھراتے گزارتی رات کو اللہ دتہ ماشکی کے گھر آجاتی اس کے گھر میں ایک چھوٹا سا کمرہ بنوا کر رہائش رکھی۔ اللہ دتہ ماشکی کی بیوی کو ماں اور اللہ دتہ کو باپ کہتی اور اس رہائش سے تقریباً تین صدفٹ دور ایک مسجد بنوائی جو ابھی تک مائی جیواں کے نام سے مشہور ہے۔ مائی جیواں” کے ایک مرید محمد حنیف ولد میاں احمد بخش قوم راج ( جو ان کی زندگی میں ان کے ساتھ رہا) نے بتایا کہ مائی جیواں کڑاہی میں تلتے ہوئے پکوڑے ہاتھ سے نکال کر کھا جاتی ، تیزاب کی بوتل پی جاتی، صابن کھا جاتی ، آگ ہاتھ سے اٹھا کر جوتی میں بھر کر پاؤں میں ڈال لیتی مگر انہیں کچھ بھی نہ ہوتا۔ مائی جیواں نے اللہ وجہ ماشکی کے گھر ہی ایک قبر کی جگہ منتخب کی تو مریدین نے 1969ء میں ان کا مزار بنوانا شروع کر دیا جو ابھی آدھا ہی تعمیر ہوا تھا کہ 12 جون 1970ء بروز جمعرات مائی جیواں کا انتقال ہو گیا۔
حضرت شیخ احمد ماہی المعروف سائیں سکھ :
حضرت شیخ احمد ماہی المعروف سائیں سکھ مڈھ رانجھہ تحصیل بھلوال ضلع سرگودہا میں 1921ء کو پیدا ہوئے ۔ آپ خوجہ قوم سے تعلق رکھتے تھے آپ کے والد کا نام شیخ محمد امین تھا، جو بان سوتر کا کاروبار کرتے تھے۔ جب آپ کی عمر پانچ سال کی ہوئی تو اپنے والد کے ہمراہ چنیوٹ منتقل ہو گئے ۔ محلہ کما نگراں میں رہائش اختیار کی والد محترم نے آپ کو اسلامیہ ہائی سکول چنیوٹ میں داخل کروا دیا اور خود مسلم بازار چنیوٹ میں اس جگہ بان سوتر کی دکان بنائی جہاں اب راحت بیکری ہے۔ آپ سکول سے چھٹی کے بعد دکان پر چلے جاتے مگر کام میں کوئی دلچسپی نہ لیتے ۔ پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ چھوڑ دیا اور ہر وقت دکان پر ہی بیٹھے رہتے۔ جب بھی کوئی گاہک آتا تو کہتے ہمارے پاس سودا سلف نہ ہے اگلی دکان سے لے لو۔ اگر گاہک کہتا کہ سودا سلف تو دکان میں پڑا ہے تو کہتے ہمارے پاس وقت نہیں کسی اور سے لے لو ۔ پندرہ سال کے ہوئے تو آپ کے والد محترم نے اپنے بھائی اور آپ کے چا شیخ محمدعبداللہ کی بیٹی سے شادی کر دی ۔ کچھ عرصہ کے بعد آپ نے مکمل طور پر دکان چھوڑ دی۔ کچھ عرصہ تک روزانہ صبح چناب نگر کے علاقہ چلے جاتے ۔ اس جگہ بیٹھتے جہاں کوئی شخص نظر نہ آتا شام کو واپس گھر لوٹ آتے۔ کچھ عرصہ گزارنے کے بعد پہاڑی کے ساتھ آٹھ مرلہ رقبہ خرید کر جھونپڑی بنالی اور محلہ مسکین پورہ آباد کیا۔ جھونپڑی جل جانے کے بعد ایک کچا سا کوٹھا تعمیر کیا ۔ آہستہ آہستہ اپنا مزار تعمیر کروانا شروع کر دیا نہ 30 سال تک با قاعدہ نماز پڑھتے رہے پھر ظاہرہ پڑھنا چھوڑ دی۔ آپ کی ہمشیرہ کا کہنا ہے کہ پچھلی رات اٹھ کر عبادت میں مصروف ہو جاتے ۔ آپ کے ایک مرید مستری ابراہیم ولد محمد اسحاق جو آپ کی زندگی میں آپ کے ساتھ رہے اور آپ کے حکم پر مزار تعمیر کرتا رہا، نے بتایا کہ ! آپ کہتے کہ میں سب کا مرید ہوں میرا کوئی مرید نہیں ۔ اگر آپ سے پوچھا جاتا کہ تمہارا مرشد کون ہے؟ تو آپ کہتے کہ میں تو کہتا ہوں کہ وہ میرا مرشد ہے مگر وہ بھی کہے تو سہی کہ یہ ہمارا مرید ہے ۔ اس کے سوا کچھ نہ بتاتے ۔ آپ کے بیٹے عبد الحفیظ اور پوتے عدیل احمد نے بتایا کہ آپ کسی کو تعویز دھاگہ نہ دیتے اور ہمیں بھی تعویز دھاگہ دینے سے منع فرمایا اور ہمیں بان سوتر ہی کا کاروبار کرنے کی وصیت کی کہ یہی کام کر کے اسی سے روٹی کما کر کھا ئیں جبکہ ہم وہی کاروبار کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اور آپ کے عقیدت مندوں کو خواب میں حضور پاک دینے کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔ آپ نے اپنی اولاد کو پیری مریدی کرنے اور عرس میلہ لگانے سے منع فرمایا۔ آپ کا 2 دسمبر 1987ء بمطابق 10 ربیع الثانی 1408ھ بروز بدھ انتقال ہوا ۔ بدھ انتقال ہوا ۔ آپ کے چھ بیٹے عبد الحفیظ ، عبدالمجید ، عبدالحمید ، عبدالقیوم، عبدالشکور اور بشیر احمد ۔ چار بیٹیاں آسیہ بیگم، فریدہ بیگم، عصمت بیگم اور زینت بیگم تھیں ۔ عبدالحفیظ کے علاوہ تمام بیٹے اور بیٹیاں صاحب اولاد ہیں۔
حضرت میاں غلام شبیر شاہین :
حضرت میاں غلام شبیر شاہین کا تعلق مغل خاندان سے تھا۔ آپ میاں غلام رسول کے ہاں 21 مارچ 1940ء بمطابق 11 صفر المظفر 1359ھ بروز جمعرات کو چنیوٹ کے محلہ ریختی میں پیدا ہوئے ۔ آپ جوان ہوئے تو انگلستان چلے گئے وہاں اپنے ایک دوست بشیر احمد ( جن کا تعلق حضرت خواجہ اویس قرنی کے خاندان سے تھا ) کے کہنے پر حضرت صوفی نورالدین اویسی نوری (جن کا مزار ایبٹ آباد میں ہے ) کے مریدین خاص میں شامل ہو گئے اور انہیں سے باطنی علوم حاصل کیا۔ آپ نے 21 مئی 1994ء بمطابق 10 ذوالحجہ 1414ھ بروز ہفتہ انگلستان میں ہی وفات پائی۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کے جسد خاکی کو اپنے آبائی قبرستان حافظ دیوان میں حضرت پیر حافظ دیوان کے مزار کے قریب دفن کیا گیا۔ جہاں ہر سال 21 اگست کو آپ کا عرس منایا جاتا ہے ۔ دربار شریف کے ناظم اعلیٰ چوہدری محمد عالم اویسی ہیں۔
حضرت پیر حافظ دیوان :
تقریباً ساڑھے نو سو سال قبل 600 ھ کے لگ بھگ سے یہ مرکز روحانیت دنیائے افلاس و پیاسی دنیا کو فیض یاب کر رہے ہیں ۔ یہ شہر چنیوٹ کی سب سے قدیم مزارات و اولیائے کرام میں شامل ہیں۔ قدیمی روائیتیوں سے پتہ چلتا ہے کہ مزار پیر حافظ دیوان پشت در پشت شہر کے وسط میں تھا ۔ انقلاب شہر کی وجہ سے کنارے پر چلا گیا ۔ مگر آبادی بڑھنے کی وجہ سے اب پھر وسط شہر میں ہے۔ ان کی آمد کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ! آپ سعودی عرب سے ہجرت کرتے ہوئے مقصد تبلیغ کے ساتھ کئی ہزار خاندانوں کو مسلمان کیا ۔ ان کے شواہد ہندوستان ، افغانستان اور موجودہ پاکستان میں سندھ ،سرحد اور پنجاب میں ملتے ہیں۔ مگر آپ نے مستقل قیام چنیوٹ شہر میں کیا اور روحانیت کے چشمے جاری کئے۔ باشندگان چنیوٹ آپ کے عقیدت مند ہیں۔ ایک روایت کے مطابق اگر کوئی مزار پر کمر دیا چھت ڈالنے کی کوشش کرتا تو وہ گر جاتی۔ اس علاقہ میں آپکے فیض کی وجہ سے کبھی چوری یا ڈا کہ نہ ہوتا اگر کوئی چوری کرنے کی کوشش کرتا تو وہ اندھا ہو جاتا۔ مزار کے گنبد پر اکثر باز اور کبوتر اکٹھے بیٹھے اور اکٹھے اڑتے ہوئے بھی نظر آتے ۔ آپ ولی اللہ کامل تھے ان کے مزار پر کوئی بد کردار آدمی نہیں بیٹھ سکتا ۔ آپ کے مزار کومحبوب الہی کے والد محترم خادم الفقراء حاجی محمد دین صاحب نے اپنی انتھک محنت سے پہلی مرتبہ تعمیر کروایا۔ انہوں نے ہی آپ کے مزار پر عرس لگانا شروع کیا جو ہر سال 12, 13 اور 14 شعبان کو تین دن تک ہوتا ہے اور ہر ماہ گیارہویں شریف کو محفل نعت اور ختم ہوتا ہے۔ یہاں ہر روز لنگر جاری رہتا ہے۔ اب خادم الفقراء حاجی محمد دین آپ کے بائیں پہلو میں دفن ہیں اور ان کے بیٹے محبوب الہی نے دربار کا انتظام سنبھال رکھا ہے اور یہ ہی موجودہ گدی نشین اور متولی مزار ہے۔
حضرت پیر بنی عبدالوہاب :
حضرت بنی عبدالوہاب ریحان خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ آپ 1852ء میں رتہ پور ریحاناں میں پیدا ہوئے ۔ جب آپ جوان ہوئے تو وہیں ایک سید زمیندار کے پاس ملازمت اختیار کر لی۔ آپ نے پہلی شادی اپنے ہی خاندان کی ایک عورت سے کی عمر اس سے کوئی اولاد نہ ہوئی ۔ پھر دوسری شادی ملاح خاندان کی ایک عورت سے کی مگر اس سے بھی کوئی اولاد نہ ہوئی ۔ تب آپ دنیا داری سے تنگ آکر مرشد کی تلاش میں نکل پڑے۔ چنیوٹ والی پہاڑی کے قریب دریائے چناب کے کنارے آپ کی ملاقات حضرت میاں حماند متھرومہ سے ہوئی۔ آپ نے عرض کیا کہ میں روحانی علم حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ جس پر حضرت میاں حمانڈ نے فرمایا کہ اپنی دونوں بیویوں سے پوچھ لے۔ تب آپ پہلے اپنی پہلی بیوی کے پاس گئے اور ان سے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ مجھے طلاق دے دیں آپ کی جیسے مرضی ہے کر لیں۔ تو آپ نے پہلی بیوی کو طلاق دے کر فارغ کر دیا۔ پھر دوسری بیوی مائی دولت سے پوچھا تو انہوں نے عرض کیا کہ میں ساری زندگی آپ ” کے ساتھ رہوں گی ۔ تب آپ دوبارہ حضرت میاں حماد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام حقیقت بیان کی تو انہوں نے آپ کو اپنا خلیفہ نامزد کر کے پہاڑی پر رہائش رکھنے کا حکم دیا۔ جہاں آپ چار سال رہے۔ پھر مرشد نے حکم دیا کہ مزید تین سال یہیں قیام رکھیں اور ای پیاڑی کے پتھر سے دستی چکیاں بنا کر انہیں فروخت کر کے اس کی روٹی لے کر کھا ئیں۔ لہذا تین سال تک آپ نے یہی کام کیا۔ لہذ ا سات سال ہو گئے تو مرشد کے حکم پر لاہور کی طرف روانہ ہو گئے ۔ لاہور میں رحیم بخش عرف سائیں کا کا کی بیٹھک پر رہائش اختیار کی۔ رحیم بخش عرف سائیں کا کانے آپ کی بڑی خدمت کی۔ پھر وہاں سے واپس چنیوٹ پہنچے اور کا نواں والا قبرستان کے قریب ڈیرہ لگا لیا۔ آپ اپنے مرشد حضرت میاں حمانڈ کے مزار واقع موضع متحر ومہ پر ہر سال 27, 28 اور 29 ہاڑ کو میلہ لگواتے ۔ مگر وہاں کے مقامی لوگوں کے اعتراض کرنے پر خواب میں آپ کو مرشد نے حکم دیا کہ میلہ چنیوٹ اپنے پاس لگواتے رہیں مگر نام میرا ہی ہوگا ۔ ۔ تب آپ نے اپنے پاس میلہ لگوانا شروع کر دیا۔ 1908ء میں آپ اس جہان فانی سے رحلت فرما گئے تو آپ کے جسد خاکی کو اسی جگہ دفن کیا گیا۔ جب لاہور میں آپ کے مرید رحیم بخش عرف سائیں کا کا کو آپ کی وفات کا علم ہوا تو اس نے وہیں اپنی بیٹھک پر آپ کا چھوٹا سا روضہ بنا دیا اور خود چنیوٹ آ گیا۔ اور اپنے مرشد کا مزار تعمیر کرنا شروع کر دیا جو 1922ء میں مکمل ہوا۔ سائیں کا کانے بھی یہیں وفات پائی اور آپ کے مزار کے احاطہ میں ہی دفن ہوئے۔ دربار کے اندر دروازہ کے بائیں جانب کا کا سائیں کا ایک شعر لکھا ہوا ہے۔ جو یہ ہے۔ اپنی اپنی رحیمی سے بخش کا کا کو منظور کر ہے یہ مستری مسکین درویش عشق سے پرنور کر میاں افتخار حسین طاح اور میاں ذوالفقار علی ملاح دربار کے ناظم اعلیٰ اور گدی نشین ہیں۔ 2004ء میں محکمہ اوقاف پنجاب نے اس در بار کو اپنی تحویل میں لے لیا۔
حضرت پیر منگا شہید :
حضرت پیر منگا شہید 654ھ کو حضرت شاہ دولت بخاری کے ہاں موجودہ رجوعہ سادات میں پیدا ہوئے۔ آپ مادر زاد ولی اللہ کامل تھے ۔ آپ کے بارے میں روایت مشہور ہے کہ آپ بھوآنہ کے علاقہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ غیر مسلموں نے آپ کو گھیر لیا۔ جس پر آپ نے لڑنا شروع کر دیا۔ لڑائی کے دوران آپ کو تلوار گی۔ جس سے آپ کا سر تن سے جدا ہو گیا۔ آپ کا سراسی جگہ علاقہ بھوانہ میں دفن کر دیا گیا۔ اس جگہ بھی آپ کا مزار ہے اور اسے بھی پیر منگا شہید کہتے ہیں ۔ آپ کا دھڑ لڑتا ہوار جو عہ روڈ پر ٹھٹھہ ٹھاکر سے جنوب مغرب کی طرف اس جگہ پہنچا جہاں اب آپ کا مزار ہے ۔ آپ کے دھڑ کو لڑتے ہوئے دیکھ کر ایک عورت نے حیران ہو کر کہا کہ دیکھو سر کے بغیر دھڑلڑتا ہوا آ رہا ہے۔ اس کا کہنا ہی تھا کہ زمین پھٹ گئی آپ۔ اندر چلے گئے اوپر مٹی کی ڈھیری بن گئی۔ پہلے یہ مٹی کی ڈھیری ہی رہی پھر 1959ء میں بادا شیر علی اور دلدار حسین سنیاسی نے آپ کا مزار تعمیر کروایا اور ساتھ مسجد بھی بنوائی۔
سائیں شیر علی :
سائیں شیر علی 1905ء کو تحصیل بھلوال کے گاؤں ڈھکواں میں پیدا ہوئے۔ آپ اعوان خاندان کے چشم چراغ تھے۔ آپ حضرت شاہ محمد شیرازی ساکن شاہ پور صدر کے مرید و عقیدت مند تھے۔ آپ پیر امام علی شاہ ( بخت جمال کا ) اور پیر محمد شاہ (احمد یار کا ) ساکنان رجوعہ سادات کے گہرے دوست تھے۔ آپ بھلوال سے اپنے ان دوستوں سے ملنے کیلئے تشریف لائے۔ آپ رات گزارنے کیلئے حضرت پیر منگا شہید کے مزار پر ظہرے تو خواب میں حضرت پیر منگا شہید نے کہا کہ آپ کا مقام نہیں ہے یہیں ڈیرہ لگا لو۔ لہذا آپ ” نے یہیں ڈیرہ لگا لیا اور حضرت پیر منگا شہید کا مزار تعمیر کروانا شروع کر دیا ۔ آپ نے 1965ء میں وفات پائی اور حضرت پیر منگا شہید کے مزار کے قریب ہی دفن کئے گئے۔
حضرت پیر سید جیون شاہ بخاری :
حضرت پیر سید جیون شاہ بخاری اٹھارھویں صدی کے اوائل میں پیدا ہوئے ۔ حضرت پیر لال شاہ بخاری آپ کے والد محترم تھے ۔ آپ مادر زاد ولی اللہ کامل تھے۔ آپ کا شجرہ نسب حضرت پیر شاہ دولت بخاری والی رجوعہ سادات سے گیارہویں پشت سے ملتا ہے اور حضرت پیر شاہ دولت بخاری سے ہوتا ہوا مخدوم شیر شاہ سید جلال قطب کمال ثانی حیدر کرار والی اُچ شریف سے ہوتا ہوا دسویں امام نقی سے ملتا ہوا مولائے متقیان شیر خدا وصی رسول جناب امام علی سے جاملتا ہے۔ آپ کے والد ماجد اور جد امجد تمام اپنے دور میں ولی اللہ کامل ہوئے ہیں۔ آپ کے والد پیر لال شاہ بخاری کی آج بھی یہ کرامت ہے کہ جانوروں کی افزائش نسل یا بیماری کے لئے آپ کے والد میاں لال شاہ بخاری کی تھیکی دی جاتی ہے۔ کشف و کرامات۔ آپ کا بچپن و جوانی غرضیکہ حیات ظاہری و باطنی کشف و کرامات سے بھری پڑی ہے۔ قصہ الخصر آپ نے اپنی زبان مبارک سے جو کچھ کہا وہ اسی طرح پورا ہوا۔ یوں آپ سیف الزبان مشہور تھے ۔ آپ کا چرچا ہند وسندھ میں زبان زد عام تھا اور درباری دہلی اور مشائخ دہلی میں آپ کا نام سر بلند تھا۔
ظاہری فیض و مرشد خانه :
آپ ظاہری طور پر پیر سید حیات شاہ آف د یوال ( جن کا دربار عالیہ دیوال تحصیل بطوال ضلع سرگودہا میں واقع ہے) سے بیعت ہوئے۔ آپ کے مرشد نے جوانی کے عالم میں آپ کو دیکھا کہ آپ تعظیم المرتبت مرتبہ پر فائز ہیں تو انہوں نے آپ پر خاص توجہ فرمائی اور مرشد نے اپنے پاس سے ملنگ مستان علی خدمت کیلئے پیش کیا۔
سلسلہ تصوف :
آپ کا سلسلہ تصوف پیر سید حیات شاہ سے شروع ہوتا ہے۔ آپ کا سلسلہ قادری قلندری ہے۔ چونکہ آپ حسب نسب سے بخاری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ لہذا سلسلہ جلالیہ بھی آپ کو وراثت میں ملا۔
فیض بدست پیرشاہ دولت بخاریؒ :
آپ چونکہ سرکار حضرت پیر شاہ دولت بخاری کے پوتے ہیں۔ لہذا آپ سنی سلطان درویشاں خیر ہمیشان کے روضہ اقدس پر اکثر حاضری دیا کرتے تھے ۔ حضرت پیر شاہ دولت بخاری کی روحانی ہدایت پر آپ اپنی آبائی جا گیر اور کل جو کہ احمدنگر تحصیل چنیوٹ ضلع جھنگ میں واقع ہے، کو چھوڑ کر موضع چک بندی
( جہاں آپ کا والد کی طرف سے در شہ تھا ) میں قیام کیا اور لوگوں کو فیض عام پہنچانا شروع کیا۔
وصال مبارک :
آپ کا وصال 1920ء کے لگ بھگ ہوا۔ آپ کو آپ کی وصیت کے مطابق موضع چکبندی میں ہی دفن کیا گیا۔ آپ کے پہلے سجادہ نشین آپ کے بھتیجے سید امیر حسین شاہ ہوئے۔
روضہ مبارک :
آپ کا روضہ مبارک آپ کے ملنگ مستان علی و مریدین اور آپ کی اولاد نے تعمیر کروایا۔ جواب بھی مرجع خلائق ہے۔ آپ کے روضہ مبارک کے ساتھ ایک خوبصورت مسجد وامام بارگاہ بھی تعمیر کیا گیا۔
مریدین :
آپ کے مریدین کا سلسلہ لامتناعی ہے۔ پورے ملک سے مریدین آکر حاضری دیتے ہیں اور اپنی مرادیں برلاتے ہیں۔
عرس مبارک :
آپ کے روضہ اقدس پر ہر جمعہ المبارک کو مریدین جوک در جوک حاضری کیلئے آتے ہیں۔ جہاں بڑا رش ہوتا ہے۔ اور ہر سال 18 جیٹھ کو بڑا بھاری میلہ لگتا ہے۔
سجاده نشین :
سید فیض الحسن شاہ اور سید اظہر حسن شاہ ایڈ دو کیٹ سجادہ نشین اور دربار کے ناظم اعلیٰ ہیں ۔ ہر دو شخصیات ہر دلعزیز ہیں۔
مہتر حسین :
مغل شہنشاہ شاہجہاں کے وزیراعظم نواب سعد اللہ خان تھہیم کے پیر و مرشد حضرت شاہ برہان کے مرید خاص مہتر حسین پہلے ہندو تھے اور متروسین ( یعنی جھاڑوکش) نام تھا۔ جب حضرت شاہ برہان کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے تو مہتر حسین (یعنی حسین کے راست ) نام رکھا گیا۔ انہی کے نام کو اب سعد اللہ خان کے کتبے سے شاہ جہاں نے مسجد مہتر حسین بنوائی اور بہت سی اراضی اس کے اخراجات کیلئے وقف کی ۔ مسجد محلہ راجاں میں آج بھی قائم ہے۔ جبکہ باقی اراضی زمانے کی نذر ہو چکی ہے۔ مہتر حسین کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ وہ جب فوت ہوئے تو ایک جھگڑا پیدا ہو کیا، مسلمان کہتے کہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں اس لئے ہم انہیں اپنے طریقہ سے دفن کریں گے۔ جبکہ ہندو کہتے کہ وہ ہندو ہیں اس لئے ہم انکی چتا کو جلائیں گے۔ جب جھگڑ اطول پکڑ گیا اور بات قتال تک پہنچ گئی ۔ چونکہ ولی کامل تھے ہر دو فریقین کے بڑوں نے فیصلہ کیا کہ انکے جسد خاکی کو کمرہ میں رکھ کر تالہ لگا دیا جائے اگر وہ ہندو ہوا تو پڑا رہے گا اور اگر مسلمان ہوا تو غائب ہو جائے گا۔ لہذا میت کو کمرے میں رکھ کر تالہ لگا دیا گیا۔ مسلمانوں نے رات کی تاریکی میں کمرہ کی چھت پھاڑ کر حضرت صاحب کو میت کو نکال کر حضرت شاہ برہان کے مزار کے پہلو میں دفن کر دیا۔ صبح ہوئی تو ہندو کہنے لگے وہ ہندو تھے اس لئے بھگوان نے انہیں اٹھا لیا ہے۔ آپکی قبر آج بھی حضرت شاہ برہان کے مزار کے پہلو میں موجود ہے۔
نوگزے :
ایک روایت کے مطابق یہ نو غازی شہید ہیں ۔ 9 گز قد آور کڑیل جوان سرزمین عرب سے امام نصر الدین کی زیر قیادت جہاد کیلئے روانہ ہوئے رستے میں جہاد کرتے آئے اور شہید ہوتے آئے۔ ان میں سے جو جس جگہ شہید ہوتا اسی جگہ اسے دفن کر دیا جاتا ۔ اس طرح ان کی قبریں غزنوی سے اندلس تک ہیں چنیوٹ میں قلعہ ریختی کے ارد گرد پانچ جوانوں کی قبریں ہیں تین کی قبریں صرافہ بازار اور دو کی اسلامیہ ہسپتال سے مغرب کی سمت ہیں۔
ان کے بارے میں ایسا کوئی ثبوت نہیں مل سکا جس سے یہ پتہ چل سکے کہ یہ کس عہد حکومت میں آئے اور شہید ہوئے۔
یہ مضمون داکٹر ارشاداحمد تھیم کی کتاب ” تاریخ چینیوٹ "سے لیا گیا ہے