مرا گھروندا ہوا میں بکھر گیا ہوتا
اگر میں وقت کی آندھی سے ڈر گیا ہوتا
وہ لہر آئی اور آ کر گزر گئی پل میں
مجھے یقیں تھا میں اس میں اتر گیا ہوتا
خود اپنے ہاتھوں سے اس کو سپرد خاک کیا
وہ پھول شاخ پہ رہتے بکھر گیا ہوتا
پڑا ہوا ہوں ترے غم کے آستانے پر
اگر یہاں بھی نہ آتا کدھر گیا ہوتا
تری جھجک کو مقدم رکھا، گریز کیا
قریب آتا تو حد سے گزر گیا ہوتا
یہ آبلے بھی غنیمت ہیں، مل گئے ورنہ
ہمارا سارا سفر بے ثمر گیا ہوتا
وہ بوسہ میری جبیں کے لیے بنا ہی نہ تھا
وگرنہ روح تک اس کا اثر گیا ہوتا
میں اس صدا کے تعاقب میں اس لیے نہ گیا
کہ پھر میں لوٹ نہ پاتا اگر گیا ہوتا
ضرور رکھتا کوئی واپسی کا رستہ شعیب
میں سمت عشق اگر سوچ کر گیا ہوتا