شعیب بخاری (غزل)

تیرگی سے تھا بیزار آیا ہوا اس لیے روشنی کی طرف چل دیا

شعیب بخاری

تیرگی سے تھا بیزار آیا ہوا اس لیے روشنی کی طرف چل دیا
ذات کے تنگ و تاریک زندان سے میں نکل کر کسی کی طرف چل دیا

دشت تنہائی میں خاک اڑاتا ہوا رائگانی کی جانب میں جاتا ہوا
اک پری زاد سے دو گھڑی کو ملا اور پھر زندگی کی طرف چل دیا

نطق محدود کی حد میں رہتے ہوئے میرے نوحوں کا ابلاغ ممکن نہ تھا
سو میں سینے میں غم کا سمندر لیے بے کراں خامشی کی طرف چل دیا

جوق در جوق اوہام کے قافلے سوئے شہر عقیدت روانہ ہوئے
ایک وجدان تھا جو بھٹکتا ہوا بے سبب آگہی کی طرف چل دیا

میرے اعصاب شل ہو رہے تھے مگر میں نے رکھنا تھا آوارگی کا بھرم
جب کسی راستے نے پکارا مجھے، میں لپک کر اسی کی طرف چل دیا

اس کے دامن میں خالی چکا چوند ہے ، کوئی جگنو نہیں ، کوئی تارا نہیں
مجھ پہ جب اس چمک کی حقیقت کھلی لوٹ کر تیرگی کی طرف چل دیا

رنجشیں تھیں کہ سر پیٹتی رہ گئیں، سازشوں کو ہزیمت اٹھانا پڑی
تجھ سے ترک مراسم کو جاتا ہوا جب میں تیری گلی کی طرف چل دیا

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com