جمشید احمد خان دستی:مزدور رہنما
جمشید دستی 15 فروری 1978ء کو سلطان احمد خان دستی کے گھر پیدا ہوئے ۔ میٹرک کا امتحان گورنمنٹ کمپری مین سوسول مظفر گڑھ سے پاس کیا۔ جمشید دستی نے عملی زندگی کا آغاز بطور صحافی کیا ہفت روزہ شاہوانی کے ایڈیٹر ہے۔ اپنے قلم سے بڑے بڑے بدعنوان افراد کو بے نقاب کیا۔ سیاست میں دلچسپی لیتے تھے اس لئے 2000 ء کے بلدیاتی الیکشن میں نواب گروپ کی طرف سے ضلعی کونسلر منتخب ہوئے ۔ 2005ء کے بلدیاتی الیکشن میں مظفر گڑھ شہر کے محلہ خورشید آباد کے حلقہ سے یونین ناظم منتخب ہوئے اور مقامی سطح پر جتوئی گروپ کا حصہ بن گئے ۔ اسی دوران جتوئی گروپ کے سربراہ سردار عبد القیوم خان جتوئی ضلع ناظم منتخب ہوئے ۔ کیونکہ سردار عبد القیوم خان جتوئی کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا ۔ اس لئے اس وقت کی پنجاب حکومت نے سردار عبد القیوم خان جتوئی کے خلاف انتقامی کاروائیاں شروع کیں ۔ جمشید دستی ضلع ناظم سردار عبد القیوم خان جتوئی کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے۔ قید و بند کی صعوبتیں بھی ان کو اپنے رستے سے نہ ہٹا سکیں یہیں سے جمشید دستی کو قومی سیاست میں دبنگ انٹری کرنے کا موقع ملا ۔ 2008ء کے ہنگامہ خیز ایکشن میں سردار عبد القیوم خان جتوئی ( ضلع ناظم ) کی سفارش پر قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 178 سے پیپلز پارٹی کی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ اس عام انتخابات میں این اے 178 مظفر گڑھ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2008ء میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں اپنی
موجودگی کا بھر پور احساس دلایا ۔ عوامی انداز اختیار کرنے پر جلد ہی پورے ملک میں مقبول ہو گئے [115]۔ 2010ء میں انہوں نے جعلی ڈگری رکھنے کے الزام میں قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا حلقہ این اے 178 سے 2010 ء میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں دوبارہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ 2012ء میں انہوں نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی۔ اپریل 2013ء میں دستی کو 2008ء کے انتخابات کے دوران جعلی گریجویشن ڈگری پیش کرنے پر 3 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی ۔ عدالتی فیصلے کے بعد انھیں کمرہ عدالت کے باہر سے گرفتار کیا گیا۔ 10 اپریل 2013 ء کو لاہور ہائیکورٹ کے ملتان بینچ نے دستی کی اپیل پر سماعت کی اور ان کی سزا کو کالعدم قرار دیا لہذا ان کے لئے الیکشن لڑنے کی راہ ہموار ہوگئی۔ وہ 2013 ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے آزاد امیدوار کے طور پر دوبارہ منتخب ہوئے ۔ سنانواں کے قومی حلقے سے سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے والد ملک نور ربانی کھر اور مظفر گڑھ شہر والے حلقے سے انہوں نے مسلم لیگ ن کے سردارآباد ڈوگر اور پیپلز پارٹی کے نوابزادہ افتخار کو شکست سے دو چار کیا۔ بعد میں انہوں نے سنانواں کی قومی اسمبلی کی سیٹ چھوڑ دی تھی اور ضمنی انتخابات میں اپنے غیر سیاسی بھائی جاوید دستی کو میدان میں اتارا تھا اسکے بھائی ضمنی انتخابات میں یہ سیٹ ہار گئے تھے اور بہت سے قریبی سیاسی ساتھی ان سے ناراض ہو گئے ۔ حالیہ برسوں میں جمشید دستی مظفر گڑھ کا تعارف بن چکے ہیں اور مظفر گڑھ کے لوگ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ انہوں نے جمشید دستی جیسے عام آدمی اور مزدور رہنما کو منتخب کر کے اپنی نمائندگی کے لئے اسمبلی میں بھیجا ہے اور جمشید دستی بڑی حد تک عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آئے۔ انہوں نے وسیب کے عوام کے لئے ملتان مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں فری بس سروس شروع کی تھی ۔ جمشید دستی سرائیکی وسیب اور جنوبی پنجاب کے عوام کی توانا آواز ہیں۔ انہوں نے گزشتہ دس سالوں 2008ء سے 2018ء کے دوران اسمبلی کے فلور اور میڈیا پر دسیب کے مظلوم عوام کا مقدمہ بڑی جرات ، دلیری اور بے باکی سے لڑا ہے خاص طور پر اپوزیشن میں رہ کر انہوں نے حکمران جماعت کو کافی ٹف ٹائم دیا تھا یہی وجہ ہے کہ انھیں 2018ء میں پابند سلاسل ہونا پڑا، قید و بند کی صعوبتیں بھی جمشید دستی کو وسیب کے حقوق کی خاطر آواز بلند کرنے سے نہ روک سکیں ۔ انہوں نے ہر فورم پر وسیب کی ترقی کی خاطر آواز اٹھائی۔ وہ پورے پاکستان میں ہر جگہ مظلوموں اور مزدوروں کی حمایت کے لیےدھرنوں اور احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرتے رہے ہیں ۔ 2016ء میں انہوں نے اپنی الگ سیاسی جماعت عوامی راج پارٹی کی بنیاد رکھی مگر 2018ء کے انتخابات میں ان کی جماعت کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ حتی کہ جمشید احمد خان دستی خود بھی قومی اسمبلی کے کئی حلقوں سے الیکشن ہار گئے ۔
نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔