جس کو ارباب نظر ثاقب سلیمانی کہیں
عصرِ نو کا کیوں نہ ہم بہزاد اور مانی کہیں !
بڑے انسان اگر انعام کے طور پر ملتے ہیں تو چنیوٹ کا سب سے بڑا انعام آغا عبدالواسع ثاقب سلیمانی ہیں۔ ان کی یگانہ روزگار ہستی پر چنیوٹ کی مٹی جس قدر فخر کرے کم ہے۔ نرم دم گفت گو گرم دم جست جو اگر کسی کو زندگی کی بھر پور اور سچی تصویر دیکھنا ہے تو وہ آغا صاحب کے در نیاز پہ دستک دے۔ شاعری مصوری، خطاطی ناخن نگاری، نجوم و جفر اور روحانیت۔ کتنے ہی علوم ہیں جنھوں نے ان کی ذات میں گھر کیا ہوا ہے۔ کچھ لوگ انھیں شاعر رومان کہتے ہیں، کچھ لوگ فنِ خطاطی کا امام سمجھتے ہیں۔ این میری شمل نے انھیں صاحب فراست کہا ہے بعض افراد ان کے پاکیزہ کردار اور روحانیت کے معترف ہیں۔ یہ ساری باتیں دراصل ایک ہی حقیقت کو بے نقاب کرتی ہیں کہ آغا صاحب ایک ہمہ رنگ ہمہ صفت ہمہ پہلوانسان ہیں جن کی شخصیت اس درخت کی مانند ہے جس پہ ہر روزئی کونپلیں اور نئے شگوفے کھل اٹھتے ہیں اور انسان اس ذہنی ارتقاء پہ انگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔
آغا صاحب نے چنیوٹ میں آنکھ کھولی۔ یہیں تعلیم حاصل کی ۔ پلے بڑھے اور جوان ہوئے اور آج اس شہر کو ویران کر کے لاہور میں آباد ہو چکے ہیں۔ چنیوٹ کا یہ گوہر بے بہا جواب آسمان شعر و ادب کا درخشندہ ستارہ ہے اپنی ابتدائی زندگی کے متعلق یوں رقم طراز ہے۔
میں یکم مارچ 1914ء کو چنیوٹ میں پیدا ہوا۔ میرے آباؤ اجداد سہارنپور سے نقل وطن کر کے چنیوٹ پہنچے اور وہیں کے ہو رہے۔ میرے والد بابو عبد العزیز فارسی کے خوش فکر شاعر تھے ۔ میرے دادا با بومحمد بخش سوز تخلص کرتے تھے ۔ اردو کا ایک مکمل دیوان ان سے یاد گار تھا جو زمانے کی دستبرد سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ گویا ادبی ذوق مجھے اپنے اجداء سے ورثہ میں ملا ہے۔ میں نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول چنیوٹ میں حاصل کی ۔ اس زمانہ میں خیال مراد آبادی، ضیاء جالندھری اور وحید گیلانی جیسی صاحب سخن ہستیاں اس مدرسہ کے اساتذہ میں شامل تھیں۔ ضلع کے ڈپٹی کمشنر شیخ سراج دین اعلیٰ ادبی ذوق کے مالک تھے۔ وہ ادب کی سر پرستی کرتے تھے۔ ان کے زیر سایہ مدرسہ میں طرحی مشاعروں کا اہتمام ہونے لگا۔ جن میں خضر تمیمی، ہلال چنیوٹی، ڈاکٹر فیض احمد فیض اور میاں الہی بخش تسلیم اور کچھ اور مقامی شعراء کی شرکت سے جان پڑ گئی تھی۔ اس طرح کے ایک مشاعرے کا 1927ء میں اہتمام ہوا جس کا طرح
مصرع یہ تھا۔
نگاہ شوق رخنہ کرتی ہے دیوار آہن میں
میں اس وقت دسویں جماعت کا طالب علم تھا اور کبھی کبھی شعر بھی کہ لیا کرتا تھا چنانچہ میں نے بھی مجوزہ طرح مصرع میں طبع آزمائی کی اور ایک غزل لکھ کر پہلی بار مشاعرہ میں سنائی۔ اس کا ایک شعر کچھ یوں تھا،
میرے دل کی ذرا شانے سے اپنے پوچھے قیمت
جو رہ رہ کر مچلتا ہے تری زلفوں کی الجھن میں
اس شعر پر حاضرین نے مجھے بڑی داد دی اور صدر محفل شیخ سراج دین صاحب نے اٹھ کر مجھے گلے لگالیا اور انعام سے بھی نوازا۔
میدان کی شاعری کا ابتدائی دور تھا جس میں شعور اور فکر کی ناپختگی کے باوجود تصور کی بلندی اور رعنائی خیال موجود ہیں۔ حیات کا یہ دور ان کے خوش آئند مستقبل کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور اس ادبی ماحول میں جن رجحانات کی بناء پڑی وہ وقت کے ساتھ گہرے ہونے لگے۔ ثاقب سلیمانی کی شاعری کا دوسرا دور گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے شروع ہوتا ہے۔ اس درسگاہ میں دو سالہ قیام کے دوران انھیں اردو اور انگریزی ادب کے اعلیٰ ذوق کے حامل استاد شیخ خادم محی الدین کی شاگردی کی سعادت حاصل ہوئی جن کی صحبت نے ان کے شاعرانہ ذوق میں اور نکھار پیدا کیا اور وہ نہ کی طرف بھی متوجہ ہوئے ۔ انھیں دنوں ایک دل چسپ واقعہ پیش آیا جس سے ان کی روانی طبع کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ اپنی تصنیف ” اک جلوہ سر را
ہے میں لکھتے ہیں۔
میں جس زمانہ لائل پور (فیصل آباد ) کا لج میں زیر تعلیم تھا اس میں اسی سال مخلوط تعلیم کا آغاز ہوا۔ ہمارے ساتھ دو طالبات بھی پڑھتی تھیں۔ ان میں سے ایک لڑکی بڑی شوخ و شنگ تھی ۔ وہ شعر بھی کہتی اور اختر تخلص کرتی ۔ اسے اپنے حسن پر بڑا ناز تھا۔ وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتی۔ مجھے بھی چھیڑتی کہ میں خود شعر نہیں کہتا بل کہ دوسروں کا کلام پڑھ کر سنا دیتا ہوں، وہ اسی غلطی میں مبتلا رہی۔ میں اس کے ناروا رویہ سے بیزار تو تھا مگر اسے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔ پس دل ہی دل میں غالب کا یہ شعر پڑھ کر چپ ہو جاتا کہ چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد۔
ایک دن اچانک وہ میرے کمرے میں آگئی اور آتے ہی کہا۔ میں آپ کا امتحان لینا چاہتی ہوں پھر اختر شیرانی کا مصرعہ جو انھوں نے غالب کی زمین رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو میں کہا تھا دے کر مجھ سے شعر کہنے کی فرمائش کی اور اس کے لئے پانچ منٹ کا وقفہ دیا۔ میں دم بخود ہو کر رہ گیا۔ دومنٹ تو تحیر کے عالم ہی میں گزر گئے آخر طبیعت میں جولانی پیدا ہوئی اور میں نے ارتجالاً یہ شعر کہے:
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم نشیں کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
یہ وہ موسم ہے کہ آجاتا ہے دل ہر ایک پر
تجھ ہی شوخ نازنیں ، مجھ سا جواں کوئی نہ ہو
دے کے مجھ کو شعر اک کہتی ہیں لکھ دو نظم تم
ایسا بھی رنگیں مری جاں امتحاں کوئی نہ
ہو اپنی شمع رخ کو لے کر ڈھونڈ نے جاتی تو ہو
مجھ سا لیکن شاعر رنگین بیاں کوئی نہ ہو
سارے کالج میں نہیں کوئی بھی میرا آشنا
میں وہ اختر ہوں کہ جس کا آسماں کوئی نہ ہو
اس غزل کے آخری شعر سے وہ اس قدر متاثر ہوئی کہ میری ہم نوا بن گئی اور اس کی خوب صورت ہم دردی مجھے حاصل ہوگئی۔ اس کے بعد کالج میں ہم پر طلباء کی انگلیاں بھی انھیں اور ہم ملامت کے تیروں کا نشانہ بھی بنے مگر اس نے میرا ساتھ نہ چھوڑا اور کالج کی دو سالہ رومانی زندگی میں یہ حسیں مشغلہ جاری رہا۔ آج جب میں یہ اشعار دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی بدیہہ گوئی کا یقین ہو جاتا ہے۔
آغا صاحب نے گورنمنٹ کالج سے ایف اے کے بعد ڈی مونٹ مورسی کالج شاہ پور سے بی۔ اے کیا۔ یہاں بھی صاحب بصیرت اساتذہ کے فیض نظر کے طفیل ان کے ذوق کی آبیاری ہوتی رہی اور فن اظہار کی پختگی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ بی۔ اے پاس کرنے کے بعد 1937ء میں انھوں نے محکمہ مال میں ملازمت اختیار کر لی اور ان کی تعیناتی جھنگ ہوگئی۔ جھنگ میں ان دنوں علمی سرگرمیوں کے لئے ماحول بڑا ساز گار تھا۔ کئی ایک ادبی شخصیات جنہوں نے بعد میں بڑا نام پیدا کیا اس وقت منصہ شہود پر نمودار ہو رہی تھیں۔ ان میں مجید امجد شیر افضل جعفری، جعفر طاہر اور شاکر عروجی بہت نمایاں تھے۔ مجید امجد نے ان دنوں (1940ء) ثاقب کی شاعری پر ایک تنقیدی مضمون بھی قلمبند کیا ۔ اس میں وہ اپنے مراسم کے حوالے سے ان کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:
ثاقب سلیمانی میری آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے ہیں میرے ساتھ پہروں بیٹھے رہتے ہیں۔ خاموش طبیعت، متین نوجوان رموز و حقائق کی ہزاروں داستانیں لئے ہوئے گہری آنکھیں، جن کے لب بھی قہقہہ سے آشنا نہیں ہوئے جن کی متانت زیادہ سے زیادہ تجسم زیریبی کی روادار ہی ہو سکتی ہے اور وہ بھی کبھی کبھی ۔ کوئی ان کے چہرے کو دیکھ کر اور ان کی تقدس کی حد تک پہنچی ہوئی سنجیدگی کے پیش نظر یقین نہیں کر سکتا کہ یہ اشعار ان کی تراوش قلم کا نتیجہ ہیں:
شب وصل آنکھیں چراتی ہو مجھ سے
ستاروں کی نظروں سے شرما رہی ہو
میرے شوق گستاخ کو گدگدا کر
مری خود فروشی سے گھبرا رہی ہو
ہاں یہ ثاقب کے شعر ہیں ایک خاموش اور متین فطرت شاعر نے ساز دل کو چھیڑ کر کیسے شوخ اور چنچل شعر گائے ہیں۔ یہی شوخی ثاقب کی شاعری کی جان ہے۔ مجید امجد شاکر عروجی کے ہفتہ وار اخبار عروج سے بھی منسلک تھے۔ ان کی معیت میں ثاقب کا رشتہ نہ صرف شاعری سے مستحکم ہوا بل کہ انھیں دیکھ کر ان کی رگِ صحافت بھی پھڑ کی اور انھوں نے اس اخبار میں سر را ہے کے عنوان سے ایک مستقل کالم لکھنا شروع کر دیا جو بہت مقبول ہوا۔ اس دوران ادبی سرگرمیاں بدستور جاری رہیں جھنگ میں منعقد ہونے والے ایک مشاعرے کا ذکر وہ ایک جگہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :
” 1938ء میں جھنگ میں ایک عظیم الشان طرحی مشاعرے کا اہتمام ہوا جس کی صدارت آغا شاعر قزلباش دہلوی نے کی ۔ مصرع طرح تھا:
دل لگانے کا یاں مقام نہیں
میں نے اس میں جو غزل پڑھ کر سنائی اس کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
ناز منت کش ش خرام نہیں
حسن پابند التزام نہیں
مے کی حرمت کا میں بھی قائل ہوں
تو ہو ساقی تو پھر حرام نہیں!
ہو رہی ہے تری جبیں سے طلوع
صبح رنگیں کہ جس کی شام نہیں
عشق نے کر دیا ہمیں بد نام
کون کہتا ہے یہ کہ نام نہں
نغز گو ہوں گے اور بھی شاعر
کوئی ثاقب سا خوش کلام نہیں
آخری شعر پر صدر صاحب نے یہ مصرعہ موزوں کر کے داد دی کہ
اس میں ہم کو ذرا کلام نہیں
سامعین نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔ دوسرے دن مجید امجد نے اپنے اخبار میں ان اشعار پر شاندار تبصرہ کیا اور غزل کو حاصلِ مشاعرہ قرار دیا۔ اس سے میری بڑی حوصلہ افزائی ہوئی اور قلم میں اور جولانی پیدا ہوئی۔
اسی دوران ثاقب سلیمانی اور اختر شیرانی کے مراسم کا آغاز ہوا۔ چنیوٹ کی دواور علمی وادبی شخصیات چرخ چنیوٹی اور خضر تیمی پہلے ہی اختر کی محبت کے اسیر تھے۔ اختر کے اصرار پر جنوری 1938ء میں ثاقب کا کلام پہلی بار اختر شیرانی کے ماہنامہ ارمان میں شائع ہوا لیکن جھنگ سے باہر کے ادبی حلقوں میں ان کی شہرت کا آغاز ان کی یاد گار نظم ” بند سے ہوتا ہے۔ اس نظم کی شان نزول کچھ اس طرح ہے کہ ایک روز ثاقب سلیمانی مجید امجد اور شاکر عروجی کے ہمراہ دریا کی سیر کو جارہے تھے کہ انھیں ریت پر ایک بندہ پڑا ہوا نظر آیا۔ شاعرانہ جذبات میں ہلچل ہوئی اور تینوں اصحاب نے اپنے اپنے انداز میں اس واقعہ پر طبع آزمائی کی ۔ ثاقب سلیمانی کی نظم یتھی :
وہ شوخ میرے شبستان میں رات آئی تھی
نشاط و عیش کی اک خلد سی سجائی تھی
نگاہ شوق سے چن چن کے بزم پرویں سے
بساط تاروں کی کلیوں کی اک بچھائی تھی
تو سو رہی تھی مرے عنبریں سے بستر پر
مہک سے جس کی گلوں کو بھی نیند آئی تھی
وہ زلف کھیل رہی تھی میرے تنفس سے
جو تیرے مخملیں سینے پہ جھوم آئی تھی
وہ انفعال کی حس آہ کتنی شیریں تھی
جو تیری شوخ نگاہوں سے جھلملائی تھی
میں صبح اٹھا تو دیکھا کہ میرے بستر پر
تو ایک غنچہ سا بندا بسار آئی تھی
شگفتہ پھول سی معصوم آرزوؤں سے
کہ جن میں شوق کی بالیدگی سمائی تھی
شب فراق کے ان آنسوؤں سے تابندہ
کہ جن کی تہہ میں کوئی پاس گد گدائی تھی
یہ تیری مد بھری دوشیزگی کا ضامن تھا
جو تیری چودہ بہاروں سے رنگ لائی تھی
جذبات کی وارنگی اور طبیعت میں رومان کی بدولت وہ اختر شیرانی کے ایوان شعر وادب میں داخل ہو گئے ۔ اختر مرحوم بھی انھیں شاعر جوانی کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔ اس دور میں ان کے جذبوں کی شدت کسی پہاڑی ندی اور پر شور نالے کی طرح تھی جو راستے میں مزاحم پتھروں سے سر پٹختا ہوا آسودگی کی تلاش میں بہتا چلا جارہا تھا۔ راہ میں کوئی گلستان دکھائی دیتا تو شباب کے رنکین اور گداز پھول بکھر جاتے۔ ان پھولوں کی مہک نے ایک عالم کو مسحور کرنا شروع کر دیا اور برصغیر کے تمام بڑے ادبی رسائل وجرائد میں ان کی نگارشات با قاعدگی سے شائع ہونے لگیں۔ ان میں نیرنگ خیال ہمایوں، شاہکار خیال کامران اور بیسویں صدی وغیرہ شامل ہیں۔ انور گوئندی کے رسالہ ” کامران سرگودہا میں وہ ہر ماہ ایک تنقیدی مضمون لکھتے تھے، جس میں شمارہ ماسبق کے مضامین کا تجزیہ ہوتا۔ انھیں دنوں حکیم یوسف حسن نے انھیں لسان القوم“ کے خطاب سے نوازا۔
مقامی سطح پر ہفت روز یاد خدا ( 1937ء – 1948ء) کی اشاعت کے آغاز سے ہی ان کی نظمیں اور غزلیں اس میں چھپنا شروع ہو گئی تھیں۔ اس دور کی نظموں میں مزدور بیوہ کی عید کو خاص طور پر شہرت حاصل ہوئی۔ یہ وہ نظم ہے جس میں رومان پر در جذبات کا یہ شاعر انقلابی کھن گھرج کے ساتھ سرمائے اور
غربت کی کش مکش کا ذکر کر کے اس فرسودہ نظام کو رد کرتا ہے:
ایک بیوہ ڈس چکے تھے جس کو سیم وزر کے ناگ
کھو چکی جس کی جوانی لٹ چکا جس کا سہاگ
زندگی کی تازگی چہرے پہ مرجھائی ہوئی
موت کی خونی جنسی آنکھوں میں شرمائی ہوئی
پابرہنہ ، پیرہن چاک اور آلودہ جبیں
دیدہ پرنم ، مضمحل ، ژولیدہ مو، تر آستیں
ہائے اک مزدور بیوہ کا کوئی پرساں نہیں!
تیری دنیا میں غریبی کا کوئی درماں نہیں
بے اثر ان زر کے بندوں پر مری آہ وفغاں
جن کے گھر بہتی ہیں دولت کی سنہری ندیاں
عید کا دن اور اک مزدور بیوہ سوگوار!
شرم اے قارون اعظم ، شرم اے سرمایہ دار
1940ء سے 1950ء کی دہائی میں ان کی شاعری اپنے عروج پر تھی ۔ ان کا حسن باطن اور غنچہ شوق طرح طرح کے رنگ کھلا تار ہا اور وہ حسن و جمال اور رعنائی خیال کی تصویریں بنا کر نظم کرتے رہے۔ اسی دوران انھوں نے میراجی کے تحرک پر انگریزی زبان کی منتخب نظموں کے منظوم اردو ترجمے گئے ۔ 1941ء میں وہ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سے منسلک ہوئے اور 1973ء میں بالآخر وہیں سے ریٹائیر ہوئے۔ ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد انھوں نے خود کو علمی وادبی سرگرمیوں کے لئے وقف کر دیا اور اس سفر کی تکمیل ہونے لگی جس کا آغاز لڑکپن کی نا آسودگی سے ہوا تھا۔ حبیب اشعر نے ان کی اس تمام شاعرانہ کاوش کا خلاصہ یوں بیان کیا ہے ۔ ” نو جوانی کے تشنہ و نا آسودہ جذبات نے گوشت پوست کے ایک جیتے جاگتے پیکر کو اپنا مقصود ٹھیرایا ۔ شوق کا قافلہ اس کی طرف بڑھا۔ شاعری نے بانگ درا کا کام کیا اور جب مسافر اپنی منزل پہ پہنچ گیا تو یہ بانگ درا بھی خاموش ہوگئی، گلشن شعر و ادب کی اس ساری دشت نوردی کا صلہ ان کا مجموعہ کلام غنچہ شوق اور نثری تصانیف نور ہدایت نگارشات ہفت رنگ اک جلوہ سر را ہے اور ہلال ناخن کی صورت میں منظر عام یہ نمودار ہوا۔
ثاقب سلیمانی کی شاعری کے اوصاف اور محاسن پہ بہت کچھ لکھا گیا اور بڑے بڑے ناقدین ادب نے ان کے فن کو سراہا۔ ان کا قلم نصف صدی سے گو ہر افشانیوں میں مصروف ہے اور اس تمام عرصہ میں جس طرح ان کے شاعرانہ مقام کا تعین کیا گیا اس کا تذکرہ ڈاکٹر انجم رومانی نے اس طرح کیا ہے: ثاقب سلیمانی ایسا شاعر ہے جس کے کلام کے بارے میں مختلف اصحاب اپنی رائے مختلف پرچوں کی نذر کر چکے ہیں۔ عبد اللہ قریشی نے 23 سالہ ثاقب سلیمانی کو دیکھا تو بے ساختہ کہا:
عاقب کے کلام میں ایک عجیب قسم کی شوخی اور تازگی پائی جاتی ہے۔ ان کے اشعار پھولوں کی طرح رنگین، فطرت کے مناظر کی طرح دل کش، شفق کے گلابی دھند لکے کی طرح خوب صورت اور بادلوں کے اودے سایوں تلے بہنے والی ندی کی طرح صاف و نرم رو ہیں جن کے اثرات روح پر چھا جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں کنایہ ہے جو صراحت سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے۔ اس سے شاعر نے بڑا کام لیا ہے۔
عبداللہ قریشی نے یہ باتیں ” نیرنگ خیال“ کے شمارہ اگست 1940ء میں کہیں۔ اسی پرچے کے اکتوبر 1940ء کے شمارے میں نیرنگ خیال کے ایڈیٹر حکیم یوسف حسن، ثاقب کی ایک منزل کے پانچ اشعار اختر شیرانی کے رسالہ رومان میں پڑھ کر فرمائش پر مجبور ہوئے کہ یہ کم ہے تھوڑی سی اور لا چنانچہ ثاقب کی طبیعت اس فرمائش پر مچل گئی تو یہی غزل 123 اشعار پر پھیل گئی اور حکیم صاحب یہ لکھنے پر مجبور ہوئے ۔ ” ثاقب ایک نوجوان شاعر ہے جس کے کلام میں نوجوان امنگیں پختگی کے گہوارے میں جھولتی نظر آتی ہیں“۔ اپریل 1940ء میں ادارہ نیرنگ خیال نے ادبی اعزازات کی جو فہرست شائع کی اس میں ثاقب سلیمانی کو سید ہاشم رضوی رامپوری اور اختر انصاری کے ساتھ لسان القوم کے خطاب سے نوازا اور دسمبر 1941ء میں شہاب ثاقب کے عنوان سے ان کے منتخب اشعار کا گلدستہ شائع کیا۔ تقریباً اس کے سولہ سال بعد مارچ 1957 ء کے کامران میں جناب رفیق احمد ثاقب سلیمانی پر ایک طویل مضمون لکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سادگی، شوخی حسن اور رومان ان کی شاعری کے خوش رنگ عناصر ہیں نیز ان کی غزل میں فنی پختگی کے ساتھ فکری صحت مندی نمایاں ہے۔ سلاست وروانی بھی ان کی اہم خصوصیات ہیں۔ ان کی شاعری کا وہ پہلو بڑا دل آویز ہے جہاں حقیقت و مجاز کے ڈانڈے مل جاتے ہیں ۔
ہمارے استادوں کے استاد اور ادب و شاعری کے میٹھے نقاد ڈاکٹر سید محمد عبد اللہ ثاقب سلیمانی کے کلام کے مسودہ سے ایک نظر کر گزرتے ہیں تو ان کا قلم چٹان کے شمارہ نومبر ۔ دسمبر 1974ء میں یوں گوہر افشاں ہوتا ہے۔ ان کی غزل اپنے خاص اور معین جذبوں کی عکاس ہے۔ وہ اپنے غم کو اپنا ہی غم کہتے ہیں۔ اپنے جذبے کی توسیع نہیں کرتے ۔ وہ اپنے مطلوب ومحبوب کی ذات کو بھی مخفی نہیں رکھتے۔ بار بار اس کا نام لیتے ہیں۔ اس کے حسن کی ستائیش کرتے ہیں۔ اس سے ملاقات کا ذکر چھیڑتے ہیں۔ اس کی جدائی کی شکایت براہ راست اس سے کرتے ہیں۔ اس کے شہر کا نام لیتے ہیں اور اس میں وہ اس وضع احتیاط کے قائل نہیں جو ہماری کلاسیکی غزل کا ایک خاص دستور ہے۔ ثاقب کی غزل میں ستایش حسن کے پہلو زیادہ نمایاں ہیں۔ قلبی واردات کی شرح سے زیادہ حسن کی خارجی صورت گری کا طریق خاص ہے۔
مجید امجد ثاقب کے خیالات کے سمندر میں غوطہ زن ہوتے ہیں تو وہ ان کی کیفیات ماہنامہ تحریریں 1975 ء میں یوں بیان کرتے ہیں ۔ ثاقب کے ہاں تغزل میں ہر وقت ایک رومانی روح موجود رہتی ہے جو فورا سامع کے دل میں اتر جاتی ہے ۔ وہ اپنے موضوع کے لئے نہایت موزوں الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر انھیں اس قرینے سے سجاتے ہیں کہ ان کی ترتیب میں بھی حسن سا پیدا ہو جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں کنائے کو بھی اچھوتے انداز میں برتا ہے اور پنجابی صنف ماہیا ” کو اردو میں ڈھال کر اردو ادب پر بڑا احسان کیا ہے۔
ادب کے معروف نقاد ادیب، شاعر اور صحافی حبیب اشعر ثاقب سلیمانی کے غیر مطبوعہ مجموعہ کلام سے گزرتے ہیں تو اپنے تاثرات کے مضمون کا یہ عنوان جماتے ہیں ۔ ” ثاقب سلیمانی کا سفینہ شعر جو نرم ہونٹوں کے کنارے سے ٹکرا کر ٹوٹ گیا ہے اور ایسے حسین انداز میں ان کے کلام سے ان کی شخصیت کی تصویر کشی کرتے ہیں کہ دل پر ایک رقت سی طاری ہو جاتی ہے۔
ثاقب سلیمانی کا فن اور زندگی حسن ارتقاء سے عبارت ہے ۔ یہی خوبی چنیوٹ کے اس خوب صورت و خوش نوا شاعر کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ وقت کے ساتھ جہاں ان کے مزاج میں پختگی عود کر آئی وہیں ان کی فکر کے سوتے بھی رخ بدلنے لگے اور بالآخر حسن و شباب کی وادیوں کو سیراب کرنے کے بعد ان کے جذبات کا دھارا دوسرے میدانوں کی طرف بہہ نکلا اور وہ فنون لطیفہ کی دیگر اصناف کی طرف مائل ہوئے۔ حسن و عشق کی کشاکش کو الوداع کہہ کر خطاطی، ناخن نگاری اور مصوری سے دل لگایا۔ کسی ایک منزل پر ٹھیر جانا ان کا شیوہ نہیں۔ یہاں سے بھی آگے بڑھے تو نجوم اور جفر جیسے علوم ان کی دسترس میں تھے۔ بقول احسان دانش “زمین سے ستاروں تک پہنچے تھے ستاروں سے زمین و آسمان کے خالق کی طرف رخ کیا اور آج تک روحانیت ہی کے حصار عافیت میں آسودہ ہیں۔“
روحانیت کے میدان میں کئی ایک تحیر کن واقعات ان سے منسوب کئے جاتے ہیں۔ مسلسل ریاضت اور عبادت سے انھوں نے اپنی صلاحیتوں کو اس قدر جلا بخشی کہ کائنات کے بہت سے اسرار و رموز ان کی نگاہوں پر آشکار ہو گئے اور اب تو کیفیت یہ ہے کہ ماضی اور حال ان کے آئینہ دل میں ایک تصویر کی مانند آویزاں رہتے ہیں اور کسی صاحب نظر کی طرح زمان و مکان کی وسعت ان کے لئے اجنبی نہیں۔ اپنی روحانی دسترس کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں انے چنیوٹ کی سرزمین بڑی مردم خیز واقع ہوئی ہے۔ مولوی نوراحمد نقشبندی نور اللہ مرقدہ اسی شہر سے تعلق رکھتے تھے۔ میں نے ان کی سیرت کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ شاعر بھی تھے مگر انھوں نے حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کچھ بھی نہیں کہا۔ ان کا یہ مصرع "فقیر نقشبندی نور احمد میری نظر سے گزرا تو مجھے بھی اس زمین میں شعر کہنے کا شوق پیدا ہوا مگر مصوری ر کی طرف مائل ہونے کے باعث شاعری پس منظر میں جا چکی تھی اور طبیعت شعر کہنے پر آمادہ نہ ہوتی ۔ ایک رات اسی خیال کو دل میں لئے ہوئے سو گیا تو خواب میں مولوی صاحب قبلہ کی زیارت ہوئی۔ آپ فرما رہے تھے کس فکر میں ہو لکھو
“چل مرے خامہ بسم اللہ صبح اٹھا تو یہ اشعار میری زبان پر جاری تھے“۔
فقیر نقشبندی نور احمد
نشان ارجمندی نور احمد
شریعت باطریقت جمع کر دی
حقیقت را پسندی نور احمد
در اقلیم ولایت نام کر دی
چہ شان سر بلندی نور احمد
رہا کر دی مرا از رنج عالم
نظر بر من نکندی نور احمد
چون دارم با تو نسبت بیچ غم نیست
بگوشم حلقه بندی نور احمد
ثاقب سلیمانی کی شخصیت اور فن کی سب سے نمایاں جہت ان کی ناخن نگاری میں مہارت ہے۔ اس وقت وہ دنیا بھر میں غالباً منفر د خطاط ہیں جو اپنے ناخن کو موے قلم بنا کر حروف کے زیر و بم اور زاویئے اس مہارت سے صفحہ قرطاس پر نقش کرتے ہیں کہ انسان محو حیرت رہ جاتا ہے۔ ان کے ہاتھوں میں وہ افسوں ہے جس نے اقبالیات کی ماہر اور مشہور مستشرق این میری شمل کو بھی اپنا گرویدہ بنالیا۔ ان کی خطاطی کے شہ پارے اور آیات قرآنی کے عکس کہتے ہیں کہ ثاقب سلیمانی کے اندر کوئی صاحب حال چھپا بیٹھا ہے جو دانائے راز بھی ہے اور خود شناس بھی بھی وہ شاعری کا لباس پہنتا ہے، کبھی روحانیت کی پوشاک زیب تن کرتا ہے اور بھی خطاطی کا پیرا ہن اوڑھ کر کائنات کے سربستہ رازوں کو منکشف کرتا ہے۔ آغا صاحب کہتے ہیں کہ انھوں نے ناخن نگاری کا فن کسی سے نہیں سیکھا۔ شاید ان کا یہ علم بھی اس علم کے زمرے میں آتا ہے جسے دیکھ کر مولائے روم کو شمس تبریزی کی غلامی اختیار کرنا پڑی۔ صاحب نظر کے لئے ضروری نہیں کہ وہ کسی کے حضور زانوئے تلمیذ بھی تہبہ کرے۔ اس کی حنا بندی کے لئے تو فطرت خود ہی کمر بستہ رہتی ہے۔ ثاقب سلیمانی کے روحانی کمالات نے جب اظہار کی پہنائیوں میں اترنا چاہا تو انھوں نے خطاطی کی اس صنف کا روپ دھار لیا جو صدیوں سے طاق نسیاں کی زنیت بن چکی تھی۔ فن ناخن نگاری کا تعلق ان علوم اور اس میراث سے ہے جسے ہم اپنی ناقدری کی بناء پر کھو چکے تھے۔ یہ اعزاز سرزمین چنیوٹ کو حاصل ہوا کہ اس کے ایک فرزند نے عظمت رفتہ کی راکھ سے یہ چنگاری ڈھونڈ نکالی اور پھر اس سے اپنے فکر وفن کو روشن کیا۔ ڈاکٹر انجم رحمانی فن ناخن نگاری اور ثاقب سلیمانی کے بارے میں کہتے ہیں ۔
فن خطاطی کو اسلامی فنون میں ایک منفرد مقام حاصل ہے اور مسلمان خطاطوں نے اس فن میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ انھوں نے مصوری اور خطاطی کے امتزاج سے اس فن کو نئی جہتیں عطا کر کے اپنی غیر معمولی مہارت کے چراغ روشن کئے ہیں۔ خط ناخن بھی اسلامی خطاطی ہی کی ایک شاخ ہے۔ اس میں ناخن سے اس طرح حروف ابھارے جاتے ہیں کہ سفید کاغذ پر کوئی شکن پڑے نہ پینسل کا نشانی دکھائے دے اور ان کی خوب صورتی میں کوئی فرق نہ آئے۔
پرانے زمانے میں کا تب اس صنعت میں اسمائے باری تعالی اور آیات قرآنی لکھا کرتے تھے مگر چونکہ اس کے لئے بڑی محنت اور عرق ریزی درکار تھی عام خطاطوں نے اس طرف کوئی توجہ نہ دی اور بتدریج یہ فن پس منظر میں چلا گیا۔ یہ خط عام طور پر دائیں انگوٹھے اور کسی ایک انگلی کے استعمال سے وجود میں آتا ہے جس کے ناخن قدرے بڑھے ہوئے ہوں۔ انگوٹھے کے ساتھ درمیانی یا اس سے ملحقہ انگلی کا عمل زیادہ موزوں رہتا ہے۔ ترکیب اس کی یہ ہے کہ پہلے کاغذ انگوٹھے اور انگلی کے ناخنوں کی درمیان عمودا رکھا جاتا ہے پھر بائیں ہاتھ سے کاغذ کا سرا تھام کر دونوں ناخنوں سے لکیر پیچی جاتی ہے۔ اب کاغذ بائیں طرف گھما کر نچلا حصہ اوپر کر لیں اور اسی طرح دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور اسی انگلی کے ناخنی عمل سے دوسری لکیر بھی کھینچ دیں۔ دونوں لکیروں کے درمیان ابھار پیدا ہو جائے گا۔ اب اس میں نکھار پیدا کرنے کے لئے پچھلی طرف سے دونوں لکیروں کا درمیانی حصہ انگوٹھے کے ناخن سے رگڑ لیں تو حرف کی خوب صورتی زیادہ نمایاں ہو جائے گی۔ اسی طریقے سے عبارت بھی لکھی جاسکتی ہے۔ مگر ہاتھ کی گہرائی میں جتنا کاغذ آئے گا اس قدر حروف اس پر لکھے جاسکیں گے۔ اگر بڑے کا غذ پر لکھنا ہو تو دو کاغذوں پر لکھ کر انھیں آپس میں جوڑ دیا جاتا ہے۔ ناخن نگاری کے لئے دبیز کا غذ استعمال ہوتا ہے کیونکہ ناخنوں کی لکیروں سے عام کاغذ پھٹ جانے کا احتمال ہوتا ہے۔ عموماً کاغذ پر پہلے پنسل کے نشان ربڑ سے مٹادیے جاتے ہیں ۔ مگر اس طرح تحریر میں وہ خوب صورتی اور نفاست پیدا نہ ہوگی جو ناخن نگاری کی خصوصیت ہے۔ آغا صاحب نے اپنی جودت طبع سے اس کے لئے ایک اور طریقہ نکالا ہے وہ پہلے بٹر پیپر پر پنسل سے مطلوبہ عبارت لکھ لیتے ہیں پھر اسے کاغذ پر چاروں کونوں سے چپکا دیتے ہیں اور ناخنوں سے ابھارنے کے بعد اتار دیتے ہیں۔ یوں نیچے سے اجلے حروف نمایاں ہو جاتے ہیں۔ آغا عبدالواسع جوادبی دنیا میں ثاقب سلیمانی کے نام سے مشہور ہیں ۔ پاکستان میں اس فن کو فروغ دے رہے ہیں:
فرید الدین احمد خطاطی کے بارے میں اپنے ایک مقالہ میں لکھتے ہیں !۔ ” آغا عبد الواسع ثاقب سلیمانی نے اسلامی خطاطی کی جملہ اقسام کو بڑی عمدگی سے خط ناخن کے قالب میں ڈھالا ہے بل کہ مصور ناخن نگاری کی ایجاد سے اپنی فنی مہارت کے چراغ روشن کئے ہیں۔ اس کے نمونے لاہور عجائب گھر اور سمٹ مینار میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس فن میں ان کی تین تصویروں نے بہت شہرت پائی ۔ پہلی تصویر ایک رقاصہ کی ہے جو اپنے رقص سے مشرقی ثقافت کی نمائندگی کر رہی ہے۔ دوسری تصویر ایک اڑتے ہوئے کبوتر کی ہے جو اپنی چونچ میں عید مبارک کا خط لئے اپنی منزل کی طرف رواں ہے۔ تیسری تصویر میں شاعر کے تخیل کی پرواز دکھائی گئی ہے۔ مصور ناخن نگاری کے علاوہ انھوں نے خطاطی مصوری اور ناخن نگاری کے امتزاج سے خط مثلث کو رواج دے کر خطاطی کو ایک نئی جہت عطا کی ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ این میری شمل نے جس طرح ان کی فنی عظمت کو سراہتے ہوئے انھیں بین الاقوامی سطح پر متعارف کروایا ہے وہ وطن عزیز کے لئے کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں۔ انھوں نے نہ صرف اسلامی فنون کے متعلق اپنی مشہور زمانہ تصنیف میں ان کا ذکر کیا بل کہ ان کی فنی خوبیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے انھیں ایک خصوصی مراسلہ بھی تحریر کیا جس میں ان کے کمال فن کو زیور تحسین سے آراستہ کیا“۔
میں حیران ہوں کہ آغا صاحب کی شخصیت کے کون کون سے پہلو کا تذکرہ کروں اور کن الفاظ پر ان کے ذکر کا اختتام ہو۔ دراصل ان کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جن کی الفاظ میں تصویر کشی ایک مشکل مرحلہ ہے۔ کیا علم کے بحر نا پیدا کنار کو کبھی کسی نے الفاظ کا جامہ پہنایا ہے یا سمندر کی وسعتوں کو ساحل اپنی آغوش میں سمیٹ سکا ہے۔ انسانوں کے وسیع سمندر میں ان کی ذات اس جزیرے کی مانند ہے جو زندگی کے ساحل سے دور ہونے والوں کے لئے گوشہ عافیت بھی ہے اور مینارہ نور بھی۔ ان کا شمار سکہ بند دانش وروں میں نہیں ہوتا نہ وہ شہرت و مقبولیت کی کسی بلند مسند پر متمکن ہیں لیکن وہ ان افراد کی فہرست میں ضرور شامل ہیں جن کے دامن سچائی اور حسن کی دولت سے لبریز ہیں ۔ جب کبھی صدق وصفا اور علم کی خواہش کروٹ لیتی ہے تو آغا صاحب کا تصور نہاں خانہ دل میں ابھر نے لگتا ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ علم جو تزکیہ وحکمت اور کیف و وجدان سے آشنا کرتا ہے، محنت سے نہیں نصیب سے ملتا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ اس تک رسائی کسی کی عطا سے ہی ہو سکتی ہے!۔ ایسا علم اور ایسی نگاہ پانے کی لذت ہو تو آغا صاحب جیسے صاحب نظر افراد کو ڈھونڈنا پڑتا ہے:
روشن ہیں ستاروں سے بھی افکار ہمارے
ہم غیرت افلاک ہیں گواہلِ زمیں ہیں
اقلیم سخن آج بھی تابندہ ہے ہم سے
کہتے ہیں جنھیں اہلِ قلم وہ تو ہمیں ہیں
(ثاقب سلیمانی)
نوٹ: یہ مضمون ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب (شہرِ لبِ دریا) سے لیا گیا ہے۔