آگہی ایک دائمی دکھ ہے اس کی صلیب پر تمام عمرلٹکنا پڑتا ہے ۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو مولا نا جعفر قاسمی سے میری آخری ملاقات کے دوران ان کی زبان سے ادا ہوئے ۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ الفاظ کس پس منظر میں کہے گئے لیکن ان الفاظ میں پوشیدہ سچائی اور مولانا جعفر قاسمی کی ذات میں بڑا گہرا ربط ہے جس کی حقیقت تک بہت کم لوگوں کی رسائی ہو سکی ۔ خوش خصال و خوش جمال مولانا غلام جعفر قاسمی کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جو چنیوٹ کی آبرو تھیں۔ علم و دانش، متانت و سنجیدگی ، عجز وانکسار، خوش فکری و خوش نوائی جیسی خصوصیات ان کی شخصیت میں بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ تجر علمی اور وسعت مطالعہ میں وہ چنیوٹ کی عصر حاضر کی سب سے ممتاز شخصیت تھے۔ اردو انگریزی، عربی اور فارسی میں کمال دسترس کے ساتھ انھیں جدید وقدیم علوم تفسیر و حدیث فقه وکلام تقابلِ ادیان اور شعر وادب سے خصوصی شغف تھا۔
مولانا کا تعلق چنیوٹ کے ایک معزز گھرانے سے تھا۔ ان کے مورث اعلیٰ عہد مغلیہ میں قاضی القضاة کے عہدے پر متمکن تھے۔ مرور ایام کی بدولت ان کی اپنی زندگی معاشی کسمپرسی کے عالم میں بسر ہوئی مگر اپنی خاندانی نسبت کے طفیل انھوں نے ناکامیوں، حسرتوں اور دنیائے حوادث کے مدوجزر کو حو صلے اور تشکر کا جامہ پہنائے رکھا۔ جعفر قاسمی 6 دسمبر 1927ء کو چنیوٹ میں پیدا ہوئے۔ اسلامیہ ہائی سکول چنیوٹ جیسی اعلیٰ درسگاہ نے ان کے ادبی اور علمی ذوق کو پروان چڑھایا۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور سید ابولاعلیٰ مودودی کی تحریریں ابتدائے طالب علمی میں ہی پڑھ ڈالیں جنھوں نے ان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کئے اور وہ دینی رجحانات کے ساتھ ساتھ تحریر و تقریر کی لذتوں سے بھی آشنا ہو گئے۔ روانی طبع کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ سکول کے دنوں میں ہی ان کی نظمیں مقامی اخبار یاد خدا میں شائع ہونا شروع ہو گئیں۔ اس وقت تحریک پاکستان ان کا خاص موضوع تھا۔ ان کی سماجی اور ملی نظموں میں بڑی انقلابی گھن گھرج اور ولولہ پایا جاتا ہے۔ جیسے جذبات کا ایک طوفان ہے جس کے آگے مصلحت کی کوئی دیوار ٹھیرتی نظر نہیں آتی ۔
جو بن کے برق جلائے نہ خرمن باطل
ہے وجہ تنگ وہ طرزِ فغاں بدل ڈالو
اسیر خواہشِ اہل چمن ہو فصل بہار
تہ رنگ کہنہ باغ جہاں بدل ڈالو
نیا سفینہ، نیا بحر، ناخدا بھی نیا
ابھی پرانے ہیں کیوں بادباں بدل ڈالو
نیا نظام کرو اس جہاں میں رہنے کا
نظام کہنہ دورِ زماں بدل ڈالو
نہ ہو جو وسعت کونین میں سکوں حاصل
حدود وسعت کون ومکاں بدل ڈالو
غلام جعفر قاسمی
متعلم جماعت دہم
(یاد خدا جنوری 1945ء)
لیکن یہ اوائل عمر کی بے فکری اور جوش تھا اس کے بعد وقت کے جبر اور حالات کے تقاضوں نے ان کا رخ
کسی اور طرف موڑ دیا:
وہ قاسمی جو سرکش وبے باک تھا بہت
سنتے ہیں آج بندہ پیر مغاں ہوا
جذبات کے تلاطم میں ٹھیراؤ آ گیا اور شاعری کے سوتے خشک ہو گئے ۔ لیکن انھی کے بقول باسی کڑھی میں کبھی کبھار ابال البتہ ضرور آتا رہا۔ قیام انگلستان کے دنوں کا یہ شعر وہ اکثر گنگنایا کرتے:
دعوی ایماں کیا کرتے ہو اکثر قاسمی
اور ایماں نے اگر کوئی تقاضا کر دیا
قاسمی صاحب نے عمر کا ایک حصہ انگلستان میں بسر کیا۔ ان کا ارادہ وہاں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا تھا۔ اگر وہ قانون کے پیشے سے منسلک ہو جاتے تو اپنے مسحور کن پیرائیہ اظہار اور دل کش شخصیت کی بدولت یقیناً ایک ممتاز مقام حاصل کرتے لیکن مالی مشکلات نے انھیں اس کی اجازت نہ دی اور وہ عاشق بٹالوی کے ہمراہ بی بی سی کی اردو سروس میں بیرونی براڈ کاسٹر کی حیثیت سے منسلک ہو گئے ۔ قاسمی صاحب کا پروگرام ” صلائے عام بہت مقبول ہوا۔ اس پروگرام میں منتخب موضوعات پر مہمان مقررا ظہار خیال کرتے تھے۔ ن۔ م۔ راشد، میاں بشیر احمد، مولانا ابوالحسن ندوی ، فیض احمد فیض ، ممتاز حسن، بیگم شائسته اکرام اللہ نسیم احمد، ڈاکٹر رشید جالندھری، کلیم صدیقی، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر عبادت بریلوی، راجہ حسن اختر، سید امجد حسین ، نقی احمد سید ضیاء جالندھری، بیگم روح افزا حیدر، ڈاکٹر رالف رسل، مولانا ظفر احمد انصاری ، ابن انشاء اور عاشق حسین بٹالوی جیسی علم دوست شخصیات اس پروگرام میں حصہ لیتی رہیں اے۔
یورپ کے قیام نے قاسمی صاحب کے ذہنی اور فکری افق کو بے حد وسیع کیا۔ علمی حلقوں کی صحبت اور مطالعہ کے بے شمار مواقع میسر آئے اور وہ مادیت پرست ماحول کے رد عمل کے طور پر تصوف کی راہ پر چل کھڑے ہوئے۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ دیار فرنگ میں جہاں الغزالی کی کیمیائے سعادت، ابن عربی کی فصوح الحکم اور جلال الدین رومی کی فیہ مافیہ میری محسن کتابیں رہیں وہاں شیخ عبد القادر محی الدین جیلانی کی فتوح الغیب میری شب وروز کی مونس ثابت ہوئی۔ ان سب نے کلامِ پاک اور سنت نبویہ سے میرا رشتہ مستحکم کیا ہے۔ میں تصوف کی نعمت بے بہا سے بہرہ ور ہوا اور مجھے قرآن پاک کی بھر پور تلاوت کی توفیق نصیب ہوئی۔ گویا لندن کی نامہربان فضاؤں میں بھی آداب سحر خیزی ان کے ہمرکاب رہے۔ ایک مدت قیام کے بعد دیار غیر سے ان کی طبیعت اچاٹ ہوئی تو اسلامی ممالک کا سفر اختیار کیا۔ دوران سفر عراق، مصر اور اردن کی جلیل القدر شخصیات سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ کئی جگہ زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ یہ بھی نصیب کی بات ہے کہ ظاہری علوم کی گہرائی تک رسائی کے لئے غوطہ زن ہوئے اور باطنی علم و عرفان کا خزانہ میسر آگیا۔
اس نعمت غیر مترقبہ کے طفیل سلسلہ قادریہ کے شیخ طریقت حضرت عیسی نورالدین شاذلی سے بیعت ہوئے اور اکتساب فیض کے بعد حضرت عیسی نورالدین کے خلیفہ ڈاکٹر ابو بکر سراج الدین (ڈاکٹر مارٹن لنگز ) سے بھی تعلق قائم ہو گیا۔ بالآخر سترہ برس یورپ اور اسلامی دنیا کی سیر و سیاحت اور تحصیل علم میں صرف کرنے کے بعد پاکستان واپس لوٹ آئے۔
شغل مے میں مزا ضرور آیا
ترک مے میں سوا سرور آیا
لطف بزم وطن بھلا نہ سکا
قاسمی کو وطن سےدور آیا
چنیوٹ میں ان کی رہائش قلعہ ریختی کے زیر سایہ اس قدیم ، شکستہ حال آبائی مکان میں تھی جو کبھی مغلیہ حکومت کے قاضی القضاۃ کی آماجگاہ تھی۔ اس فقیرانہ گھر کے ایک حجرہ کو ان سے خاص نسبت تھی ۔ اس حجرہ مبارکہ میں ان کے مورث اعلیٰ قاضی غلام محی الدین کے مرشد رات بھر عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔ سلسلہ قادریہ کے یہ بزرگ اپنی طویل زلفیں چھت سے لٹکی ایک رسی سے باندھ لیتے تا کہ غنودگی کی صورت میں لگنے والا جھٹکا نھیں پھر سے بیدار کر دے۔ قاسمی صاحب اپنے ہاں آنے والے بڑے بڑے عظیم المرتبت مہمانوں کو اس حجرہ کی مخصوص فرشی نشست پر بٹھا کر بڑی مسرت حاصل کرتے تھے۔ راجہ صاحب محمود آباد کے ساتھ لندن کے زمانہ کی دوستی تھی۔ جب راجہ صاحب پاکستان آئے تو ذاتی درویشی کے باوصف اونچے طبقے کی میزبانی سے مشرف ہوئے مگر انھوں نے جعفر قاسمی صاحب کو محلہ ریختی چنیوٹ میں جاؤ ھونڈا جہاں وہ سترھویں صدی عیسوی کے قدیمی مکان میں اپنے اجداد کے تعمیر کردہ حجرے کے آس پاس ذکر و فکر میں مشغول رہتے تھے ۔ پاکستان میں سلسلہ علوی شاذلی کے مقدم کی حیثیت سے انھوں نے اپنے تاریخی گھر کے اس حجرے میں بڑی قابل ذکر شخصیات کی میز بانی کا شرف حاصل کیا اور کئی ایک گم کردہ راہ مسافروں کو یہیں سے اپنی منزل کا سراغ ملا۔
محی الدین ابن عربی (638ء) کے افکار سے روشن سلسلہ شاذلیہ کے ایک اور پیروکار اور اس عہد کی نابغہ روز گار شخصیت سراج منیر اور ان کے بہنوئی سہیل عمر جب کسی روحانی مسلک کے متلاشی تھے تو وہ بھی در بدر کی خاک چھانتے ہوئے ایک روز مولانا جعفر قاسمی کے آبائی گھر میں قائم اس قدیم قادری حجرے تک پہنچ گئے اور یہیں بیعت ہوئے ۔ ان دونوں حضرات کی علمی وروحانی تربیت میں مولانا جعفر قاسمی کا بہت اہم کردار ہے۔ سراج منیر کی اہلیہ محترمہ عطیہ سراج منیر بھتی ہیں کہ 1983ء میں وہ سراج منیر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد سلسلہ علوی شاذلی کی ایک حقیر فقیرہ کی حیثیت سے مولانا جعفر قاسمی کے ہاتھ پر اسی قادری حجرے میں بیعت ہوئیں اور یہاں خلوت نشین رہیں۔ ان کے مطابق:
اس حجرے کی اندرونی زندگی میں ایک ناقابل بیان روحانی کیف وسکون ہے جو یقیناً مولانا قاسمی الشاذلی کے دیندار اور راسخ العقیدہ آباء اور سلسلہ قادریہ کے فقراء کے شبانہ روز اور اد و اذکار اور روحانی ریاضتوں کے ثمرات میں سے ہے۔ تقریبا ایک سو تیس سال پیشتر قائم کئے گئے مٹی کے اس قادریہ میں اور ادواذکار کے زیر و بم پر اسم ذات کی وسعتیں سانس لیتی اور انسانی روح ان وسعتوں میں معدوم ہوتی دکھائی دیتی۔ اسی حجرہ قادریہ میں بارہا جعفر قاسمی کی امامت میں فرض نماز ادا کی ان کی غنایت سے بھر پورشن میں شریک ذکر رہے اور یہی وہ قادری حجرہ تھا جہاں ہم نے ایک درویش بے کلاہ سے حدیث دل کی تغیر نکتہ بہ نکتہ ہو بہ ہو پڑھی اور اپنی روح کی آگہی حاصل کی۔
اس تاریخی گھر ، اس حجرے اور قاسمی صاحب کی زندگی میں ہلکی سی مماثلت بھی پائی جاتی ہے۔ کئی سو سال پرانا یہ گھر علم و ادب اور زہد و عبادت کی روایات کا گہوارہ ہے اور صدیوں پرانی روایات کی یہ امانت قائمی صاحب کے سینہ میں بھی ایمان کی طرح محفوظ تھی۔ اس گھر کی خستہ حالت اس امر کی غماز ہے کہ ہم اپنی میراث سے کس درجہ غافل رہتے ہیں۔ قاسمی صاحب سے ہمارا سلوک بھی اسی بے تو جہی اور لا پرواہی کا حامل تھا۔ جس طرح یہ قدیم گھر اپنے ارد گرد نو تعمیر شدہ عمارات میں گھر امنفرد اور ممتاز نظر آتا ہے وہی انفرادیت اور امتیاز قاسمی صاحب کی ذات کا بھی حصہ تھا۔ نئے زمانے اور نئی اقدار کے پروردہ لوگوں میں وہ پرانی تہذیب اور وضع داری کے پاسدار تھے۔ قاسمی صاحب عمر طبعی گزار کے رخصت ہو گئے یہ گھر بھی کچھ ہی عرصہ میں زمین بوس ہو جائے گا۔ ایک کہانی کا اختتام ہوا دوسری مٹنے کو ہے۔ وقت کی صراحی میں حوادث روز و شب قطرہ قطرہ جمع ہورہے ہیں۔
قامی صاحب بڑے متنوع انسان تھے۔ وہ زاہد خشک ہی نہیں بل کہ بڑی پر بہار اور دل آویز شخصیت کے مالک تھے۔ قلب و نظر کے توازن نے ان کی ذات کو بڑی جلا بخشی تھی۔ زبان وادب کا شہسوار ہونے کی حیثیت سے انھیں گفت گو کا خوب ملکہ حاصل تھا۔ ان کی شیریں بیانی اور ابریشمی لیجے کے طلسم میں بڑے بڑے اہل علم کھو جایا کرتے تھے۔ سول سروسز اکیڈیمی اور نیپا (NIPA) لاہور میں ان کے عالمانہ خطبات کی ایک عرصہ دھوم مچی رہی۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے مذہبی پروگراموں میں انھوں نے بطور کمپیئر اور مقرر مختلف علوم اور زبانوں پر اپنی دسترس کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ فہم القرآن کے عنوان سے دیئے گئے یہ خطبات سیرت نبوی اور قرآنی تعلیمات کا مکمل احاطہ کرتے تھے۔ ایک تقریر کے دوران انھوں نے سیرت رسول کے حوالہ سے اس قدر پر کشش گفت گوئی کہ حاضرین عش عش کر اٹھے ۔ گفت گو اتنی لمبی ہوگئی کہ پروگرام کے پروڈیوسر کہنے لگے ۔ مولانا آپ نے مجھے بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ سوچتا ہوں آپ کی تقریر کاٹوں گا کہاں سے !!
قاسمی صاحب بے حد دلنشین صوتی آہنگ کے مالک تھے ان کی آواز موضوعات قرآنی پر گفت گو کرتے وقت ادائیگی ، طرز تکلم اور صوتیات کی ساری دلآویز اداؤں سے منور ہوتی تھی جو تخلیق کا ایک انوکھا رنگ تھا۔ بلاشبہ وہ پیرائیہ اظہار اور سیمیں سکنی کی اقلیم کے شہزادے تھے۔ جعفر قاسمی کے ایک دیرینہ کرم فرما مسعود کھدر پوش متعجب ہو کر بے ساختہ کہ اٹھتے کہ قاسمی صاحب آپ کی انگریزی سن کر انسان حیرت کا مجسمہ بن جاتا ہے۔ آپ اس زبان کے ضمیر سے گفت گو کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں ہے مختلف ماہناموں ، ہفت روزوں اور روزناموں میں ان کے علمی وتحقیقی مضامین اور رپورتاژ با قاعدگی سے چھپتے تھے۔ جن میں پاکستان ٹائمنز ڈان’ نوائے وقت جنگ امروز آف دی ریکارڈ مشرق ندا پاکستان اردو د ڈائجسٹ، قومی ڈائجسٹ اور صوت الاسلام وغیرہ شامل ہیں۔ انھوں نے کالم اور شخصیت نگاری میں بھی اپنا سکہ جمایا۔ کچھ متنازعہ اور سخن گسترانہ خیالات کی وجہ سے ان کالموں پر سخت تنقید بھی ہوئی۔ اکابر شکنی Stalwart Bashing کی تہمت کے سزاوار ہوئے سے انھیں جو کا بادشاہ کہا گیا اور ان کی نیک نیتی پر بھی شک کیا گیا جس کے جواب میں انھوں نے جو کہا وہ اگر واقعتا ان کا شطح حیات اور زادراہ تھا تو اعتراض کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ وہ کہتے ہیں:
” ہم سب اللہ تعالیٰ کی شان غفاری و ستاری کے طفیل عزت کی زندگی گزار رہے ہیں ورنہ ہم میں سے ہر شخص کی زندگی میں کوئی نہ کوئی Skeleton in the cupboard ہے۔ اگر رحمت خداوندی ہمارے شامل حال نہ ہو تو ہم کہیں کے نہ رہیں۔ اس کیفیت کو ایک انگریز مفکر اور بندہ خدا نے بیٹریوں میں مقید ایک قیدی کو دیکھ کر بیان کیا تھا۔
"There but for the grace of God go I”
اگر رحمت خداوندی مجھے ڈھانپ نہ لیتی تو اس شخص کی جگہ میں پابند سلاسل جا رہا ہوتا کسی پر زیادتی اپنے ساتھ زیادتی ہے کسی سے حسن سلوک اپنے ساتھ حسن سلوک ہے ۔ ان احسنم لا نفسكم وان استتم قلمها “ میں یہی حکمت بطریق احسن بیان فرمائی گئی ہے۔ راقم الحروف کا مقصد کسی کی عیب جوئی نہیں، کسی کی پگڑی اچھالنا نہیں۔ اگر ایسا ہوا ہے تو اس پر ندامت ہے۔ ظرافت مومنین کے لئے فجر ممنوعہ نہیں ہے۔ بچوں کی طرح سادگی، خوش فکری خوش کلامی اور سینہ بے کینہ رکھنا عین روحانیت ہے۔ تصوف کیا ہے۔ وضع الاشیاء فی مواضعہا۔ چیزوں کو ان کی صحیح جگہ پر رکھنا۔ شگفتہ نگاری بھی اس ضمن میں آئے گی۔ ہاں جہاں دانستہ یا نادانستہ ابتدال کا رنگ آئے منع فرما دیا جائے۔ بذلہ سنجی ممنوع نہیں ۔ فرزدق شعرائے عرب و اسلام میں بہت عالی مقام شاعر ہوا ہے۔ وہ آل رسول مقبول کا مدح خواں اور منقبت گو تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ بذلہ سنج بھی، بقول مولانا ظفر علی خان:
شاعری میں بذلہ سنجی ہے مرا انداز خاص
زندہ میرے نام سے نام فرزدق ہو گیا
ہم نے یہی چیز اردو نثر میں کرنا چاہی اور بس!
(ندا۔ 20 جون 1990ء)
اس میں کوئی شک نہیں کہ قاسمی صاحب کی شخصیت میں کئی ایک تضادات بھی تھے۔ لیکن یہ تضاد ہمیشہ ان کی شخصیت کی جامعیت اور رنگینی میں اضافہ کا موجب بنے ۔ کبھی تو وہ اپنے فقر اور استغناء کی بدولت نا قابل بیان کی کیفیت کے حامل تاثر کو جنم دیتے اور کبھی ایک عام دنیا دار انسان کی طرح نظر آتے جو آلائش زمانہ میں الجھ کر اپنے تقدس کو مجروح کر لیتا ہے۔ زندگی کا یہ کھیل ہی ایسا ہے یہاں آرزوکو رسوائی کی فصیل عبور کرنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ خواہشیں حسرتوں میں اور امید میں مایوسیوں میں ڈھلنے لگیں تو تماشائی بھی تماشا بنے لگتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انھوں اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں سے کما حقہ، انصاف نہیں کیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام عمر نا قدری عالم کا شکار رہے۔ عزیز واقارب کی سردمہری اور معاشی پریشانی نے انھیں ایک عجیب گھٹن کا اسیر بنا دیا جس سے وہ اپنی بھر پور شخصیت کے باوجود نجات حاصل نہ کر سکے اور ان کی حساس طبیعت کی ملا شکستگی میں اضافہ ہوتا رہا۔ زود رنج تو وہ تھے ہی اس لئے کبھی کبھار تلخ نوائی میں اعتدال کا دامن چھوڑ دیتے اور شیریں بیانی کی جگہ ان کا قلم زہرا گلنے لگتا۔
درویشانہ اور صوفیانہ اطوار کے باوجود وہ ایوانِ اقتدار میں بسنے والوں سے مراسم کے خواہاں رہتے ۔ بیورو کریسی سے ان کی گہری شناسائی رہی۔ خصوصاً فیصل آباد ڈویژن میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر متمکن افسران سے ان کی خصوصی یاد اللہ رہتی تھی۔ اس لگاؤ کے باوجود بیور کریسی کو ایک Institition کے طور پر کبھی کبھار تنقید کا نشانہ بھی بناتے تھے ۔ جیسے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ بیورو کریسی میں چونکہ سب چلتا ہے لہذا جواب دہی کے خوف اور عوامی روک ٹوک کے بغیر ہر افسر اپنے آسن پر افسر شاہی میں مگن رہتا ہے۔ افسر چاہے کھدر پوش ہو یا سیول رو (Saville Row) کے سوٹ میں ملبوس ہو افسر ہی رہتا ہے اور جہاں تک کھدر پوشی کی حقیقت کا تعلق ہے تو ایک دانشور کے یہ الفاظ نا قابل فراموش ہیں کہ یہ لوگ کھدر پہنتے ہیں مگر ریشم کے ساتھ نکاح کرتے ہیں لئے ۔ تاہم اس تنقید کے باجود انھوں نے سول بیورو کریسی اور عدلیہ سے نہ صرف قریبی روابط قائم رکھے بل کہ ان سے بڑی حد تک فیضیاب بھی ہوتے رہے۔ اس مقصد کے لئے انھیں ایسے افراد کی بے جاستایش بھی کرنا پڑتی تھی جو انسانی اوصاف کے حوالے سے کبھی بھی اس تعریف کے قابل نہ ہوتے۔ شاید یہ کسر نفسی کا ایک پہلو تھا یا پھر وقت انسان کو کبھی کبھار اس مقام پر بھی لے آتا ہے۔
سابق امریکی کونسل جنرل مسٹر رچرڈ نکی سے بھی ان کی گہری راہ و رسم تھی ۔ رچرڈ مکی کو خود بھی علوم شرقیہ سے گہرا شغف تھا۔ وہ قاسمی صاحب کو اپنا پیر و مرشد کہتا تھا۔ خدا جانے یہ امریکی وزارت خارجہ کی حکمت عملی تھی یا اس کے دلی جذبات کی اصل عکاسی ۔ قاسمی صاحب کی دعوت پر اس نے پاکستان سے روانگی سے قبل چنیوٹ کا خصوصی دورہ بھی کیا اور یہاں ایک رات بھی گزاری۔ اس کا قیام نو جوان سیاست دان علی حسن قاضی کی حویلی میں تھا۔ قاسمی صاحب نے بڑے اہتمام اور سلیقے سے امریکی مہمان کی مہمان داری کے فرائض سرانجام دیئے اور انھیں کشاں کشاں لئے پھرتے رہے۔ چنیوٹ کے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ انھیں اعلیٰ طبقے سے اپنے مراسم اور سماجی روابط کے ذریعے مرعوب کرنا چاہتے تھے۔ شاید اس میں شائبہ حقیقت بھی ہو کیونکہ ضلع جھنگ کی نیم جاگیردارانہ فضا میں جہاں زیادہ تر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کارفرما رہتا ہے وہ اپنی حسب منشابلند معاشرتی مقام حاصل نہ کر سکے۔ یہ بات ان کی انا کے لئے کسی تازیانہ سے کم نہ تھی۔ اس ستم ظریفی اور ناقدری پر ان کی الجھن قابل فہم بھی تھی ۔ شاید اسی سماجی رتبے کے حصول کے لئے وہ با اثر افراد سے اپنے تعلق کی کہانیاں مخصوص اور دل کش انداز تکلم کے ساتھ لوگوں کو سناتے ۔ جس کی وجہ سے ان کے حضور اکثر اوقات لوگوں کا تانتا بندھا رہتا۔
لیکن جن لوگوں نے انھیں قلبی اور روحانی تعلق کی نگاہ سے دیکھا ان کی رائے اس ضمن میں یکسر مختلف ہے۔ ان کے مطابق مولانا ایک با عمل صوفی اور سلف صالحین کی تصویر تھے ۔ اگر چہ طبعا بے حد حساس تھے لیکن کسی جانب سے زیادتی ہوتی تھی تو تحمل فرماتے اور عفو و درگزر سے کام لیتے ۔ رحمدلی کے سبب کسی کا دیکھ دیکھ کر طبیعت پر رقت طاری ہو جاتی اور مبتلائے درد کا درماں ڈھونڈنے کی حتی الامکان سعی فرماتے ۔ طبقہ امراء و حکام تک رسائی کی سیڑھی کو انھوں نے کبھی اپنی ذاتی اغراض اور قد کاٹھ کو بلند کرنے کے لئے استعمال نہ کیا۔ تعلقات کے یہ راستے انھوں نے ان تمام حاجت مندوں کے لئے کھلے رکھے تھے جو طلب دستگیری میں ان کے پاس آتے رہے اور کبھی نامراد نہ لوٹائے گئے ۔ ان کی فطرت کا خاص وصف حق گوئی و بے باکی تھا۔ حق دار کے حق پاسداری میں نخوت زدہ پیشانیوں کی سلوٹوں کو کبھی خاطر میں نہ لائے۔ ہمیشہ مظلوم کی دادری و غم گساری اور ظالم کی حوصلہ شکنی کی ۔ ان کا یہ انداز مہر و وفا دشمنوں کے ساتھ بھی روا تھا۔ طاقت واختیار کے باوجود انھوں نے کبھی کسی سے بدلہ نہ لیا۔ ان کے ایثار و قربانی کا ایک واقعہ ان کی اعلیٰ ظرفی اور وسعت قلبی کا ثبوت ہے۔ سراج منیر کے والد محترم مولاناسیدمحمد متین ہاشمی المیہ مشرقی پاکستان کے بعد ہجرت کر کے جب عالم کسمپرسی میں کراچی کے بعد چنیوٹ کے قریبی علاقے محمدی شریف کی دینی درسگاہ سے منسلک تھے تو اسی دوران وہ لاہور میں بہتر نوکری کی تلاش میں دیال سنگھ ریسرچ سنٹر میں ریسرچ سکالر کی نشست کے حصول کے سلسلے میں متعلقہ ادارے کے ڈائریکٹر سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے ۔ عین اسی وقت مولانا جعفر قاسمی بھی مذکورہ عہدہ کے امیدوار کی حیثیت سے موقع پر پہنچے اور مولانا متین ہاشمی کو پہلے سے امیدوار پا کر عرض مدعا کئے بغیر واپس لوٹ آئے کہ ان کے خیال میں مولانا موصوف اپنی تنگ دستی کے سبب اس بہتر نوکری کے زیادہ حق دار تھے۔
حالانکہ مولانا جعفر قاسمی بذات خود اس زمانے میں بے روزگار تھے اور دور ابتلا سے گزر رہے تھے اے۔
قامی صاحب سے جب بھی ملاقات ہوتی سوچ کے ٹھیرے ہوئے سمندر میں کتنے ہی بھنور پیدا ہو جاتے ۔ زبان و ادب، شاعری، تصوف، اخلاقیات ان سے ملاقات بیک وقت زندگی کی کئی ایک جہتوں سے روشناسی کے مترادف تھی ۔ اسٹنٹ کمشنر ہاؤس چنیوٹ میں برگد کے ایک قدیم درخت کے یچے بیٹھ کر انھوں نے مجھے کتنی ہی خوب صورت باتوں کا درس دیا۔ علم و دانش اور نیکی کی بہت سی باتیں جو زندگی کے پتے ہوئے صحرا میں ٹھنڈے میٹھے چشمے سے کم نہیں۔ اس درخت کی گھنی چھاؤں تلے کئی کئی گھنٹوں کی طویل نشستیں میری یادداشت سے کبھی محو نہ ہوں گی ۔ برگد کے بوڑھے اور عظیم درختوں تلے طالب علموں کو سچائی سے روشناس کروانا اور زندگی کی حقیقت کا درس دینا چنیوٹ کے اہل علم کی صدیوں پرانی روایت ہے۔ چنیوٹ کے پہلو میں بہتے ہوئے دریائے چناب کے کنارے برگد کے ایسے بہت سے درخت ابھی تک موجود ہیں جن کے متعلق مشہور ہے کہ ان کے نیچے بھی بدھ مذہب کی ایک قدیم درسگاہ ہوا کرتی تھی جہاں ان مہربان درختوں کے سائے تلے بیٹھ کر بدھ دانش ور علم و حکمت کے موتی بکھیر تے تھے۔ وقت کے بے رحم ہاتھوں نے ان درسگاہوں کا نشان تک مٹادیا لیکن اس زرخیز مٹی نے صد ہا برس کے بعد جعفر قاسمی جیسی کئی ایک علم دوست شخصیات کو جنم دیا ہے جو اسی قدیم روایت کا تسلسل معلوم ہوتی ہیں۔
انھی عظیم روایات کا امین ہونے کی حیثیت سے مولانا نے کئی ایک علمی، ادبی اور دینی موضوعات پر بہت خوب صورت تحریر میں رقم کی ہیں۔ تصوف کے موضوع پر ” حضرت بابا فرید ۔ حیات و آثار کے نام سے انگریزی میں لکھی گئی ایک کتاب خصوصی طور پر قابل ذکر ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے حضرت بابا فرید شکر گنج رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت، تعلیمات اور شاعری کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ تصوف کے آغاز وارتقاء کو بھی موضوع بحث بنایا۔ جس سے ان کی اس میدان میں دسترس کا اندازہ ہوتا ہے۔ جب انھیں یہ علم ہوا کہ میرے بیٹے جنید فرید کا نام حضرت جنید بغدادی اور بابا فرید شکر گنج ” کے اسمائے گرامی کی مناسبت سے رکھا گیا ہے تو وہ ان کی خصوصی شفقت اور محبت کا مرکز بن گیا۔ اسے پیار کرتے ہوئے کہتے کہ یہ نام جلال اور جمال جیسے مختلف اوصاف کا حسین امتزاج ہے۔ صوفیانہ رجحانات کے پیش نظر ان کی ذات میں انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ عجز ذات کا یہ عالم تھا کہ میں جب بھی ان سے اپنے لئے دعا کی درخواست کرتا تو وہ ہر بار یہی فرماتے کہ انصاف پسند اور عدل کرنے والے حاکم سے بڑھ کر مستجاب الدعا اور کوئی نہیں ہوتا۔ ان کے اس جملے کا ہر حرف کسی لازوال خوشبو کی طرح آج بھی میرے سینے میں محفوظ ہے۔
ادیان عالم پر ان کی گہری نظر تھی۔ برصغیر کے مذاہب اور یہاں مروجہ مذہبی رجحانات پر اکثر گفت گو کرتے ۔ چنیوٹ کی مبینہ بدھ درس گاہ اور یہاں پائے جانے والے بدھ مت کے آثار پر کسی جانب سے تحقیقی جست جو کے خواہش مند تھے۔ لیکن بہت سی اور خواہشوں کی طرح یہ خواہش بھی ان کے ہمراہ تہہ خاک جابسی ہے۔
زندگی کے آخری دو سال قاسمی صاحب نے کچھ معاشی پریشانیوں کی بدولت فیصل آباد میں گزارے۔ یہ وقت بڑے کرب اور ابتلا کا تھا۔ اس دوران بھی چنیوٹ کی کشش ان کے دل میں برابر برقرار رہی اور انھیں جب بھی موقعہ ملتا وہ یہاں چلے آتے ۔ لیکن اس شہر ستمگر نے اپنے اس فرزند کو پہچاننے سے ہمیشہ گریز کیا۔ وہ یہاں سے سردمہری اور مغائرت کے کانٹے ہی سمیٹتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کا دامن زندگی کے بوجھ سے تار تار ہو گیا اور وہ 12 اکتوبر 1991ء کو دنیا کے ہر غم سے سبکدوش ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ ان کا جسدِ خاکی مٹی تلے دفن ہے لیکن میرے کانوں میں اب بھی یاد خدا کے پچاس سالہ پرانے شمارے میں چھپی ہوئی نو عمر جعفر قاسمی کی ایک نظم کا یہ شعر جسے اس وقت شاعرانہ تعلی سے تعبیر کیا گیا ہوگا، گونجتا ہے۔
کر رہا ہوں آج یہ اعلان حق اے قاسمی
صحنِ عالم پر مثال ابر چھا سکتا ہوں میں
کون نہیں جانتا کہ کڑی دھوپ کے سفر میں کچھ لوگ سایہ ابر بہار کی طرح ہی ہوتے ہیں۔ ہماری کم نصیبی کہ ہم انھیں بہت جلد کھو دیتے ہیں۔ قاسمی صاحب بھی ہم سے روٹھ کر جاچکے ہیں لیکن ان کے جانے کے بعد چنیوٹ کے گلشن علم وادب میں جتنے بھی پھول کھلیں گے ان سب کے آئینے میں انھی کی تصویر نظر آئے گئی۔ ان کی ذات اب اس سرزمین میں مل کر یہاں کے ذرے ذرے میں دھڑکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ان کے گھر کا قدیم قادری حجرہ اب مقفل رہتا ہے۔ کواڑا اپنے مکین کی راہ تکتے ہیں۔ اس حجرے میں موجزن جذب و مستی کی فضا ابھی بھی منتظر ہے کہ کچھ ہی دیر میں قاسمی صاحب کسی رہ نور د شوق کو ساتھ لئے اندر داخل ہوں اور پھر تصوف کے اسرار ورموز بے نقاب ہونے لگیں ۔
کبھی کبھی تو ایسے لگتا ہے کہ برگد کے اسی قدیم درخت کے نیچے جہاں وہ میرے کے ساتھ پہروں محو گفت گو رہتے بہت سے لوگ جمع ہیں۔ گردشِ ایام واپس لوٹ رہی ہے۔ پانچ سو سال قبل مسیح کا دور ہے چنیوٹ کی بدھ درسگاہ اپنے شباب پر ہے۔ زمین کو چھوتی ہوئی شاخوں کے درمیان گھرے برگد کے مضبوط تنوں کا سہارا لئے آگہی کی صلیب پر لٹکے جعفر قاسمی، کشتگانِ علم کے اس انبوہ کثیر کو اپنے غنائیت بھرے لہجے میں دنیا کی بے ثباتی کا درس دے رہے ہیں۔
میں دکھ اٹھا کر میرے عزیز و میں دکھ اٹھا کر
حیات کی رمز آخریں کو سمجھ گیا ہوں، تمام دکھ ہے۔
وجود دکھ ہے وجود کی یہ نمو دکھا ہے۔
حیات دکھ ہے ممات دکھ ہے۔
یہ ساری موہوم و بے نشاں کا ئنات دکھ ہے۔
یہ ہونا دکھ ہے نہ ہونا دکھ ہے۔ ثبات دکھ ہے دوام دکھ ہے۔
میرے عزیز و تمام دکھ ہے !!۔
شاید مہاتما بدھ کا یہی وہ پیغام تھا جس کے تناظر میں انھوں نے آخری بار میرے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑ کر ڈوبتے ہوئے لہجے میں کہا تھا آگہی ایک دائی دکھ ہے اس کی صلیب پر تمام عمرلٹکنا پڑتا ہے ۔ وہ خود تو موت کا جام پی کر اس دکھ سے کنارہ کر گئے لیکن اپنے بچھڑنے کا جونم اپنے چاہنے والوں کو دے گئے اس کا مداوا کون کرے گا۔ زندگی کے نصیب میں کتنے ہی ایسے پت جھڑ ہیں جو بہاروں سے مشروط نہیں۔
نوٹ: یہ مضمون ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب (شہرِ لبِ دریا) سے لیا گیا ہے۔