چنیوٹ کی ادبی زندگی کی کہانی اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک اس میں خضر تمیمی کا ذکر شامل نہ ہو ۔ خوش فکر، خوش طبع، خوش مزاج، مولا بخش خضر تمیمی ہوا کا وہ خوش گوار جھونکا تھے جو دل گرفتگی اور اداسی کو فرحت میں تحلیل کر دیتا ہے۔ ان کی زندہ دل اور بھر پور شخصیت چنیوٹ اور لاہور کی ادبی محفلوں کا سرمایہ تھی جہاں ان کے چاہنے والے آج بھی ان کی خوش بیانی کے ذکر سے محظوظ ہوتے ہیں۔ بقول منو بھائی میاں مولا بخش خضر تمیمی زندہ دلان لاہور کی آخری شمع تھے ان کے گل ہونے سے زندہ دلان لاہور کی زندہ دل کی دھڑکنیں مدھم ہوگئی ہیں اور مسکراہٹیں سنجیدگی کی طرف مائل ہونے لگی ہیں ۔
خضر تمیمی شاعر بھی تھے صحافی بھی تھے قانون دان بھی تھے لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے اندر ایک ہم درد اور غمگسار انسان رہتا تھا۔ انھیں دنیا کے بارونق بازار سے رخصت ہوئے صرف ہیں سال کا عرصہ گزرا ہے لیکن ان کی زندگی کے اوراق کسی خزاں رسیدہ درخت کے پتوں کی طرح یادوں کے پیڑ سے جھڑنے لگے ہیں۔ ان پتوں کو اکٹھا کرنے سے جو بے رابطی کہانی ترتیب پاتی ہے وہ کچھ اس طرح ہے۔ خضر تیمی چنیوٹ کے ایک قدیم خاندان بوتقسیم کے فرزند تھے۔ جن کے آباؤ اجداد ساتویں صدی ہجری میں محمد بن قاسم کی معیت میں برصغیر پہنچے۔ ان دنوں مقامی تہذیب اور تعصبات کے زیر اثر برصغیر کے نو مسلم گائے کو ذبح کرنے سے کتراتے تھے اس لئے یہ کام صحرائے عرب سے آنے والے آزاد منش قریشی اور تمیمی قبائل نے اپنے ذمہ لے لیا اور رفتہ رفتہ یہی ان میں سے اکثر افراد کا پیشہ بن گیا۔ صدیوں بعد خضر تمیمی نے بھی اپنی معاشی پریشانی اور خاندانی روایات کی وجہ سے کچھ عرصہ یہ پیشہ اپنایا اور مشق سخن کے ساتھ ساتھ قصاب کی تیز چھری بھی تھامے رکھی ۔ وہ 11 مارچ 1909ء کو چنیوٹ میں پیدا ہوئے۔ و ہیں ابتدائی تعلیم مکمل ہوئی اور پھر اسلامیہ کالج لاہور سے ایم اے کیا اور لاء کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ اپریل 1938 ء تک گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کالج دھرم شالہ کانگڑہ میں فارسی اردو اور تاریخ پڑھانے کے شرف سے باریاب ہوئے لیکن ان کے دل میں یہ خلش بدستور موجود رہی کہ وہ اپنے شہر اور شہر یار سے دور ملازمت کا طوق اٹھائے پھر رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک روز استعفے دیا اور واپس چنیوٹ پہنچ گئے ۔
1941 ء تک وہ چنیوٹ میں وکالت اور ادبی سرگرمیوں میں مگن رہے ۔ اس عرصہ کی روداد چنیوٹ کے کوچہ و بازار اور یہاں سے شائع ہونے والے ہفت روزہ یاد خدا کے اوراق میں ابھی تک محفوظ ہے۔ ان دنوں خضر تمیمی، چرخ چنیوٹی، ڈاکٹر عزیز علی عزیز نذیر مجیدی اور ثاقب سلیمانی جیسے لوگوں نے چنیوٹ کی بنجر سرزمین کو اپنی ادبی کا وشوں سے رشک گلزار بنارکھا تھا۔ اسی دوران 1942ء میں لاہور اسٹیشن سے ان کی ایک تقریر نشر ہوئی جس کا موضوع تھا دیہاتی رسوم اور زبان پنجابی اتفاق سے اس تقریر کو سر سکندر حیات مرحوم وزیر اعظم پنجاب نے سن لیا۔ وہ اس تقریر کی لذت سے اس قدر محظوظ ہوئے کہ انھوں نے خضر صاحب کی صلاحیتوں کو پنجاب کے کسانوں کی بیداری کے لئے بروئے کارلانے کا فیصلہ کیا اور ان کے علم کے بغیر ہی انھیں تحریک پنجائیت کا قانونی مشیر تعینات کر دیا۔ اس ملازمت کے دوران انھیں پنجاب کے دیہاتوں اور دور افتادہ علاقوں میں جانے کا موقعہ ملا جس سے ان کے علم اور مشاہدہ میں بڑی وسعت پیدا ہوئی۔ اسی دوران تحریک پاکستان کے حوالے سے مسلم لیگ سے وابستگی ہوئی اور انھوں نے آزادی وطن کے لئے قابل قدر خدمات بھی سرانجام دیں۔
قیام پاکستان کے بعد انھوں نے ایک بار پھر ملازمت سے دامن چھڑا کے وکالت سے مستقل رشتہ جوڑ لیا اور اس میدان میں اپنے میلان طبع اور محنت شاقہ کی بدولت ترقی کرتے کرتے لاہور ہائی کورٹ تک جاپہنچے ۔ یہاں تک کہ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر بھی منتخب ہوئے ۔ معمولی پس منظر بے سرو سامانی اور مالی کسمپرسی کے عالم میں زندگی کی ہر مشقت جھیلنے کے بعد اتنے بڑے اعزاز کا حصول ان کی بے پناہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
خضر تیمی کی دل چسپ اور بھر پور مزاحیہ شاعری اپنے عہد کا سرمایہ ہے۔ ان کی شگفتہ بیانی ، بذلہ سنجی اور تفضن طبع کے قصے آج بھی محفلوں کو کشت زعفران بنا دیتے ہیں۔ مولانا جعفر قاسمی ان کے متعلق اپنے ایک دل چسپ مضمون میں رقم طراز ہیں !۔
دوستمیمی صاحب بہت ظریف تھے لیکن لطیف نہ تھے کثیف تھے۔ ان کے لطیفے بھی کثیفے ہوتے تھے۔ جن کی اپنی ایک شان ہوتی ۔ وہ پنجابیوں کی گالیاں نکالنے کی عادت کا دفاع کیا کرتے تھے۔ سب سے پہلے وہ اسی چیز کے وکیل صفائی رہے۔ فرماتے تھے ” ہم پنجابی لوگوں کا ذخیرہ الفاظ محدود ہوتا ہے۔ ہم اپنے جذبات کی شدت کا اظہار گالیوں کے ذریعے کرتے ہیں اور دنیا بھر میں ہمارا ایک منفرد مقام ہے ” تمیمی صاحب انگریزی ڈگریوں بی اے ایم اے پی ایچ ڈی اور ایل ایل بی کو گالیوں کی مختلف تراکیب کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہ ایک طرح کے کوڈ ورڈز ہوا کرتے تھے۔
تمیمی صاحب پیروڈی کے بادشاہ تھے انھوں نے اکبر الہ آبادی، حفیظ جالندھری اور اختر شیرانی کی بعض نظموں کی باکمال پیروڈیاں لکھیں ۔ تمیمی صاحب نے ایل ۔ ایل بی کیا تو ان کا وسیع تجربہ ان کے کام آیا۔ روابط بھی بہت وسیع تھے ۔ نطق ان کا واقعی تمیمی تھا۔ عربی تاثیر رکھتا تھا۔ سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت تھے ۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا عربی و فارسی کلام از بر تھا۔ ان کی شان میں منقبت بھی کہتے تھے۔ وہ قصیدہ غوثیہ پڑھتے وقت دنیا و مافیہا سے لا تعلق معلوم ہوتے تھے۔ حسرت موہانی کے ہم مسلک ہونے کے ناطے ھی اللہ کا ورد بھی پڑھتے تھے ۔ بعض متصوف ججوں کی عدالت میں اپنی یہ تمام صلاحیتیں بروئے کار لا کر ایک سماں باندھ دیتے تھے۔ بڑے بڑے جغادری وکیل اور حج ان کی ظرافت کے سایہ عاطفت میں سستانا پسند کرتے تھے۔ تمیمی صاحب کو بیک وقت اپنی طبقاتی کم مائیگی اور بیش بہا عبقریت کا شعور حاصل تھا۔ وہ بالعموم نڈر اور بے باک رہے۔ ایک بار لاہور ہائی کورٹ میں ایک طرفہ تماشا لا ہوا کہ ایک جج صاحب اپنی میز پر پاؤں پیارے سماعت مقدمہ فرمانے لگے ۔ ثقہ وکلاء کمرہ عدالت میں داخل ہوتے، یہ منظر دیکھ کر بھو چکے سے رہ جاتے اور الٹے پاؤں باہر آجاتے ۔ تمیمی صاحب کو جب اس کا علم ہوا تو کہنے لگے ” میں اس ایل ایل ڈی کو ابھی ٹھیک کرتا ہوں“ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے دروازے کے قریب ہی ٹھیرے رہے رسمی انداز میں سرجھکا یا سر اٹھایا بڑی سنجیدگی کے ساتھ دو تین بار یہ عمل دہرایا۔ جج صاحب نے ان کا نوٹس لیا انگریزی میں پوچھا۔
"Is any thing the matter Mr. Tamimi?” "No my lord. Your lordship is very kind.”
تو پھر آپ آگے کیوں تشریف نہیں لاتے ؟ تمیمی صاحب نے ایک بار سر جھکا کر اظہار آداب تو کیا مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اس پر جج صاحب کو اپنی ہیت کذائی کا احساس ہوا اور انھوں نے پوچھا کہ انھیں ان کے میز پر ٹانگیں رکھنے پر تو اعتراض نہیں ؟ ان مائی لارڈ! آپ چاہیں تو اپنی ٹانگیں میرے کندھوں پر رکھ سکتے ہیں۔ برقی سرعت کے ساتھ حج صاحب تمیز کے دائرے میں آگئے ۔ تمیمی صاحب نے سر جھکا کر اظہار آداب کیا اور فوراً باہر آ گئے کہ لو بھی جسے اندر جانا ہے چلا جائے میں نے پی ۔ ایچ۔ ڈی کو ٹھیک کر دیا ہے۔ تمیمی صاحب فری میسن بھی تھے جس سے بعض غلط فہمیوں نے جنم لیا۔ تاہم یہ سب کچھ حسن نیت کے ساتھ معاشرے میں اعلیٰ مقام کے حصول کی طرف ایک قدم تھا۔ وہ بہت شفیق تھے، فصیح و بلیغ تھے ۔ زود رنج بھی تھے۔ چاہتے تو سخت گیری کے ساتھ انتقام کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے اور چاہتے تو بچوں کی طرح فورا مان جاتے اور پھر کبھی کسی ناراضگی کا اظہار نہ کرتے۔
اختر شیرانی سے سیمی صاحب کا خوب یارا نہ تھا۔ خضر تمیمی نے ان کی کئی ایک نظموں اور غزلوں کی پیروڈیاں بھی لکھیں جو ناقدین فن اور عوام الناس میں یکساں مقبول ہوئیں۔ اصل میں اختر شیرانی کے والد پروفیسر حافظ محمود شیرانی خضر صاحب کے استادر ہے تھے اس تعلق کی بناء پر وہ اختر کو بے حد عزیز سمجھتے تھے۔ اختر شیرانی تمیمی صاحب کی دعوت پر کئی بار چنیوٹ بھی تشریف لائے۔ بقول خضر جب اختر لاہور کے ہنگاموں سے اکتا جاتے تو منہ کا مزا بدلنے کے لئے سیدھا چنیوٹ کا رخ کرتے ۔
اختر شیرانی مرحوم کی ہی ایک اور غزل دیکھئے کوئی بہار گلستان آرزو کی پیروڈی کا انداز اور بھی دلنشیں
ہے:
مژدہ ہو آج تم کو مریضانِ آرزو
لاحق مجھے بھی ہو گیا یرقان آرزو
مائل ہوا ہے اک بہت ترسا پر دل مرا
گرجے میں جابسا ہے مسلمانِ آرزو
سب کاروبار چھوڑ کے سڑکیں ہوں نا پتا
دینا تھا کچھ نہ کچھ مجھے تاوانِ آرزو
ملا کے وعظ کا ہو اثر مجھ پہ کس طرح
سر پر میرے سوار ہے شیطانِ آرزو
میرا رقیب بوجھ سے مرنے کے ہے قریب
پر حسرتوں سے اس کا ہے دامانِ آرزو
گردن مروڑ ان کی یا دانے کھلا انھیں
چلا رہے ہیں دیر سے مرغانِ آرزو
میرے جنون نے اسے لینے دیا نہ چین
وہ چین حسن ہے تو میں جاپان آرزو
مجروح عشق ہو کے رہے گا وہ سنگدل
عاشق نے بھی ہے سونت لی کر پانِ آرزو
شیرازہ دسمبر 1936ء کے شمارے میں خضر تمیمی کی ایک نظم ” یہی کو چہ ہے وہ ہمدم جہاں رمضان رہتا تھا” کے عنوان سے شائع ہوئی۔ یہ نظم بھی اختر شیرانی کی ایک مشہور عالم نظم کی پیروڈی ہے ۔ سند باد جہازی تعارفی کلمات میں لکھتے ہیں:
مولانا اختر شیرانی ایڈیٹر رومان کی نظم ” یہی وادی ہے وہ ہمدم جہاں ریحانہ رہتی تھی آپ کی نظر سے گزری ہوگی ۔ پچھلے دنوں ایک صحبت میں مولانا کے تین عقیدت مند یعنی جناب خضر تیمی عزیزم عطاء اللہ سجاد اور راقم الحروف جمع ہو گئے اور باتوں باتوں میں اس نظم کا ذکر آ گیا ۔ مولوی خضر تمیمی کی جان پہچان کے لوگوں میں میاں رمضان ایک بزرگ تھے ریحانہ“ کے تذکرہ میں انھیں بے اختیار وہ یاد آ گئے اور چند منٹوں میں یہ ساجھے کی نظم لکھ ڈالی گئی۔ خدا کرے کہ اختر کی ریحانہ کے طفیل ہمارا رمضان بھی زندگی جاوید حاصل کرے۔
(شیرازہ 16 دسمبر 1936ء)
یہی کوچہ ہے وہ ہمدم جہاں رمضان رہتا تھا
وہ اس کوچے کا لمبردار تھا آزاد رہتا تھا
بہت مسرور رہتا تھا بہت دلشاد رہتا تھا
بسان قیس عامر صورت فرہاد رہتا تھا
جو اس کو یاد رکھتا تھا وہ اس کو یاد رہتا تھا
اور اس دالان میں اس کا چچا رحمان رہتا تھا
یہی کو چہ ہے وہ ہمدم جہاں رمضان رہتا تھا
اسی چھپر تلے دن رات اس کی چارپائی تھی
یہی دو چار کپڑے تھے اور اک میلی رضائی تھی
وہ اس دنیا کا مالک تھا یہی اس کی خدائی تھی
اور اس کوچے کے پنواڑی سے اس کی آشنائی تھی
کبھی وہ اور کبھی یہ اس کے گھر مہمان رہتا تھا
یہی کوچہ ہے وہ ہمدم جہاں رمضان رہتا تھا
اسی کوچے میں آوارہ دھواں ہے اس کے حقے کا
فضا کا ذرہ ذرہ نوحہ خواں ہے اس کے حقے کا
مگر دھندلا سا خاکہ کہکشاں ہے اس کے حقے کا
ابھی ٹوٹا ہوا نیچہ نشاں ہے اس کے حقے کا
وہ حقہ جس کے دم سے اس کو اطمینان رہتا تھا
یہی کو چہ ہے وہ ہمدم جہاں رمضان رہتا تھا
ہے سرمہ بیدلوں کی آنکھ کا اس کا غبار اب تک
اٹھائے پھر رہے ہیں بیلچے کچھ خاک ساراب تک
یہاں چلتا ہے لنگڑا کر ہوا کا راہوار اب تک
جھکا دیتے ہیں سر تیمور سے عالی وقار اب تک
نہیں کہتے ہیں پہلے اس سے ایم اے خان رہتا تھا
یہی کو چہ ہے وہ ہمدم جہاں رمضان رہتا تھا
اختر شیرانی اور خضر تمیمی کے تعلقات کے بارے میں مشہور صحافی قمرتسکین لکھتے ہیں:
خضر تمیمی سے میری پہلی ملاقات اختر شیرانی مرحوم کی وساطت سے ہوئی۔ ہوا یہ تھا کہ اس روز ہم دونوں کی جیبیں خالی تھیں اور شام کی آمد آمد تھی ۔ اختر شیرانی مرحوم اپنے روزمرہ کے معمول کے تحت اس شام کو بھی کسی صورت خالی نہ گزرنے دے سکتے تھے ۔ انھوں نے ایک تانگہ لیا اور خضر تمیمی کی قیام گاہ پر جا پہنچے اور جو نہی خضر تمیمی سے سامنا ہوا انھوں نے بلا تکلف ایک سالم بوتل اور کھانے کی فرمائش کر دی ۔ خضر تمیمی نے خود تو کبھی شراب نہ پی تھی لیکن وہ دوستوں کو شراب پیتے دیکھ کر ان سے نفرت بھی نہ کرتے تھے ۔ اختر شیرانی سے ان کے دیرینہ دوستانہ تعلقات قائم تھے اور وہ ان کی ہر فرمائش پوری کر کے دلی مسرت محسوس کرتے تھے۔ خضر تمیمی نے نہ تو پند و نصائح سے کام لیا نہ جیلوں بہانوں کی راہ اپنائی بل کہ فی الفور اپنے ملازم کو آواز دی اور بوتل لانے بھیج دیا۔
تقریباً پون گھنٹے بعد اختر شیرانی شیشے کی پری سے راز و نیاز میں مصروف ہوئے اور خضر تمیمی اور میں باتوں میں ۔۔۔۔ مرحوم اختر شیرانی کا کہنا تھا کہ وہ دوسروں کی بہ نسبت خضر تمیمی کو بہت زیادہ مخلص، راست باز اچھا دوست اور بہتر انسان پاتے ہیں۔ بارہا ایسے مواقع بھی آئے جب مجھے اختر مرحوم کے ہمراہ مسلسل کئی کئی روز تک خضر تمیمی کی قیام گاہ تک جانا پڑا۔اور کوئی ہوتا تو یقیت روز روز کی ان فرمائشوں سے اکتا جاتا اور مرحوم اختر کو اپنی زندگی کے آخری ایام میں اس کا تجربہ بھی ہوا تھا لیکن خضر تمیمی کے خلوص اور وضعداری اور دوست نوازی کی داد دی جائے گی کہ وہ کسی موقع پر بھی نہ تو اختر مرحوم کی کسی فرمائش سے اکتائے اور نہ ہی کبھی ان کے ماتھے پر بل آئے۔
اس تحریر سے خضر تمیمی کی عالی ظرفی کا اندازہ ہوتا ہے۔
خضر بڑے وسیع المشرب انسان تھے۔ ان کے دوستوں کا حلقہ بے حد وسیع تھا جس میں عام لوگوں سے لے کر بڑے بڑے صاحب علم و فضل اور مقتدر افراد شامل تھے ۔ ضیاء محی الدین کے والد جناب خادم بھی الدین سے ان کی گہری شناسائی تھی ۔ اس دوستی میں قدر مشترک موسیقی سے لگاؤ تھا۔ بقول مولانا جعفر قائمی دونوں اصحاب بڑے اعلیٰ طبلچی یا طبلہ نواز تھے۔ فن موسیقی کے اسرار وموز سے تمیمی صاحب کی گہری شناسائی تھی ۔ اس کی جھلک ان کی نظم سارنگی اور طبلہ میں نظر آتی ہے جوخوشی محمد ناظر کی مشہور جوگی کی پیروڈی ہے:
دنیا بھر کے بے فکروں نے کل بزم سرود سجائی تھی
کیا دل کو مسلتا تھا طبلہ ، کیا سارنگی گھبرائی تھی
بسمل کی رگ جاں بنتی تھیں طاؤس کی تاریں لرزش سے
چائے کا پیالہ دور میں تھا حقے نے دھوم مچائی تھی
رندوں نے جھنڈے گاڑے تھے، زہاد نے ڈیرے ڈالے تھے
اس دیر و حرم کی محفل میں ، موسیقی گانے آئی تھی
یاں اشکوں سے پر سارنگی واں بیچ وتاب میں تھا طبلہ
گز بھر کی زباں یاں چلتی تھی واں ہاتھوں کی بن آئی تھی
واں تھاپ کے ابر گرجتے تھے نغموں کی پھوار یں پڑتی تھی
یاں ہر دل پر موسیقی کے، کہرے نے قنات لگائی تھی
اڑتی تھیں فضا بھر میں تانیں ، تھی چال صبا کی مستانہ
سے بیچ میں دونوں کے جا بیٹھا شاعر دیوانہ
سارنگی بولی طبلے سے تم یونہی شور مچاتے ہو
اے منہ پھٹ طبلے دیوانے کیوں کان ہمارے کھاتے ہو
آواز تمھاری کوے کی اور شکل چھلاوے کی تیری
میٹھی میٹھی تانوں کے تم رنگ میں بھنگ ملاتے ہو
لعنت ہے تمھارے جینے پر آرام نہیں عزت بھی نہیں
میں گودوں میں جا چھیلتی ہوں تم سر اپنا پٹواتے ہو
ہے کام ابھی تک عشق ترا کچھ صبر نہیں کچھ تاب نہیں
یا تان اڑی اک میٹھی سی واں تھام کے دل رہ جاتے ہو
میں راج دلاری البیلی ناری ہوں پریم کنھیا ہوں
تم مونڈی کائے مردک ہو ہر جا پر دھکے کھاتے ہو
تہذیب تمہیں منظور نہیں اور عقل کہیں دستور نہیں
تم بھیم کی تانوں میں باہر کیوں آپے سے ہو جاتے ہو
نازوں سے پلی شہزادی ہوں میں ناری محلوں والی ہوں
تم جبس دوام کے قیدی ہو صندوقوں میں ڈٹ جاتے ہو
جب سارنگی نے طبلے سے یوں دل شکنی کا کلام کیا
کچھ دیر تو وہ خاموش رہا پھر بھا بھی جاں کو سلام کیا
یوں کہنے لگا سارنگی سے جلتی پر تیل گراتی ہو
ہم رنج والم کے مارے ہیں تم آکر اور ستاتی ہو
عشاق سے منہ پھیرا کیوں پھر تم نے ہمیں آگھیرا کیوں
رہنے دو اسے چپ مجبوراً کیوں میری زباں کھلواتی ہو
میں زنجبار کا شہزادہ میدان میں آکر تیم سا
جب ایک دہاڑ لگاتا ہوں تم پردوں میں ڈر جاتی ہو
پیمان وفا جس سے باندھوں میں پاس اسی کے رہتا ہوں
تم ہر جائی ہو ہر اک کے پہلو میں دل بہلاتی ہو
کچھ لطف ہے سینہ کوبی میں سر پھوڑنے میں ہم مستوں کو
بی! یہ تو عشق کے زیور ہیں تم یونہی ہم کو بناتی ہو
عزت پر ہماری حرف زنی! اللہ غنی اللہ غنی!
وہ وقت بڑی بی بھول گئیں جب کان اپنے کچھواتی ہو
میں تیری شمیم نغمہ کو مانند نسیم اڑاتا ہوں
یہ میری تھاپ کی برکت ہے دل بزم میں مسلے جاتی ہو
جب لڑکے مل کر گاتے ہیں عرفان کی تانیں اڑاتے ہیں
ہاتھوں سے میز بجاتے ہیں تم یاد کب ان کو آتی ہو
ہے ملکہ موسیقی سے مجھے نزدیک تریں تجھ سے رشتہ
ہم راہ پہ تجھ کو لاتے ہیں جب لے میں بھٹک سی جاتی ہو
میں آذر عشق کی تابش سے دل محفل کے گرماتا ہوں
طاؤس طنبورے کو تجھ کو دن میں تارے دکھلاتا ہوں
یہ سن کر تمس الدین ڈرے تلوار مبادا چل جائے
یاں طبلہ تڑپتا رہ جائے سارنگی روتی رہ جائے
چمکار کے سارنگی سے کہا تم سیدھی سادھی بھولی ہو
زیبا نہیں گریوں منہ میں ترے انجانوں کی سی بولی ہو
طبلے کے وکیل مطلق نے واں ہاتھ سے اس کو سمجھایا
اچھا نہیں خوں کی لہروں سے گر محفل بھر میں ہولی ہو
خاموش ہوئیں بی سارنگی اور طبلہ صتم بکنم تھا
یوں جیسے کسی نے زباں اپنی کوثر کے آب سے دھولی ہو
القصہ بچھڑے دوست ملئے نے جھگڑا تھانے شکوہ تھا
نے تن تنا تن تن تن تھی نے تاکٹر تاکر دھیا تھا
رسالہ ” نقوش کے طنز و مزاح نمبر میں خضر تیمی کی کچھ اور نظمیں اور اشعار بھی شامل کئے گئے ہیں جن کے انتخاب سے ان کی روانی فکر اور گہرے سماجی شعور کا اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح انھوں نے روز مرہ کے معمولی واقعات کی تہہ میں اتر کے سخن فہمی اور ظرافت طبع کا مظاہرہ کیا۔ ان کی شگفتہ بیانی میں تنقید اور اصلاح کا بڑا حسین امتزاج ہے۔
تمیمی صاحب نے ملازمت وکالت اور شاعری کے علاوہ صحافت میں بھی خوب نام کمایا ۔ کئی ایک روز ناموں ، احرار، جمہور، حریت، ہفتہ وار جہاں نما اور ماہنامہ خیالستان میں کام کیا۔ شیرازہ اور نمکدان جیسے مزاحیہ پر چوں میں ان کی اکثر تحریفات شائع ہوئی ہیں۔ انھوں نے محکمہ دیہات سدھار کا اخبار پنچایت بھی مرتب کیا۔ بعد ازاں وہ قلندر کے نام سے نوائے وقت میں بھی مضامین رقم کرتے رہے۔ قمرتسکین ان کی صحافیانہ زندگی کے متعلق لکھتے ہیں..
خضر تمیمی نے اپنے فطری رجحان کے تحت صحافت کی وادیوں میں قدم رکھا۔ اس دور کی صحافت آج کی صحافت سے یکسر مختلف تھی۔ یہ دور غلامی لگ بھگ پچاس برس قبل کی بات ہے۔ ملک میں انگریز کی غلامی کے خلاف تحریکیں چل رہی تھیں اور قومی پریس ملکی عوام کے جذبات کی عکاسی میں مصروف تھا۔ ظاہر ہے ان ایام میں محض قصیدہ گوئی سے کام نہ چل سکتا تھا۔ عوام کے جذبات اور احساسات کے پیش نظر غیر ملکی حاکموں پر کڑی تنقید کی ضرورت در پیش تھی۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے خضر تمیمی مرحوم نے مزاح کا سہارا لیا اور اس دور کے روز ناموں احرار جمہور، حریت اور ہفت روزہ جہاں نما میں کام کرنے لگے۔ ان اخبارات اور رسائل میں وہ ایک دوست صحافی اور شاعر کی حیثیت سے کام کرتے رہے اور بطور مزاح نویس اردو دان طبقے سے روشناس ہو گئے۔ بعد میں خضر تمیمی مرحوم نے اختر شیرانی مرحوم کے ساتھ ماہنامہ خیالستان میں بھی کام کیا۔ آپ نے نثر میں آب حیات کی پیروڈی اس فنکارانہ چابکدستی سے کی کہ سارے برصغیر پاک و ہند میں سراہی گئی۔
مزاحیہ شاعری اور فکاہیہ کالموں کے ساتھ ساتھ زندگی کے سنجیدہ موضوعات بھی ان کی دسترس سے باہر نہ تھے ۔ بنیادی طور پر خضر تمیمی انسانی عظمت اور مساوات کے بہت بڑے علم بردار تھے۔ انھی جذبات کا اظہار کبھی مزاح کے پیرائے میں کبھی شاعری کے رنگ میں اور کبھی سنجیدہ مضامین کی صورت میں کرتے رہے۔ وکالت کے شعبہ سے منسلک ہونے کے بعد آزادی فکر اور انسانی حقوق کے لئے ان کی جدوجہد اور بھی تیز ہوگئی تھی۔ انھوں نے امریکا کی سپریم کورٹ کے ایک حج ولیم اور گلس کی مشہور کتاب ”بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ ” ” A Living Bill of Human Rights” کو اردو کا جامہ پہنایا۔ اس کتاب کا پیش لفظ جناب جسٹس ایس اے رحمان نے تحریر کیا تھا۔ اس کتاب کے بارے میں خضر تمیمی کے نام ایک خط میں ڈاکٹر محمد باقر نے اس طرح اظہار خیال کیا ہے:
آپ کل ڈگلس کی کتاب کا ترجمہ عنایت فرما گئے تھے۔ میں نے گھر آتے ہی اسے پڑھا۔ پہلے تو ڈاکٹر جسٹس ایس۔اے۔ رحمن کے مقدمہ کو بار بار پڑھ کر بیش از بیش تر لذت حاصل کی۔ یہ جامعیت فلسفہ جمہوریت کی خوب صورت توضیح اور زبان کے اعتبار سے اردو میں ایک نادر تخلیق ہے ۔ میں نے ان کی خدمت میں ہدیہ تبریک بھی پیش کیا ہے۔
اس کے بعد آپ کا کیا ہوا ترجمہ دیکھا تو طبیعت بشاش ہو گئی۔ قانونی زبان کی انگریزی کو آپ نے جس کام یابی سے اردو کے شیشے میں اتارا ہے غالباً یہ اس قسم کی پہلی بار آور کوشش ہے ۔ اگر ڈگلس اردو سمجھ سکتا تو جس طرح جانسن نے ساربان کو امریکا کی سیر کرائی تھی ڈگلس آپ کو امریکا کی عدالتوں کی سیر ضرور کراتا ۔ (لیکن اس طرح نہیں جس طرح آج کل مجھے عدالتوں کی سیر کرنا پڑتی ہے۔ آپ یہ بات اپنے تک ہی محفوظ رکھیں)۔
بہر صورت بین الاقوامی اہمیت کے موضوعات پر اردو میں آپ کی تالیف ایک قابل قدر اضافہ ہے اور اس پر ہم سب فخر کر سکتے ہیں ۔
محمد باقر
1965,اکتوبر15
انسانی حقوق و آزادی سے اسی محبت کا شاخسانہ تھا کہ جب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے جمہوریت کی شمع روشن کرنا چاہی تو خضر تمیمی اس کارواں میں شریک ہو گئے اور ہر آزمائش میں ثابت قدم رہے۔ خضر تیمی جیسے لوگ زندگی کے صحرا کو اپنی محنت کے چشموں سے سیراب کرتے ہیں۔ ان کا وجود ہمارے لئے کسی مشعل راہ سے کم نہیں۔ لیکن ان کی کہانی کا المناک پہلو یہ ہے کہ اہل وطن اور اہل زمانہ کے ساتھ ساتھ ان کے عزیز واقارب بھی ان کی میراث کو فراموش کر چکے ہیں۔ ان کی باقیات میں سے چند منتشر نظموں کے سوا اب ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ کس قدر متاع ہائے بیش قیمت ہم نے ماضی کے زنداں میں دفن کر دیں۔ چنیوٹ میں خضر تمیمی کی زندگی کے پریشاں اوراق ڈھونڈنے کے بعد جب میں لاہور میں ان کے فرزند کے گھر پہنچا تو دروازے پر ابھی تک میاں مولا بخش خضر تمیمی سینیئر ایڈووکیٹ لاہور ہائی کورٹ کے نام کی تختی آویزاں تھی۔ میرے ہم سفر کہنے لگے کہ جو لوگ اپنی ذات کی شناخت کے لئے خود حوالوں کے مرہون منت ہوں ان کے آستاں سے فکر نو کا سراغ کیا ملے گا۔
ہم نے واپسی کا ارداہ کیا تو خیال آیا کہ دستک دیئے بغیر پلٹ آنے کو بھی جست جو کی ناپختگی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ذراسی ردو کر کے بعد دروازہ کھٹکھٹایا۔ ان کے بیٹے سے ملاقات ہوئی تو بڑی خندہ پیشانی سے ملے لیکن یہ جان کر طبیعت بجھ گئی کہ وہ اپنے عظیم والد کے علمی وادبی مقام کے متعلق صرف اتنا جانتے ہیں کہ وہ شعر کہتے تھے، جنھیں قبول عام کی سند حاصل ہوتی تھی ۔ جب ان سے ان کے غیر مطبوعہ کلام قلمی نسخوں یا دیگر دستاویزات کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے ہمارے سامنے ہی بوسیدہ سی ایک الماری کی تلاشی کے بعد ادھر ادھر ڈھونڈا اور کچھ نہ ملنے پر افسوس کا اظہار کیا۔ اتنے میں ان کا ایک عزیز کہیں سے ایک کرم خوردہ کتاب اٹھا لایا جس کے تقریبا اسی فیصد اور اق دیمک چاٹ چکی تھی ۔ کتاب کا گرد پوش اور سرورق مکمل طور پر بوسیدگی کا شکار ہو چکا تھا۔ صرف پانچ الفاظ اس یلغار سے محفوظ تھے۔ وہ الفاظ تھے بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ ” "Rights– نے ان الفاظ کو غور سے دیکھا تو ان کے ساتھ ایک اور تحریر کندہ نظر آئی جو شاید صاحب کتاب کی نظروں سے اوجھل تھی۔ لکھا تھا اگر ہم اپنی میراث کو اسی طرح دیمک کی نذر کرتے رہے تو انسانی حقوق کا تعین تو دور کی بات ہے ہم اپنے وجود کا تحفظ بھی نہ کر سکیں گئے ۔۔۔۔۔ میرا جی چاہا کہ میں مولا بخش خضر تمیمی کے نام کی تختی اس گھر کے مکینوں سے چھین کر اپنی قومی امنگوں کے اس مرقد پر رکھ دوں جہاں اس طرح کی —– A Living Bill of Human” میں
اور بھی بہت سی تختیاں ہمارے زوال کی کہانی سنارہی ہیں۔
چندی دونوں کے بعد جناب خضر تمیمی کے دوسرے صاحبزادے کو جب ہماری جست جو کی خبر ہوئی تو وہ کشاں کشاں چلے آئے اور اپنے والد کی کچھ نظمیں اور تصاویر مرحمت فرما ئیں۔ انھوں نے اپنے والد کے متعلق بتایا کہ وطنز و مزاح ان کی تحریروں اور گفت گو کا ایک اہم پہلو تھا لیکن عام زندگی میں وہ بے حد سنجیدہ اور متین تھے۔ تمام عمر سگریٹ کے قریب نہ پھٹکے حالانکہ ” چلم کا مرثیہ” کے نام سے ان کی ایک نظم کو خوب شہرت حاصل ہوئی۔ بے حد شفیق، ملنسار اور با اخلاق تھے۔ غصے کے قریب بھی نہ پھینکتے۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی سے روحانی عقیدت تھی جس کے طفیل دوبار بغداد شریف حاضر ہو کر شاد کام ہوئے۔ اگر کوئی موکل حضرت غوث اعظم کا نام بھی لے لیتا تو اس سے فیس قبول نہ کرتے ۔ دراصل وکالت کو انھوں نے کبھی بھی دولت کے حصول کا ذریعہ نہ بنایا۔ تو کل اور استغناء کی بدولت حرص زر سے بہت دور رہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام عمر سائیکل پہ سواری کی اور کرائے کے مکان میں سلسلہ روز وشب کا
اختام ہوا۔
لاہورہی میں ایک اور بزرگ حافظ برکت علی قادری ہو گزرے ہیں جن کا مزار لوہاری گیٹ میں واقع ہے۔ وہ تمیمی صاحب کے مرشد تھے۔ ان کی ذات بابرکات سے خوشہ چینی کے لئے وہ اکثر ان کے در نیاز پر حاضر ہوتے۔ فقیروں اور درویشوں کی صحبت سے انھیں فقر اور تصوف کی وہ دولت میسر آئی جس کی بدولت انھوں نے گمان کے تاریک راستوں یہ یقین کے چراغ روشن کئے گیسوئے ہستی کو سنوارا اور بے جہتی و بے ہمتی کے عالم میں زندگی کی اصل راہوں پر گامزن رہے۔ اسی کا فیض تھا کہ ان کی زبان کو بھی تاثر عطا ہوا جس کا اندازہ ذیل کے ایک دل چسپ واقعہ سے ہوتا ہے۔ ان کے فرزند کے مطابق خضر صاحب نے ان کی شادی کے موقع پر دعوت ناموں پر مروجہ عبارت کی بجائے یہ اشعار لکھ کر بھجوائے تھے۔
یاوری بخت نے فرمائی ہے ایک عمر کے بعد وسعد
شکر ہے آئی ہیں پھر ساعتیں بابرکت وسعد
حق نے دکھلائی ہے فرزندوں کی مجھ کو شادی
لطف قادر سے ہے بارانِ مبارک بادی
آئے رونق محفل کو دوبالا کیجئے
فخر سے سر کو میرے عرش سے بالا کیجئے
خانہ مور میں جس طرح سلیمان آئے
اس طرح لوگ کہیں خضر کے مہمان آئے
دوسرے شعر میں جس طرح باران مبارک کا ذکر کیا گیا قدرت حق نے اس آرزو کو شرف قبولیت بخشا۔ کہتے ہیں شادی کے روز اس جوش سے بادل بر سے کہ جل تھل ہو گیا اور لوگ حیرت سے ان کے اشعار کو دہرانے لگے۔
خضر تمیمی نے لاہور میں ایک مصروف زندگی گزاری ۔ ادبی اور سماجی تقریبات میں بڑے اہتمام سے شریک ہوتے اور اپنی بے پایاں خوبیوں کے باوصف ہر محفل کی روح رواں بن جاتے۔ ان ادبی محفلوں کی بو باس ابھی تک لاہور کی نگینہ بیکری اور اس کے قرب وجوار میں بکھری ہوئی ہے جہاں مولانا چراغ حسن حسرت مولانا صلاح الدین اور دیگر احباب کی معیت میں علمی اور تنقیدی نشستیں منعقد ہوا کرتی تھیں ۔ جناب م ش ۔ رفتگان کی اس یاد کود ہراتے ہوئے رقم طراز ہیں :
"مولانا بخش خضر تمیمی جب محکمہ پنچایت سے منسلک تھے (تو) وہ حمید نظامی مرحوم اور میں بیڈن روڈ کی اس بلڈنگ میں جہاں ان دنوں ہفتہ وار ” نوائے وقت“ کا دفتر تھا اکٹھے رہتے تھے ۔ مرحوم قلمی نام سے نظم میں یونینسٹ پارٹی کے بخیے ادھیڑا کرتے تھے۔ ان دنوں شام کو روزانہ چائے کی میز پر محفل جمتی تھی جو مولا بخش خضر تمیمی مرحوم کے لطیفوں سے کشت زعفران بنی رہتی۔ مرحوم پنجابی زبان میں جھنگ کی میٹھی رسیلی بولی میں گفت گو کرتے تو ان کے منہ سے پھول جھڑتے تھے۔
شہر لا ہور کی ان بارونق محفلوں اور اپنی عدیم الفرصتی کے باوجود انھوں نے اپنے آبائی شہر کو بھی فراموش نہ کیا اور باقاعدگی سے چنیوٹ جاتے رہے۔ پرانے احباب اور عزیز واقارب کے دکھ درد اور خوشیوں میں شریک ہونا باعث سعادت خیال کرتے تھے۔ چنیوٹ سے ان کی محبت مرتے دم تک برقرار رہی یہاں تک کہ پس مرگ یہیں سپردخاک ہوئے ۔ لیکن اس شہر کی کوئی گلی کوئی سڑک یا کوئی ادارہ ان کے نام سے منسوب نہیں۔ آبائے شہر کی اس بے اعتنائی یہ ان کی روح آج بھی گلہ مند ہوگی ۔ وقت کے معبد میں اس عہد نے کتنی ہی روایتوں کو قربان کر دیا ہے۔ ایک وہ زمانہ تھا جب صاحبان علم وفن کی یاد میں اہل وطن دیدہ و دل نثار کرتے تھے۔ ایک یہ زمانہ ہے کہ شناسائی کے زعم سے ہی منحرف ہیں کہیں دور سے آوازخصر سنائی دیتی ہے:
تم دیر سے مانو گے ہم نے تو یہ مانا ہے
وہ اور زمانہ تھا یہ اور زمانہ ہے
لیکن زمانے کے تیور خواہ کچھ بھی ہوں خضر تیمی اسم باسمی ہیں۔ ان کی مزاحیہ شاعری اور شگفتہ انداز نے انھیں حیات خضر سے سرفراز کر دیا ہے۔ جب تک حرف وخن سے ہمارا رشتہ استوار رہے گا وہ ہمارے درمیان موجودرہیں گے ۔ ہنستے مسکراتے تمھتے بکھیر تے اور بزعم خود بڑے لوگوں کی فصیل نخوت میں اپنے کوڈ ورڈز سے شگاف ڈالتے ہوئے ۔ مشتاق احمد یوسفی نے کیا خوب کہا ہے کہ زرزن زمین اور زبان کی دنیا یک رخوں، ایک چشموں کی دنیا ہے۔ مگر متلی کی سیکڑوں آنکھیں ہوتی ہیں اور وہ ان سب کی مجموعی مدد سے دیکھتی ہے۔ شگفتہ نگار بھی اپنے پورے وجود سے سب کچھ دیکھتا سنتا رہتا اور سہا رتا چلا جاتا ہے اور فضا میں اپنے سارے رنگ بکھیر کے کسی نئے افق کسی اور شفق کی تلاش میں گم ہو جاتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب (شہرِ لبِ دریا) سے لیا گیا ہے۔