شعیب بخاری (غزل)

شب _ حیات فروزاں ہے اشک پاروں سے

شعیب بخاری

شب _ حیات فروزاں ہے اشک پاروں سے
بھرا ہوا ہے مرا آسماں ستاروں سے

بلندیوں سے گرا تو مجھے روانی ملی
میں موج موج اٹھا گر کر آبشاروں سے

سروں میں خاک ہمارے، لبوں پہ تشنہ لبی
کریں بھی کیا کہ مراسم ہیں ریگزاروں سے

ہم آپ بھی تو اڑاتے ہیں اپنے غم کا مذاق
الگ تو ہم بھی نہیں ہوتے اپنے یاروں سے

بھرا ہوا ہے لبالب خلا سے میرا وجود
اداسی پھوٹ رہی ہے مرے کناروں سے

دلاسا دے کہ نہ دے ایسے باز پرس نہ کر
سوال کرنا نہیں بنتا اشکباروں سے

انھیں بلندی سے گرتا میں دیکھ سکتا نہیں
میں دور دور ہی رہتا ہوں آبشاروں سے

ہمیں بھی ٹھوکریں کھا کر ہی یہ سمجھ آیا
ہٹانا ہوتے ہیں پتھر بھی رہگزاروں سے

فنا نے باندھا ہے کیا سوچ کر نجانے ہمیں
رگوں میں بہتے ہوئے زندگی کے دھاروں سے

بدن کو شل ہی تو کرتا ہے لمس_ سرد شعیب
گزر کے دیکھا ہے کتنے ہی برف زاروں سے

تجارتوں سے الگ ہے یہ کاروبار شعیب
محبتیں مرا کرتی نہیں خساروں سے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com