چینیوٹ کی شخصیات

چرخ چنیوٹی

ڈاکٹر امجد ثاقب

ہمارے  بعد  بہاروں  نے  ہم  کو  ڈھونڈا  ہے
چمن چمن کے نظاروں نے ہم کو ڈھونڈا ہے
ذرا  سی  دور  گئے تھے بھنور کی جانب ہم
تمام  عمر  کناروں  نے  ہم  کو  ڈھونڈا  ہے

قیام پاکستان کے بعد لاکھوں لوگ تبادلہ آبادی کی بدولت وطن بدر ہوئے ۔ ان میں سے اکثریت کو وقت نے بہت جلد فراموش کر دیا لیکن کچھ لوگ ماضی کے چہرے پہ ایسے نقوش چھوڑ گئے کہ آنے والا ہر لحہ ان کا عکس چوم کے آگے بڑھتا ہے۔ ایشر داس چرخ چنیوٹی کا شمار ایسے ہی منتخب افراد میں ہوتا ہے۔ چنیوٹ کا یہ شاعر خوش نو اتقسیم کے بعد عازم دتی ہو گیا لیکن اپنی یادوں کے گلاب ہمیشہ کے لئے یہیں چھوڑ گیا۔ اب وہ یہاں نہیں رہتا لیکن شہر کی گلیوں میں بکھرا ہوا اس کا بچپن اور نیم وادر بچوں سے جھانکتا ہوا دور شباب کہتا ہے کہ وہ آج بھی یہیں آباد ہے۔

چرخ چنیوٹی آسمان شعر وادب کا وہ تابندہ ستارہ ہے جسے بچپن ہی سے چنیوٹ کی ادبی فضا اور علمی شخصیات نے جلا بخشی۔ وہ چنیوٹ میں 1919ء میں پیدا ہوا۔ یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر اردو اور فارسی آنرز کے امتحانات میں نمایاں کام یابی حاصل کی ۔ 1937ء میں جب خضر تمیمی ملازمت سے مستعفی ہو کر چنیوٹ میں وکالت کرنے لگے تو چرخ نے ان کے پاس بطور منشی ملازمت اختیار کر لی۔ سارا دن قانون کی بھاری بھر کم کتب کا بوجھ اٹھاتے اور شام کو شاعری کا دیا روشن کرتے ہوئے وقت گزرنے لگا۔ گویا ان کی زندگی بھی مشق سخن اور چکی کی مشقت کا پر تو بن گئی ۔ خضر تمیمی کے ہاں شعر وادب کی جتنی بھی محفلیں منعقد ہوتیں چرخ ان میں برابر شریک رہتے ۔ خصوصاً اختر شیرانی جب بھی چنیوٹ آتے تو ان کی مہمان داری کے فرائض چرخ کو ہی سونے جاتے کیونکہ خضر تیمی تو ذوق بادہ آشامی سے محروم تھے۔ کہتے ہیں کہ اختر شیرانی جیسے رندِ جہاں کی رفاقت اور میز بانی کے باوجود چرخ نے خود کبھی شراب نہ چکھی تھی۔ اکثر ایساہوتا کہ چاند کی خوب صورت راتوں میں حسن فطرت کے متلاشی چرخ اور اختر دریائے چناب کے کنارے نکل جاتے اور پھر ان کی صحبت میں شعر ونشن کے کتنے ہی ستارے جگمگانے لگتے ۔ چرخ کا یہ شعر شاید اسی کیفیت کا غماز ہے:

چھپا رکھا تھا شب غم کی ظلمتوں نے ہمیں
تمام  رات  ستاروں  نے  ہم  کو  ڈھونڈا  ہے

خضر تمیمی کے لاہور منتقل ہوتے ہی چرخ نے بھی سرکاری ملازمت اختیار کر لی ۔ لیکن حسن و عشق کے اس مسافر کو یہ منزل زیادہ تر تک راس نہ آئی اور انھوں نے 1944ء میں سرکاری غلامی کا یہ طوق اتار دیا اور ہر ماسٹرز وائس نامی گراموفون کمپنی سے منسلک ہو گئے۔ اس کمپنی میں وہ 1952ء تک کام کرتے رہے۔ تقسیم ملک کے بعد جب چنیوٹ کا ساتھ چھوٹا تو کچھ عرصہ لکھنو میں رہے اور پھر دتی میں ذاتی کاروبار کا آغاز کیا اور وہیں مستقلاً آباد ہو گئے۔ فطرت سے محبت اور حسن پرستی کے جو پھول چرخ کی ذات میں کھلئے انھیں چنیوٹ کی زرخیز مٹی اور دریائے چناب کی رومان پرور لہروں نے سینچا تھا اور جب ان پھولوں پر شباب کا دور آیا تو وہ چنیوٹ کو خیر باد کہہ کے گنگا اور جمنا کے کنارے جاہیے۔ لیکن ان کی یادوں کے سفینے آج بھی چناب کی لہروں پر رواں دواں ہیں۔ عہد رفتہ کی اس مہک سے سرشار ہو کر خضر تمیمی نے شعر کہا تھا۔

چرخ دتی میں ہے فرحاں تو میں چنیوٹ میں شاد
ایک ہی مے سے ہیں سرشار چناب اور جمن !

چرخ چنیوٹی کو شاعر رومان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری سرزمین چنیوٹ کی خوب صورتی کی مظہر ہے جس میں حسن و شباب کی کہانی موتیوں کی طرح آویزاں ہے۔ ان کے تصورات اور احساسات میں ناقابل بیان تازگی اور شگفتگی موجزن ہے۔ ان کے افکار کے پس پردہ شباب کی جو کیفیت دھڑکتی ہوئی نظر آتی ہے اس سے روایت اور شائستگی کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کی حسن پرستی میں بوالہوس کا شائبہ تک نہیں بل کہ ایسے لطیف جذبات پنہاں ہیں جن میں بہار کی نوخیز کلیوں کی نرماہٹ شامل ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

کس درجہ خوش مذاق تھی وہ شرمگیں نظر
نظروں  سے  کھیلتی  ہوئی  دل میں اتر گئی
اس گلبدن کی جیسے نظر تھی چمن بدوش
ہر   دامن   امید   کو   پھولوں   سے   بھر  گئی
تیرے    لطیف   بدن   پر   لباس  کی    سلوٹ
نظر   نظر   کو   نظارے   کا   لطف   دیتی   ہے
بنا   کے   خود   کو   ابھرتے   شباب   کا   مرکز
ہر   اک   سے   حسنِ  تموج   کی داد لیتی ہے

روے    تاباں   پر   نقاب   زلف   لہراتی   رہی
ریشمیں چلمن سے چھین کر روشنی آتی رہی

دامن   تمھارا   چھوڑ   دوں   یہ  تم  نے  کیا  کہا
رخ   زندگی   کا   موڑ  دوں  یہ  تم   نے  کیا   کہا
غم کے، خوشی کے پیار کے فرقت کے وصل کے
سب   سلسلوں   کو   توڑ   دوں  یہ تم نے کیا کہا
جس   آئینہ   میں   رقص   کناں   ہے تمھارا عکس
اس   آئینہ   کو   توڑ   دوں   یہ  تم   نے   کیا   کہا
جس    میں   کھنک  رہی   ہیں محبت کی چوڑیاں
میں  وہ  کلائی  چھوڑ  دوں   یہ   تم   نے  کیا  کہا
جن   میں   مچل   رہا   ہے  تمھاری  نظر  کا   کیف
ان   ساغروں   کو   توڑ   دوں   یہ   تم   نے  کیا کہا

چرخ کی شاعری جس جمالیاتی فضا کو جنم دیتی ہے اس میں ان کے عہد کے سارے رنگ قوس قزح کی طرح بکھرے ہوئے ہیں مگر ان تمام رنگوں میں ایک منفر درنگ ان کی اپنی ذات کا ہے جو ان کی شاعری کو ایک مخصوص آہنگ سے نوازتا ہے۔ جس زمانے میں چرخ نے سخن سے رشتہ استوار کیا اس وقت برصغیر میں مروجہ فنی اور ادبی اقدار اپنا پیراہن تبدیل کر رہی تھیں ۔ ادب کی ندی فن کی رنگین اور گل پوش وادیوں سے نکل کر زندگی کے چٹیل میدان کی طرف رواں دواں تھی ۔ چرخ نے بھی خود کوفن برائے زندگی کی ان لہروں کے حوالے کر دیا۔ لیکن اختر شیرانی کے قرب نے ان کے اندر جس جمالیاتی حس کو بیدار کیا تھاوہ انھیں حسن پرستی اور رومانیت کے منجدھار کی طرف کھینچ کے لے گئی ۔ تاہم اس رومان بھری شاعری کے بین السطور میں کہیں کہیں عارفانہ جذبات، صوفیانہ خیالات اور اخلاقی اقدار کے گہرے شعور کا اظہار بھی ہوتا ہے۔چرخ کے فنی کمالات اور ذہنی ارتقاء کا جائزہ لیتے ہوئے بھارت کے ایک مشہور ادیب ساحر ہوشیار پوری
رقمطراز ہیں:

چرخ صاحب میدانِ ادب کے ایک پرانے شہسوار ہیں ۔ گلشن شعروسخن کی آبیاری میں ان کی عمر عزیز کی پانچ دہائیاں صرف ہوئی ہیں۔ ان کا تخلیقی سفر اس وقت شروع ہوا جب لاہور میں مولانا تاجور نجیب آبادی ایسے نام ور ناقد اور شاعر کی سرگرمیاں عروج پر تھیں اور وہاں کی ادبی فضا حفیظ جالندھری پنڈت ہری چند اختر ، احسان دانش اور اختر شیرانی کے نغموں سے سرشار و معتکف تھی۔ چرخ کے مزاج اور افتاد طبع نے اپنے لئے ایک ایسی راہ اختیار کی جو آہستہ آہستہ ایسی سرسبز و شاداب وادیوں میں لے گئی جہاں ہر طرف حد نگاہ اور حد خیال تک حسین و لطیف رنگینیاں جلوہ افروز تھیں۔ ان جلووں کے لمس سے جو تاثر ان کے ذہن و قلب پر طاری ہوا وہ اشعار کے قالب میں ڈھل کر سامنے آیا اور یہ تھا ان کی رومانی شاعری کا آغاز ۔ شاعر رومان کا یہ تخلیقی سفر جاری رہا اور وہ نہایت مستقل مزاجی سے اپنی منزل متعینہ کی جانب گامزن ہیں اور اپنے تجربات و مشاہدات سے اردو شاعری کے دامن کو سجاتے سنوارتے جاتے ہیں۔ چرخ صاحب کا مطالعہ وسیع ہے اور وہ فن شعر کے اسرار ورموز سے کما حقہ آگاہی رکھتے ہیں۔ ان کے شاعرانہ مزاج میں تشخص اور تجس کا عنصر نمایاں ہے اور وہ ہمہ وقت نئے اسلوب اور نئی زمینوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ اپنی افتاد طبع کی مجبوری کے باعث وہ جدید شاعری کو تو نہیں اپنا سکے لیکن سنگلاخ اور جدید زمینوں کو ڈھونڈ نکالنے اور پابندی فن کے ساتھ ساتھ بامعنی شعر کہنے میں وہ اپنے ہم عصروں سے کسی طور بھی پیچھے نہیں۔

چرخ نے با قاعدہ شاعری کا آغاز 1934 ء سے کیا لیکن نصف صدی کے طویل سفر کے باوجود ان کے سر چشمہ فکر کے سوتے خشک نہیں ہوئے۔ بے شمار غزلوں، نظموں اور قطعات کے علاوہ بادہ شیراز کے نام سے فارسی غزلیں بھی ان کی زبان نہی اور وسعت مطالعہ کا ثبوت ہیں۔ اسی بناء پر انھیں بسیار گو اور زودگو شاعر کے خطاب سے نوازا گیا۔ اب تک ان کے کلام کے پانچ مجموعے زیور طبع سے آراستہ ہو چکے ہیں۔ پہلا مجموعہ آہیں تقسیم ہندوستان سے قبل 1941ء میں چھپا جبکہ باقی چار مجموعے جلوہ انجم، حسن نظر حسن ادب اور حسن سخن بھارت میں اشاعت پذیر ہوئے۔ حسن نظر کا انتساب خضر تمیمی کے نام ہے جس سے خضر صاحب سے ان کی گہری عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں (1937ء تا 1941ء) خضر اور چرخ چنیوٹ کی ادبی زندگی کی رونق ہوا کرتے تھے۔ ان کی کاوشوں سے چنیوٹ اچھے خاصے ادبی مرکز کا روپ اختیار کر گیا لیکن ان دونوں کے اس شہر سے رخصت ہوتے ہی یہ ساری محفلیں خیال و خواب کی طرح اجڑ گئیں۔ 1956ء میں چرخ کے بھائی کی شادی دتی میں منعقد ہوئی تو خضر تمیمی چنیوٹ سے تحفہ کے طور پر بطور خاص یہ جذبات اپنے ہمراہ لے کر شادی میں شریک ہوئے۔

آب دینے کو اسے موج چناب آئی ہے
خلد چنیوٹ سے آیا ہے سخن کا سہرا
عندلیبانِ گلستاں کی نوا خوب سہی
اور ہی رنگ کا ہے اہل وطن کا سہرا

کہتے ہیں کہ ان اشعار میں چھپا ہوا محبت کا پیغام پاکر چرخ صاحب کی آنکھوں سے موتیوں کی وہ جھڑی لگی کہ محفل کا رنگ ہی بدل گیا۔ دتی کے کوچے بھی اور اق مصور ہیں لیکن چنیوٹ کی دلگر از یادوں نے کتنے ہی بھولے بسرے نقوش تازہ کر دیے۔ ان نقوش سے وابستہ کہانیوں نے سازِ دل کو اس انداز سے برہم کیا کہ چرخ بے اختیار پکار اٹھے ۔

وطن سے لوٹ کے آئے ہو چرخ یہ تو کہو
ہمارے وقتوں کے زہرہ جمال کیسے ہیں

چرخ نے چنیوٹ میں بھر پور زندگی گزاری تھی۔ یاد خدا اور ہم درد میں چھپنے والی غزلیں اور نظمیں اس کا مین اظہار ہیں۔ ان میں پوشیدہ عشقیہ جذبات ان کے واردات قلبی کی پوری نمائندگی کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ وہ یاد خدا اور ہم درد کی مجلس ادارت سے بھی وابستہ رہے اور ادبی اور شاعرانہ ذوق کے ساتھ ساتھ صحافت کی راہوں سے بھی آشنائی حاصل کی ہفت روزہ یاد خدا میں غزلوں اور قطعات کے علاوہ ان کے تحریر کردہ ہلکے ہلکے طر یہ مضامین بھی شائع ہوتے تھے جن میں وہ روز مرہ کے مسائل پر روشنی ڈالتے لیکن ان کی طبیعت پر غالب رومانویت کے زیر اثر یہ مضامین بھی ایک مخصوص آہنگ رکھتے تھے جس میں شوخی و ظرافت کے ساتھ ساتھ شاعرانہ انداز بھی نظر آتا ہے۔

چرخ کے حالات زندگی کی تلاش میں جب مجھے وقت پیش آئی تو خضر تیمی کے صاحبزادے کے توسط سے ان کا وتی کا ایڈریس میسر آ گیا۔ میں نے انھیں خط تحریر کیا جسے پا کر وہ خوشی سے جھوم سے گئے ۔ فوراً جواب سے نوازا۔ نصف صدی کی مسافت پر پڑے ہوئے لمحے تصویر کی طرح ان کی نگاہوں کے روبرو
آگئے، لکھتے ہیں: مکر می جناب ثاقب صاحب التسلیم و نیاز:

آپ کا نوازش نامہ موصول ہوا ۔ یاد آوری کا شکریہ۔ وطن کا نقشہ ابھر کر سامنے آگیا ہے ہمارے وقتوں کے خدا پرست راست گو سادہ لوح اور مخلص انسان سب کی تصویر سامنے آگئی ہے ۔ میری زندگی وطن کے لوگوں سے وابستہ ہے۔ مجھے سب لوگوں کا پیار حاصل تھا۔ محسنوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن خاص محسنوں کے اسمائے گرامی پیش کر رہا ہوں :

(1) علامہ خضر تمیمی، جنھوں نے پدرانہ شفقت سے نوازا۔
(2) ڈاکٹر عزیز علی ، جنھوں نے برادرانہ طور پر راہنمائی فرمائی۔
(3) سید چراغ شاہ کے صاحبزادے سید اسد شاہ سیماب اکبر آبادی۔
(4) قاضی غلام مرتضی رئیس اعظم ۔
(5) حافظ خدا بخش صغیر ( والد نذیر مجیدی) جنھوں نے میری حالات حاضرہ سے متعلق نظموں پر داد دے کر حوصلہ افزائی کی اور اخلاقی اور اصلاحی شعر کہنے کی تلقین کی۔
(6) سجاد ہاشمی۔

میں نے خضر تمیمی صاحب کے پاس مارچ 1937ء سے لے کر 1941 ء تک بطور کلرک کام کیا ہے۔ ان دنوں کا ذکر کرتے ہوئے خضر صاحب اپنے مضمون ایشر داس چرخ چنیوٹی میں لکھتے ہیں:

یہ 1937ء کا قصہ ہے کہ ایک بھولے بھالے پر خلوص نوجوان سے میری ملاقات ہوئی جو اپنی لیاقت، دیانت، شرافت اور حسن کارکردگی سے آگے چل کر ایک بلند مقام حاصل کرنے والے تھے۔ جناب ایشر داس چرخ چنیوٹی نے اسی سال اپنی تعلیم مکمل کی تھی۔ ہم دونوں نے وکالت کی گاڑی میں دو پہیوں کی طرح مل کر کام کرنا شروع کر دیا ۔ ان دنوں ہم دونوں تازه واردان بساط دل تھے اور ہمارے ذہن اس مرحلے پر تھے کہ باہر سے جو اثر بھی ملے اسے قبول کرلیں۔ میرے استاد گرامی پر وفیسر حافظ محمود شیرانی کے فرزند داؤ د جنھیں بعد میں دنیا نے اختر شیرانی کے شہرہ آفاق نام سے جانا اور پہچانا جب لاہور کے ہنگاموں سے اکتا جاتے تو منہ کا مزا بدلنے کے لیے سیدھا چنیوٹ کا رخ کرتے جہاں راقم اور جناب ایشر داس چرخ ان کے لئے چشم براہ رہے۔

خضر صاحب نے مجھے خدا پر اعتقاد رکھنے کا درس دیا اور رضاو شکر کی ہدایت کی جس پر میں نے عمل کیا اور خداوند تعالیٰ نے مجھے ہمیشہ کام یابی عطا کی۔ خضر صاحب جب 1941ء میں لاہور چلے گئے تو مجھے انھوں نے روڈ انسپکٹر بھرتی کروا دیا بعد ازاں میرے استعفیٰ دینے پر مجھے ہیڈ ماسٹر کی جگہ دلوائی اور پھر 1943ء میں اپنے پاس محکمہ پنجاب لاہور میں لے آئے جہاں میں نے ڈیڑھ سال کام کیا اور وہیں سے استعفیٰ دے کر ہر ماسٹرز وائس نامی کمپنی میں ملازم ہوا۔ خضر صاحب ہمیشہ ہمارے لئے مالی امداد کا وسیلہ بنے ۔ ”پنچائیت” میں با معاوضہ نظمیں شائع کرنے کا سلسلہ پیدا کیا۔ شمس العلماء مولانا تاجور نجیب آبادی کو کہہ کر معاوضہ کا بندوبست کیا۔ حفیظ جالندھری کو کہہ کر ہند سرکار سے اور ہری چند اختر کو کہہ کر پنجاب گورنمنٹ سے انعام دلایا۔ انھوں نے مرتے دم تک پدرانہ فرض کو نبھایا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم آسودہ حال ہیں اور تمام گلشن شگفتہ ہے۔

رضاو شکر میں گزری ہے زندگی اپنی
کسی بھی روز کسی چیز کی کمی نہ ہوئی
خلوص دل سے جو مانگا عطا کیا اس نے
میرے خدا سے کسی دن بھی دل لگی نہ ہوئی

بطور شاعر میرے دل میں اب کوئی حسرت نہیں۔ اردو شاعری نے میری زندگی کو مالی طور پر مالا مال کر دیا ہے۔ دنیائے اردو ادب میں مجھے ایک بلند مقام یعنی استاد شاعر کا احترام حاصل ہے۔ مشاہیر ادب اور نقادان سخن نے مجھے شاعر رومان کے خطاب سے نوازا ہے۔

 پینے آئے تھے شراب زندگی
ہم شرابزندگی پی کر چلے
جینے والو جس طرح چاہو جیو
ہم تو جینے کی طرح جی کر چلے
نیازکیش
چرخ چنیوٹی

چرخ چنیوٹی پاکستان کو خیر باد کہنے کے باعث یہاں کے ادبی اور عوامی حلقوں میں شہرت نہ پاسکے لیکن یہ امر باعث مسرت ہے کہ بھارت میں اردو کے اس زندہ دل اور حق گو شاعر کو قبول عام کی سند حاصل ہوئی اور انھیں زمانے کی سرد مہری اور ناقدری کا شکار نہیں ہونا پڑا ۔ پاکستان میں جولوگ چرخ کے کمال فن سے آشنا نہیں ان کے لئے خضر تمیمی کا یہ قطعہ ہی کافی ہے۔

 لے نہ ڈوبے کہیں دریائے غضب اردو کا
سب کو لازم ہے دل وجان سے ادب اردو کا
دو نہ کہیے کہ یہی ایک حسن کافی ہے
شاعری چرخ کی سرمایہ ادب اردو کا

ان کا شمار بجا طور پر ان افراد میں ہوتا ہے جن کی کمی پنجاب کے دامن فکر ونحن نے ہمیشہ محسوس کی ہے۔ صبح آزادی کے بعد چنیوٹ کے رخ پر بکھرنے والی ہر کرن نے ان کو تلاش کیا اور دریائے چناب کی ہر بے قرار موج نے انھیں صدا دی ہے۔ چنیوٹ کے کوچہ ساون سنگھ اور بیٹھک سیٹھ مول چند کے قرب و جوار سے چرخ کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ انسان رخصت بھی ہو جائیں لیکن ان کے وجود کی خوشبو لہ لحہ قریہ قریہ بھرتی رہتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ حرص و ہوا کی اس متعفن فضا میں خوشبو کے یہ جھونکے دل و جان تک سرایت نہیں کر پاتے ۔ چنیوٹ کی نئی نسل کا شاید ہی کوئی فرداب چرخ کے نام سے آشنا ہو ۔ کتنے ہی اچھے لوگوں کی طرح ان کی یاد بھی ایک مدت ہوئی طاق نسیاں کی زینت بن چکی ۔ ماضی سے منقطع ہو کر ہم مستقبل کا سفر کیسے طے کر سکیں گے۔ زندگی کے دامن میں بکھرا ہوا یہ سوال اکثر
رگ جاں کو کریدتا ہے۔ چرخ ہی کا ایک شعر ہے ۔

دل کو تھامے ہوئے کچھ سوچ رہی ہے شاید
زندگی اب کسی الجھن میں پڑی ہے شاید

نوٹ: یہ مضمون ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب (شہرِ لبِ دریا) سے لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com