لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے
اے آبلے کرم کر ! یاں رنجہ یک قدم کر
اے نور چشم وحشت اے یادگار صحرا
(غالب)
تاریخ لیہ کے حوالے سے عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی تاریخ سولہویں صدی میں اس دور میں پڑی جب بلوچستان سے ہجرت کر کے اس علاقے میں بسنے والے بلوچ سردار کمال خان میرانی نے شہر کی بنارکھی اس کے قبل کی تاریخ کے حوالے سے مورخین مکمل طور پر خاموش ہیں جن محدود کتابوں میں اس شہر کی تاریخ کا سرسری ذکر ملتا ہے ان میں ” تواریخ سرحداز ٹیک چند ڈھینگڑاں لیہ اینڈ بھکر سٹیٹ منٹ روپورٹ ۱۸۶۵ء ‘ڈیرہ اسماعیل خان ، ڈیرہ غازی خان، میانوالی ، لیہ، شاہ پور، مظفر گڑھے اور جھنگ کے گزیٹرز دری فارسی میں شاہی فرامین ۱۸۰ء تا ۶ ۱۱۸، بنام راجہ فقیر لیکی و تاجه فقی لکھی قلمی دستاویز روز نامچہ میاں عبدالبنی عباسی سرائی ، بزبان فارسی و متعدد کتابیں شامل ہیں۔ ان تمام کی متفقہ رائے میں سولہویں صدی سے پہلے کسی طور پر قابل ذکر نہیں تھی قدیم دور میں محض ایک واقعہ اس وقت رونما ہوا تھا جب سکندر اعظم نے گنگا اور جمنا کی وادیوں میں حملہ کرنے اپنی سپاہ کے انکار کے بعد دریائے بیاس کے کنارے سے واپسی کا سفر اختیار کیا۔ دریاؤں کے سفر کے دوران وہ تھل کے مشرقی علاقے سے گزرا اور روایات کے مطابق یہی کہیں غالباً تریموں کے قریب اس کا بیڑا اتباہ و برباد ہونے سے اس کی جان بمشکل بچی اس کی فوج اگر چہ اس کے ساتھ ساتھ دریائے چناب کے دونوں کناروں پر سفر کر رہی تھی لیکن تھل میں نہ تو آبادی کا کوئی وجود تھا نہ کوئی ایسا اہم شہر جواس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواتا۔ اب تک لکھے جانے والے تمام مآخذ میں نہ تو سکندر اعظم کی تاریخ سے پہلے پر خاص روشنی ڈالی گئی اور نہ اس کے بعد سردار کمال خان میرانی کے ہاتھوں لیہ کی بنیاد پڑنے تک کسی خاص واقعہ کی نشاندہی کی گئی ۔
سن ۱۹۹۶ء میں محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے دوران تھل میں کوٹ ڈیجی کے زمانے سے تعلق رکھنے والی سات آبادیوں کا ذکر نہایت اہم تھا بد قسمتی سے اس کے بعد نہ تو محکمے نے اپنی کاوشوں کو آگے بڑھایا اور نہ ہی کسی اور فرد نے اس پر توجہ دی بہت مدت گزرنے کے بعد سن ۲۰۱۸ء میں جناب محترم زبیر شفیع غوری صاحب اے۔ جی۔ ایم ٹریفک ریلوے ہیڈ کوارٹر لاہور کی انگلش کتاب during andas age اس کتاب میں حیران کن تعداد میں آبادیوں کا ذکر ہوا ہے ان سات آبادیوں کے نام یہ ہے۔
1: چاہ نمبراں والہ سولہ کلو میٹر شمال از تحصیل چوبارہ یہاں سے کوٹ ڈیجی کے آثار کی طرز کی پرانی چیزیں ملی ہیں۔
2: چینے والا سات کلومیٹر خیر والا میں آثار پھیلے ہیں۔ یہاں سے پتھر کی ٹھکریاں ہٹی کی چوڑیاں جمعیق لاجورد کی چیزیں ملی ہیں۔ ۔
3: شیر گڑھ میں چاہ لڈے والا ۱۳۰ یکٹر پر پھیلے اثرات ہیں یہاں سے بھی کوٹ ڈیجی کی طرز کی اشیا سخت وقت کے بعد دریافت ہوئی ہیں۔
4: ودھائی الی یا ڈ یاوالا مظفرگڑھے سے جھنگ جانے والا روڈ خدئی دسہ کیلیوں والا ریسٹ ہاؤس اور تلنے والا جاہ تین کلومیٹر جانب شامل ہیں ۱۲۰ یکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔
5: نہری والا
6: شمال ٹوبہ
7: رکھ رت والی پٹی
واند رکھو اور پھر اٹ عرف ٹھیکری والی پٹی کوٹ و اندر سے ڈیڑھ کلومیٹر۱۱۵ یکڑ پر پھلے کوٹ ڈیجی پیریڈ ہے اک اور چاو و نجو یا نو چوک مونڈا سے رنگ پور جائیں چک نمبر ۸۷ائی ڈی اے فاصلہ بجانب جنوب دوکلو میٹر 1 بارہ ایکڑ اس روڈ پر اڈا اعز از آبادتین کلومیٹر جانب جنوب ۱۴ یکٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ چند اہم بستیوں کا ذکر جو انتہائی اہمیت کی حامل ہیں جن میں چاہ جانے والا ، چاہ گولے والا ، چاہ بہ مگسی والا ، چاہ نفرت والا، چاہ مائی ولایت، چاه پتی بدھ، دربار معصوم ، دربار سودانا کے ٹھیکرال ، سونے والا ، ہاڑی والا، شمشیر جتھیال، چاو کھوت والا ، جت باڑا ، چاہ غازی والا، چا پکھی والا ٹنڈن بھریم، حیدر آباد تھل ، ان چند اہم آبادیوں میں کم و بیش تمام دریائے چناب کی گزرگاہ سے قریب واقع تھی ضرورت اس امر کی تھی کہ اس دریافت کی روشنی میں دریائے سندھ کی گزرگاہ تک پھیلے صحرائے تنقل کا جائزہ بھی لیا جاتا جب سے یہ بات پایہ ثبوت تک جاتی ہے کہ دریائے چناب اور دریائے سندھ دونوں آج موجودہ گزرگاہوں کی بجائے اپنی قدیم پر اور متروک گزرگاہوں پر بہتے تھے
دریائے سندھ اپنی موجودہ گزرگاہ سے مشرق میں ریگستان تھل کے کم وبیش در میان جبکہ دریائے چناب بھل کے ٹیلوں کے ساتھ ساتھ او پر بہتا تھ اس موضوع پر نہ صرف بعض متفقین نیے روشنی ڈالی ہے بلکہ مقامی لوگ بھی اس امر کی تائید ابھی تک مختلف وجوہ کی بنا ر کرتے ہیں تھل پلکھی جانے والی کتاب تھل آف دی سندھ ساگر دو آب ڈورنگ انڈس ایج میں اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے سے ہجرت کر کے آنے والے لوگوں نے خاصے طویل عرصے تک تھل ریگستان کو اپنی سکونت کے لیے اختیار کیا یہ زمانہ تھا کہ جب قدیم انسان نے سیر و شکار اور جانوروں کے سدھانے کے عمل سے بڑھ کر دریاؤں کی گزرگاہوں کے ارد گرد واقع زرخیز علاقوں سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا پنجاب کی پانچ دریاؤں پر مشتمل زرخیر زمینوں تک بہنے سے پہلے تھل نے ان کے پرانے ماحول سے قریب تر بھی تھا اور اس میں ان زمینوں کے بعض وسائل بھی موجود تھے جن کا ارادہ کر کے انہوں نے اپنی آبائی سکونت گاہوں کو ترک کیا تھا اس کتاب میں یہی تفصیلی بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دریائے سندھ اور چناب کے درمیانی علاقے میں سکونت کاری کی ابتدا ء ۳۵۰۰ سے ۲۰۰۰م قبل مسیح میں ہو گئی اس امر کی گواہی ان علاقوں ، کنوؤں سے ملنے والی قیمتی اشیاء ٹھیکریوں سے ملتی ہے جو صحرا کے طول و عرض میں پھیلے بہت سی آبادیوں کے آثار میں نظر آتی ہے اس طرح کی ٹھیکریاں جن میں ہاکڑہ اپلیک ٹھیکریاں سب سے پہلے سن ۱۹۷۴ء تا ۱۹۷۷ء کے درمیان ہونے والے صحرائے چولستان میں اس وقت نظر آئیں ۔
جب جناب ڈاکٹر رفیق مغل صاحب کی راہنمائی میں محکمہ آثار قدیمہ میں ریگستان چولستان کا تفصیلی سروے کیا اور ان علاقوں کو نہایت غور و غوض سے دیکھا جن میں جناب ڈاکٹر رفیق مغل صاحب سے پہلے جناب ڈاکٹر ہنری (Hanri) فیلڈ اور جاب سر آؤرل سٹائن نے پاکستان بننے سے پہلے اور کچھ بعد لیا تھاسن ۱۹۴۰ء اور ۱۹۴۴ء اور ۱۹۵۴ء۔ تھل ( تہل ) ہاکٹر و دور کے بعد کوٹ ڈیجی عہد میں بھی آبا در ہا ( ۳۰۰۰ سے ۴۰۰۰ ) تک ہاکڑہ سو ہم ان شواہدات کی روشنی میں اخذ کر سکتے ہیں کہ تھل ریگستان میں آبادی کا یہ دور کم و بیش ۲۵۰۰،۲۴۰۰ بی سی تک برقرار رہا البتہ عروض یافتہ ہر پائی دور میں ۲۵۰۰ سے ۲۰۰۰ بی سی کے درمیان تھل میں آبادی کے شواہد ابھی تک نظر نہیں آئے ۔ بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ اس دور میں لوگوں نے ہجرت کر کے اور علاقوں میں جانا پسند کیا۔ متاخر ہر پائی دور میں جو مختلف متقین کی آراء میں کم و بیش ۱۸۰۰ بی سی سے شروع ہو کر ۱۳۰۰ اور ۱۵۰۰ بی سی کے درمیان تک رہا۔ تھل میں اس زمانے کی بھی چند آبادیاں نظر آتیں ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ کئی نسلوں کے بعد لوگوں نے پھر تھل کی طرف لوٹنا مناسب سمجھا اس دور کے بعد عہد تاریخ یا زمانہ تاریخ کا آغاز ہوازمانہ تاریخ کے حوالے سے تھل میں سامنے آنیوالی شواہد کی بھی کمی نہیں پہنچ مارک کوئن سے لے کر جو سکندراعظم سے پہلے یہاں رائج تھے سکھوں کے دور تک کے سکے تواتر سے یہاں ملتے ہیں ان میں قدیم یونی، انڈوگیس کشان، ہندو شایاں ، سلاطین دہلی اور اشوک اعظم، مغل بادشاہوں کے سکے بھی شامل ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تھل کے طول و عرض میں چپے چپے پر بکھرے ان اہم آثار کا ضرور جائزہ لیا جائے ساتھ ہی ساتھ ان ملنے والے انتہائی نادر گوہر ڈر نایاب و کم یاب، قدیم اشیاء جن میں مختلف سکے، نیم قیمتی پتھروں سے بنائے گئے موتی سیپ کی چوڑیاں، چھٹ پھر ملائم سنکھ کی چوڑیاں اور دیگر مٹی سے بنے ہوئے زیورات انسانی اور حیوانی مورتیاں مٹی کے بنے ہوئے منکے کھیلوں کی اشیا اور تانبے ولو ہے کے بنائے ہوئے اوزاروں کا بھی دقیق جائزہ لیا جائے اور تھل جو ۲۷۲ میل سے زائد شمالاً جنوبا اور ۱۸ سے ۹۰ میل زائد شرقا غربا پرمحیط ہے یہ قدیم چاہ ہتو والا کمشنری مقام موجودہ پڑھا سطح سمندر سے ۵۹۰ فٹ بلندی پر واقع ہے برٹش گورنمنٹ نے برصغیر میں ہر ریلوے اسٹیشن پرہی۔ لیول درج کیا ہوا ہے۔ لیہ کا عرض بلد ۷۱:۵۵ اور طویل بلد ۷۰:۵۰ پر واقع ہے۔
فن تاریخ نویسی سب سے پہلے یونان میں شروع ہوا اہل یورپ اپنا عصمی باپ بجھتے ہیں علمائے مغرب یونان کے عالم ہیروڈوٹس (Hero Dutus) کو پدر تاریخ کہتے ہیں کیونکہ انہوں نے مختلف ملکوں کی سیاحت کی تاریخ ایک ایسا ہمہ گیر اور وسیع مضمون ہے کہ اگر اس کو خزینہ علوم کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کیونکہ اس کی آغوش میں تمام علوم سموئے ہوئے ہیں دنیا میں اب تک ہونے تمام حوادث کا مجموعہ ہے حال ماضی کی پیداوار ہے ہماری موجودہ زندگی، رسم و رواج اور اداروں کی جڑیں ماضی میں ہیں ماضی کے حالات کی مدد سے ان کی غرض و غایت کو سمجھ کر اپنی زندگی کو شاندار بنایا جا سکتا ہے بہت قدیم زمانے کو زمانہ قبل از تاریخ کہا جاتا ہے کیونکہ اس زمانے کے ماخذ نہیں مل سکتے اور قیاسات پر تاریخ مرتب کر لی گئی ہے اس لیے تاریخ میں نیکی اور بدی دونوں پہلوؤں کو پیش کیا جاتا ہے روسو کے خیال میں تاریخ ماضی کی بچی اور حقیقی تصویریں نہیں پیش کرتی مؤرخ اپنے خیالات پیش کرتے ہیں بعض مفکر کہتے ہیں کہ تاریخ میں بچوں کے لیے بلا کی کشش ہے مارٹن لوتھر کہتا ہے کہ تاریخ ایک آئینہ ہے جس میں ہم کو اپنا چہرہ نظر آتاہے ماخذ گویا مورخ کے چراغ ہیں جن کو لے کر مورخ ماضی کے لق و دق اور تاریک صحرا میں گھوم رہا ہے جو اسے نظر آتا ہے اسے قلمبند کر دیتا ہے کتاب تاریخ کیسے پڑھا ئیں؟“ سے اوپر اقتباسات دیئے گئے ہیں۔
از خالد یار خاں کراچی ۱۹۶۱ء کتاب وادی سندھ اور تہذیب کے مصنف سر مورتعمیر وھیلر ترجمہ جناب زبیر رضوی بک ہوم لا ہور ۲۰۱۸ ء میں مرقوم ہے کہ ۱۹۲۱ء کے بعد سر جان مارشل اور ان کے ساتھیوں نے جو آثار دریافت کیے ان سے ہندوستان کی ماقبل تاریخ عہد کے تقریباً دو ہزار زریں سالوں کا اضافہ ہو گیا مقام آمری جو ۱۶۰ یکڑ رقبے میں ٹیلوں پر پھیلا سلسلہ ہے پہلے یہ ایک لمبا چوڑ اٹیلا تھا مگر اب نواحی دریائے سندھ کے سیلابوں کی وجہ سے جگہ جگہ سے کھل گیا ہے اور مختلف حصوں میں بٹ گیا اس مقام کی اہمیت کو ۱۹۲۹ء میں تسلیم کیا گیا او ۱۹۵۹/۶۲ء میں ہے ۔ ایم ۔ کیسل نے اس کی تفصیل کے ساتھ کھدائی کی۔
قدیم نسخہ سیر پنجاب کے صفحہ ۴۶۴ پر یہ حروف رقم ہیں کہ اس ضلع یہ (یعنی) لیہ پر ایک صدمہ سیلاب دریائے اٹک، انڈس ، یعنی دریائے سندھ کا اکثر ہوتارہتا ہے کہ موسم برسات میں یورش دریا میں تمام شہر میں سیلاب پھیل کر مکانات و دریا برد کر دیتا ہے چنانچہ ایک دفعہ ۱۸۵۴ء میں ایساہی صدمہ ہو اور اب ۱۸۵۶ء میں اس دریا کا ایسا ہوا کے دس دس کوس ہر دو طرف یہ در یا اپنے کناروں نے نکل گیا اور میں کوس تک ایک تختہ آب ہو گیا گاؤں کے گاؤں بہہ گئے لیہ خاص میں بہت عمارتیں مسمار ہوگئی دفتر ضع کا بذریعہ شتی بہت مشکل سے محفوظ رہا جہاں کوٹھیاں کچہری ہوتی تھیں ۔ وہاں کشتیاں پھرتی تھی ہر سال یہاں کے باشندوں کو یہ صدمہ عائد ہوتا ہے ۱۸۵۲ء میں صاحبانِ انگریز نے ایک بند یعنی پل مضبوط بندھوا دیا تھا۔ اب کے سال وہ بند بھی شکست ہو گیا ہے علاقہ بھی میں بھی ایک عجیب دستور ہے کہ جب تک عورت ۲۵ سے ۳۰ سال کی نہیں ہوتی اس کی شادی نہیں کی جاتی ( کبھی ) کھجور کے درخت اور نیشکر یعنی گنا کی بہتات ہے چنانچہ تحقیقات محقق اور جائزہ کتب تو رایخ سابق سے یہ امر ثابت ہوا ہے کہ نقل ریگستان کا پانی شیریں و ہاضم ہے اور تقسیم برصغیر سے پہلے لیہ کا پانی بذریعہ مال گاڑی ریلوے سے کمشنران مظفر گڑھ و ملتان کے لیے جاتا تھا یہ حالات قسمت لیہ بموجب منشی مولک رام سررشتہ دارم ماہ دسمبر ۱۸۵۵ء نے سیر پنجاب میں مرقوم فرماتے ہیں۔
کتاب ”سیر پنجاب کا حصہ اوّل مصنف اور مرتبہ رائے کالی صاحب متوفی ایکسٹرا اسسٹنٹ ضلع انبالہ متوطن سلطان پور ضلع سہارن پور مطبع منشی نول کشور واقع دار اسٹریٹ پٹیالہ سائیں سید محمود لی مہتم پٹیالہ اخبار کے اہتمام سے چھپا آخر ماہ جون ۱۸۷۴ء میں اس کتاب میں پرانی اردو میں لفظ لیہ کو (لیہا) اور لفظ قتل کو ( تہل ) صفہ نمبر ۲۲۱ سے لے کر ۲۳۴ تیک اس طرز انداز میں لکھا گیا ہے۔ فاضل مصنف محترم و مکرم و معظم جناب زبیر شفیع غوری صاحب ۵ ستمبر ۱۹۶۰ عیسوی بمطابق ۱۲ربیع الاول ۱۳۸۰ ہجری کو خوشاب میں پیدا ہوئے ۱۹۸۰ء میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے بی اے فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا جس پر ادارہ نے گولڈ میڈل سے نوازا آپ کی مزید کتابیں جو منصہ شہود پر آکے مقبول ہوئی ہیں ان میں پہلی کتاب ” اوچ شریف ، تاریخ، ثقافت، آثار قدامت و عظمت ۲۰۰۰ ء ، کتاب نمبر ۲ ۔ راوی کنارے کی ہر پائی بستیاں کتاب نمبر ۳ – مولتان دوران محاصرہ اور مابعد ، مترجم کتاب نمبر ۴ ۔ نیرنگ ایران (سفرنامه) ، کتاب نمبر ۵ – شعری مجموعہ سوچ سفینہ ،۶ ۔ سہ ماہی رسالے ٹرین ٹریول جس کے آب ایڈیٹر رہے اور اسی کتاب کے دو حصے جلد ہی منصہ شہود پر وار ود ہو نگے آپ نے زمانہ طالب علمی سے ہی ۱۹۷۸ء میں تھل ، نواں کوٹ ، خیرے والا کا تفصیلی وزٹ والد صاحب مرحوم و مغفور فقیر حکیم الہی بخش لیکھی سرائی زنگیز ہ بلوچ کے ومغفور ساتھ کیا آپ کے ہمراہ جناب پر نسپل ڈگری کالج لیہ جناب مہر اختر وہاب سمرا صاحب بھی تھے۔
تاریخ لیہ کے متعلق انتہائی اولین کام راقم آم کے والد گرامی نے سن ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۲ ہفت روزہ بشارت مظفر گڑھ سے کئی اقساط پر مبنی مضامین میں کیا اس موضوع پر آپ کی کتاب جلد ہی شائع ہو جائے گی صحرائے تھل میں آباد ۲۰ مختلف اقوام سلسلہ مہدوی تحریک اور میاں وال تحریک کے پیروکار ہیں جو کئی پشتوں سے ہمارے بزرگوں کے عقیدت مند ومرید چلے آرہے ہیں ہمارے پردادا میاں پلیہ فقیر لیکھی سلسلہ فقیران سرائی است ناظم ضلع گو ہر والا جن کا مزار مبارک ٹینڈن بھر ہم حیدر آباد تھل میں ہے اس کے اصول وضوابط پرسختی سے کار بند ہیں اس تحریک میں شاہی وفقیری علم و تلوار نے مل کر کٹھن روحانی سفر کر کے تو شیر مرا پایا ہے قسمت لیہ پر اب تک تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں پہلی تاریخ یہ جس کے مصنف ہیں جناب مہر نور محمد تھند صاحب مرحوم، دوسری کتاب لیہ تاریخ و ثقافت، جس کے مرتب کنندہ ڈاکٹر لیاقت علی نیازی صاحب ، سابق ڈائریکٹر لاہور میوزیم ، تیسری کتاب ہے نسائیکلو پیڈیا آف لیہ جس کے مصنف پرنس خدا بخش ناصر ہیں۔گورنمنٹ پوسٹ گر یجو یٹ کا نئی پالیہ
آخر پر یہی استدعا ہے کہ تل ریگستان اور لیہ کی تاریخ کو تحقیق و سائنسی بنایدوں پر قلمبند کیا جائے۔
اک مشغلہ ہے فکر نتائج سے بے نیاز
تعمیر آشیاں سے غرض آشیاں نہیں
نوٹ:یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے (تھل کالج میگزین) سے لیا گیا ہے۔