مجھے مل گیا مرا راستہ میں بھٹک گیا
ترا شکریہ مرے واعظا ، میں بھٹک گیا
وہ جو عمر تھی وہ خدا کو ڈھونڈتے کٹ گئی
میں کبھی جو خود کو نہ پا سکا میں بھٹک گیا
کہیں اور لے کے چلی گئی مجھے زندگی
میں چلا تو تیری ہی سمت تھا میں بھٹک گیا
ترا ہاتھ تھام کے کاٹنا تھا سفر مجھے
تو بھی راستے میں بچھڑ گیا میں بھٹک گیا
مری راہ دیکھتے رہ گئے مرے منتظر
میں سفر کا ہو کے ہی رہ گیا میں بھٹک گیا
تو مرا ستارہ شناس ہے مرے اجنبی
مجھے راستہ تو کوئی دکھا میں بھٹک گیا
مری ہجرتوں کی گواہ ہے تو مری تھکن
مجھے میرے گھر کا پتہ بتا میں بھٹک گیا
مری بے گھری بھی ترے بھروسے پہ رہ گئی
تری خیر ہو مرے ناخدا میں بھٹک گیا
وہ جو پارسا تھے وہ منزلوں پہ پہنچ گئے
میں جو راہ گیر تھا عشق کا میں بھٹک گیا
سر دشت تجھ کو تو ہمنوائی نصیب تھی
میں تھا قافلے سے کٹا ہوا میں بھٹک گیا
مجھے بے سبب نہ دکھا پلٹنے کے راستے
تجھے کہہ چکا ہوں میں دوستا میں بھٹک گیا
مجھے حادثات نے آ لیا سر _ راہ _دل
یہ ہوا تو مجھ پہ کہیں کھلا میں بھٹک گیا
پئے شکوہ کوئی نظر اٹھی مرے سامنے
اسے بس میں اتنا ہی کہہ سکا میں بھٹک گیا
یہ صدا تو بس مری خامشی سے امڈ پڑی
یہ غزل نہیں مرے ناقدا میں بھٹک گیا