جدلی مادیت کے تناظر میں جو شعراء طبقاتی عوامل کا مطالعہ نہیں کرتے ، وہ اس طبقہ کا سیاسی فکری شعوری بیدار کرنے میں ناکام رہتے ہیں ، اور جو ادب تخلیق ہوتا ہے وہ بے مقصد ہونے کے ساتھ ساتھ ادب برائے تجارت کہلاتا ہے۔ یہ تاریخی المیہ ہے کہ ہمارے بیشتر سرائیکی شعراء کے افکار ونظریات روایتی حصار میں بند نظر آتے ہیں ۔ اس لئے علاقائی وڈیروں کے پنجہ استحصالی میں یہ طبقہ صدیوں سے جکڑا ہوا ہے۔ لمحہ موجود میں پروفیسر عمران میر کی صورت میں اُمید کی کرن پیدا ہوئی ہے کیونکہ موصوف صاحب علم اور صاحب مطالعہ ہی نہیں بلکہ منفرد لب و لہجے کے جدید غزل گوسرائیکی شاعر بھی ہیں، اور اُن تمام عوامل کا ادراک بھی رکھتے ہیں، جن سے انقلابی عمل ارتقائی مراحل سے گزرتا ہے ۔ ذکیہ ارشاد نے اپنے ایم ۔ اے کے تھیس بعنوان ”عمران میر کی شعری خدمات میں اُن کی ابتدائی زندگی کو میر تقی میر سے جوڑا ہے، لیکن میرے خیال میں ایسا نہیں ہے، کیونکہ پروفیسر موصوف کے والد کی وفات کے بعد اُن کی نیک اطوار، پاکیزہ کردار اور باہمت والدہ نے اُن کو نئے عزم سے جینے کا نہ صرف ہنر سکھایا ہے کہ غم حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی دیا۔ یہی وجہ ہے کہ موصوف نے حصول تعلیم کو نہ صرف مقصدِ حیات سمجھا بلکہ مرد آہن بن کر مسائل کو ہ کوٹھوکر مار کر جانب منزل بڑھتے بھی رہے۔ عمران میر نے میٹرک ، ایف۔اے اور بی ۔اے کرنے کے بعد ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر روبینہ ترین ، ڈاکٹر اسلم انصاری ، اجمل مہار محمد عارف اور نسیم اختر جیسے فاضل اساتذہ کے سایہ ہمایوں میں ریگولر ایم ۔ اے سرائیکی اور بعد میں ایم ۔ اے اُردو بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے کئے ۔ جن سے اُن کی تخلیقی تحقیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کو جلا بھی ملی۔ موصوف نے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے محنت مزدوری کو عبادت جانا ۔ آخر کار اُن کی محنت رنگ لائی اور وہ بطور سرائیکی لیکچرار گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ میں تعینات ہو گئے ۔ آج کل گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان میں اپنے انقلابی افکار و نظریات سے تشنگانِ علم و ادب کی پیاس بجھانے میں مصروف ہیں۔ عمران میر نے میر تقی میر کی طرح روایتی عشق کیا ، اور نہ رسوائے زمانہ ہوئے ہیں بلکہ انھوں نے اپنی خالہ زاد تسنیم بی بی کو شریک زندگی بنا کر جنت نظیر گھر آباد کیا ہے اور وہ اس وقت اپنے تین بیٹوں سچل میر، شاہ میر اور سرمد میر کے ساتھ شاداں و فرحاں ہیں۔ عمران میر بھی جوش مرحوم کی طرح ایک ذات کو محبوب سمجھنے کی بجائے ہلا امتیاز ہر انسان سے محبت کرتے ہیں۔ موصوف شگفتہ مزار، بذلہ سنج ہی نہیں بلکہ صورت سے حبیب جالب بھی لگتے ہیں، لیکن دونوں کی شاعری میں بہت فرق ہے ۔ جالب میں عوامی رنگ کے ساتھ جذبات کی شدت ہے اور عمران میر کی شاعری میں جدت ، ندرت اور تہذیبی شائستگی ہے ۔ موصوف العلم ، اور ارتباط جیسے رسائل کے مدیر بھی رہے ہیں ، جو اُن کی مدیرانہ صلاحیتوں کے آئینہ دار ہیں۔ اُنھوں نے مختلف اُردو، سرائیکی شعراء کی کتب کے دیباچے بھی تحریر کئے ہیں ۔ اُن کا کلام درج ذیل موقر جرائد اوراقِ ادب ، ادبیات، نیا قدم ، پہلوں ، سوجھل سوچ اور سلطان میں چھپتا رہا ہے۔ اُن کی کتاب ”کمت ( کمائی) تنقیدی بصیرت کی آئینہ دار ہے ۔ پس غبار بھی تذکرہ نگاری میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ موصوف نے دیانت داری سے معروف اور غیر معروف ادباء و شعراء کو شامل کر کے تاریخ کا حصہ بنا دیا ہے۔ عمران میر نے کم عمری میں اپنی تخلیقی تحقیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کا نہ صرف لوہا منوایا ہے بلکہ رضا ٹوانہ، مخدوم غفور ستاری ، خواجہ فرید، پٹھانے خاں ، ایوارڈ ز بھی حاصل کئے ہیں ۔ اس لئے ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر روبینہ ترین ، ڈاکٹر اسلم انصاری ، اجمل مہار ، محمد عارف ، ڈاکٹر مزمل ، ڈاکٹر ساجد امجد ، شیخ محمد اکرم ، پروفیسر نسیم اختر ، ڈاکٹر محبوب عالم اور افضل چوہان جیسے نامور اہل قلم نے موصوف کے علمی وادبی کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ہر دور میں بورژ دا طبقہ کے خلاف پرولتاریہ ہی رہے ہیں لیکن اُن کے جذبوں اور ولولوں کو اُبھارنے کے لئے انقلاب آفریں شاعری کی ضرورت بھی رہی ہے ۔ عمران میر نے خاکساری کی استدعا پر اپنی چھ سرائیکی غزلوں اور چھ مختصر نظموں کے علاوہ چند ہائیکو بھی عطا کی ہیں ۔ جن کے مطالعہ سے اُن کے فکر و فن کو سمجھنے میں مددملتی ہے ، موصوف ایک روشن فکر شاعر ہی نہیں بلکہ طبقاتی تضادات سے پیدا ہونے والے خوں چکاں حالات و واقعات سے باخبر بھی ہیں ، اُن کا سیاسی ، سماجی شعور ہی ہے کہ یہ شجر طبقاتی تاریخ کا آئینہ دار ہے۔ اس سچ سے کون انکار کر سکتا ہے کہ انسانی سماج کے معروضی حالات میں بھی معاشی قوانین کے زیر اثر رہے ہیں۔ دراصل غیر منصفانہ معاشی نظام ہی تمام معاشرتی برائیوں کی جڑ رہا ہے، جس کے ذمہ دار وقت کے جاگیر دار اور سرمایہ دار ہیں ۔ موجودہ منظرنامے میں عالمی استعماری قوتوں اور اُن کے ایجنٹوں نے طبقاتی لوٹ کھسوٹ سے نظام معیشت کو تباہ کر دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز معاشرتی جرائم کا گڑھ بن چکا ہے۔ شعر دیکھئے:
بھلے ہاسے محض بھلے بس
بُرے بھلے کیتے گئے ہیں
اس بھیا نک مادہ پرست دور میں انسان کو دولت کی ہوس نے ایسا اندھا کر دیا ہے کہ وہ ارفع اخلاقی اقدار کو بہیمانہ رویوں پر اتر آیا ہے۔ اس تناظر میں اچھے رویوں کی تمنا بھی کرتا ہے۔ عمران میر نے اس دوغلے پن پر یوں طنز کیا ہے۔ دو شعر دیکھئے:
پھل خوشبو دیاں آساں رکھدن
ظالم لوگ رہا کے پتھر
کینجھیں آنت اسے کینجھاں دورائے
ہر کوئی لڑدے چا کے پتھر
اس تناظر میں بھی عمران میر نا اُمید ہونے کی بجائے پُر اُمید ہو کر ایسے معاشرے کی تمنا کرتے ہیں، جس میں طبقاتی دیوار حائل نہ ہو، مساواتی نظام حیات ہو ، تا کہ کوئی کسی کا استحصال نہ کر سکے ، قدرتی وسائل اور ذرائع پیداوار پر سب کا حق برابر ہو، ہر انسان تمام بنیادی سہولتوں سے مالا مال اور امن و محبت کی فضا ہو ۔ شاعر کی یہ مختصر نظم دیکھئے جو اُس کے بے ساختہ احساسات کی آئینہ دار ہے۔
ہک گوٹھ
یک گوٹھ تاں آکھاں ہووے
جتھ کالی کریہہ نہ ہووے
جتھ ہووے ٹو بھے پانی
جتھ کوئی تس تریہہ نہ ہووے
جتھ شینہ نہ بکریاں کھاون
لہو پیوٹا دیہہ نہ ہووے
عمران میر کی عالمی ، علاقائی ، سیاسی ، سماجی اور مذہبی صورت حال پر کڑی نظر ہے ، وہ پرولتاریہ طبقہ کے ہم نوا ہی نہیں بلکہ غربت و افلاس کے سرطان کے کرب سے خود بھی گزرے ہیں۔ اس لئے وہ اپنی انقلاب آفریں شاعری کے ذریعے دنیا کے مزدور و ایک ہو جاؤ کو عملی جامہ پہنانے کی جدوجہد کر کے نظر آتے ہیں۔ ایک بیدار مغز اور دیدہ ور تخلیق کار سے یہی توقع کی جاسکتی ہے۔
یہ مضمون جسارت خیالی کی کتاب ” تحقیقی ننقیدی اور شعری خدمات "سے لیا گیا ہے